- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 26 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/12/02
- 0 رائ
شہادت حضرت فاطمہ زہرا(س) کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی تاریخ اور حدیث کی کتب روایات سے بھری پڑی ہیں۔ بعض جو حدیث اور تاریخ سے آگاہی نہیں رکھتے انھوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس یقینی واقعے کے بارے میں تردید کا اظہار کیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس عظیم مصیبت کو اہل سنت کی معتبر کتب سے بیان کرتے ہیں، تا کہ حقیقت کو قبول نہ کرنے والوں پر اتمام حجت اور حقیقت کو قبول کرنے والوں کے ہاتھ میں واضح دلائل آ سکیں:
قال رسول اللَّه(ص): … فتكون اوّل من یلحقنی من اهل بیتی فتقدم علی محزونة مكروبة مغمومة مقتولة.
میری بیٹی فاطمہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملے گی، اور وہ اس حالت میں میرے پاس آئے گی کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔[1]
قال موسی بن جعفر(ع): انَّ فاطمة(س) صدّیقة شهیده.
امام موسی کاظم )ع) نے فرمایا کہ: بے شک فاطمہ زہرا صدیقہ اور شہیدہ اس دنیا سے گئیں ہیں۔[2]
قال ابن عباس: إنّ الرّزیة كُلَّ الرّزیة، ما حال بین رسول اللَّه(ص) و بین كتابه.
تمام مصائب کی مصیبت اس وقت شروع ہوئی کہ جب رسول خدا کو آخری وصیت لکھنے سے زبردستی منع کیا گیا۔[3]
رسول خدا کی بیٹی: ام ابیها ہیں۔
رسول خدا کی بیٹی فاطمہ، اپنے باپ کی بھی ماں ہیں۔[4]
«بضعة الرّسول» «سیده نساء العالمین»، «سیدة نساء اهل الجنّة»[5]
رسول خدا کی شہادت کے بعد بد ترین مظالم انہی رسول کی بیٹی پر ڈہائے گئے اور وہ بھی کسی یہودیوں یا عیسائیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خود مسلمانوں اور رسول خدا کے نزدیکی صحابہ کی طرف سے!!!
کیا ایسا ممکن ہے؟ یہ خبر سن کر ہر غیرت مند اور حلال زادے انسان کے خون میں جوش آتا ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا کوئی انسان اپنی انسانیت اور غیرت سے اتنا پست ہو جاتا ہے کہ اپنے رسول کی بیٹی پر، جس رسول کے نام کا وہ کلمہ پڑہتے ہیں، کس طرح ہاتھ بلند کرتے ہیں، اس کے گھر کو آگ لگاتے ہیں اور اس کے بچے کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شہید اور سقط کر دیتے ہیں ؟؟؟
اسی پستی کے عقل و وہم میں نہ آنے اور بعض کے اس واقعے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے بعض تاریخ لکھنے والوں نے سرے سے ہی اس حقیقت اور واقعیت کا انکار کر دیا ہے:
“” خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں “”
یہ تلخ ترین حقیقت نہ فقط یہ کہ شیعہ کی معتبر کتب میں ذکر ہوئی ہے بلکہ اہل سنت کی بھی معتبر کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے، کہ ان کتب میں سے اہل سنت کی ایک کتاب کہ جو قرآن کریم کے بعد معتبر ترین کتاب ہے، بلکہ بعض اوقات تو اس کتاب کو قرآن سے بھی بڑھا چڑھا دیتے ہیں، وہ کتاب صحیح بخاری ہے۔
اس کتاب میں طلیعہ نے اس مصیبت کو ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:
الرزیۃ كلّ الزریۃ، ایسی مصیبت کہ جو تمام مصائب سے بڑھ کر ہے۔ وہ مصیبت کہ جس نے، اس مصیبت کبری کی آرام آرام سے راہ ہموار کی تھی، اور وہ مصیبت، رسول خدا کی طرف ہذیان اور کم عقلی کی نسبت دینا تھی۔ رسول خدا اور صحابہ کے سامنے کہا گیا کہ:
غلبہ الوجع یہ کہا گیا تا کہ رسول خدا(ص) کو اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیت کرنے سے روکا جا سکے، کہ حضرت زہرا ان اہل بیت سے ایک تھیں۔ عندنا كتاب اللَّه حسبنا، کہہ کر حدیث ثقلین کے بر خلاف، قرآن کو عترت سے جدا کر دیا گیا اور آخر کار الرّزیة كلّ الرّزیة، کی راہ ہموار کی گئی۔
ابن عباس کی حدیث کا مکمل متن ایسے ہے کہ، اس نے کہا کہ:
عن ابن عباس قال: لمّا اشتدّ بالنّبی (صلی الله علیه و سلم) وجعه، قال: ائتونی بكتاب اكتب لكم كتاباً لاتضلّوا بعده، قال عمر: انّ النّبی (صلی الله علیه و سلم) غلبه الوجع و عندنا كتاب اللَّه حسبنا، فاختلفوا و كثر الغلط، قال: قوموا عنّی و لا ینبغی عندی التنازع، فخرج ابن عباس یقول: انّ الرزیة كلّ الرزیة ماحال بین رسول اللَّه (صلی الله علیه و سلم) و بین كتابه.
جب رسول خدا کا مرض شدت اختیار کر گیا تو فرمایا کہ: کوئی شے لاؤ تا کہ تمہارے لیے ایک ایسی تحریر لکھ دوں تا کہ میرے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہو۔ یہ سن کر عمر نے کہا: بیماری کا اثر ہے کہ پیغمبر ایسی باتیں کر رہا ہے، جب ہمارے پاس قرآن ہے، تو ہمیں کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے، عمر کی بات سن کر ادھر بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان اختلاف شروع ہو گیا۔ رسول خدا نے اس شور شرابے کو سن کر کہا تم لوگ یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ کیونکہ میرے پاس بیٹھ کر ایسے کام کرنا مناسب نہیں ہے۔
ابن عباس وہاں سے اٹھ کر باہر چلے گئے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ:
تمام مصائب کی مصیبت اس وقت شروع ہوئی جب رسول خدا کو آخری وصیت لکھنے سے زبردستی منع کیا گیا تھا۔[6]
شاید جہنوں نے ابن عباس کے اس قول کو سنا تھا کہ تمام مصائب کی مصیبت……. تو وہ اس وقت حیران ہوتے ہوں گے کہ ابن عباس یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ اس مصیبت سے مراد کونسی مصیبت ہے ؟ ایک دم سے آخر ابن عباس کو کیا ہو گیا ہے ؟! لیکن ابھی تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ جس نے رسول خدا کی طرف ہذیان اور کم عقلی کی نسبت دی تھی، اس نے ایک اور گستاخی کی اور کہا: خدا کی قسم میں اس گھر اور جو بھی اس گھر میں ہے اس کو آگ لگا کر جلا دوں گا۔ یہ واقعہ اہل سنت کی بہت سی معتبر کتب میں ذکر ہوا ہے، کہ ہم بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف: ابو بكر عبد اللَّه بن محمد بن ابی شیبہ، کہ جو بخاری کا بھی استاد ہے، اس نے اپنی کتاب المصنف میں کہا ہے کہ:
حین بویع لأبی بكر بعد رسول اللَّه(ص) كان علی و الزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللَّه(ص) فیشاورونها و یرجعون فی أمرهم، فلمّا بلغ ذلك عمر بن خطاب، خرج حتّی دخل علی فاطمة فقال: یا بنت رسول اللَّه(ص) و اللَّه ما أحد أحب إلینا من أبیك و ما أحد أحب إلینا بعد أبیك منك، و أیم اللَّه ما ذلك بمانعی أن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن أمرتهم أن یحرق علیهم البیت. قال: فلمّا خرج عمر جاؤوها فقالت: تعلمون انّ عمر قد جائنی و قد حلف باللَّه لإن عدتم لیحرقنّ علیكم البیت، و أیم اللَّه لیمضینّ لما حلف علیه.
