- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/05/06
- 0 رائ
محمد بن علی شلمغانی، امام زمانہ ؑ کے تیسرے نائب حسین بن روح نو بختی کے وکیل تھے یہ اس زمانے کے بزرگ عالم اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے لیکن بعد میں منحرف ہو گئے اور امام زمانہؑ کے جھوٹے نائب خاص ہونے کا دعویٰ کیا جس کے بعد امام زمانہؑ کی طرف سے ان کی رد میں توقیع صادر ہوئی جس میں شلمغانی اور ان کے پیروکاروں پر لعنت کی گئی۔
ابو جعفر شلمغانی کا تعارف
“شلمغانی” ان کانام محمد بن علی، کنیت ابو جعفر ہے یہ “ابن ابی العزاقر” کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ ان کی ولادت اور ابتدائی زندگی کے حوالے سے تاریخ میں نہیں ملتا ہے البتہ مورخین نے ان کو تیسری صدی ہجری کے آخر اور چوتھی صدی ہجری قمری کے شروع کا بتایا ہے ان کے نام سے ایک فرقہ منسوب ہے جسے “شلمغانیہ” یا “عزاقریہ” کہتے ہیں اس لئے کہ یہ شلمغان میں “واسط” کے قریب ایک دیہات ہے وہاں کے رہنے والے ہیں جو بصرہ اور بغداد کے درمیان میں پڑتا ہے۔[1]
اوران کی شہرت خود اسی شہر شلمغان کی وجہ سے ہوئی ہے یہ ابتدا میں شیعہ اثنا عشری مذہب، امام حسن عسکری ؑ اور امام زمانہ ؑ کے پیروکار تھے اور لوگ اپنے مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے ان کا شمار مکتب امامیہ کے ارکان، بغداد کے کاتبین اور علمائے شیعہ کے مؤلفین میں ہوتا تھا یہ امام زمانہؑ کے تیسرے نائب حسین بن روح نوبختی کے نائب اور معتمد افراد میں سے تھے لیکن بعد میں ان کی فکر غالی افکار کی طرف مائل ہوئی اور حسین بن روح نے ان سے اظہار برائت اور ان کو امامؑ کی طرف سے مورد لعن قرار دیا۔[2]
شلمغانیہ فرقہ شلمغانی کے انتقال کے بعد تقریبا ختم ہو گیا 341 ہجری میں ایک شخص “بصری” نام کا اس فرقے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس میں ناکام رہتا ہے۔
شلمغانی نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ عقائد، تفسیر، حدیث، فقہ، کیمیا و صنعت جس سے اس کے صاحب علم و صاحب قلم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابوں کا مختصرا یہاں ذکر کر رہیں ہیں۔
شلمغانی کی تالیفات
کتاب التکلیف (فقه الرضا)، الزهار و التوحید، رساله الی ابن همام، کتاب الغیبة للحجة، الزاهر بالحجج العقلیه، فضائل العمرتین، ماهیة العصمیین، فضل النطق علی الصمت، البدء و المشیة، کتاب المباهله، المعارف، الانوار، الامامه الکبیر، الامامه الصغیر، الاوصیاء، الایضاح، کتاب التسلیم، نظم قرآن و غیره۔[3]
حسین بن روح بغداد کے شیعوں کے درمیان مشہور اور ایک جانی پہچانی ہوئی شخصیت تھے وہ 305 ہجری سے 326 ہجری تک امام زمانہ ؑ کے تیسرے نائب اور امام ؑاور شیعوں کے درمیان واسطہ قرار پاتے ہیں۔
حسین بن روح حامد ابن عباس کے وزیر تھے اور کچھ سیاسی شرائط کے تحت مخفی اور پوشیدہ طریقے سے زندگی گزار رہے تھے تو اس زمانے میں حسین بن روح اورشیعوں کے درمیان محمد بن علی شلمغانی (جو کہ حسین بن روح کے بھروسے مند آدمی تھے) واسطہ تھے اور یہ امام زمانہ ؑ کی توقیعات کو حسین بن روح سے حاصل کرتے اور اس کو شیعوں تک پہنچاتے تھے اور لوگ بھی اپنی مذہبی اور اجتماعی ضرورتوں کو دور کرنے کے لیے ان سے ڈائریکٹ مراجعہ کرتے تھے۔
شلمغانی نے اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض شیعوں کو اپنی طرف کر لیا البتہ ابتدا میں اس کا ارادہ صرف جاہ و مقام کو حاصل کرنا تھا لیکن بعد میں شیطان اس پر حاوی ہوتا گیا اور اس نے نبوت اور الوہیت کا بھی دعوی کر دیا اس نے اپنے عقائد کی توجیہ کے لیے کچھ افراد کو اپنے ساتھ کر لیا اور بعض پیروان بھی بنا لیے جملہ اس کے پیروان میں خاندان بنی بسطام تھے۔
