- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/26
- 0 رائ
تالیف: ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی
علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا هے:
اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجو سے حاصل کیا جاتا هے انہیں ”علوم فی القرآن” کہتے ہیں۔
ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتا هے انہیں علوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔
علوم فی القرآن: قاضی ابو بکر بن عربی نے ”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا هے
(۱) توحید
(۲) تذکیر
(۳) احکام
اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی ۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیا هے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیر اور تمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا هے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیا هے ” وَاِلٰہُکم اِلٰہ وَّاحِد’‘” اس میں توحیدِ ذات، توحید افعال اور توحید صفات پوشیدہ ہیں علم تذکیر کے لئے ” وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین“ کی مثال دی گئی هے اور تیسرے علم لئے ”وَاَنٍ اَحْکُمْ بینھم“ کو شاہد کے طور پر لایا گیا هے۔ مصنف کہتے ہیں کہ فاتحتہ الکتاب کو اسی لئے ”امّ الکتاب” کہا جاتا هے کہ اس میں تینوں اقسام توحید، تذکیر اور احکام کا ذکر موجود هے۔
مثلاً سورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید هے” اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین“ عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق هے۔
” اِھدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم” سے لیکر آخر تک، تذکیر کا ذکر هے۔
اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیں سارا قرآن تین علوم پر مشتمل هے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم، نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات) محمد بن جریر طبری کہتے ہیں:
قرآن تین علوم پر مشتمل هے توحید، اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا هے ” قُل ھُواَاللہُ اَحَدْ” قرآن کے برابر هے چونکہ یہ سورت سراسر توحید هی هے۔
عُلوم الِقُرآن
کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے، قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیں اس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ هے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے هوئے ہیں اخبار، قصص، حِکم، موعظہ، وعدہ، وعید، امر، نہی، تنذیر، تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔
قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیا گیا هے.
” وَانِّہٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین”
تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا هے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیا تاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں هے۔
لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ هے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہیں معارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں هے؟ ہرگز نہیں معرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ هوگی کلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ هو گی۔
قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی هے: ” ھُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منہ آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ ھُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِہاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِہم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَہ منہُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیلہ وَماَیعلم تَاوِیلَہ اِلاَاللہ وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِہ کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب”
(وہی خدا هے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خدا کی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں بعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ و فساد پیدا کریں حالانکہ ان کی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا هے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ هے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔
قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں
حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے هو کر آیت ” وَفاَ کِہَةً وَاَباًّ” کی تلاوت کی اور کہا فاکِہَة کو جانتا هوں لیکن نہیں جانتا کہ اَبّاً سے کیا مراد هے؟۔
بزرگ صحابی اور حبرالامة ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے هوئے میرے پاس آئے وہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رهے تھے اُن میں سے ایک نے کہا ”افطرتھا” یعنی ابتدیتھا یعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا هے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ هوا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے ایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیں جب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر هو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا هے۔
علوم قرآن پرپہلی کتاب
علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین هوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیں ابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا هے۔
ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔ تسمیة الکتب المصنفةفی تفسیر القرآن
۲۔ فی الغات القرآن
۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ
۴۔ فی القِرات
۵۔ الکتب الموٴلِّفَہ فی غریب القرآن
۶۔ فی لاٰماٰت القرآن
۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن
۸۔ وقف التمام
۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن
۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن
۱۱۔ فی اختلاف المصاحف
۱۲۔ اجزاء القرآن
۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن
۱۴۔ من فضائل القرآن
۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف
۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ
۱۷۔ الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن
۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ
۱۹۔ الکتب المولفَةِ فی الْہٰاآتِ ورُجُوعِہٰا
۲۰۔ نزول القرآن
۲۱۔ احکام القرآن
۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن
لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب هے جو ” الاتقان والبرھان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے هوئے هین، ہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
حاجی خلیفہ(۳) نے ابو القاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب ” التَّنبیہ عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاهے۔
چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں هے لہذا معلوم نہیں هے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی هے جو ہمارے مد نظر هے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔
مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے هوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور هے وہ کہتے ہیں۔
” میں نے مصر کے دارالکتب میں ” البُرھان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشهور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون(۴) میں ” الشامل فی علوم القرآن” نامی کتاب کا تذکرہ ملتا هے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی هے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں هے لہذا مطمن نہیں هوا جا سکتا کہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم هے جو کہ ہمارے پیش نظر هے یا نہیں۔
سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ” وَمن المصنّفاّت فی مثل ھذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے موٴلفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب ” البرھان فی مشکلات القرآن“ هے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیز بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوٴفی۴۹۴) هے۔