جب بھی اہل بیت (ع) کا ذکر ہو، اور بالخصوص حدیث ثقلین کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو اہل سنت ”عترتی یا سنتی“ کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ ”عترتی یا سنتی“ کی بحث میں دونوں فریق اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں، آئیں ”عترتی یا سنتی“ کے حوالے سے اہل سنت کی اپنی ہی روایات سے درست اور غلط تعبیر کو مشخص کرتے ہیں۔
عترتی یا سنتی درست تعبیر کونسی ہے؟
امامیہ متکلمین جیسے صدوق، طوسی اور مفید رضوان اللہ علیہم نے بہت سے کلامی مسائل میں پیغمبر اکرم ﷺ کی عترت و اہل بیت (ع) کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس سلسلے میں حدیث ثقلین کا سہارا لیتے ہیں جبکہ بعض محدثوں نے عترتی یا سنتی کی بحث کو دوسری شکل میں نقل کیا ہے اور لفظ ”عترتی“ کے بجائے ”سنتی“ لائے ہیں۔
حدیث ثقلین کے متن میں عترتی یا سنتی کی بحث کے اختلاف کے ہوتے ہوئے اس کے ذریعے کلامی مسائل میں استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے؟
وضاحت: امامیہ شیعہ جو اصول و عقائد میں برہان و عقلی دلیل کی پیروی کرتے ہیں، اہل بیت (ع) کے اقوال و احادیث کو بھی اگر صحیح نقل ہوئی ہوں تو اصول و فروع میں حجت جانتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فروعی و عملی مسائل میں خبر صحیح کو مطلق طور سے حجت جانتے ہیں چاہے وہ خبر واحد کی صورت میں کیوں نہ ہو لیکن اصول و عقائد سے مربوط مسائل میں چونکہ مقصد اعتقاد و یقین پیدا کرنا ہے۔
اور خبر واحد یقین کی حد تک نہیں پہنچاتی لہٰذا صرف اس قطعی خبر کو جس سے یقین و علم حاصل ہوتا ہو حجت شمار کرتے ہیں۔ اہل بیت (ع) کے اقوال کی حجیت کی ایک دلیل حدیث ثقلین ہے جسے بہت سے اسلامی محدثوں نے قبول کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
”إنّي تارك فيكم الثقلين كتاب اللَّه وعترتي إن تمسكتم بهما لن تضلوا“
لیکن چونکہ بعض روایات میں عترتی یا سنتی کی بحث سے متعلق ”عترتی“ کے بجائے ”سنتی“ آیا ہے، اسی لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دو روایتوں میں سے کون سی صحیح و درست ہے؟ اس لئے کلامی مسائل میں اہل بیت (ع) کی احادیث کے ذریعے استدلال پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے؟ جس کے جواب میں علمائے شیعہ کی طرف سے رسالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سب سے اہم کتاب ”دار التقریب بین المذاہب الاسلامیة“ کی جانب سے قاہرہ مصر میں شائع ہوچکی ہے۔
عترتی یا سنتی کے بارے میں شیخ حسن کا مؤقف
ابھی کچھ عرصہ پہلے اردن کے ایک اہل سنت عالم ”شیخ حسن بن علی سقاف“ نے عترتی یا سنتی کے سوال پر جواب دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ: مجھ سے حدیث ثقلین میں عترتی یا سنتی کے بارے میں سوال کیا گیا اور دریافت کیا گیا ہے کہ ”عترتی و اہل بیتی“ صحیح ہے یا ”کتاب اللّٰہ وسنتی“ آپ سے درخواست ہے کہ سند کے اعتبار سے اس حدیث کی وضاحت فرمائیں۔ تو شیخ حسن نے عترتی یا سنتی کے بارے میں مندرجہ ذیل جواب دیئے ہیں۔
اس متن کو دو بڑے محدثوں نے نقل کیا ہے:
1۔ مسلم نے اپنی صحیح میں جناب زید بن ارقم سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان ”خُم“ نام کی جگہ پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں خدا کی حمد و ثنا اور لوگوں کو نصیحت فرمائیں اس کے بعد فرمایا:
”يا أيها الناس! إنّي تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلّوا، كتاب الله، وعترتي أهل بيتي، يوشك أن يأتي رسول ربّي فأجيب، وإنّي تارك فيكم الثقلين: أوّلهما كتاب الله فيه الهدى والنور وأهل بيتي، أذكّركم الله في أهل بيتي، أذكّركم الله في أهل بيتي“
اے لوگو! میں انسان ہوں ممکن ہے کہ عنقریب خدا کا فرستادہ میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں۔ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ ایک اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت و نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب کو حاصل کرو اور اس سے تمسک اختیار کرو،
پیغمبر اکرم ﷺ نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی تاکید کی اس کے بعد فرمایا: اور میرے اہل بیت (ع)، میں تمہیں اپنے اہلبیت (ع) کے لئے خدا کی یاد دلاتا ہوں (یہ جملہ آپ نے تین بار فرمایا)
اس متن کو مسلم[1] نے اپنی صحیح میں اور دارمی نے اپنی سنن[2] میں ذکر کیا ہے اور دونوں کی سند آفتاب کی طرح روشن ہے ان سند میں ذرہ برابر بھی خدشہ نہیں ہے۔
2۔ ترمزی نے بھی عترتی یا سنتی کی بحث سے متعلق ”عترتی اہل بیتی“ کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ حدیث کا متن یوں ہے:
”اني تارك فيكم الثقلين ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي: أحدهما أعظم من الاخر كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الارض وعترتي أهل بيتي لن يفترقا حتى يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما“[3]
”میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم اس سے متمسک رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں سے ایک دوسرے سے بزرگ ہے۔ اللہ کی کتاب ریسمان رحمت جو آسمان سے زمین کی طرف آویزاں ہے۔ اور میری عترت و اہل بیت (ع) یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آجائیں۔ اب دیکھو میری ان دونوں میراثوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔
ان دونوں متن میں لفظ ”اہل بیت“ کی تاکید ملتی ہے اس سلسلے میں جواب کے طور پر کافی ہے دونوں کی سندوں میں کمال یقین پایا جاتا ہے اور اس میں کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں حدیثی متن کے ناقل صحاح و سنن ہیں جو ایک خاص اعتبار رکھتے ہیں۔
’’وَسُنَّتِي‘‘ متن کی سند کا تحقیقی جائزہ
عترتی یا سنتی کی تعبیر کے حوالے سے وہ روایت جس میں ”اہل بیتی“ کے بجائے لفظ ”سنتی“ آیا ہے۔ جعلی حدیث ہے جو سند کے ضعف کے علاوہ امویوں سے وابستہ افراد کے ہاتھوں گڑھی ہوئی ہے۔ ذیل میں ہم عترتی یا سنتی میں و سنتی والی حدیث کی اسناد کا جائزہ لیتے ہیں:
پہلی سند حاکم کی روایت
حاکم نیشاپوری نے اپنی ”مستدرک“ میں حسب ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے-:
1۔ اسماعیل بن ابی اویس عن ۲۔ ابی اویس عن ۳۔ ثور بن زید الدیلمی عن ۴۔ عکرمہ عن ۵۔ ابن عباس کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: ”أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا، كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ“[4]
اے لوگو! میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں ترک کیں جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔
اس متن کی سند کی مشکل اسماعیل بن ابی اویس اور ابو اویس ہیں۔ ان باپ اور بیٹوں کی نہ صرف توثیق نہیں ہوئی ہے بلکہ ان پر جھوٹ اور حدیث گڑھنے کا الزام ہے۔ اب ان کے بارے میں علمائے رجال کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
حافظ مزی نے اپنی کتاب ”تہذیب الکمال“ میں اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں رجال کے محققین کی زبانی یوں نقل کیا ہے:
یحییٰ بن معین (جو علم رجال کے بڑے عالم ہیں) کہتے ہیں۔ ابو اویس اور اس کا بیٹا ضعیف ہیں، یحییٰ بن معین سے یہ بھی نقل ہے کہ یہ دونوں حدیث چراتے ہیں۔ ابن معین نے اس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ: اس کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
نسائی نے بیٹے کے بارے میں کہا ہے کہ: وہ ضعیف ہے اور ثقہ نہیں ہے۔ ابو القاسم لال کائی نے کہا ہے کہ نسائی نے اس کے خلاف بہت کچھ کہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے کہا ہے: اس کی حدیث کو ترک کردینا چاہئے۔
رجال کے ایک عالم ابن عدی نے کہا ہے: ابن ابی اویس نے اپنے ماموں مالک سے مجہول حدیثیں نقل کی ہیں جنہیں کوئی قبول نہیں کرتا۔[5]
ابن حجر نے فتح الباری کے مقدمے میں لکھا ہے: ابن ابی اویس کی حدیث کے ذریعہ ہرگز استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ نسائی نے اس کی مذمت کی ہے۔[6]
حافظ سید احمد بن الصدیق نے کتاب ”فتح الملک العلّی“ میں سلمہ بن شبیب سے نقل کیا ہے کہ اس نے اسماعیل بن ابی اویس کو کہتے ہوئے سنا ہے: جب اہل مدینہ کسی موضوع کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں تو میں حدیث گڑھتا ہوں۔[7]
لہٰذا بیٹا (اسماعیل بن ابی اویس) وہ ہے جس پر حدیث گڑھنے کا الزام ہے اور ابن معین اسے جھوٹا کہتے ہیں مزید یہ کہ اس کی حدیث کسی بھی کتب صحاح میں نقل نہیں ہوئی ہے۔
اور باپ کے بارے میں یہی کہنا کافی ہے کہ ابو حاتم رازی نے کتاب ”جرح و تعدیل“ میں لکھا ہے: اس کی حدیث لکھی جاتی ہے لیکن اس کے ذریعے احتجاج و استدلال نہیں کیا جاتا۔ اور اس کی حدیث قوی و محکم نہیں ہے۔[8]
نیز ابو حاتم نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ ابو اویس قابل اعتماد نہیں ہے۔
جو روایت ان دونوں کی سند کے ذریعے بیان ہو ہرگز صحیح نہیں ہوگی۔ جبکہ یہ روایت صحیح و ثابت روایت کے مخالف و مقابل ہے۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حدیث کے ناقل یعنی حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتراف کیا ہے لہٰذا اس کی سند کی تصحیح نہیں کی ہے لیکن اس کے مفاد کی صحت پر گواہ لے آئے ہیں کہ وہ بھی سند کے اعتبار سے سست اور اعتبار کے درجہ سے ساقط ہے۔ اس لئے حدیث کی تقویت کے بجائے اس کے ضعف میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
”وسنتی“ کی دوسری سند
حاکم نیشاپوری نے ابو ہریرہ سے بطور مرفوع (وہ حدیث جسے راوی معصوم سے نسبت نہ دے ) نقل کیا ہے:
”إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ شَيْئَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ“[9]
اس متن کو حاکم نے اس سند کے ذریعہ نقل کیا ہے:
1۔ الضبی، عن ۲۔ صالح بن موسیٰ الطلحی، عن ۳۔ عبد العزیزبن رفیع عن ۴۔ ابی صالح، عن ۵۔ ابی ہریرہ.
