- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/09
- 0 رائ
میثَم تمّار اَسَدی کوفی امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے آپ کی شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی۔
ایک روایت کے مطابق آپ عراق کے شہر نہروان میں پیدا ہوئے، آپ بنی اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے، لہذا اسی قبیلے سے منسوب کئے گئے ہیں۔ بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: “میرا نام سالم ہے”؛ حضرت علی(ع) نے فرمایا: “پیغمبر اکرم(ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے والدین نے تمہارا نام “میثم” رکھا تھا”، میثم نے تصدیق کردی؛ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: “اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبر(ص) نے بھی تمہیں پکارا ہے”، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت “ابو سالم” ٹھہری۔ ان کی دوسری کنیت “ابو صالح” تھی۔
حضرت میثم کو پہلے تین ائمۂ شیعہ یعنی امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام، کے اصحاب میں شمار کیا جاتا ہے، تاہم ان کی شہرت حضرت علی(ع) کے شاگرد اور قریبی ساتھی ہونے کی ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہ(ص) نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنین(ع) سے ان کی سفارش کی ہے۔ میثم کو امام علی(ع) کی خاص توجہ حاصل تھی۔ امام(ع) نے میثم کو “اسرارِ وصیت” سمیت بہت سے علوم سکھائے، انھیں غیبی امور سے آگاہ کیا اور انھیں ان “آزمائے ہوئے مؤمنین” کے گروہ میں قرار دیا جو رسول اللہ(ص) کے اوامر اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کے ادراک اور تحمل کے سلسلے میں اعلی ترین مقام و منزلت پر فائز ہیں۔
حضرت امام علی(ع) نے میثم تمار کو ان کی شہادت کی کیفیت، ان کے قاتل اور کھجور کے درخت پر لٹکائے جانے کی خبر دی تھی کہا جاتا ہے کہ میثم تمّار اسی درخت کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز بجا لاتے تھے جس پر انھیں سولی چڑہائے کی خبر انھیں حضرت علی نے دی تھی۔
میثم تمّار کی گرفتاری اور شہادت کے سلسلے میں دو روایات نقل ہوئی ہیں:
1:۔ اموی خلیفہ یزید بن معاویہ (دور حکومت سنہ60 تا 64 ہجری قمری)، جانتا تھا کہ میثم تمّار امیرالمؤمنین(ع) کے سنجیدہ اصحاب اور حامیون میں سے ہیں چنانچہ اس نے کوفہ میں اپنے والی عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ انہیں تختہ دار پر لٹکا دے۔ چنانچہ، میثم جو عمرہ بجا لانے کے بعد مکہ سے کوفہ کی جانب آ رہے تھے، ابن زیاد کے گماشتوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ قیدخانے میں ان کا سامنا مختار ثقفی سے ہوا تو انھیں پیشن گوئی کی کہ وہ بہت جلد رہا ہوجائیں گے اور کوفہ کی حکومت حاصل کریں گے۔ ابن زیاد نے میثم کی قوم کے سربراہ سے کہا تھا کہ “میثم کو اس کی تحویل میں دے دے ورنہ اس کو مار دے گا”۔ ابن زیاد نے بظاہر، اپنی سپاہ کے 100 اس شخص کو دیئے اور انھوں نے قادسیہ کے مقام پر میثم کو گرفتار کیا اور انہیں کوفہ لے گئے؛ اور پھر ابن زیاد کے حکم پر انھیں تختہ دار پر لٹکایا۔
2:۔ دوسری روایت کے مطابق، میثم کوفہ کے بعض تاجروں کی درخواست پر کوفہ کے عامل کی شکایت پہنچانے کی غرض سے، ان کے ہمراہ ابن زیاد کے پاس پہنچے تاکہ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ کوفہ کے عامل کو برطرف کر دے۔ میثم نے وہاں بلیغ خطبہ دیا۔ عَمروبن حُرَیث، (جو ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا والی، عثمانی مسلک اور دشمن اہل بیت(ع) تھا) دارالامارہ میں موجود تھا اس نے میثم پر جھوٹا ہونے اور جھوٹوں کی پیروی کا الزام لگایا لیکن میثم نے کہا “میں سچا ہوں اور سچے (علی علیہ السلام) کا پیروکار ہوں”۔ ابن زبیر نے میثم کو حکم دیا کہ علی (ع) سے بیزاری کا اظہار اور آپ(ع) کی بدگوئی کریں۔ اس نے میثم کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے گا اور انہیں تختہ دار پر لٹکائے گا۔ اس موقع پر جناب میثم نے شہادت کا انتخاب کیا اور کہا: “امام علی(ع) نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ ابن زیاد میرے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا اور میری زبان کو بھی کاٹ دے گا”۔ ابن زیاد نے بزعم خود، اس غیبی خبر کو جھٹلانے کی خاطر حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور انہیں عمرو بن حریث کے گھر کے قریب تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔
میثم تمار نے تختۂ دار پر بلند آواز سے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت علی(ع) کی حیرت انگیز اور چھپی ہوئی حدیثیں سننے کے لئے جمع ہو جائیں۔ انھوں نے بنو امیہ کے فتنوں اور بنو ہاشم کے بعض فضائل بیان کیے۔ عمرو بن حریث نے میثم کی حق بیانی اور عوام کے رش کو دیکھا تو عجلت کے ساتھ ابن زیاد کے پاس پہنچا اور اس کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور ابن زیاد سے درخواست کی کہ میثم کی زبان کٹوا دے۔ ابن زیاد مان گیا اور اپنے ایک محافظ کو ایسا کرنے کے لئے روانہ کیا۔ میثم نے زبان کٹوانے سے پہلے حاضرین کو یاد آوری کرا دی کہ “امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ابن زیاد میرے ہاتھ پاؤں اور زبان کٹوا دے گا اور ابن زیاد نے کہا تھا کہ وہ میری زبان نہیں کٹوائے گا اور میرے مولا کی پیشنگوئی کو جھٹلا دے گا لیکن وہ اس پیشنگوئی کو نہ جھٹلا سکا۔ مروی ہے کہ میثم تمّار کی زبان کاٹ دی گئی تو کچھ لمحے بعد وہ جام شہادت نوش کر گئے۔
میثم تمّار کی شہادت 22 ذی الحج سنہ 60 ہجری قمری میں، امام حسین(ع) کے عراق میں داخلے سے قبل واقع ہوئی، ابن زیاد نے ان کے جسم بےجان کی تدفین سے منع کیا تاہم کوفہ کے چند کھجور فروشوں نے رات کی تاریکی میں ان کی میت تختۂ دار سے اتار کر سپرد خاک کر دی۔