- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/25
- 0 رائ
سورة حمد
سورہ حمد: مکی سورت ہے اور اس کی سات آیات ہیں
یہ سورت قرآن مجید کی دیگر سورتوں کی نسبت بہت سی خصوصیات یک حامل ہے۔ ان امتیازات کا سر چشمہ مندرجہ ذیل خوبیان ہیں:
۱۔ لب و لہجہ اور اسلوب بیان: یہ سورت دیگر سورتوں سے اس لحاظ سے واضح امتیاز رکھتی ہے کہ وہ خدا کی گفتگو کے عنوان کی حامل ہیں اور یہ بندوں کی زبان کے طورپر نازل ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس میں خداوندعالم نے بندوں کو خداسے گفتگو اور مناجات کا طریقہ سکھایا ہے۔
سورة کی ابتداء خداوندعالم کی حمد وثنا سے گی گئی ہے۔ خدا شناسی اور قیامت پر ایمان کے اظہار کے ساتھ ساتھ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بندوں کے تقاضوں، حاجات اور ضروریات پر کلام کو ختم کیا گیا ہے۔
بیدار مغز اور ذی فہم انسان جب اس سورہ کو پڑھتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ فرشتوں کے پروں پر سوار ہو کر عالم بالا کی طرف محو پرواز ہے اور عالم روحانیت و معنویت میں لمحہ بہ لمحہ خدا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہوتا جارہا ہے۔
یہ نکتہ بڑا جاذب نظر ہے کہ خود ساختہ یاتحریف شدہ مذاہب جو خالق و مخلوق کے درمیان معاملہ میں واسطہ کے قائل ہیں ان کے برخلاف اسلام انسانوں کو یہ دستور دیتا ہے کہ وہ کسی بھئی واسطہ کے بغیر خدا سے اپنا رابطہ برقرار رکھیں۔
خدا و انسان اور خالق و مخلوق کے درمیان اس نزدیکی اور بے واسطہ تعلق کے سلسلے میں یہ سورہ آئینہ کا کام دیتی ہے۔ یہاں انسان صرف خدا کو دیکھتا ہے۔ اسی سے گفتگو کرتا ہے اور فقط اس کا پیغام اپنے کانوں سے سنتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی مرسل یا ملک مقرب بھی درمیان میں واسطہ نہیں بنتا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی پیوند و ربط جو براہ راست خالق و مخلوق کے درمیان ہے۔ قرآن مجید کا آغاز ہے۔
۲۔ اسا س قرآن : نبی اکرم (ص) کے ارشاد کے مطابق سورہ حمد ام الکتاب ہے۔ ایک مرتبہ جابر بن عبداللہ انصاری آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ(ص) نے فرمایا: الا اعلمک افضل سورة انزلھا اللہ فی کتابہ قال فقال لہ جابر بلی بابی انت و امی یا رسول اللہ علمنیھا فعلمہ الحمد ام الکتاب۔
کیا تمہیں سب سے فضیلت والی سورت کی تعلیم دوں جو خدا نے اپنی کتاب میںنازل فرمائی ہے؟ جابر نے عرض کیا جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھےاس کی تعلیم دیجئے۔ آنحضرت نے سورہ حمد جو ام الکتاب ہے انہیں تعلیم فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سورہ حمد موت کے علاوہ ہر بیماری کے لئے شفاء ہے [1]
آپ کا یہ بھی ارشاد ہے: والذی نفسی بیدہ ما انزل اللہ فی التوراة ولا فی الزبور و لا فی القرآن مثلہا ھی ام الکتاب۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے خدا وند عالم نے تورات، انجیل، زبور یہاں تک کہ قرآن میں بھی اسی کوئی سورة نازل نیہں فرمائی اور یہ ام الکتاب ہے [2]
اس سورت میں غور و فکر کرنے سے اس کی وجہ معلوم ہوتی ہے ۔ حقیقت میں یہ سورہ پورے قرآن کے مضامین کی فہرست ہے۔ اس کا ایک حصہ توحید اور صفات خدا وندی سے متعلق ہے دوسر ا حصہ قیامت و معاد سے گفتگو کرتا ہے اور تیسرا حصہ ہدایت و گمراہی کو بیان کرتا ہے جو مومنین و کفار میں حد فاصل ہے۔
اس سورہ میں پروردگار عالم کی حاکمیت مطلقہ او رمقام ربوبیت کا بیان ہے نیز اس کی لامتناہی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن کے دو حصے ہیں ایک عمومی اور دوسرا خصوصی (رحمانیت اور رحیمیت) اس میں عبادت و بندگی کی طرف بھی اشارہ ہے جو اسی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سورہ میں توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید عبادت سب کو بیان کیاگیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ سورت ایمان کے تینوں مراحل کا احاطہ کرتی ہے :
