- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/01/05
- 0 رائ
عدل الہی کیا ہے؟ خدا کی صفات میں سے صرف عدل کو اصو ل دین کا جزو کیوں قرار دیا گیا ہے؟
”عدالت“اور”مساوات“کے در میان فرق
۱۔تمام صفات الہٰی سے کیوں صرف عدل کو چنا گیا ہے ؟
اس بحث میں دوسری چیزوں سے پہلے یہ نکتہ واضح ہو نا چاہئے کہ عدالت کو جو کہ صفات خدا میں سے ایک صفت ہے ،بڑے علماء نے دین اصول کے پنجگانہ میں سے ایک اصل کے طور پرکیوں منتخب کیا ہے؟
خداوند متعال عالم ہے،قادر ہے،عادل ہے،حکیم ہے،رحمان ورحیم اور ازلی وابدی ہے،خالق ورازق ہے۔ان تمام صفات میں سے کیوں صرف عدالت کا انتخاب کیا گیا ہے اور اسی کو دین کے پنجگانہ اصول میں سے ایک قرار دیا گیا ہے؟
اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند مطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:
۱۔خدا وند متعال کی صفات میں عدالت کو ایک ایسی اہمیت حاصل ہے کہ بہت سی دوسری صفات اس کی طرف پلٹتی ہیں ،کیونکہ”عدالت“ اپنے وسیع معنی میں ہر ایک چیز کو اپنی جگہ پر قرار دینا ہے ۔اس صورت میں حکیم ،رزّاق،رحمان و رحیم اور ان جیسی دوسری صفات اس پر منطبق ہو تی ہیں۔
۲۔معاد کا مسئلہ بھی ”عدل الہی“ پر منحصر ہے۔انبیاء ومرسلین کی نبوت ورسالت اور ائمہ کی امامت بھی عدل الہٰی سے مربوط ہیں۔
۳۔اسلام کی ابتداء میں عدل الہٰی کے مسئلہ پر کچھ اختلا فات رو نما ہوئے:
سنّی مسمانوں کا ایک گروہ جنھیں ”اشاعرہ“ کہتے تھے، عدل الہٰی کے بالکل منکر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کے بارے میں عدل و ظلم کو ئی مفہوم نہیں رکھتا ہے۔پوری کائنات اس کی ملک ہے اور اس سے متعلق ہے،وہ جو بھی کام انجام دے وہی عین عدالت ہے۔ یہاں تک کہ وہ حسن و قبح عقلی کے بھی قائل نہیں تھے ۔وہ کہتے تھے کہ ہماری عقل اکیلے ہی برے اور بھلے کو درک نہیں کر سکتی ہے ،یہاں تک کہ نیکی کر نے کی خوبی اور ظلم کی بدی کو بھی درک نہیں کر سکتی ہے(وہ اس قسم کے بہت سے مغالطے سے دو چار تھے)
اہل سنت کا ایک دوسرا گروہ جنھیں ”معتزلہ“ کہتے تھے اور تمام”شیعہ“ پرور دگار عالم کے بارے میں عدالت کے اصول کے قائل تھے اور کہتے تھے وہ ہر گز ظلم وستم نہیں کرتا ہے۔
ان دو گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر نے کے لئے دوسرے گروہ کا نام ”عدلیہ“ رکھا گیا،جوعدل الہٰی کو اپنے مکتب کی علا مت کے عنوان سے اصول دین کا جزو سمجھتے تھے اور پہلے گروہ کا نام ”غیر عدلیہ“رکھا گیا،شیعہ”عدلیہ“گروہ میں شمار ہو تے تھے۔
شیعوں نے دوسرے تمام عدلیہ سے اپنے آپ کو مشخص کر نے کے لئے ”امامت“ کو بھی اصول دین کا جزو قرار دیا۔
لہذا جہاں کہیں بھی ”عدل“و”امامت“کی بات ہو وہ”شیعہ امامیہ“ کی پہچان ہے ۔
