- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/06/26
- 0 رائ
ذہن انسانی میں جہاں بہت سارے سوالات احکام شرعی کے سلسلے میں ابھر کر آتے ہیں وہیں سب سے زیادہ فلسفہ تقلید پر سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کیونکہ:
۱ـ تقلید ایک ایسی ضرورت ہے کہ انسان چاہے تو اس مسئلے میں خود معلومات کرے اور کسی سے تقلید کے سلسلے میں سہارا نہ لے، اگر مکلف اس کی ضرورت کو سجھ گیا تو پھر مجتہدین کے فتوے کی اہمیت خود بخود سمجھ میں آجائے گی.
۲ـ فلسفہ تقلید در حقیقت وہی دلیل و استناد ہیں جو مکلف کے لئے تقلید کی ضرورت کو ثابت کر رہے ہیں
لزوم تقلید اسلامی، شریعت میں واجبات و محرمات(1) دونوں پائے جاتے ہیں، خدا نے ان کو انسان کی دنیا وآخرت کی سعادت کے لئے وضع کیا ہے، اگر اس نے ان دونوں پر عمل نہیں کیا تو نہ سعادت تک پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مخالفت کی صورت میں خدا کے عذاب سے امان میں ہے.
دوسرے یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ ہر مسلمان قرآن و روایت یا اپنی عقل کے ذریعے احکام شرعی کو معلوم کرے قرآن نہ تو توضیح المسائل کی طرح ایک مسئلے کی کتاب ہے جس میں واضح طور پر احکام شرعی بیان ہوئے ہیں اور نہ ہی معصومین علیھم السلام کی روایتیں ایسی ہیں اور نہ انسان اپنی عقل کے ذریعے سارے احکام کو معلوم کر سکتا ہے
شرعی احکام کو سمجھنے کے لئے آیات، روایات، حدیث صحیح اور غیر صحیح نیز ان سب کو ایک جگہ جمع کرکے اور نہ جانے دسیوں دیگر مسائل کو سجھنے کا محتاج ہے
ایسی صورت میں انسان کو تین صورتوں کا سامنا ہے
۱ـ علمی صلاحیت (کہ یہی اجتہاد ہے) کو بڑھائے
۲ـ تمام مجتہدین کے فتوے کو پڑھ کر اس طرح عمل کرے کہ سب کے فتوے کے مطابق (احتیاط کرے تا کہ) عمل صحیح ہو جائے
۳ـ ایسے صاحب علم کی رائے پر عمل کرے جو شرعی احکام میں ماہر ہو.
بے شک پہلی صورت میں انسان مجتہد بن جائے گا اور بقیہ دو صورتوں سے سبک دوش ہو جائے گا اگر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا تو دو ہی صورت ہے
دوسری صورت میں تمام آراء کی معلومات اور بہت سارے موارد میں طریقہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اس صورت میں انسان کی معمولی زندگی مختل ہو سکتی ہے
تیسری صورت انسان کو شرعی احکام سے مختل نہیں کرے گی اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو دیگر امور میں بخوبی پایا جاتا ہے مثال کے طور پر
ایک ماہر انجینیئر کو فرض کرلیجئے کہ بیمار ہو گیا اپنے علاج کے لئے خود ڈاکٹری پڑھے یا تمام ڈاکٹروں کے نسخے کا مطالعہ کرکے اس طرح دوا تجویز کرے کہ سب پر عمل در آمد ہو جائے اور بعد میں شرمندہ نہ ہو، یا پھر ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس چلا جائے
پہلی صورت اس کو جلدی صحتیاب نہیں کر سکتی ہے دوسری صورت ناممکن ہے اور اس کو اپنے امور سے اتنی فرصت نہیں ہے کہ نسخوں کو دیکھے اور پڑھے، لہذا ایک ہی صورت ہے کہ فوراً ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس جائے اور اس کی رائے پر عمل کرے، وہ اس کام میں نہ خود پشیمان ہوگا اور نہ ہی اس کے دوست و احباب سرزنش کریں گے بلکہ اکثر موارد میں راہنمائی کریں گے