شلمغانی کے انحرافی افکار و عقائد
فرقہ”عزاقریہ” کو ایک غالی فرقہ مورخین نے شمار کیا ہے اس لیے کہ یہ فرقہ امام ؑ کے سلسلے میں غلو کرتا ہے اور بعض مورخین کے مطابق امام علی ؑ کو اللہ سمجھتا ہے اور حلول اور تناسخ کا بھی عقیدہ رکھتا ہے تمام اعتقادات میں سے ان لوگوں کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ خداوند عالم انسان کی شکل میں حلول کرتا ہے اور سب سے پہلے اس نے حضرت آدمؑ کے بدن میں حلول کیا ہے۔
اس کے بعد تمام انبیاء کے ابدان میں اس نے حلول کیا جیسے؛ حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت صالح، حضرت ابراہیمؑ، خداوند متعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ائمہ اطہار کے بدن میں مجسم ہوا یہاں تک کہ امام زمانہ ؑ کے بدن میں اس کے بعد خود شلمغانی کے جسم میں حلول کیا اور وہ “اله الآلهه”ہے۔
شلمغانی کے پیروکار حضرت علی علیہ السلام کو خدا کہتے تھے لیکن امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی نسبت ان کی طرف نہیں دیتے تھے اس لیے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ جس کے اندر بھی ربوبیت اور خداوندی آشکار ہو اس کے لیے کوئی فرزند نہیں ہوتا ۔[4]
شلمغانی کے انحرافی افکار و عقائد اور حسین بن روح کی تبیعت سے نکلنا یہ سبب بنا کے حسین ابن رو ح شیعوں کے لیے شلمغانی کی حقیقت کو واضح کریں اور لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ شلمغانی مکتب امامیہ سےمنحرف ہو چکا ہے لہذا لوگ ان سے اجتناب کریں اور ان سے دور رہیں شلمغانی نے حسین ابن روح کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو امام زمانہؑ کا حقیقی نمائندہ ہونے کا اعلان کیا اور یہ بیان کیا کہ حسین ابن روح امامؑ اور شیعوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے اور خود کو امامؑ کا “باب “(دروازہ)کا نام بھی دیا ۔
شلمغانی کا یہ دعوی کہ خدا کی روح نبیوں اور اماموں کے اجسام میں حلول کر چکی ہے اور اس کی اس فکر سے کوشش یہ تھی کہ وہ سیاسی اور اجتماعی موقعیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مدت کے بعد وہ یہ کہہ سکے کہ خداوند عالم کی روح خود اس کے جسم میں حلول کر چکی ہے اور ایسا ہی ہوا کچھ مدت کے بعد اس نے یہ اعلان کیا کہ خداوند عالم کی روح اس کے اندر حلول کر چکی ہے اور وہ خود کو ” رب الارباب” اور “روح القدس” کہلواتا تھا۔[5]
شلمغانی کا یہ عقیدہ تھا کہ روح پیمبر امام زمانہ کے دوسرے نائب ابو جعفر عثمان عمری میں حلول کر گئی ہے روح علی ابن ابی طالب امام کے تیسرے نائب حسین بن روح اور حضرت فاطمہ زہرا ؐکی روح دوسرے نائب کی بیٹی ام کلثوم کے بدن میں حلول کر گئی ہے اور وہ یہ چاہتا تھا کہ اس کے وکیل یا اس کے پیروان اس راز کو فاش نہ کریں تاکہ کوئی اس سے باخبر نہ ہو۔[6]
شلمغانی نے اپنے دینی احکام کے سلسلے میں ایک کتاب “حاست السادسہ” (چھٹی حس)کے نام سے لکھی کہ جو درحقیقت شریعت حقہ کی رد میں لکھی گئی تھی کہ جس میں نماز، روزہ، غسل کو ترک کرنے کا حکم تھا اور لواط، ہم جنس بازی وغیرہ کے مباح ہونے کا حکم تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جب پیغمبر اسلام مبعوث ہوئے ہیں۔
تو کچھ ایسے لوگ تھے جو سرکش تھے لہذا حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ احکام شریعت ان سرکش لوگوں کو مطیع بنانے کے لیے بھیجا جائے۔
