- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/02
- 0 رائ
جب اس زمانے میں، حتی عہد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے اتنا قریب ہونے اور حضرت علی علیہ السلام جیسے افراد کی موجودگی کے باوجود اس طرح کا انحراف اور گمراہی پیدا ہوسکتی ہے تو اس زمانہ میں جبکہ ہماری علمی کمزوریاں بھی واضح ہیں۔ کوئی بعید نہیں ہے کہ یہ کجی بہت ہی زیادہ وسیع پیمانے پر پیدا ہو۔
لہٰذا، بلا شک و شبہ یہ علماء اسلام کی واجب ترین ذمہ داریوں میںسے ہے کہ وہ قرآن کریم کے تمام تر مفاہیم مختلف علمی سطحوں (اعلیٰ، اوسط یا ادنیٰ) کے اعتبار سے جس قدر بھی ممکن ہو صحت و یقین کے ساتھ بیان کریں اور معاشرہ کو قرآنی خزانوں سے بہرہ ورکریں۔ اور اگر یہ اہم ترین کام انجام نہ پایا اور علما نے اس طرف توجہ نہ دی تو گمراہی کی جو صورت آج ہم دیکھ رہے ہیں اس سے بھی بدصورت حال کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیئے۔
آج زیادہ تر مسلمان نوجوان اس کے لئے تہہ دل سے آمادہ اور بیتاب ہیں کہ قرآنی مفاہیم کو سمجھیں اور یاد کریں حتی اپنے خیال و دماغ کے اعتبار سے وہ ‘المعجم’ اور اسی قسم کی دوسری کتابوں کی طرف رجوع کرکے اس پر تحقیق فرمانے کی بھی کوشش کرتے ہیں وہ فکر کرتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور ساده سا کام ہے۔ شاید یہ لوگ اپنے اس گمان میں معذور ہوں لیکن وہ لوگ جو برسوں علمی دینی مراکز میں رہے ہیں اور حوزہٴ علمیہ میں بزرگوں سے آیات و روایات میں دقّت نظر سے کام لینے کا درس لیا ہے اگر وہ بھی اسی انداز میں فکر کریں تو حق یہ ہے وہ ہرگز قابل معافی نہ ہونگے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین و اصول جو بزرگ علماء و مفسرین نے ہمارے حوالے کئے ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ غور و فکر سے کام لے کر قرآن کے روشن و واضح مفاہیم اخذ کریں اور معاشرہ تک پہنچائیں تاکہ قرآن و اسلام کے تئیں اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوسکیں دوسری طرف، اگر چہ قرآن کا آسانی سے سمجھنا اور تفسیر کرنا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی ایک شخص جو قرآن کو سمجھنا چاہتا ہے اس سے اگر ہم کہیں کہ اس کے لئے کم از کم تم کو تیس سال کام کرنا ہوگا، تعلیم حاصل کرنی ہوگی تب کہیں تم قرآن سمجھنے کے قابل ہوسکو گے تو گویا ہم نے اس کو قرآنی مطالب سمجھنے اور یاد کرنے سے مایوس کردیا۔ اور نتیجہ میں اس کا منحرفین کے ہتھے چڑھ جانا یقینی ہے۔ ٹھیک ہے کہ قرآن کا سمجھنا، خاص زحمت، محنت اور مہلت کا طالب ہے۔ اور یہ کام سب نہیں کرسکتے اس لئے چند افراد کو بہر حال یہ زحمتیں اٹھانا ہوں گی تاکہ وہ اپنی محنت و ریاضت کا پھل دوسروں کی خدمت میں تقدیم کریں تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جو باتیں ہم پیش کریں ان کے مستند اور قرآن کریم پر مبنی ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ ہونا چاہیئے اسی کے ساتھ ہی ایک دوسرے سے غیر مربوط اور نظم و ترتیب سے عاری بھی نہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر مطالب پراگندگی کا شکار ہوں تو نہ صرف ان کا یاد رکھنا مشکل ہے بلکہ ایک غلط فکری نظام کے مقابلہ میں ایک صحیح فکری نظام سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے وہ بھی حاصل نہ ہوگا۔
تمام منحرف مکاتب فکر نے اپنے افکار و تصورات کو ایک نظم اور ایک شکل دینے کی کوشش کی ہے یعنی انہوں نے چاہا ہے کہ اپنے مطالب کی ایک بنیاد پیش کریں اور مربوط مسائل کے ایک سلسلہ کو آپس میں ربط دے کر ایک منظم و ہم آہنگ مجموعہ وجود میں لے آئیں۔ ہم تو صحیح جہت اور صحیح راہ رکھتے ہیں ہمیں ان کے مقابلے میں بعینہ یہی کام کرنا چاہیئے۔ یعنی ہم قرآنی معارف کو ایک منظم اور سسٹمیٹک انداز میں اس طور پرپیش کریں کہ ایک محقق اور علم کا متلاشی ذہن ایک نقطہ سے شروع کرے اور اسلامی معاف کی کڑیاں کسی زنجیر کے مانند ایک دوسرے میں پروتا چلا جائے اور آخر میں قرآن و اسلام نے جس ہدف و مقصد تک پہننانا چاہا ہے اسے حاصل کرلے۔
بنا برین ہم قرآنی معارف کی تقسیم بندی کرکے اسے ایک نظم و ترتیب کے ساتھ پیش کرنے پر مجبور ہیں تاکہ ایسے نوجوانوں کے لئے جن کے پاس وقت کم ہے، اس کا سیکھنا آسان اور ممکن ہو دیگر مکاتب فکر کے مقابلے میں بھی پیش کیا جاسکے۔
