انسانی معاشرے کی قیادت ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔ کوئی بھی شخص امتیازی خصوصیات کے بغیر معاشرے کی رہنمائی نہیں کرسکتا، خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق ہو۔ جیسے سیاسی قائدین اور معاشی ماہرین اپنے اپنے شعبوں میں خاص قابلیتوں کی بنا پر منتخب ہوتے ہیں، اسی طرح خطا سے معصوم الہٰی رہبروں کا انتخاب بھی ان کی خصوصی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ خطا سے معصوم رہبر چونکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی کرتے ہیں، اس لئے ان میں دوسرے لوگوں کی نسبت اعلیٰ ترین صفات کا پایا جانا ضروری ہے۔
انبیاء اور ان کے جانشینوں میں بنیادی خصوصیات کا پایا جانا نہایت ہی ضروری ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔ عام لوگوں کی نسبت گناہ اور خطا سے معصوم و مبرا ہونا۔
2۔ وحی کی دریافت اور اس کی تبلیغ میں ہر قسم کے غلطی اور خطا سے معصوم و محفوظ ہونا۔
کس طرح ایک انسان گناہ اور خطا سے معصوم و محفوظ رہ سکتا ہے۔ اور عصمت کا مفہوم ہے کیا؟ جو الہٰی رہبروں کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
عصمت کیا ہے؟
عصمت ایک نفسانی صفت اور ایک باطنی طاقت ہے جو اپنے حامل کو گناہ ہی سے نہیں بلکہ گناہ انجام دینے کی فکر یا خیال سے بھی دور رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا باطنی خوف ہے جو انسان کو گناہ سے حتٰی گناہ کے ارادے سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
خطا سے معصوم ہونا کیسے ممکن؟
یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص تمام گناہوں سے محفوظ اور خطاؤں سے معصوم ہو سکتا ہے اور وہ نہ صرف گناہ نہ کرے بلکہ گناہ اور نافرمانی کے ارادہ سے بھی دور رہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ کی برائیوں کے علم کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ کی برائیوں کے سلسلے میں ہر درجہ کا علم انسان کو گناہ و خطا سے معصوم بنا دیتا ہے، بلکہ علم کی حقیقت اس قدر قوی ہو جو گناہ کے برے آثار کو انسان کی نگاہ میں اس قدر مجسم کردے کہ انسان ان برے کاموں کے انجام کو اپنی آنکھوں میں مجسم ہوتے ہوئے دیکھے۔ اس صورت میں گناہ اس کے لئے ”محال عادی“ (وہ بات جس کا ہونا از روئے عادت ناممکن ہو) ہوجائے گا۔
خطا سے معصوم ہونے پر چند مثالیں
ذہن کو اور قریب کرنے کے لئے حسب ذیل مطلب پر توجہ فرمائیں۔
ہم میں سے ہر ایک شخص بعض ایسے اعمال سے جن سے ہماری جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے ایک طرح سے ایسے خطرات اور خطا سے معصوم ہیں۔ اس طرح کا تحفظ اس علم کی پیداوار ہے جو ان اعمال کے نتائج کے طور پر ہمیں حاصل ہے مثال کے طور پر ایک دوسرے کے دشمن دو ملک جن کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور ہر طرف سے فوجی، تھوڑے فاصلے سے بلند برجوں پر قوی دوربینوں، تیز لائٹوں اور سدھے ہوئے کتوں کے ذریعے سرحد کی نگرانی کررہے ہیں۔
اور خاص طور سے کسی کے سرحد پار کرنے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی سرحد سے ایک قدم بھی آگے بڑھا گولوں سے بھون دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں کوئی عقلمند انسان سرحد پار کرنے کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لا سکتا چہ جائیکہ عملاً اقدام کرے۔ ایسا انسان اس عمل کے سلسلے میں ایک طرح سے ایسی خطا سے معصوم و محفوظ ہے۔