۴۔چونکہ فروع دین ہمیشہ اصول دین کا ایک پرتو ہے اور عدالت الہٰی کا اثر انسانی معاشروں میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے اور انسانی معاشرے کی اہم ترین بنیاد بھی اجتماعی عدالت پر منحصر ہے ،اس لئے عدالت کو اصول دین کے ایک جزو کے طور پر چن لینا ایک ایسا راز ہے جو انسانی معاشرے میں عدل کو زندہ کر نے اور ہر قسم کے ظلم وستم سے مقابلہ کر نے کا سبب بنتا ہے۔
جس طرح پرور دگار کی توحید ذات و صفات اور اس کی عبادت و پر ستش کی تو حید انسانی معا شرے میں وحدت و یکجہتی اور اتحاد کا نور ہے اور توحید صفوف کو تقویت بخشتی ہے ،اسی طرح انبیاء اور ائمہ کی رہبری بھی انسانی معا شرے میں ”سچی (عادلانہ)رہبری“کا مسئلہ القا کرتی ہے۔اس لئے پوری کائنات پر حاکم پروردگار کی عدالت کی اصل انسانی
معاشرے کے تمام مواقع میں عدالت کی ضرورت کی طرف ایک اشارہ و راز ہے۔
عظیم عالم خلقت عدالت پر بر قرار ہے۔انسانی معاشرہ بھی اس کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔
۲۔عدا لت کیا ہے؟
عدالت کے دو مختلف معانی ہیں:
۱۔اس لفظ کے وسیع معنی ،جیسا کہ ہم نے بیان کئے ”ہر چیز کا اپنی جگہ پر قرار پانا“ ہیں ۔دوسرے الفاظ میں موزون اور متعادل ہو نا ہے ۔
عدالت کے یہ معنی ،پوری خلقت کائنات، عالم کے نظام ،ایٹم ،انسانی وجود کی بناوٹ اور تمام نباتات وحیوانات میں پائے جاتے ہیں ۔
یہ وہی بات ہے جو پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ آپنے فر مایا:
”بالعدل قامت السموٰت والارض“
”عدالت کے ذریعہ آسمان اور زمین برقرار ہیں“
مثال کے طور پر اگر زمین کے قوائے ”جاذبہ“و ”دافعہ“ اپنے توازن کو کھودیں اور ان میں سے ایک دوسرے پر غلبہ پاجائے تو زمین ،یاسورج کی طرف جذب ہو جائے گی،اس میں آگ لگ جائے گی اور نابود ہو جائے گی اور یا اپنے مدار سے خارج ہو کر وسیع فضا میں آوارہ ہو کر نابود ہو جائے گی ۔
عدالت کے اسی معنی کو شاعر نے مندرجہ ذیل مشہور اشعار میں بیان کیا ہے :
عدل چبود ؟وضع اندر موضعش ظلم چبود؟وضع در نا موضعش
عدل چبود؟آب دہ اشجاررا ظلم چبود ؟آب دادن خاررا
عدل کیا ہے؟ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا ۔ظلم کیا ہے ؟چیز کو اس جگہ پر نہ رکھنا۔
عدل کیا ہے؟ درختوں کو پانی دیناظلم کیا ہے ؟کانٹوں کو پانی دینا۔
واضح ہے کہ پھولوں کے پودے یا میوہ دار درخت کی آبیاری کی جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال ہے اور عین عدالت ہے ۔اگر بیکار گھاس پھوس یا کانٹوں کی آبیاری کی جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال نہیں ہے اور عین ظلم ہے۔
۲۔عدالت کے دوسرے معنی”افراد کے حقوق کی رعایت کر نا“ہیں اوراس کا مخالف”ظلم“ یعنی دوسروں کا حق چھین کر اپنے لئے مخصوص کر نا،یا کسی کا حق چھین کردوسرے کو دینا یا تفریق کا قائل ہو نا ہے ،اس صورت میں کہ بعض کو ان کا حق ادا کریں اور بعض کو ان کا حق ادا نہ کریں۔