یہ حدیث پہلی حدیث کی طرح جعلی ہے۔ اور اس کی سند کے درمیان صالح بن موسیٰ الطلحی پر انگلی رکھی جاسکتی ہے۔ اب ہم اس کے بارے میں علمائے علم رجال کے نظریات نقل کرتے ہیں:
یحییٰ بن معین کا بیان ہے کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نہیں ہے۔ ابو حاتم رازی کا قول ہے کہ اس کی حدیث ضعیف اور منکر ہے۔ وہ بہت سی منکر حدیثوں کو ثقہ افراد کے نام سے نقل کرتا ہے۔ نسائی کا بیان ہے کہ اس کی حدیث لکھی نہیں جاتی اور دوسری جگہ کہتے ہیں: اس کی حدیث متروک ہے۔[10]
ابن حجر ”تہذیب التہذیب“ میں لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے کہا ہے: صالح بن موسیٰ، ثقہ افراد سے ایسی چیزیں منصوب کرتا ہے جو ان کی باتیں نہیں لگتیں۔ اور آخر میں ابن حجر نے لکھا ہے کہ: اس کی حدیث حجت نہیں ہے، اور ابو نعیم کہتے ہیں کہ” اس کی حدیث متروک ہے وہ ہمیشہ منکر حدیث نقل کرتا ہے۔[11]
اور ذہبی، کتاب ”کاشف“[12] میں لکھتے ہیں: اس کی حدیث سست ہے، آخر میں ذہبی نے "میزان الاعتدال“[13] میں مذکورہ بالا حدیث کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں۔
”وسنتی“ کی تیسری سند
ابن عبدالبر نے کتاب ”تمہید“[14] میں اس متن کو حسب ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:
1۔ عبدالرحمٰن بن یحییٰ عن ۲۔ احمد بن سعید عن ۳۔ محمد بن ابراہیم الدبیلی عن ۴۔ علی بن زید الفرائضی عن ۵۔ الحنینی عن ۶۔ کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف عن ۷۔ اس کے باپ نے اس کے داد سے، ہم ان راویوں کے درمیان کثیر بن عبداللہ پر انگلی رکھتے ہیں۔ امام شافعی لکھتے ہیں: وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک ہے۔[15]
ابو داود کا بیان ہے: وہ کذابوں اور بڑے جھوٹوں میں سے ہے۔[16] ابن حیان کہتے ہیں: عبداللہ بن کثیر نے اپنے باپ اور دادا سے حدیث کی کتاب نقل کی ہے جس کی بنیاد جعلی حدیثوں پر ہے کہ اس کتاب سے نقل کرنا اور عبداللہ سے روایت کرنا حرام ہے اور فقط تعجیب و تنقید کے لئے اس کی روایت نقل کی جاسکتی ہے۔[17]
نسائی اور دار قطنی کہتے ہیں: اس کی حدیث متروک ہے۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ: وہ منکر الحدیث ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے۔ ابن معین نے بھی یہی بات اس کے بارے میں کہی ہے۔
ابن حجر کے اوپر تعجب ہے کہ انہوں نے کتاب ”التقریب“ میں اس کے حالات بیان کرتے ہوئے اسے صرف ضعیف لکھا ہے اور جن لوگوں نے اسے جھوٹا کہا ہے انہیں افراطی کہا ہے، جبکہ علم رجال کے پیشواؤں نے اسے جھوٹا اور جعل ساز قرار دیا ہے یہاں تک کہ ذہبی کہتے ہیں کہ: اس کی باتیں فضول و ضعیف و بیکار ہیں۔
”وسنتی“ والی بغیر سند کی روایت
امام مالک نے کتاب ”الموطّا“ میں عترتی یا سنتی کی تعبیر میں ”وسنتی“ والی روایت کو سند کے بغیر بطور مرسل نقل کیا ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ ایسی حدیث کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔[18]