اور دور حاضر میں یعنی شلمغانی کے زمانے میں یہ تقاضا ختم ہو گیا ہے فرامین الہی کہ جو پیغمبر کے وسیلے سے بیان ہوا ہے ان احکام کی ضرورت اب نہیں ہے اس انکار کی علت یہ تھی کہ وہ فرقہ اس بات کا معتقد تھا کہ شلمغانی خدا ہے اور اب ضرورت ہے کہ شلمغانی کے بتائے ہوئے احکام کو معاشرے میں اجرا کیا جائے اور یہ تب تک ممکن نہیں تھا جب تک اصل شریعت کا انکار نہ کیا جائے۔[7]
یہ انحرافی افکار جب شیعوں کے درمیان مشہور ہوئے اور شلمغانی اس بات پہ مجبور ہو گیا کہ وہ اپنے ان عقائد کا دفاع کرے تو اس نے حسین بن روح کو مباہلے کی دعوت دی کتب راوندی اپنی کتاب “الخرائج و الجرائح” میں لکھتے ہیں ابو علی ابن حمام سے روایت ہے کہ محمد بن علی شلمغانی نے حسین بن روح کو ایک خط لکھا اور ان کو مباہلے کی دعوت دی اور یہ دعوی کیا کہ میں حضرت حجت ؑکا سفیر اور ان کا حقیقی نائب ہوں۔
حسین بن روح نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہم دونوں میں سے جو بھی جلدی مر جائے گا وہ مغلوب اور شکست خوردہ ہوگا اور کچھ ماہ کے بعد شلمغانی مر گیا اور اس کو دار پہ لٹکا دیا گیا اس طریقے سے شلمغانی کا کذب لوگوں کے لیے واضح ہو گیا۔[8]
ان عقائد سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس فرقے کے مبلغین ایسے افراد تھے کہ جو دین حقیقی کو سب سے بڑی رکاوٹ اپنے انحرافی عقائد کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے سمجھتے تھے لہذا انہوں نے سوچا کس طریقے سے ہم اس شریعت حقیقی کے قید و بند سے آزاد ہو سکتے ہیں لہذا انہوں نے غلات اور انحرافی فکروں کو اپنے سے متمسک کر لیا اور ایک نیا دین اور ایک نئے آئین کو بنانے میں لگ گئے اور یہی تمام عقائد سبب بنے کہ حسین بن روح جیسی شخصیت کو موقع مل گیا کہ شلمغانی کے انحرافی افکار سے لوگوں کو آشنا کروائیں اور یہ مسئلہ یہاں تک پہنچا کہ امام زمانہ ؑ نے اپنی توقیع میں شلمغانی کے لیے لعنت بھیجی۔
شلمغانی پر امام زمانہؑ کی لعنت
امام زمانہؑ نے حسین بن روح کو ایک توقیع میں لکھا: خداوند عالم تمہاری عمر کو طولانی کرے اور چیزوں کا عرفان اور فہم تمہیں عنایت کرے اعلان کر دو جس پہ تم اعتماد اور اطمینان رکھتے تھے محمد بن علی جو شلمغانی کے نام سے مشہور ہے وہ دین اسلام سے خارج ہے اور مرتد اور ملحد ہو چکا ہے اس نے ایسی چیزوں کا ابداع کیا ہے کہ جو خداوند عالم کی نسبت کفر ہے اور خدا پر جھوٹ اور بہتان ہے اور گناہ کبیرہ ہے وہ لوگ کہ جو خدا سے پلٹ گئے جھوٹے ہیں۔
اور بڑی گمراہی میں ہیں خداوند عالم کی رحمت سے وہ دور ہیں اور ایک بڑے گھاٹے میں ہیں میں شلمغانی سے خداوند عالم رسول اللہ اور اہل البیت کے محضر میں اظہار برائت کرتا ہوں اور اس کے اوپر لعنت بھیجتا ہوں اور خداوند عالم کی لعنت اس کے اوپر ہمیشہ ہر جگہ ہر وقت اور ان کے پیروکار اور موافقین کے اوپر رہے گی اور وہ لوگ کہ جو اس پیغام کو اور اس توقیع کو سننے کے بعد بھی اظہار برائت نہیں کرتے ہیں وہ بھی اس لعنت کے زمرے میں شامل ہیں ان تک یہ خبر پہنچا دو کہ ہم ان سے دور ہیں۔
اور ان کے جیسے افراد شریعی، نمیری، ہلالی اور بلالی اور دوسرے ایسے لوگ جو ایسے انحرافی عقائد رکھتے ہیں ہم ان سے دوری اختیار کرتے ہیں ہم خداوند عالم کی سنتوں پر راضی ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں اسی سے مدد چاہتے ہیں اس لیے کہ وہی ہمارے تمام امور کے لیے کافی اور وہ ایک بہترین نگہبان ہے۔[9]
امام زمانہ ؑ کے اس توقیع میں صراحت کے ساتھ شلمغانی کو دین اسلام سے خارج ان کے گناہ اور ان کے ملحدانہ اعتقادات کی تائید ملتی ہے اس لیے کہ ان کے احکام اور انحرافی افکار کافی ہیں کہ ان کو مذہب شیعہ اور دین اسلام سے مرتد سمجھا جائے اور اس کے علاوہ امام ؑ نے ان چار فرقوں (شریعی، نمیری، ہلالی، بلالی) کو بھی غلات میں شمار کیا ہے اور ان کے لیے لعنت بھیجی ہے کہ جو اسی عقائد کے حامی تھے اور ان میں ہر ایک اپنے آپ کو امام زمانہ کا نائب کہتا تھا اور خود کو امام اور شیعوں کے درمیان واسطہ سمجھتا تھا۔