جب رسول خدا کے بعد ابوبکر کی بیعت کی گئی، تو علی(ع) اور زبیر اس بارے میں مشورہ کرنے کے لیے رسول خدا کی بیٹی حضرت فاطمہ کے پاس آئے۔ جب عمر ابن خطاب کو اس بات کا پتا چلا تو فاطمہ کے پاس آیا اور کہا: اے رسول خدا کی بیٹی! خدا کی قسم ہمارے نزدیک آپ کے والد سے بڑھ کر کوئی بندہ محبوب نہیں ہے اور انکے بعد ہمارے نزدیک آپ محبوب ترین ہو! اور خدا کی قسم اس کے باوجود اگر وہ لوگ آپ کے پاس آ کر باتیں کریں گے تو، میں حکم دوں گا کہ اس گھر کو اور جو بھی اس گھر میں ہیں، آگ لگا کر جلا دیں۔
اسلم نے کہا کہ: جب عمر فاطمہ کے پاس سے واپس چلا گیا تو علی(ع) اور انکے ساتھی واپس گھر آئے تو، فاطمہ نے کہا کہ: کیا آپکو معلوم ہے کہ عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے خدا کی قسم کھائی ہے کہ اگر آپ ( ابوبکر کی بیعت کیے بغیر ) گھر واپس آئے تو گھر کو آپ لوگوں سمیت آگ لگا دوں گا ؟ اور خدا کی قسم وہ اپنی قسم پر ضرور عمل کرے گا۔[7]
ب: اسی معنی اور مفہوم کو سیوطی نے اپنی کتاب مسند فاطمہ میں ذکر کیا ہے کہ:[8]
ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستیعاب میں اسی واقعے کو نقل کیا ہے۔[9]
بلاذری نے اس بارے میں کہا ہے کہ:
انّ ابابكر ارسل الی علی یرید البیعة، فلم یبایع فجاء عمر و معه فتیلة فتلقته فاطمة علی الباب، فقالت فاطمة: یابن خطاب! أتراك محرقاً علی بأبی؟! قال: نعم.
ابوبکر نے عمر کو علی(ع) کے پاس بیعت لینے کے لیے بھیجا، جب انھوں نے بیعت نہ کی تو وہ فاطمہ کے دروازے پر مشعل لے کر آگ لگانے کے لیے آیا اور جب فاطمہ نے کہا کہ کیا تم میرے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہو ؟ تو عمر نے جواب دیا: ہاں،
جسطرح کہ بلاذری نے کہا ہے کہ:
ابوبکر نے اپنی بیعت کرنے کے لیے علی کو پیغام بھیجوایا، لیکن علی نے اسکی بات کو قبول نہ کیا۔ پھر عمر مشعل پکڑے ہوئے آیا، فاطمہ نے اسکو اچانک مشعل کے ساتھ گھر کے دروازے پر دیکھا، تو فرمایا: اے خطاب کے بیٹے کیا تم میرے گھر کو آگ لگا کر ہمیں جلانا چاہتے ہو ؟ تو عمر نے جواب دیا: ہاں۔[10]
اور ابو الفداء نے بھی کہا ہے کہ:
ثمّ انّ ابابكر بعث عمر بن خطاب الی علی و من معه لیخرجهم من بیت فاطمة (رضی اللَّه عنها) و قال: ان ابی علیك فقاتلهم، فاقبل عمر بشیء من نار علی ان یضرم الدار، فلقیته فاطمة (رضی اللَّه عنها) و قالت: الی این یابن الخطّاب؟! أجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، او یدخلوا فیمادخل فیه الامّة.
پھر ابوبکر نے عمر ابن خطاب کو علی اور انکے ساتھیوں کے پاس بھیجا تا کہ ان کو فاطمہ کے گھر سے باہر نکالے، اور اسکو یہ بھی کہا کہ اگر انھوں نے تماری بات ماننے سے انکار کیا تو تم ان سے جھگڑا کرنا۔
پھر عمر آگ لے کر آیا تا کہ گھر کو جلا سکے۔ پھر فاطمہ نے عمر کے سامنے آ کر کہا: اے خطاب کے بیٹے کیا کرنے لگے ہو، کیا تم میرے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہو؟ ہاں، ورنہ وہی کام کرو جو امت نے کیا ہے، ( یعنی اگر ابوبکر کی بیعت کر لو گے، تو پھر تمہارے گھر کو آگ نہیں لگاؤں گا)[11]
عمر کا یہ قول اور فعل، ابن عباس کے کلام،الرزیة كلّ الزریة، کہ تمام مصائب کی مصیبت……. کی عملی تفسیر بن کر سامنے آیا۔ یہ ایسی تفسیر تھی کہ جو تاریخ اور صدیوں پر محیط تھی اور آج دور حاضر میں بعض مسلمانوں کے اہل بیت(ع) اور رسول خدا(ص) کے اقدامات، ابن عباس کے اسی قول کی تفسیر ہیں۔ یہ غم اتنا شدید اور گہرا تھا کہ شاید خود ابن عباس بھی ابتدا میں اسکی طرف متوجہ نہیں تھے، اتنا شدید غم تھا کہ جسکی شدت نے رسول خدا(ص) کی بیماری کے غم کو بھی بھلا دیا تھا۔
اسی وجہ سے اہل سنت کے بزرگ عالم جوینی شافعی نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ:
..وانّی لمّا رأیتها ذكرت ما یصنع بعدی، كانّی بها و قد دخل الذّل بیتها و انتهكت حرمتها و غصبت حقّها و منعت ارثها و كسرت جنبها و اسقطت جنینها و هی تنادی: یا محمداه…فتكون اوّل من یلحقنی من أهل بیتی فتقدم علی َ محزونة مكروبة مغمومة مغصوبة مقتولة.
میں جب بھی اپنی بیٹی فاطمہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بعد اس پر ہونے والے تمام مصائب یاد آ جاتے ہیں، اسکے گھر میں ذلت کو داخل کیا جائے گا، اسکے گھر کی حرمت کو پامال کیا جائے گا، اسکے حق کو غصب اور اسکو ارث سے منع کیا جائے گا، اسکا پہلو شکستہ اور اسکا بچہ سقط کیا جائے گا، اس حالت میں پکارے گی: یا محمداہ….. پس وہ میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلی ہو گی کہ جو میرے مرنے کے بعد، مجھ سے آ کر ملے گی، پس وہ میرے پاس آئے گی اس حالت میں کہ وہ بہت غمگین، دکھی اور مظلومانہ طور پر شہید کی گئی ہو گی۔[12]
جب رسول خدا(ص) کے صحابی ہاتھ میں آگ لے کر رسول خدا کی بیٹی کو تعزیت کہنے کے لیے آئے تھے تو کچھ اس طریقے سے تعزیت پیش کی کہ رسول کی بیٹی کا بیٹا دنیا میں آنے سے پہلے ہی سقط ہو گیا، گھر پر حملہ کیا گیا اور …..