۱ ۔ دل سے اعتقاد رکھنا۔
۲ ۔ زبان سے اقرار کرنا۔
۳ ۔ اعضاء و جوارح سے عمل کرنا۔
ہم جانتے ہیں کہ ام کا مطلب ہے بنیاد اور جڑ۔ شاید اسی بناء پر عالم اسلام کے مشہور مفسرابن عباس کہتے ہیں :
ان لکل شیء اساسا و اساس القرآن الفاتحہ۔
ہر چیز کی کوئی اساس و بنیاد ہوتی ہے اور قرآن کی اساس سورہ فاتحہ ہے۔
انہی وجود کی بنا پر اس سورہ کی فضیلت کے سلسلے میں رسول اللہ سے منقول ہے: ایما مسلم قرء فاتحة الکتاب اعطی من الاجر کانما قرء ثلثی القرآن و اعطی من الاجر کانما تصدق علی کل مومن و مومنة۔جو مسلمان سورہ حمد پڑھے اس کا اجر و ثواب اس شخص کے برابر ہے جس نے دو تہائی قرآن کی تلاوت کی ہو (ایک اور حدیث میں پورے قرآن کی تلاوت کے برابر ثواب مذکور ہے) اور اسے اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے ہر مومن اور مومنہ کو ہدیہ پیش کیا ہو۔[3]
سورہ فاتحہ کے ثواب کو دو تہائی قرآن کے تلاوت کے برابر قرار دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ قرآن کے ایک حصے کا تعلق خدا سے ہے، دوسرے کاقیامت سے اور تیسرے کا احکام و قوانین شرعی سے ان میں سے پہلا اور دوسرا حصہ سورہ حمد میں مذکور ہے ۔ دوسری حدیث میں پورے قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا خلاصہ ایمان اور عمل ہے اور یہ دونوں چیزیں سورہ حمد میں جمع ہیں۔
۳ ۔ پیغمبر اکرم(ص) کے لئے اعزاز: یہ بات قابل غور ہے کہ قرآنی آیات میں سورہ حمد کا تعارف آنحضرت(ص) کے لئے ایک عظیم انعام کے طور پر کرایا گیا ہے اور اسے پورے قرآن کے مقابلے میں پیش فرمایا گیا ہے جیسے کہ ارشاد الہی ہے: ولقد اتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم۔
ہم نے آپ کو سات ایتوں پر مشتمل سورہ حمد عطا کیا جودو مرتبہ نازل کیا گیا اور قرآن عظیم بھی عنایت فرمایا گیا (حجر آیہ ۸۷) ۔
قرآن مجید اپنی تمام تر عظمت کے باوجود یہاں سورہ حمد کے برابر قرار پایا۔ اس سورہ کا دو مرتبہ نزول بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت کی بناء پر ہے۔ [4]
اسی مضمون کی ایک روایت رسول اللہ سے حضرت امیرالمومنین(ع) نے بیان فرمائی ہے: ان اللہ تعالی افرد الامتنان علی بفاتحة الکتاب و جعلھا بازاء القرآن العظیم و ان فاتحة الکتاب اشرف ما فی کنوز العرش۔
خدا وند عالم نے مجھے سورہ حمد دے کر خصوصی احسان جتایا ہے اور اسے قرآن کے مقابل قرار دیا ہے عرض کے خزانوں میں سے اشرف ترین سورہ حمد ہے۔
۴ ۔ تلاوت کی تاکید : سورہ حمد کی فضیلتوں کے بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ احادیث اسلامی میں جو شیعہ و سنی کتب میں موجود ہیں۔ اس کی تلاوت کے متعلق اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے۔اس کی تلاوت انسان کو روح ایمان بخشتی ہے اور اسے خدا کے نزدیک کرتی ہے۔ اس سے دل کو جلا ملتی ہے اور روحاینت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسانی ارادے کو کامیابی میسر آتی ہے۔ اس سورہ کی تلاوت سے خالق و مخلوق کے ما بین انسانی جستجو فزوں تر ہوتی ہے۔ نیز انسان اور گناہ و انحراف کے درمیان رکاوٹ بنتی ہے۔ اسی بناء پر حضرت صادق (ع) نے ارشاد فرمایا ہے: ان الابلیس اربع رفات اولھن یوم لعن وحین اھبط الی الارض و حین بعث محمد علی حین فترہ من الرسل و حین انزلت ام الکتاب۔
شیطان نے چار دفعہ نالہ و فریاد کیا۔ پہلا وہ موقع تھا جب اسے راندئہ درگاہ کیا گیا۔ دوسرا وہ وقت تھا جب اسے بہشت سے زمین کی طرف اتارا گیا۔ تیسرا وہ لمحہ تھا جب حضرت محمد(ص) کو مبعوث برسالت کیا گیا اور آخری وہ مقام تھا جب سورہ حمد کو نازل کیا گی[5]
……………………
حواله جات
[1] مجمع البیان، نورالثقلین آغاز سورہ حمد
[2] مجمع البیان، نورالثقلین آغاز سورہ حمد۔
[3] مجمع البیان، آغاز سورہ حمد
[4] سبعا من المثانی، قرار دینے کی وجہ اور سورہ حمد کی کچھ مزید خوبیاں اسی تفسیر(نمونہ) میں سورہ حجر کی آیت ۸۷ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔
[5] نور الثقلین جلد اول ص ۴ ۔