- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/26
- 0 رائ
تالیف: ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی(متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب ” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن” اور ایک دوسری کتاب ” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن” کے نام سے لکھی هے۔
سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا هے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُزٴ قرار دیا هے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا هے۔
ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے ” جمال القُرّاء” تالیف کی هے کتاب کے نام سے ظاہر هوتا هے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔
سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام ”المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا هے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ هے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا هے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا هے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم هوتا هے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے مآخذ اور مصادر میں شامل هوتی هے کی حیثیت رکھی تھی۔
آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب ” البُرھان فی علوم القرآن” تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں.
یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے هے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم هوتا هے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا هے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی (متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔
نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی(متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم” تحریر کی هے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:
”فرایتہ تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ”
سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا هے اس کی وجہ شاید یہی هو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں هے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔
دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی(متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔
اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:
۱۔ الاتقان فی علوم القرآن
جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ
۲۔ الاحسان فی علوم القرآن
جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲
۳۔ البیان فی علوم القرآن
ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ ص۲۶۳)
۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن
محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ ص۱۷۰)
۵۔ البرھان فی علوم القرآن
محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴) تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷
۶۔ بحوث حول علوم القرآن
شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفینجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات
۷۔ البیان فی تفسیر القرآن
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی
۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم
طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)
۹۔ البیان فی علوم القرآن
محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)
۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان
شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ص
۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن
محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ھ
۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن
ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹
۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن
معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ہجری، ۱۵۰ص
۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن
ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹
۱۵۔ علوم القرآن
محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ
۱۶۔ علوم القرآن
احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱
۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان
محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴
۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن
محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹
۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲
۲۰۔ قانون تفسیر
حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد
۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ
حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس
۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر
۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر
۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن
موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص
۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر
محمد الصّباغ المکتب الاسلامی
۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن
دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)
۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان
جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م
۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)
۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن
احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)
۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن
سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م
۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن
نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ
محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی
۳۱۔ مفتاح علوم القرآن
حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ
۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن
یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل هے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ هو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ هے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی هے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم
۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن
محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد
۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن
شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان
۳۵۔ الموسوی القرآنیہ
ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد
۳۶۔ موجز علوم القرآن
دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمی بیروت
نوٹ:۱ـ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا هے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا هے
۲ـ بہت سی تفاسیر یا تجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال هوتی ہیلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
مثال کے طور پر: الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطی کی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن هے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا هے۔
اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف هے یہ ۱۶جلدوں میں تفسیر هے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔
اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب هے جو علم تجوید سے متعلق هے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں هونا چاہیے۔