جس طرح کہ ابن ابی دارم نے کہ جو بقول ذہبی:
الامام الحافظ الفاضل… كان موصوفاً بالحفظ و المعرفة،
امام و حافظ و فاضل اور حفظ و معرفت کے لحاظ سے معروف عالم تھا۔
اس نے لکھا ہے کہ:
إنّ عمر رفس فاطمة حتّی اسقطت بمحسن،
یعنی عمر نے حضرت زہرا کے پیٹ پر زور سے ٹانگ ماری، تو محسن سقط ہو گیا۔
ابن ابی دارم نے اس مطلب کو جب اپنی کتاب میں لکھا تو بہت سے لوگوں نے اسکی مذمت کی تھی۔
كان ابن ابی دارم مستقیم الامر عامة دهره ثم فی آخر ایامه كان اكثر ما یقرء علیه المثالب حضرته و رجل یقرء علیه ان عمر رفس فاطمة حتی اسقطت بمحسن.
بے شک جب عمر نے حضرت زہرا کے پیٹ پر زور سے ٹانگ ماری، تو محسن سقط ہو گیا۔[13]
واضح ہے کہ جب ایک عورت گھر کے جلائے جانے، بچے کے سقط ہونے اور ضرب و شتم کی وجہ سے بیمار ہوتی ہے اور بہت ہی جلد اسی حالت میں فوت ہو جاتی ہے تو، یہ موت شرعی، عرفی اور عقلی طور پر قتل اور شہادت شمار ہوتی ہے اور یہ مظالم کرنے والے قاتل اور جنایتکار شمار ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اہل بیت اور آئمہ معصومین(ع) نے حضرت زہرا(س) کو ہمیشہ شہید کہہ کر یاد کیا ہے۔ جس طرح کہ امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا ہے کہ:
إنّ فاطمة(س) صدیقة شهیدة،[14]
ذکر کیے گئے مطالب کی روشنی میں رسول خدا(ص) کی بیٹی کی شہادت کسی با انصاف اور غیرت مند شیعہ اور سنی کے لیے قابل انکار نہیں ہے۔ اس کے باوجود مردہ ضمیر اور غیرت سے خالی انسانوں کے لیے یہ حقیقت قابل قبول نہیں ہے، اور وہ چودہ سو سال سے لے کر آج تک اس بارے میں کہتے ہیں کہ:
یہ کیا کہہ رہے ہو؟ یہ کیا تم لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ؟ ممکن نہیں ہے کہ یہ ساری باتیں سچّ ہوں ؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر قیامت کیوں نہیں آ گئی ؟ آسمان اور زمین پھٹ کیوں نہیں گئے ؟ سورج اور چاند تاریک کیوں نہیں ہو گئے ؟ مگر رسول خدا(ص) نے خود نہیں فرمایا کہ:
لولاک لما خلقت الأفلاک۔
اگر آپکا مبارک وجود نہ ہوتا، میں اس زمین و آسمان کو خلق نہ کرتا۔
اور کیا رسول خدا(ص) نے اپنی بیٹی کے بارے میں نہیں فرمایا کہ:
فاطمة بضعة منّی، فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ شاید بخاری نے جھوٹ لکھا ہو کہ
غلبه الوجع، عندنا كتاب اللَّه حسبنا، الرزیة كلّ الزریة ؟
مگر کیا صحیح بخاری اہل سنت کی معتبر کتاب نہیں ہے ؟ کیوں تم لوگ ان باتوں کو اس قدر تکرار کرتے ہو ؟ کیوں تم لوگ لکھتے ہو کہ حضرت زہرا کو مظلومانہ طور پر آدھی رات کے وقت ابوبکر کی نظروں سے دور دفن کیا گیا، اور ….. ؟ اور کہتے کہ:
فلمّا توفّیت دفنها زوجها علی لیلاً و لم یؤذن بها ابابكر و صلّی علیها…
جب فاطمہ نے وفات پائی تو اسکے شوہر علی نے اسکو رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو نہیں بتایا تھا اور خود ہی اس پر نماز پڑھی تھی۔[15]
کیوں تم لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ علی(ع)، عمر سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے؟
… فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِی بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا یَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَکَ کَرَاهِیَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ …
حضرت علی نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور عمر کے ساتھ ہمنشینی کو پسند نہ کرنے کی وجہ سے اس سے کہا کہ اکیلے آنا اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لانا۔[16]
اگر خود بخاری ان اعتراض کرنے والوں کی باتوں کو سنتا، تو کہتا کہ میں تنہا نہیں ہوں، بلکہ مسلم نے بھی ان اس واقعے کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ: ابن عباس اس غم پر اتنا روئے کہ اسکے اشکوں سے اسکے سامنے پڑی ریت گیلی ہو گئی:
قال ابن عباس: یوم الخمیس و ما یوم الخمیس، ثمّ بكی حتّی بلّ دمعه الحصی، فقلت یا بن عباس و ما یوم الخمیس ؟ قال: اشتدّ برسول اللَّه (صلی الله علیه و سلم) وجعه فقال ائتونی اكتب لكم كتاباً لاتضلّوا بعدی فتنازعوا و ما ینبغی عند نبی تنازع، و قالوا ما شأنه أهجر استفهموه، قال: دعونی…
ابن عباس نے کہا کہ: جمعرات کا دن، آہ وہ کیا عجیب جمعرات کا دن تھا، یہ کہہ کر اتنا گریہ کیا کہ پاس ہی پڑے ہوئے، چھوٹے چھوٹے پتھر گیلے ہو گئے، پھر میں نے کہا: جمعرات کا دن کیا ہے ؟ اس نے کہا: اس دن رسول خدا کے مرض نے شدت اختیار کر لی تھی، اپنی حالت دیکھ کر انھوں نے فرمایا کہ: کوئی شے لاؤ کہ اس پر ایک ایسی بات لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہو، پس یہ سن کر ادھر بیٹھے ہوئے صحابہ کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا، حالانکہ رسول خدا کے سامنے ایسا کرنا صحیح نہیں تھا، انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول کو کیا ہو گیا ہے ؟ وہ بیماری کی حالت میں ہذیان کہہ رہا ہے۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ۔[17]
پھر بخاری کہے گا کہ حتی مجھ سے پہلے میرے استاد ابن ابی شیبہ نے بھی اس غم بھرے واقعے کو واضح کر کے لکھا اور اس میں حضرت زہرا کے گھر کو جلانے کی دھمکی کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ اس کے علاوہ یہ غم بھرا واقعہ اہل سنت کی بہت سی معبتر کتب میں ذکر ہوا ہے۔
شاید کوئی یہ خیال کرے کہ: وہ جو صحیح سند اور اہل سنت کی معتبر کتب میں ذکر ہوا ہے اور قابل انکار نہیں ہے، وہ حضرت زہرا کے گھر کو جلانے کی دھمکی کے بارے میں ذکر ہوا ہے، لیکن حقیقت میں تو گھر کو آگ لگانے کے بارے میں اہل سنت کی کتب میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے!