زیادہ دور نہ جائیں، ہر عاقل انسان جسے اپنی زندگی سے پیار ہے، قاتل زھر کے مقابل جس کا کھانا اس کے لئے جان لیوا ہوگا یا بجلی کے ننگے تار کے مقابل جس کا لمس کرنا اسے جلا کر سیاہ کردے گا یا اس بیمار کی بچی ہوئی غذا کے مقابل، جسے ”جذام“ یا ”برص“ کی شدید بیماری ہوئی ہو، جس کے کھانے سے اس کے اندر یہ مرض سرایت کرجائے گا، ایک طرح کا تحفظ اور عصمت رکھتا ہے۔ یعنی وہ ہرگز اور کسی بھی قیمت پر یہ اعمال انجام نہیں دیتا اور اس سے ان اعمال کا ہونا ایک ”محال عادی“ ہے۔
اس کا اس طرح کی خطا سے معصوم و محفوظ رہنے کا سبب بھی ان اعمال کے برے نتائج کا اس کی نظر میں مجسم ہونا ہے۔ عمل کے خطرناک آثار اس کی نظر میں اس قدر مجسم اور اس کے دل کی نگاہ میں اتنے نمایاں ہوجاتے ہیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی انسان اپنے ذہن میں ان کاموں کے انجام دینے کا خیال تک نہیں لاتا، چہ جائیکہ وہ یہ عمل انجام دے ڈالے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص یتیم و بےنوا کا مال ہضم کرجانے میں کوئی شرم نہیں رکھتا جبکہ اس کے مقابل دوسرا شخص ایک پیسہ حرام کھانے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ پہلا شخص پوری بے باکی کے ساتھ یتیموں کا مال کیوں کھا جاتا ہے لیکن دوسرا شخص حرام کے ایک پیسے سے بھی کیوں پرہیز کرتا ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ پہلا شخص دوسرے سے اس قسم کی نافرمانی کے برے انجام کا اعتقاد ہی نہیں رکھتا اور اگر قیامت کا تھوڑا بہت ایمان رکھتا بھی ہے جب بھی تیزی سے تمام ہوجانے والی مادی لذتیں اس کے دل کی آنکھوں پر اس کے برے انجام کی طرف سے ایسا پردہ ڈال دیتی ہیں کہ ان کے برے آثار کا ایک ہلکا سا سایہ اس کی عقل کی نگاہوں کے سامنے سے گذر کر رہ جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
لیکن دوسرا شخص اس گناہ کے برے انجام پر اتنا یقین رکھتا ہے کہ مالِ یتیم کا ہر ٹکڑا اس کی نظر میں جھنم کی آگ کے ٹکڑے کے برابر ہوتا ہے اور کوئی عقل مند انسان آگ کھانے کا اقدام نہیں کرتا، کیونکہ وہ علم و بصیرت کی نگاہ سے دیکھ لیتا ہے کہ یہ مال کس طرح جھنم کی آگ میں بدل جاتاہے۔ لہٰذا وہ اس عمل اور خطا سے معصوم و محفوظ رہتا ہے۔
اگر پہلے شخص کو بھی ایسا ہی علم اور ایسی ہی آگاہی حاصل ہوجائے تو وہ بھی دوسرے شخص کی طرح یتیم کا مال ظالمانہ طریقے سے ہڑپ نہیں کرے گا۔ جو لوگ سونے اور چاندی کا ڈھیر اکٹھا کرلیتے ہیں اور خدا کی طرف سے واجب حقوق کو ادا نہیں کرتے قرآن مجید ان کے سلسلے میں فرماتا ہے:
’’يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا۟ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ‘‘۔[1]
جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لئے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے۔
اب اگر ایسا خزانہ رکھنے والے اس منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور یہ دیکھ لیں کہ ان جیسے افراد کا کیا انجام ہوا، اس کے بعد انہیں تنبیہ کی جائے کہ اگر تم بھی اپنی دولت کو جمع کرکے رکھو گے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے تو تمھارا بھی یہی انجام ہوگا تو وہ بھی فوراً اپنی چھپائی ہوئی دولت کو نکال کر خدا کی راہ میں خرچ کرڈالیں گے۔