مکلف بھی مجتہد عالم کے فتوے پر عمل کرے تو نہ آخرت میں پشیمان ہوگا اور نہ عذاب الہی کا مستحق، بلکہ مقتضائے زمان کے موافق احکام شرعی پر عمل کرکے خود کو نجات دلائے گا، تقلید حقیقت میں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا ہے یہ چیز مقلد کے لئے باعث ننگ و عار نہیں ہے کیونکہ اس مقام پر جہالت کے معنی نسبی ہین یعنی ایسا شخص ہے جو مسائل شرعی میں مجتہد نہیں ہے اور اس کی معلومات ناقص ہیں اگر چہ دوسرے امور میں ماہر اور صاحب علم ہے یا فقہی مسائل میں تھوڑی معلومات رکھتا ہے
مجتہدین خود دوسرے امور میں ماہرین کی طرف رجوع کرتے ہیں اس مراجعت کو علم سمجھتے ہیں اس کی روشن دلیل امام خمینی(رح) تھے کہ ان کے ڈاکٹر نے کہا یہ میں نے ابھی تک علاج میں اس قدر کسی انسان کو ڈاکٹر کا فرمانبردار نہیں دیکھا ہے
انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں عمومی طور پر انھی امور کو انجام دیتا ہے جس میں مہارت نہیں رکھتا ہے اور ماہر کی طرف رجوع کرتا ہے ڈاکٹر اپنی گاڑی کو بنوانے کے لئے مکینیک کے پاس جاتا ہے انجینیئر اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس، ان میں کوئی بھی انسان خود کو جاہل اور گرا ہوا نہیں سمجھتا ہے کیونکہ اہل علم کی طرف رجوع کرنا یعنی ماہرین کے پاس جانا دور حاضر میں ایک انسان کے لئے سارے علوم کی تعلیم حاصل کرنا کافی اور غیر ممکن ہے آج علماء کی اکثریت مسائل شرعی میں تقلید کرتی ہے کیونکہ یا تو درجہ اجتہاد پر فائز نہیں ہوئے ہیں یا پھر اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں
اور اپنے اوقات کو دوسرے علوم میں مہارت حاصل کرنے میں مشغول ہیں یہ جو کہا جاتا ہے کہ “مجتہدین نے اپنی طرف سے عوام پر تقلید واجب کر رکھی ہے” یہ دو وجہوں سے غلط ہے
تقلید کرنا ایک ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں مجتہد کے فتوے مقلد کے لئے سود مند ہوں کیونکہ یہ ایک ایسا عقلی مسئلہ ہے کہ ہر عاقل اس کو اچھی طرح سمجھتا ہے پس تقلید اصولی نہیں ہے، ہاں فروعات کی تقلید جیسے دنیا سے جانے والے مجتہد کی تقلید پر باقی رہنا اور اس کے مانند دیگر مسائل میں تقلید ہے
مکلف جب خود ہی تقلید کے ضروری یا جائز ہونے تک پہنچ گیا ہے تو وہ خود کسی مجتہد کی تقلید کرے اور اس کے فتوے کے اوپر عمل کرے
آیات و روایات نے تقلید کرنے کا حکم دیا ہے جیسے: فاسئلوا هل الذکر ان کنتم لاتعلمون 2
اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھو
اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ
“و اما من کان من الفقهاء صائنا لنفسه حافظا لدینه، مخالفا لهواه، مطیعا الامرلاه٬ فللعوام ان یقلدوه” 3
اگر کوئی فقیہ اپنے نفس کی حفاظت اور دین کی محافظت کرے خواہشات نفسانی کی مخالفت اور اپنے مولی مطیع و فرمانبردار ہو تو عوام کو چاہئے کہ اس کی تقلید کرے ـ بظاہر یہ کہ علماء دین عوام کو جاہل سمجھتے ہیں یا اس کے مانند دیگر چیز یہ پرو پگنڈا ان لوگوں کی طرف سے ہے جو علماء اور عوام کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں
حواله جات
۱ـ احکام شرعی صرف واجب و حرام میں منحصر نہیں ہے بلکہ ان دونوں (واجب وحرام ) کا بجالانا ہی احکام الزامی ہے ـ
۲ـ سورہ نحل آیت ۴۲، اور انبیاء آیت ۷ ـ
۳ـ وسائل الشیعہ ج۱۸، ص۹۴ ـ حر عاملی ـ
source : alhassanain