ہاں ابن ابی شیبہ کے کلام میں حضرت زہرا(س) کے گھر کو آگ لگانے کا ذکر موجود نہیں ہے، لیکن بخاری نے علی کے ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر گھر کو عملی طور پر آگ لگنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ کیونکہ ابن ابی شیبہ کی نقل میں آپ نے پڑھا ہے کہ: عمر نے قسم کھائی تھی کہ اگر تم لوگوں نے بیعت نہ کی تو میں اس گھر کو اس میں رہنے والوں سمیت جلانے کا حکم دے دوں گا۔
عمر کی قسم اتنی یقینی اور قطعی تھی کہ خود حضرت فاطمہ (س) نے قسم کھائی کہ وہ اپنی قسم پر ضرور عمل کرے گا۔ اور بخاری نے لکھا ہے کہ:
فوجدت فاطمة علی ابی بكر فی ذلك فهجرته فلم تكلمه حتّی توفیت و عاشت بعد النّبی (صلی الله علیه و سلم) ستّة اشهر… و لم یكن یبایع تلك الاشهر.
فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اس سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی اور وہ رسول خدا کی وفات کے بعد 6 ماہ تک زندہ رہیں اور اس مدت (6 ماہ) میں علی نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔[18]
اسی بنا پر بلاذری نے اپنی کتاب انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ:
فلم یبایع فجاء عمر و معه فتیلة.
عمر نے اپنی قسم پر عمل کیا اور اہل بیت کے گھر کو آگ بھی لگائی۔
اور بعض نے تو نقل کیا ہے کہ علی گھر کو جلائے جانے کی دھمکی کے بعد بیعت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور اس طرح گھر کو جلانے تک نوبت نہیں پہنچی تھی۔ یہ مطلب، بخاری کی نقل کے خلاف ہے اور ایسا مطلب کہ جو صحیح بخاری کے خلاف ہو، اہل سنت اسکو قبول نہیں کرتے اور اسکے علاوہ دوسری احادیث اور تاریخی کتب اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ اگرچے اس واقعے کو نقل کرنے والوں میں سے بعض نے اس مصیبت کے نتیجے کو ذکر نہیں کیا، لیکن خود رسول خدا(ص) اور آئمہ معصومین(ع) نے:
غلبه الوجع، عندنا كتاب اللَّه حسبنا، الرزیة كلّ الزریة ؟ کی عبارات کے آخری نتیجے ( یعنی شہادت حضرت زہرا ) کو اپنی روایات میں ذکر کیا ہے۔
اب ہم اس مقام پر اہل سنت کی تاریخی اور حدیثی کتب سے حضرت زہرا کی شہادت پر شواہد اور دلائل ذکر کرتے ہیں۔ اہل سنت کی کتب میں یہ مطلب اتنا واضح ہے کہ بات کو زیادہ طولانی کرنے اور زیادہ کتب کے ناموں کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن دوسری طرف سے یہ واقعہ اس قدر بڑا اور تلخ ہے کہ اگرچہ تاریخ اور حدیث کی کتب میں شہادت حضرت کے بارے میں موجودہ دلائل اور شواہد کو ردّ نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی انسانی احساسات اور جذبات بہت مشکل سے اس تلخ واقعے کو قبول کرتے ہیں۔
مگر اس تلخ واقعے کے رونما ہوتے وقت وہاں پر علی(ع) موجود نہیں تھے؟ پھر بھی انھوں نے کیسے جرأت کی؟
کیا علی(ع) سب کچھ دیکھ رہے تھے ؟ کیا دیکھ رہے تھے کہ فاطمہ(س) کو کیسے مار رہے ہیں؟
کیا دیکھ رہے تھے کہ آگ کیسے بھڑک رہی ہے ؟ کیا دیکھ رہے تھے کہ دنوں کو کالی راتوں میں بدلنے والے مصائب اور مظالم کیسے فاطمہ(ع) پر ڈہائے جا رہے تھے؟ پھر بھی عمر اور اس کے ساتھیوں نے کیسے جرأت کی؟
کیا انھوں نے نہیں دیکھا تھا کہ علی(ع) نے در خیبر کو اپنی جگہ سے کیسے اکھاڑا تھا؟
کیا انھوں نے نہیں دیکھا تھا کہ علی(ع) نے کیسے مرحب کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا؟
کیا انھوں نے نہیں دیکھا تھا کہ علی(ع) نے عمرو ابن عبدود کو کیسے…؟ کیا انھوں نے نہیں دیکھا تھا کہ…؟
کیا انھوں نے جبرائیل کی ندا لا سیف الاّ ذوالفقار و لا فتی الاّ علی، کو نہیں سنا تھا؟ پھر بھی انھوں نے کیسے جرأت کی؟
ہاں انھوں نے علی کو دیکھا تھا۔ اے کاش انھوں نے علی کو فقط انہی کاموں میں دیکھا ہوتا، تا کہ ان مظالم کرنے کی جرأت نہ کرتے۔ اس سب کے باوجود علی کے پہاڑوں جیسے صبر و حلم کو بھی دیکھا ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ علی(ع) نفس پیغمبر ہیں، اور انھوں نے سالہا سال رسول خدا(ص) کے صبر و حلم کو آزمایا ہوا تھا، اس واقعے سے پہلے انھوں نے رسول خدا کی بھی توہین اور جسارت کی ہوئی تھی، ان کو اذیت و آزار کرتے تھے۔ یہ لوگ آنحضرت کو مشرکین مکہ کی طرح کہ، جو ان حضرت کو پتھر مارتے تھے، کوڑا اور مٹی وغیرہ ان پر پھینکتے تھے، اذیت نہیں کرتے تھے، بلکہ اس سے بدتر اذیت کرتے تھے! اور یہ لوگ رسول خدا کو مشرکین، یہود اور نصاری کی طرح جنگوں میں تلوار و تیر و نیزے بھی نہیں مارتے تھے، بلکہ اس سے بدتر زخم لگاتے تھے رسول خدا پر۔ یعنی مسلمان اور صحابہ رسول خدا کی زوجات پر تہمت کے ذریعے رسول خدا کو اذیت کیا کرتے تھے، یعنی خداوند کے نبی و رسول کی غیرت پر حملے کیا کرتے کرتے تھے، ہر مسلمان کو رسول خدا کی مظلومیت پر خون کے آنسو گریہ کرنا چاہیے کہ خود انھوں نے فرمایا کہ:
ما اوذی نبی بمثل ما اوذیت،
میری امت نے جتنی مجھے اذیت کی ہے، اتنی کسی امت نے بھی اپنے نبی کو نہیں کی۔
جتنا اسلام ترقی کرتا جاتا تھا، اتنی ان حضرت کی مظلومیت بڑھتی جاتی تھی، اور رسول خدا کی شہادت کے بعد یہ مظلومیت اپنے اوج و عروج پر پہنچ گئی تھی۔
ان کو معلوم تھا کہ رسول خدا کی عظمت و شرافت انکی شجاعت و قدرت سے زیادہ تھی۔ انھوں نے دیکھا ہوا تھا کہ وہ حضرت مشرکین قریش کی اذیت و آزار کے مقابلے پر ان پر نفرین و بددعا نہیں کرتے تھے اور خون میں لہو لہان ہو کر بھی فرماتے تھے کہ:
انّ قومی لا یعلمون، میری قوم و امت کو میرے عظمت اور مقام کا علم نہیں ہے۔
اور جہنوں نے ان حضرت پر تلوار اٹھائی اور چلائی تھی، یہ انکو فرماتے تھے کہ:
اذهبوا انتم الطّلقاء، جاؤ آج کے بعد تم سب آزاد ہو،
اسی وجہ سے بہت آرام سے ان کو اذیت و آزار دیا کرتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رسول خدا، خداوند کے دین کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو تکلیف نہیں دے سکتے۔
سورہ احزاب کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ: بعض لوگ بغیر بتائے اور بغیر اجازت کے رسول خدا کے گھر آ جایا کرتے تھے۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد انکے گھر ہی میں بیٹھ کر بیہودہ باتیں کرنا شروع کر دیتے تھے اور حتی کبھی ان حضرت کی کسی بیوی سے کوئی کام ہوتا تھا تو، پردہ اٹھا کر اس چیز کے بارے پوچھنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کی ان حرکات سے رسول خدا کو اذیت ہوتی تھی، لیکن اپنی خوش اخلاقی اور حیا کی وجہ سے ان کو کچھ بھی نہیں کہتے تھے اور سب کچھ حلم و بردباری سے تحمّل کیا کرتے تھے۔ خود خداوند نے اس بارے میں چند آیات کو نازل کر کے ان کو اس کام سے منع کیا اور خاص طور پر رسول خدا کی زوجات کے بارے میں سختی سے منع کیا۔
یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیوتَ النَّبِی إِلاَّ أَنْ یؤْذَنَ لَكُمْ إِلی طَعامٍ غَیرَ ناظِرینَ إِناهُ وَ لكِنْ إِذا دُعیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَ لا مُسْتَأْنِسینَ لِحَدیثٍ إِنَّ ذلِكُمْ كانَ یؤْذِی النَّبِی فَیسْتَحْیی مِنْكُمْ وَ اللَّهُ لا یسْتَحْیی مِنَ الْحَقِّ وَ إِذا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتاعاً فَسْئَلُوهُنَّ مِنْ وَراءِ حِجابٍ ذلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَ قُلُوبِهِن.[19]
اے ایمان والو نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہو پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں کے لیے جم کر نہ بیٹھو، کیوں کہ اس سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتا ہے، اور حق بات کہنے سے اللہ شرم نہیں کرتا، اور جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو، اس میں تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی ہے،
اور پھر فرمایا کہ:
وَ ما كانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَ لا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْواجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَداً إِنَّ ذلِكُمْ كانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظیما۔
اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ تم آپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کےنزدیک بڑا گناہ ہے۔
اور پھر چند آیات کے بعد فرمایا ہے کہ:
إِنَّ الَّذِینَ یؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنهَمُ اللَّهُ فی الدُّنْیا وَ الاَخِرَةِ وَ أَعَدَّ لهَمْ عَذَابًا مُّهِینًا۔
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا ہے۔
شاید رسول خدا کو اذیت کرنے کے مصادیق میں سے ایک مصداق، وہ داستان ہے جو بخاری نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے۔ اس داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ: رسول خدا کی زوجات رات کی تاریکی میں مکمل پردے کے ساتھ ایک خالی جگہ پر رفع حاجت کرنے کے لیے جاتیں تھیں۔ ام المؤمنین سودہ کا قد لمبا تھا، اسی لیے عمر نے انکو پہچان لیا اور اونچی آواز سے کہا کہ اے سودہ تو خود کو ہم سے نہیں چھپا سکتی، ہم نے تم کو پہچان لیا ہے۔ سودہ وہاں سے پلٹ کر رسول خدا کے پاس آئی اور عمر کی شکایت لگائی۔ رسول خدا نے فرمایا کہ تم اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہو۔
اس داستان کو بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں تین جگہ پر ذکر کیا ہے۔
1 – كتاب التفسیر سورة الاحزاب میں مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
عن عَائِشَةَ رضی الله عنها قالت خَرَجَتْ سَوْدَةُ بعد ما ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا وَكَانَتْ امْرَأَةً جَسِیمَةً لَا تَخْفَی علی من یعْرِفُهَا فَرَآهَا عُمَرُ بن الْخَطَّابِ فقال یا سَوْدَةُ أَمَا و الله ما تَخْفَینَ عَلَینَا فَانْظُرِی كَیفَ تَخْرُجِینَ قالت فَانْكَفَأَتْ رَاجِعَةً وَ رَسُولُ اللَّهِ فی بَیتِی وَ إِنَّهُ لَیتَعَشَّی و فی یدِهِ عَرْقٌ فَدَخَلَتْ فقالت یا رَسُولَ اللَّهِ إنی خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِی فقال لی عُمَرُ كَذَا وَ كَذَا… فقال إنه قد أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ۔
عایشہ نے کہا کہ: آیت حجاب نازل ہونے کے بعد، ام المؤمنین سودہ رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر گئی۔ وہ ایک موٹی عورت تھی، اسلیے وہ اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے صحیح طریقے سے چھپا نہ سکی۔ عمر ابن خطاب نے اسکو پہچان لیا اور کہا کہ: اے سودہ! خدا کی قسم تم اپنے آپکو ہماری نگاہوں سے مخفی نہیں کر سکتی۔ اب یہ سوچو کہ تم یہاں سے باہر کیسے جاؤ گی۔ وہ جب گھر واپس آئی تو اس نے رسول خدا کو شکایت لگائی کہ میں اپنے کام سے گھر سے باہر گئی تھی، لیکن عمر نے مجھ سے طرح طرح کی باتیں کیں ہیں۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: تم کو اپنے کام سے گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔[20]
2 – كتاب النكاح باب خروج النساء لحوائجهن میں لکھا ہے کہ:
عن عَائِشَةَ قالت خَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ لَیلًا فَرَآهَا عُمَرُ فَعَرَفَهَا فقال إِنَّكِ و الله یا سَوْدَةُ ما تَخْفَینَ عَلَینَا فَرَجَعَتْ إلی النبی فَذَكَرَتْ ذلك له و هو فی حُجْرَتِی یتَعَشَّی وَ إِنَّ فی یدِهِ لَعَرْقًا فَأَنْزَلَ علیه فَرُفِعَ عنه و هو یقول قد أَذِنَ الله لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ۔
عایشہ نے کہا کہ: ایک رات کو سودہ بنت زمعہ گھر سے باہر گئی، جب عمر نے اسکو دیکھا تو پہچان لیا اور اس سے کہا کہ: اے سودہ! خدا کی قسم تم اپنے آپکو ہماری نگاہوں سے مخفی نہیں کر سکتی۔ سودہ نے گھر آ کر سارا ماجرا رسول خدا کو بتایا۔ یہ سن کر رسول خدا نے فرمایا کہ: تم کو اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔[21]
3 – كتاب الوضوء باب خروج النساء الی البراز میں بخاری نے نقل کیا ہے کہ:
عن عَائِشَةَ أَنَّ أَزْوَاجَ النبی، كُنَّ یخْرُجْنَ بِاللَّیلِ إذا تَبَرَّزْنَ إلی الْمَنَاصِعِ و هو صَعِیدٌ أَفْیحُ فَكَانَ عُمَرُ یقول لِلنَّبِی(ص) احْجُبْ نِسَاءَكَ فلم یكُنْ رسول اللَّهِ(ص) یفْعَلُ فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النبی(ص) لَیلَةً من اللَّیالِی عِشَاءً وَ كَانَتْ امْرَأَةً طَوِیلَةً فَنَادَاهَا عُمَرُ ألا قد عَرَفْنَاكِ یا سَوْدَةُ حِرْصًا علی أَنْ ینْزِلَ الْحِجَابُ۔
عایشہ نے کہا کہ: رسول خدا کی زوجات رات کی تاریکی میں مکمل پردے کے ساتھ ایک خالی جگہ پر رفع حاجت کرنے کے لیے جاتیں تھیں۔ ام المؤمنین سودہ کا قد لمبا تھا، اسی لیے عمر نے انکو پہچان لیا اور اونچی آواز سے کہا کہ اے سودہ تو خود کو ہم سے نہیں چھپا سکتی، ہم نے تم کو پہچان لیا ہے، کیونکہ سودہ آیت حجاب کے نازل ہونے کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتی تھی۔[22]
مفسرین نے مذکورہ بالا آیات کے شان نزول کے بارے میں دو داستانوں کو ذکر کیا ہے:
1 – مذکورہ بالا داستان،
2- دوسرا یہ کہ رسول خدا(ص) کے ایک صحابی نے کہا کہ: جب رسول خدا دنیا سے چلے جائیں گے تو، میں انکی فلاں بیوی سے شادی کروں گا۔ جب رسول خدا نے اس بات کو سنا تو انکو بہت برا لگا، اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوہیں۔
مفسرین کی ایک جماعت نے اس شان نزول کو ذکر کیا ہے، ان میں:
طبری نے جامع البیان میں، آلوسی نے روح المعانی میں، اور ابن كثیر نے تفسیر القرآن العظیم، میں ذکر کیا ہے۔
ابن کثیر نے اس صحابی کو طلحہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ جس سے اس نے شادی کرنے کا کہا تھا، وہ عایشہ تھی۔
اس کے باوجود کہ سودہ اور عمر والی داستان حجاب والی آیت کے نازل ہونے کے بعد کی ہے، جسطرح کہ حدیث کے متن میں بھی آیا ہے کہ:
بعد ما ضرب الحجاب،
حجاب و پردے کی آیت نازل ہونے کے بعد، لیکن پھر بھی ام المؤمنین سے بے ادبی کرنا اور انکو شرمندہ و اذیت کرنا، یقینی طور پر یہ کام رسول خدا کی اذیت کا بھی باعث بنا ہے اور یہی داستان اس آیت کے نازل ہونے کا بھی سبب بنا ہے:
(و ما كان لكم ان تؤذوا رسول اللَّه)،
تمہیں رسول خدا کو اذیت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود اس داستان کو عمر کے فضائل اور موافقات عمر میں شمار کیا جاتا ہے۔
مثلاً آلوسی نے اس بات کو قبول کرنے کے بعد کہ عمر کا کام ادب کے خلاف تھا اور اس نے رسول خدا کی زوجہ کو شرمندہ و اذیت کی تھی، پھر بھی کہتا ہے کہ:
و ذلك أ حد موافقات عمر (ره) و هی مشهورة، و عدّ الشّیعة ما وقع منه من المثالب، قالوا: لما فیه من سوء الأدب و تخجیل سوده حرم رسول اللَّه (صلی الله علیه و سلم) و ایذائها بذلك. و اجاب أهل السّنة، بعد تسلیم صحة الخبر أنّه (ره) رأی أن لابأس بذلك، لما غلب علی ظنّه من ترتب الخیر العظیم…
…….، عمر نے اس کام کو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، کیونکہ وہ خیال کرتا تھا کہ اس کا یہ کام خیر اور نیک ہے۔[23]
بخاری اور اس داستان کے بعض راویوں نے کتاب صحیح بخاری کے باب وضو میں اس داستان کی اس طرح توجیہ و تاویل کی ہے کہ: یہ اہانت اور بے ادبی حرصاً علی أن ینزل الحجاب، کی وجہ سے تھی، یعنی نعوذ باللہ عمر کو رسول خدا کی بیوی کے پردے کا خود ان سے بھی زیادہ خیال تھا۔[24]
حالانکہ خود بخاری نے سورہ احزاب کی تفسیر میں کہا ہے کہ: یہ داستان حجاب والی آیت کے نازل ہونے کے بعد کی ہے۔
اسی وجہ سے کتاب صحیح بخاری کے بعض شارحین مجبور ہو گئے ہیں کہ ان دو طرح کی متضاد روایات کو ٹھیک کرنے کے لیے کہیں کہ:
قال الكرمانی: فان قلت: وقع هنا أنّه كان بعد ضرب الحجاب، و تقدم فی الوضوء أنّه كان قبل الحجاب، فالجواب: لعله وقع مرتین.
شاید یہ داستان دو مرتبہ واقع ہوئی تھی!![25]
بہرحال اس وقت کہ جب حکومت رسول خدا(ص) کے ہاتھوں میں تھی اور صحابہ تحت اختیار رسول خدا تھے، لیکن پھر بھی ان حضرت کو اذیت کیا کرتے تھے، کبھی یہ آرزو کرتے تھے کہ جب رسول خدا دنیا سے چلے جائیں گے تو ہم ان کی بیوی سے شادی کریں گے، اور کبھی ان حضرت کی زوجات سے توہین آمیز لہجے میں مخاطب ہوتے تھے اور اسکے علاوہ اور بھی بہت سی اذیتیں وغیرہ..۔
آہ یہ کتنی گندی اور پست اذیت و جرات تھی؟ ایک دینی راہبر کے چاہنے والوں کے لیے اور خاص طور پر خداوند کے رسول کی موت کا تصور بھی کرنا، اس کے چاہنے والوں کے لیے کتنا دردناک اور تکلیف دہ ہے؟ آہ رسول خدا کتنے مظلوم و حلیم تھے؟؟
یا رسول اللَّه،اصبنا بك یا حبیب قلوبنا فما اعظم المصیبة حیث انقطع عنا الوحی و حیث فقدناك.