مذکورہ بالا باتیں پوری طرح سے یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ عترتی یا سنتی میں، ”و سنتی“ والی حدیث جھوٹے اور اموی دربار سے وابستہ راویوں کی جعلی اور گڑھی ہوئی حدیث ہے جو انہوں نے حدیث صحیح کے مقابلے میں گڑھی ہے۔ لہٰذا مسجدوں کے اماموں، خطیبوں اور اہل منبر حضرات پر واجب ہے کہ جو حدیث حضرت رسول اکرم ﷺ سے وارد نہیں ہوئی ہے اسے ترک کردیں اور اس کے بجائے لوگوں کو صحیح حدیث سے آگاہ کریں۔ جس حدیث کو مسلم نے” اہل بیتی” کے ساتھ اور ترمذی نے ”عترتی و اہل بیتی“ کے ساتھ نقل کیا ہے اسے بیان کریں۔
”اہل بیتی“ والی تعبیر کی وضاحت
آخر میں یہ یاد دھانی کراتے جائیں کہ لفظ ”اہل بیتی“ میں پیغمبر اکرم ﷺ کی ذریت مثلاً حضرت فاطمہ و حسن و حسین (ع) بھی داخل ہیں، کیونکہ مسلم نے اپنی صحیح[19] میں اور ترمذی نے اپنی سنن[20] میں خود عایشہ سے نقل کیا ہے کہ:
”نزلت هذه الآية علي النبي (صلي الله عليه وآله): إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرا في بيت أم سلمة، فدعا فاطمة وحسناً وحسيناً، فجللهم بكساء وعلي خلف ظهره، فجلله بكساء، ثم قال: اللهم، هؤلاء أهل بيتي، فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيراً، قالت أم سلمة: وأنا معهم يا رسول الله؟ قال: أنت علي مكانك وأنت إلي خير“[21]
آیت ”انّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا“[22] جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی پیغمبر اکرم ﷺ نے فاطمہ (س)، حسن و حسین (ع) کو کسا ء کے نیچے لے لیا۔ حضرت علی (ع) آپ کی پشت پر کھڑے تھے آنحضرت نے ان کو بھی اپنی عبا اڑھائی اور فرمایا: پالنے والے! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر طرح کی برائیوں کو دور فرما اور انہیں ایسا پاک قرار دے جیسے پاک کرنے کا حق ہے۔
اس وقت جناب ام سلمہ نے کہا: اے رسول خدا ﷺ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ پیغمبر ﷺ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر رہو (یعنی چادر کے نیچے نہ آؤ) تم راہ خیر پر ہو۔
یہ تھا اہل سنت کے عالم دین شیخ حسن بن علی سقاف کا برادران اہل سنت کو جواب۔ لیکن یہاں خود شیخ سقاف کے بیان کردہ ایک مسئلہ کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آیت تطہیر میں ازواج پیغمبر اکرم ﷺ کے شامل ہونے کو تو مسلم بتایا ہے اور آیت کے مفاد کو وسیع کرکے اس میں پیغمبر اکرم ﷺ کی بیٹی اور ان کے دو صاحب زادوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔
جبکہ خود جناب ام سلمہ کی روایت جسے مسلم اور سنن ترمذی نے نقل کیا ہے ان کے نظریہ کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔ اگر اہل بیت کے علاوہ ازواج پیغمبر اکرم ﷺ آیت تطہیر میں داخل ہوتیں تو جناب ام سلمہ کو کساء میں داخل ہونے سے روکا نہ جاتا اور یہ نہ کہا جاتا ”انت علٰی مکانک“ یعنی تم اپنی جگہ پر رہو۔ اور تم خیر پر ہو!!
