- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- 2022/02/14
- 0 رائ
عدل الہی کیا ہے؟ خدا کی صفات میں سے صرف عدل کو اصول دین کا جزو کیوں قرار دیا گیا ہے؟
”عدالت“اور”مساوات“کے در میان فرق
۱۔ تمام صفات الہٰی سے کیوں صرف عدل کو چنا گیا ہے؟
اس بحث میں دوسری چیزوں سے پہلے یہ نکتہ واضح ہو نا چاہئے کہ عدالت کو جو کہ صفات خدا میں سے ایک صفت ہے ،بڑے علماء نے دین اصول کے پنجگانہ میں سے ایک اصل کے طور پر کیوں منتخب کیا ہے؟
خداوند متعال عالم ہے، قادر ہے، عادل ہے، حکیم ہے، رحمان و رحیم اور ازلی و ابدی ہے، خالق ورازق ہے۔ ان تمام صفات میں سے کیوں صرف عدالت کا انتخاب کیا گیا ہے اور اسی کو دین کے پنجگانہ اصول میں سے ایک قرار دیا گیا ہے؟
اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند مطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:
۱۔خدا وند متعال کی صفات میں عدالت کو ایک ایسی اہمیت حاصل ہے کہ بہت سی دوسری صفات اس کی طرف پلٹتی ہیں ،کیونکہ”عدالت“ اپنے وسیع معنی میں ہر ایک چیز کو اپنی جگہ پر قرار دینا ہے ۔اس صورت میں حکیم ،رازق، رحمان و رحیم اور ان جیسی دوسری صفات اس پر منطبق ہوتی ہیں۔
۲۔معاد کا مسئلہ بھی ”عدل الہی“ پر منحصر ہے۔ انبیاء و مرسلین کی نبوت و رسالت اور ائمہ کی امامت بھی عدل الہٰی سے مربوط ہیں۔
۳۔اسلام کی ابتداء میں عدل الہٰی کے مسئلہ پر کچھ اختلافات رو نما ہوئے:
سنّی مسمانوں کا ایک گروہ جنھیں ”اشاعرہ“ کہتے تھے، عدل الہٰی کے بالکل منکر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کے بارے میں عدل و ظلم کو ئی مفہوم نہیں رکھتا ہے۔پوری کائنات اس کی ملک ہے اور اس سے متعلق ہے، وہ جو بھی کام انجام دے وہی عین عدالت ہے۔ یہاں تک کہ وہ حسن و قبح عقلی کے بھی قائل نہیں تھے ۔وہ کہتے تھے کہ ہماری عقل اکیلے ہی برے اور بھلے کو درک نہیں کر سکتی ہے ، یہاں تک کہ نیکی کرنے کی خوبی اور ظلم کی بدی کو بھی درک نہیں کر سکتی ہے(وہ اس قسم کے بہت سے مغالطے سے دو چار تھے)
اہل سنت کا ایک دوسرا گروہ جنھیں ”معتزلہ“ کہتے تھے اور تمام”شیعہ“ پرور دگار عالم کے بارے میں عدالت کے اصول کے قائل تھے اور کہتے تھے وہ ہر گز ظلم وستم نہیں کرتا ہے۔
ان دو گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر نے کے لئے دوسرے گروہ کا نام ”عدلیہ“ رکھا گیا، جو عدل الہٰی کو اپنے مکتب کی علامت کے عنوان سے اصول دین کا جزو سمجھتے تھے اور پہلے گروہ کا نام ”غیر عدلیہ“رکھا گیا، شیعہ”عدلیہ“گروہ میں شمار ہو تے تھے۔
شیعوں نے دوسرے تمام عدلیہ سے اپنے آپ کو مشخص کر نے کے لئے ”امامت“ کو بھی اصول دین کا جزو قرار دیا۔
لہذا جہاں کہیں بھی ”عدل“و”امامت“کی بات ہو وہ”شیعہ امامیہ“ کی پہچان ہے ۔
۴۔چونکہ فروع دین ہمیشہ اصول دین کا ایک پرتو ہے اور عدالت الہٰی کا اثر انسانی معاشروں میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے اور انسانی معاشرے کی اہم ترین بنیاد بھی اجتماعی عدالت پر منحصر ہے ،اس لئے عدالت کو اصول دین کے ایک جزو کے طور پر چن لینا ایک ایسا راز ہے جو انسانی معاشرے میں عدل کو زندہ کر نے اور ہر قسم کے ظلم وستم سے مقابلہ کر نے کا سبب بنتا ہے۔
جس طرح پرور دگار کی توحید ذات و صفات اور اس کی عبادت و پر ستش کی تو حید انسانی معا شرے میں وحدت و یکجہتی اور اتحاد کا نور ہے اور توحید صفوف کو تقویت بخشتی ہے ، اسی طرح انبیاء اور ائمہ کی رہبری بھی انسانی معا شرے میں ”سچی (عادلانہ)رہبری“کا مسئلہ القا کرتی ہے۔اس لئے پوری کائنات پر حاکم پروردگار کی عدالت کی اصل انسانی
معاشرے کے تمام مواقع میں عدالت کی ضرورت کی طرف ایک اشارہ و راز ہے۔
عظیم عالم خلقت عدالت پر برقرار ہے۔ انسانی معاشرہ بھی اس کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا ہے۔