ابھی رسول خدا کی عمر 60 سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ انکو کتنی اذیتیں کی گئیں۔ انکی زندگی میں انکے کے مرنے اور انکی بیوی کہ جو امہات المؤمنین ہیں، سے شادی کرنے کی خواہش اور آرزو تک کی گئی۔ یہ اذیت و آزار ان حضرت پر اتنی گران گزری کہ خود خداوند نے قرآن میں فرمایا کہ:
(وَ ما كانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَ لا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْواجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَداً)
تم کو کوئی حق نہیں ہے کہ اللہ کے رسول کو اذیت کرو اور انکی وفات کے بعد انکی زوجات سے شادی نہ کرنا۔
کتنی بڑی جسارت اور جرات، کیا یہ لوگ حکومت ملنے کے بعد حاکم اور رسول خدا کی بیٹی اور اہل بیت محکوم ہو گئے تھے ؟
ان تمام باتوں کے باوجود ابھی یہ سوال باقی ہے کہ، وہ لوگ رسول خدا(ص) اور علی(ع) کی شجاعت سے کیوں نہیں ڈرتے تھے؟
واضح الفاظ کے ساتھ کہ: رسول خدا(ص) اور علی(ع) ان جیسے مواقع پر اپنی شجاعت اور قدرت سے کیوں کام نہیں لیتے تھے، کہ انکے دشمنان ان پر حملہ وغیرہ کرنے کی جرات اور ہمت نہ کریں؟؟
یہ مطالب قابل دقت اور غور ہیں کہ:
اولاً: رسول خدا(ص) کے اہل بیت دوسرے عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں۔ وہ ہر عمل اور رد عمل میں فقط امر و مشئیت خداوندی سے کام کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی تعصّب، غصے اور اپنی ذاتی غرض کے لیے کوئی بھی کام انجام نہیں دیتے تھے، بلکہ وہ فقط خداوند کی رضا اور دین و شریعت کے دفاع کے لیے، خداوند کے حکم کے مطابق ہر کام انجام دیتے تھے۔
حضرت علی(ع) کو بھی خداوند اور رسول خدا کی طرف سے دین اسلام کے دفاع اور بقاء کے لیے صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، پس انھوں نے:
امتثالاً لامر اللَّه سبحانه، یعنی خداوند کے امر کی اطاعت کرتے ہوئے صبر کیا تھا۔
ثانیاً: یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر کوئی کسی کی بیوی، ماں، بہن اور بیٹی پر حملہ کرے، تو وہ انسان اگرچے کتنا ہی ضعیف اور بزدل ہی کیوں نہ ہو، تو وہ بندہ آرام سے نہیں بیٹھے گا، لیکن اگر وہی بندہ اس بات کو جانتا ہو کہ یہ حملہ کرنے والے اسکو غصہ دلا کر اور اسکے احساسات و جذبات سے اپنے غلط اور مذموم اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں تو، ایسا بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی بصیرت اور عقلمندی سے کام لیتے ہوئے، ان دشمنوں کو ناکام کرنے کے لیے صبر و حلم کا مظاہرہ کرے گا، تا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔
حضرت علی(ع) اپنی بصیرت اور دور اندیشی کی وجہ سے جانتے تھے کہ عمر اور اسکے ساتھیوں کا ہدف فقط اس وقت کے مسلمانوں پر رعب و دبدبہ و وحشت ایجاد کرنا تھا، تا کہ ایسے حالات ایجاد کر کے دین اسلام کے تعلق کو علی(ع) جیسے انسان سے ختم کر دیں اور اپنی مرضی سے اسلام کا تعارف کرائیں اور اسلامی احکام کی جیسے دل ہے، وضاحت و تشریح و تفسیر کریں۔ وہ لوگ علم ہونے یا لا علمی کی حالت میں تمام انبیاء، اولیاء اور اوصیاء کی زحمات کو ضائع کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
اگر غور اور دقت کریں تو فقط یہی نہیں تھا، بلکہ اگر علی(ع) دوسروں کی طرح امر خداوندی کے تابع نہ ہوتے اور غصے کی حالت میں تلوار اٹھا لیتے، اب جو گھر پر حملہ کرنے آئے تھے، وہ بھی تو خالی ہاتھ نہیں آئے تھے۔ اب علی(ع) اور انکے ساتھی، ادھر سے عمر اور اسکا گروہ، مسلمانوں میں داخلی جنگ شروع ہو جاتی، اس فرصت سے موقع پا کر منافقین اندر سے ادھر سے ایران اور روم بھی اسلام کو نابود کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ وہ باہر سے اسلام پر حملہ کر کے مسلمانوں کے دونوں گرہوں کو نابود کر دیتے۔ تازہ وجود میں آنے والا اسلام اسطرح خود مسلمانوں کی دنیا اور ریاست طلبی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود ہو جاتا۔
جو علی(ع) کے گھر پر حملہ کرنے آئے تھے، وہ تو خود اپنی زندگی کے تین تین حصے کفر و شرک کی حالت میں رہے تھے، نہ کفار و مشرکین کی خلاف جنگوں میں شرکت کی تھی، اگر کی بھی تھی تو دیر سے میدان میں گئے تھے لیکن بہت ہی جلدی بھاگ کر آ گئے تھے، یعنی ان کا تو اسلام پر کچھ خرچ اور قربان نہیں ہوا تھا کہ انکو اسلام کی حیات اور بقاء کا خیال ہو، لیکن علی(ع) اور اہل بیت کہ جنکا سب کچھ اسلام کی راہ میں قربان ہو گیا تھا۔ ان کو احساس تھا کہ اسلام و دین کی کیا قیمت ہے!!
اسی لیے علی(ع) نے حکم خداوندی سے صبر و ایثار سے کام لے کر دشمنوں اور منافقوں کی اسلام اور مسلمین کے خلاف سازش کو خاک میں ملا دیا اور اپنے حق کو اور اپنی بیوی اور بچے کی قربانی دے کر خداوند کے دین اور تمام انبیاء کی اور خاص طور رسول خدا کی زحمات کو ضائع ہونے سے بچا لیا اور قیامت تک کے آنے والے تمام انسانوں پر اتمام حجت کر کے سب کو دین کے دفاع کا طریقہ اور راستہ بھی بتا دیا۔
اس کے علاوہ علی(ع) نے اپنے اس عظیم کارنامے سے تاریخ کے ماتھے پر بہت سے سوالوں کو نقش کر دیا، جیسے:
کیا ہوا کہ رسول خدا کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا، اپنے بابا کے بعد اتنی جلدی دنیا سے رخصت ہو گئیں؟
کیا وہ اپنی عادی اور طبیعی موت سے دنیا سے رخصت ہوئی تھیں؟
کیا انکی شہادت میں انکے گھر کو جلانے کی دھمکی کا بھی اثر تھا؟
رسول خدا کی بیٹی کے گھر کو سب مسلمانوں کے سامنے کیوں آگ لگائی گئی؟
جلتے ہوئے دروازے کو انکو کس نے اور کیوں گرایا تھا؟
ان کے بچے کو کس نے سقط کیا تھا؟
رسول خدا کی بیٹی کو کس نے اور کس کے حکم پر تازیانے مارے؟
بخاری اور مسلم کے اقرار کے مطابق رسول خدا کی بیٹی کیوں ابوبکر اور عمر پر مرتے دم تک غضبناک رہی تھی؟
فغضبت فاطمة بنت رسول اللَّه(ص) فهجرت ابابكر فلم تزل مهاجرته حتی توفّیت.[26]
فوجدت فاطمة علی ابی بكر فی ذلك فهجرته فلم تكلّمه حتّی توفّیت.[27]
کیوں کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت زہرا کو رات کو مخفیانہ طور پر دفن کیا گیا تھا؟
فلمّا توفّیت دفنها زوجها علی لیلاً ولم یؤذن بها أبابكر وصلّی علیها.[28]
کیوں رسول خدا کی اکلوتی بیٹی کی مبارک قبر آج تک مخفی ہے؟
کیوں نے مسلم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ: علی، ابوبکر اور عمر کو كاذب، آثم، غادر اور خائن جانتے تھے؟
قال عمر لعلی و عباس: « فرأیتماه (ابابكر) كاذباً آثماً غادراً خائناً… فرأیتمانی كاذباً آثماً غادراً خائناً..[29]
اگر علی(ع) امر خداوندی کے تابع نہ ہوتے اور اپنی خلافت کے لیے تلوار اٹھا لیتے، اور اس لڑائی جھگڑے میں حضرت زہرا(س) قتل ہو جاتیں تو پھر تاریخ میں علی(ع)، فاطمہ کے قاتل جانے جاتے، گھر پر حملہ کرنے والوں کا دامن پاک ہی رہتا اور مذکورہ بالا سوالات کے جوابات تو دور کی بات، خود سوالات بھی تاریخ میں گم ہو جاتے!