اس کے علاوہ جو شخص بھی ازواج پیغمبر ﷺ کے سلسلہ میں قرآن کی آیات کا مطالعہ کرے گا اسے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ ان کے بارے میں آیات کی زبان تنبیہ و شرزنش والی ہے۔ ایسے افراد آیت تطہیر کے مصداق اور رسول خدا ﷺ کی دعا میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اس کی تفصیل ”تفسیر منشور جاوید“[23] میں ملاحظہ فرمائیں۔
نتیجہ
اتنے واضح اور ناقابل تردید دلائل کے باوجود عترتی یا سنتی جیسی روایات کے نام پر مسلمانوں کو الجھانا اور گمراہ کرنا، نہ صرف معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے، بلکہ اہل بیت پیغمبر ﷺ کے فضائل پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف اور ان سے عداوت کا عملی مظہر ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ مسلم، صحیح مسلم، ج۴، ص1873، حدیث 2408۔
[2]۔ دارمی، سنن دارمی، ج2، ص431۔432۔
[3]۔ ترمذی، سنن ترمذی، ج5، ص663، حدیث نمبر37788۔
[4]۔ حاکم، المستدرک، ج1، ص93۔
[5]۔ حافظ مزی، تھذیب الکمال، ج3، ص127۔
[6]۔ عسقلانی، فتح الباری، ص391۔
[7]۔ غماری، فتح الملک العلی، ص15۔
[8]۔ رازی، الجرح و التعدیل۔ ج5، ص92۔
[9]۔ حاکم، مستدرک، ج1، ص93۔
[10]۔ حافظ مزی، تھذیب الکمال، ج13، ص96۔
[11]۔ ابن حجر، تھذیب التھذیب، ج4، ص355۔
[12]۔ ذھبی، کاشف، ترجمہ نمبر2412۔
[13]۔ ذھبی، میزان الاعتدال، ج2، ص 302۔
[14]۔ الباقلانی، التمھید، ج24، ص331۔
[15]۔ ابن حجر، تھذیب التھذیب،ج1، ص377۔
[16]۔ مزی، تھذیب الکمال، ج24، ص138۔
[17]۔ ابنحبان، المجروحین، ج2، ص221۔
[18]۔ امام مالک، الموطّا، ص889، حدیث نمبر3۔
[19]۔ مسلم، صحیح مسلم، ج4، ص1883، حدیث نمبر 2424۔
[20]۔ ترمذی، سنن ترمذی، ج5، ص663۔
[21]۔ السقاف، صحیح صفة صلاة النبی، ص289-294۔
[22]۔ سورہ احزاب، آیت۳۳۔
[23]۔ سبحانی تبریزی، منشور جاوید، ج5، ص294۔
فہرست منابع
1۔ قرآن مجید۔
2۔ ابن ابی حاتم، عبدالرحمن بن محمد، الجرح و التعدیل، بیروت، دار إحياء التراث العربي،۱۳۷۱ھ ق۔
3۔ ابن حبان، محمد بن حبان، المجروحين من المحدثين، ریاض، دار الصميعي، ۱۴۲۰ھ ق۔
4۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تقريب التهذيب، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۰ھ ق۔
5۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تهذیب التهذیب، دار الکتب العلميۃ، بیروت، ۱۴۲۵ھ ق۔
6۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، مقدمۃ فتح الباري شرح صحيح البخاري، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۳۷۹ھ ق۔
7۔ الباقلانی، ابی بکر محمد بن الطیب، کتاب التمهید، بیروت، المکتبۃ الشرقیۃ، ۱۹۵۷م۔
8۔ ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذي، بیروت، دارالفكر، ۱۴۰۳ھ ق۔
9۔ حافظ مزی، یوسف بن عبد الرحمن، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱406ھ ق۔
10۔ حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرك على الصحيحين، بیروت، المکتبۃ العصريۃ، ۱۴20ھ ق۔
11۔ دارمی، عبدالله بن عبدالرحمن، سنن الدارمي، ریاض، مرکز التراث الثقافي المغربي، ۱۴۲۱ھ ق۔
12۔ ذهبی، محمد بن احمد، الكاشف في معرفۃ من له روايۃ في الكتب الستۃ، جدہ، دارالقبلۃ للثقافۃ الأسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ ق۔
13۔ ذهبي، محمد بن احمد، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۳۸۲ھ ق۔
14۔ سبحانی تبریزی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۹۰ھ ش۔
15۔ السقاف، حسن بن علی، صحیح صفۃ صلاة النبی، اردن، دار الامام النووي، ۱۴۲۱ھ ق۔
16۔ غماری حسنی، احمد، فتح الملك العلي بصحة حديث باب مدينۃ العلم علي، قم، دلیل ما، ۱۴۲۸ھ ق۔
17۔ مالک بن انس، موطأ الإمام مالك، بیروت، دار احياء التراث العربي، ۱۴۰۶ھ ق۔
18۔ مسلم بن حجاج، صحيح مسلم، بیروت، دار إحياء التراث العربي، 1374ھ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص و ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، چھبیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش۔