واضح ہے کہ دوسرے معنی”خاص“اور پہلے معنی ”عام“ہیں قابل توجہ بات ہے کہ”عدل“کے دونوں معانی خداوند متعال کے بارے میں صحیح ہیںاگر چہ ان مباحث میں زیادہ تر دوسرے معنی مقصود ہیں ۔
عدل الہٰی کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال نہ کسی کا حق چھینتا ہے اور نہ کسی کا حق کسی دوسرے کو دیتا ہے اور نہ افراد کے در میان امتیازبرتتا ہے،وہ ہر لحاظ سے عادل ہے۔ اس کی عدالت کے دلائل سے اگلی بحث میں آگاہ ہوں گے۔
”ظلم“کسی کا حق چھیننے کے معنی میں ہو یا کسی کا حق کسی دوسرے کو دینے کے معنی میں یاتفریق وزیادتی کی صورت میں ،خدا کی ذات کے بارے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وہ ہرگز نیک انسان کو سزا نہیں دیتا ہے اور بُرے انسان کی تشویق نہیں کرتا ہے۔کسی سے دوسرے کے گناہ پر مواخذہ نہیں کرتا ہے اوربُرے اور بھلے سے ایک ہی قسم کا برتاؤ نہیں کرتا ہے۔
یہاں تک کہ اگر ایک بڑے معاشرے میں ایک شخص کے علاوہ سب گناہ گارہوں تو خدا وند متعال اس ایک شخص کے حساب کو دوسروں سے جدا کرتا ہے اور اسے
گنا ہ گاروں کے ساتھ سزا میں شامل نہیں کرتا ہے۔
یہ جو”اشاعرہ“کی جماعت نے کہا ہے کہ”اگر خدا تمام انبیاء کوجہنّم میں ڈال دے اور تمام بد کاروں اور ظالموں کو بہشت میں ڈال دے، تو یہ ظلم نہیں ہے“یہ ایک بیہودہ، ناشائستہ، شرم ناک اور بے بنیاد بات ہے ،جس شخص کی بھی عقل خرافات اور تعصب سے آلودہ نہ ہو گی وہ اس بات کے قبح کی گواہی دے گا۔
۳۔مساوات اور عدالت میں فرق۔
ایک اور اہم نکتہ،جس کی طرف اس بحث میں اشارہ کر نا ضروری ہے ،یہ ہے کہ بعض اوقات ”عدالت“کا ”مساوات“ سے مغالطہ کیا جاتا ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ عدالت کے معنی یہ ہیں کہ مساوات کی رعایت کی جائے،جبکہ ایسا نہیں ہے۔
عدالت میں ہرگز مساوات شرط نہیں ہے بلکہ حق اور ترجیحات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے ۔
مثال کے طور پر ایک جماعت کے شاگردوں میں عدالت یہ نہیں ہے کہ سب کو مساوی نمبر دئے جائیں اور دو مزدوروں کے در میان یہ عدالت نہیں ہے کہ دونوں کو مساوی مزدوری دی جائے ۔بلکہ عدا لت یہ ہے کہ ہر شاگرد کو اس کی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق نمبر دئے جائیں اور ہر مزدور کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری دی جائے۔
عالم فطرت میں بھی وسیع معنی میں عدالت کا مفہوم یہی ہے ۔اگر ایک وہیل مچھلی کا دل جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہو تا ہے،ایک چڑیا کے دل کے برابر ہوتاتو یہ عدالت نہیں تھی ۔اگر ایک مضبوط لمبے درخت کی جڑ ایک چھوٹے سے پودے کی جڑ کے برابر ہو تو یہ عدالت نہیں ہے بلکہ عین ظلم ہے۔
عدالت کے معنی یہ ہیں کہ ہر مخلوق اپنے حق،استعداد اور صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ حاصل کرے۔