اکثر بعض افراد اسی دنیا میں الٰہی سزا و عذاب کے اس منظر کو دیکھے بغیر اس آیت کے مفہوم پر اس قدر ایمان رکھتے ہیں جو دیکھی ہوئی چیز پر ایمان سے کم نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر دنیاوی و مادی پردے ان کی نگاہوں سے ہٹا دیئے جائیں جب بھی ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ایسی صورت میں یہ شخص اس (خزانہ جمع کرنے کے ) گناہ سے محفوظ رہتا ہے، یعنی ہرگز سونا چاندی اکٹھا نہیں کرتا۔
اب اگر ایک شخص یا ایک گروہ کائنات کے حقائق کے سلسلے میں کامل اور حقیقی آگاہی و معرفت رکھنے کی وجہ سے تمام گناہوں کے انجام کے سلسلے میں ایسی ہی حالت رکھتا ہو اور گناہوں کی سزا ان پر اس قدر نمایاں اور واضح ہو کہ مادی حجاب نگاہوں سے اٹھنے یا زمان و مکان کے فاصلوں کے باوجود ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نہیں آتا تو اس صورت میں یہ شخص یا وہ گروہ ان تمام گناہوں کے مقابل سو فیصدی تحفظ اور عصمت رکھتا ہے۔ نتیجے میں ان سے نہ صرف گناہ سرزد نہیں ہوتے بلکہ انہیں گناہ کا خیال بھی نہیں آتا۔
لہٰذا یہ کہنا چاہئے کہ عصمت کسی ایک چیز یا تمام چیزوں میں اعمال کے انجام و نتائج کے قطعی علم اور شدید ایمان کے اثر سے پیدا ہوتی ہے اور ہر انسان بعض امور کے سلسلے میں ایک طرح کی عصمت رکھتا ہے مگر انبیائے الٰہی اعمال کے انجام سے مکمل آگاہی اور خدا کی عظمت کی کامل معرفت کی وجہ سے تمام گناہوں کے مقابل مکمل عصمت رکھتے ہیں اور اسی علم و یقین کی بنا پر گناہ کے تمام اسباب، خواہشوں اور شہوتوں پر قابو رکھتے ہیں اور ایک لمحے کے لئے بھی خدا کے معین کردہ حدود سے سرکشی نہیں کرتے۔
کیا انبیاء اور ان کے جانشین خطا کرنے پر قادر نہیں؟
یہ صحیح ہے کہ انبیائے کرام اور ان کے جانشین گناہ اور ہر طرح کی نافرمانی اور خطا سے معصوم اور محفوظ ہیں، لیکن اس تحفظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ گناہ کے کام انجام دینے کی توانائی نہیں رکھتے اور خدا کا حکم بجا لانے پر مجبور ہیں۔ بلکہ یہ حضرات بھی تمام انسانوں کی طرح عمل کی آزادی اور اختیار رکھتے ہیں اور اطاعت یا نافرمانی دونوں پر انہیں قدرت حاصل ہے لیکن یہ لوگ اپنی باطنی آنکھوں سے جو کائنات کے حقائق سے متعلق ان کے وسیع علم کی وجہ سے انہیں حاصل ہوئی ہیں۔
اعمال کے نتائج و انجام کا مشاہدہ کرلیتے ہیں اور ان نتائج سے جنہیں شریعت کی زبان میں عذاب کہا جاتا ہے، واقف و آگاہ رہتے ہیں، لہٰذا ہر طرح کے گناہ اور نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لئے حسب ذیل عبارت پر غور کیجئے:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوند عالم ہر طرح کے برے اور قبیح کام انجام دینے پر قادر ہے لیکن اس سے کبھی اس طرح کا کام صادر نہیں ہوتا جو اس کے عدل اور اس کی حکمت کے خلاف ہو اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ ہر شئے پر قادر ہے۔ معصوم افراد بھی گناہ کے سلسلے میں یہی کیفیت رکھتے ہیں وہ لوگ بھی گناہ کرنے کی قدرت و توانائی رکھنے کے باوجود معصیت و گناہ کی طرف نہیں جاتے۔
نتیجہ
پس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر ایک عام انسان گناہ اور خطا سے معصوم اور محفوظ ہوسکتا ہے تو وارثان و جانشین انبیاء بدرجہ اولٰی خطا سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
حوالہ جات
[1] ۔ سورہ توبہ، آیت 35۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، تئیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