نتیجہ
امام زمانہؑ کی غیبت اور دوسرے عوامل سبب بنے کہ معاشرے میں انحرافی عقائد وجود میں آئے اور امامؑ نے ان انحرافی عقائد کو وجود میں لانے والوں کے لئے لعنت بھیجی اور ان سے اظہار برائت کیا اور وہ لوگ جو ان جیسے افراد کی بغیر سوچے سمجھے اندھی تقلید کر کے باطل افکار کی اتباع کرنے لگتے ہیں ان سے بھی اظہار بیزاری کی دوسری طرف امامؑ نے ایسے لوگ جو جان بوجھ کر معاشرے کے لوگوں کو منحرف کرتے ہیں ان کا بھی نام لیکر واضح کر دیا امام و ماموم دونوں جہنمی ہیں اگر وہ دین کے بارے میں تعقل سے کام نہ لیں۔ اس کی واضح مثال شلمغانی اور ان کے پیروکار ہیں جنھوں نے تناسخ و حلول، انکار نماز و روزہ جیسے بنیادی مسائل میں آکر اختلاف اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور وقت کے امامؑ کی لعنت کے مستحق بنے۔خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو حقیقی اور سچا دین مبین اسلام کا پیروکار بنائے۔
حوالہ جات
[1] ۔ بغدادی، الفرق بین الفرق، ص191.
[2] ۔ حسینی جلالی، فہرس التراث، ج1، ص228.
[3] ۔ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعۃ، ج2، ص412، 478، 489.
[4] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج11، ص4851.
[5] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج11، ص4850.
[6] ۔ طوسی، الغیبۃ، ص700.
[7] ۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج11، ص4851.
[8] ۔ راوندی، الخرائج والجرائح، ج3، ص1122.
[9] ۔ طوسی ، الغیبۃ ص711، طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص600.
منابع و مآخذ
1۔ قرآن مجید
2۔ ابن اثیر، ابو الکرم محمد بن عبد الکریم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1382.
3۔ بغدادی، عبد القاہر، الفرق بین الفرق، تہران، اشراقی، 1388.
4۔ تہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ، بیروت، دارالاضواء، 1403.
5۔ حسینی، جلالی، سید محمد حسین، فہرس التراث، قم، دلیل ما، 1380.
6۔ راوندی، قطب الدین، الخرائج والجرائح، قم، جامعہ حوزہ مدرسین، 1409.
7۔ رحیمی، عبد الرفیع، خسروی زادہ، صباح، بررسی تاریخی زمینہ ھا و چگونگی شکل گیری مبانی فکری شلمغانیہ، فصل نامہ علمی۔پژوھشی تاریخ اسلام، سال شانزدہم، شمارہ چہارم، زمستان 1394، شمارہ مسلسل 64.
8۔ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، موسسہ المعارف الاسلامیہ، 1411.
9۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نجف، دارالنعمان، 1421.
10۔ وکیلی، هادی، مقالہ، بررسی اندیشه ها و عقاید محمد بن علی شلمغانی معروف به ابن ابی العزاقر بنیانگذار فرقه عذاقریه شلمغانیه، فصل نامہ علمی۔ترویجی مطالعات تقریبی مذاهب اسلامی (فروغ وحدت) سال یازدهم، دوره جدید، شماره، ۴۱ پاییز ۱۳۹۴.
مضمون کا مآخذ
1۔ رحیمی، عبد الرفیع، خسروی زادہ، صباح، بررسی تاریخی زمینہ ھا و چگونگی شکل گیری مبانی فکری شلمغانیہ، فصل نامہ علمی۔پژوھشی تاریخ اسلام، سال شانزدہم، شمارہ چہارم، زمستان 1394، شمارہ مسلسل 64.
2۔وکیلی، ہادی، مقالہ، بررسی اندیشهها و عقاید محمد بن علی شلمغانی معروف به ابن ابی العزاقر بنیانگذار فرقه عذاقریه شلمغانیه، فصل نامہ علمی۔ترویجی مطالعات تقریبی مذاهب اسلامی (فروغ وحدت) سال یازدهم، دوره جدید، شماره ۴۱، پاییز ۱۳۹۴.