کیونکہ تاریخ اور واقعات کو تحریف کرنے والے کم بھی نہیں ہیں اور وہ یہ کام تاریخ میں انجام بھی دیتے آ رہے تھے، جیسے جنگ صفین میں حضرت عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا کا واضح فرمان تھا کہ:
فراه النّبی (صلی الله علیه و سلم) فینفض التّراب عنه ویقول: تقتله الفئة الباغیة ویح عمّار یدعوهم الی الجنّة ویدعونه الی النّار۔
اے عمار تم کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا…[30]
کیونکہ تمام معتبر کتب میں رسول خدا کی یہ حدیث موجود تھی، اسی لیے قابل انکار بھی نہیں تھی اور معاویہ اور اسکے گروہ کے باطل اور باغی ہونے پر واضح ترین دلیل بھی تھی۔ اسی انھوں نے دن کو رات اور رات کو دن بنا کر دکھانے کی کوشش میں لشکر میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمار کو علی نے شہید کیا ہے، کیونکہ وہی عمار کو اپنے ساتھ جنگ پر لے کر آئے تھے، حالانکہ وہ بھول گئے تھے کہ اسی حدیث کے آخر میں رسول خدا نے ذکر کیا ہے کہ:
یدعوهم الی الجنّة و یدعونه الی النار۔
عمار انکو جنت کی طرف بلاتا ہے لیکن وہ عمار کو جہنم کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔[31]
رسول خدا نے اپنی اسی ایک حدیث کے ساتھ علی کے مخالفین اور دشمنوں کو اس آیت کا مصداق ثابت کر دیا کہ:
وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةً یدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَ یوْمَ الْقِیامَةِ لا ینْصَرُونَ۔[32]
ہم نے انکو ایسے رہنما قرار دیا ہے کہ جو لوگوں کو جہنم میں جانے کی دعوت دیتے ہیں۔
اسی طرح حضرت علی(ع) و حضرت زہرا(س) اور عمر اور اسکے ساتھیوں کے حملے والے واقعے میں اگر علی(ع) تلوار اٹھا لیتے اور اس لڑائی جھگڑے میں حضرت زہرا قتل ہو جاتیں تو انھوں نے کہنا تھا کہ علی(ع) نے زہرا(س) کو قتل کیا ہے اور حضرت زہرا کے گھر پر حملہ کرنے والوں کا دامن پاک ہی رہتا اور مذکورہ بالا سوالات کے جوابات تو دور کی بات، خود بہت سے سوالات بھی تاریخ میں گم ہو جاتے!
پس اس تحلیل اور تحقیق کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ صدیقۃ الکبری، شہیدۃ الاسلام حضرت زہرا(س) کی شہادت اہل سنت اور شیعہ کی معتبر کتب میں ذکر ہوئی ہے کہ جو قابل انکار نہیں ہے۔
………………………………
حواله جات
[1]. فرائد السمطین ج 2، ص 34
[2] . اصول كافی ج 1، ص 381
[3] . صحیح بخاری ج 1، 120
[4] . صحیح بخاری، ج 3، ص 83، كتاب فضائل أصحاب النّبی (ص)، ب 42، ح 232 و ب 61، مناقب فاطمة، ح 278.
[5] . صحیح بخاری، ج 3، ص 83، كتاب فضائل أصحاب النّبی (ص)، ب 42، ح 232 و ب 61، مناقب فاطمة، ح 278.
سیر اعلام النبلاء، ج 2، ص 123
[6] . صحیح بخاری، ج 1، ص 120، كتاب العلم، باب 82 كتابة العلم، حدیث 112. و ج 3، ص 318، كتاب المغازی، باب 199 مرض النّبی (ص) و وفاته، حدیث 872.و ج 4، ص 225، كتاب المرض و الطب، باب 357 قول المریض قوموا عنّی، حدیث 574. و ص 774، كتاب الاعتصام، باب 1191 كراهیة الخلاف، حدیث 2169.
[7] . كتاب المصنف، ج 7، ص 432، حدیث 37045، كتاب الفتن.
[8] . سیوطی، مسند فاطمه، ص 36.
[9]. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج 3، ص 975. و…
[10] . بلاذری، انساب الاشراف، ج 1، ص 586.
[11] . ابو الفداء، تاریخ ابی الفداء ج 1 ص 156. دار المعرفة، بیروت.
[12] . فرائد السمطین، ج 2، ص 34، 35 طبع بیروت.
[13] . سیر اعلام النبلاء، ج 15، ص 578.
[14] . اصول كافی، ج 1، ص 381، ح 2.
[15] . صحیح بخاری، ج 3، ص 253، كتاب المغازی، باب 155 غزوة خیبر، حدیث 704.
[16] . صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوة الخیبر ج 5 ، ص 83 ، حدیث 3913 ، طبع : دارالفکر ـ بیروت.
[17] . صحیح مسلم، ج 3، ص 455، كتاب الوصیه باب 5 الوقف ح 22.
[18] .صحیح بخاری، ج 3، ص 253، كتاب المغازی، باب 155 غزوة خیبر، حدیث 704.
[19] . سورة الاحزاب، آیة 53.
[20] . صحیح بخاری، ج 3، ص 451 باب 45، حدیث 1220.
[21] . صحیح بخاری، ج 4، ص 75، ب 116، ح 166.
[22] . صحیح بخاری، ج 1، ص 136، ب 109، ح 143.
[23] . تفسیر روح المعانی، ج 22، ص 72.
[24] . صحیح بخاری، ج 1، كتاب الوضوء، باب 109 خروج النّساء الی البراز.
[25] . فتح الباری، عسقلانی، ج 8، ص 391.
[26] . صحیح بخاری، ج 2، ص 504، كتاب الخمس، باب 837، ح 1265.
[27] . صحیح بخاری ج 3، ص 252، كتاب المغازی، ب 155 غزوه خیبر، حدیث 704. صحیح مسلم، ج 4، ص 30، كتاب الجهاد و السیر، باب 15، ح 52.
[28] . صحیح بخاری ج 3، ص 252، كتاب المغازی، ب 155 غزوه خیبر، حدیث 704.
[29] . صحیح مسلم، ج 4، ص 28، كتاب الجهاد و السیر، باب 15 حكم الفئ، حدیث 49.
[30] . صحیح بخاری، ج 1، ص 254، كتاب الصّلاة، باب 304، التعاون فی بناء المسجد.
[31] . صحیح مسلم، ج 4، ص 28، كتاب الجهاد و السیر، باب 15 حكم الفئ، حدیث 49.
[32] . سورة القصص، آیة 41.
منبع:https://www.valiasr-aj.com