قرآنی معارف کی تقسیم بندی جو قرآن کی تفسیر موضوعی کے ساتھ منسلک ہے (یعنی آیات قرآنی کو موضوعات کے تحت الگ الگ تقسیم کردیں اور ان کے مفاہیم سمجھنے کی کوشش کریں نیز انکے درمیان رابطہ کو پیش نظر رکھیں) یہ کام اگر چہ ضروری ہے مگر اس میں کچھ دشواریاں بھی ہیں۔
قرآنی معارف کی ترتیب و تقسیم کے لئے ہمیں موضوعات سے متعلق ایک خاص نظم و ترتیب ملحوظ نظر رکھنا چاہیئے، اس کے بعد ہر موضوع سے متعلق آیتیں تلاش کرنا پھر ایک دوسرے کے ساتھ ملاکر دیکھنا اور ان کے بارے میں غور و فکر کرنااور ان کے مبھم نکات کو روشن و واضح کرنے کے لئے ان ہی آیتوں میں ایک دوسرے سے مدد حاصل کرنا چاہیئے۔ یعنی قرآن سے قرآن کی تفسیر کرنا چاہیئے وہی راہ جو علامہ طباطبائی طاب ثراہ نے اپنی تفسیر المیزان میں دکھائی اور اپنائی ہے۔ لیکن اس بات کی طرف بھی متوجہ رہنا ضروری ہے کہ جب ہم نے ایک آیت کو اس کے مخصوص سیاق سے نکال کرالگ کرلیا اور اس کے قبل و بعد کے رعایت کئے بغیر تنہا اسی کو اپنا محور قرار دیا تو ممکن ہے آیت کے حقیقی مطلب تک ہم نہ پہنچ سکیں، دوسرے لفظوں میں قرآن میں کلامی قرائن پائے جاتے ہیں اور یہ قرائن کبھی آیت سے پہلے کبھی اس کے بعد اور کبھی کبھی تو دوسرے سوروں میں نظر آتے ہیں ا ن قرائن پر توجہ کئے بغیر آیتوں کے حقیقی و واقعی مطالب تک رسائی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان حالات سے دوچار نہ ہوں اور آیتیں سب ایک دوسرے سے جدا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے واقعی مطلب سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں تو ہمیں کافی دقت نظر سے کام لینا ہوگا یعنی کسی آیت کو کسی موضوع کے تحت قرار دینے سے پہلے اس آیت کے قبل و بعد پر بھی نظر کرلیناچاہیئے اگر احتمال پیدا ہو کہ قبل و بعد کی آیتوں میں کوئی قرینہ موجود ہے تو اس کا بھی ذکر کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ ہم جس آیت سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اس کا قبل و بعد کی آیتوں کے ساتھ ذکر کریں اور دونوں حصوں کو بریکیٹ میں لکھ دیں تاکہ آیت سے استفادہ کرتے وقت متعلقہ “گفتگو کے قرائن” کی طرف سے غفلت کا شکار نہ ہوں۔
میں اس نکتہ کی طرف ایک بار پھر متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیشہ آیت کے قبل و بعد اس کے قرائن پر غور و فکر کے بعد ہی کسی آیت سے استدلال کرنا چاہیئے، حتیٰ مقالہ نگار کو خود اس مرحلے سے دوچار ہونا پڑا ہے کہ بعض وقت ایک آیت سے متعلق غور و فکر کے بعد اظہار نظر کرتا ہوں اور پھر ایک مدّت کے بعد متوجہ ہوتا ہوں کہ اس سے قبل کی آیت میں قرینہ موجود تھا جس کی طرف اس وقت متوجہ نہیں ہوسکا تھا اگر اس کی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو استدلال میں اور زیادہ استحکام پیدا ہوجاتا یا یہ کہ استدلال کا رخ کچھ اور ہوتا لہٰذا ہمیں اس نکتہ کی طرف سے ہرگز غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
جب ہم قرآن کے مفاہیم و معارف کی تقسیم بندی پر مجبور ہیں اور اس تقسیم بندی کے نتیجہ میں طبیعی طور پر آیتوں کی بھی تقسیم بندی کرنا پڑے گا (یعنی ہر باب کے ذیل میں چند آیتوں کا ذکر ضروری ہوگا) تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیتوں کی یہ تقسیم بندی کس بنیاد پر اور کس نظام کے تحت انجام دیں؟
سبھی جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں انسانی کتب میں رائج تقسیم بندی کے طریقوں کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ہے۔ بہت ہی کم ایسے سورے ملیں گے۔ حتیٰ ایک سطری سورے کیوں نہ ہوں۔جن میں شروع سے آخر تک صرف ایک موضوع پر گفتگو کی گئی ہو زیاد تر… حتیٰ ایک ہی آیت میں …کئی کئی مطالب سمودیئے گئے یں اس طرح ایک ہی آیت مختلف پہلوؤں اور گوناگوں رخون سے قابل استفادہ نظر آتی ہے۔ مثلا ایک ہی آیت میں اعتقادی پہلو بھی موجود ہے اور اخلاقی بھی، تاریخی پہلو بھی ہے اور تشریعی بھی وغیرہ وغیرہ چنانچہ آیات کے تجزیے میں یہ بھی ایک مشکل پیش آتی ہے البتہ اس مشکل کا حل یہ ہے کہ ایک ہی آیت کو ہم متعلقہ مختلف عنوانوں کے تحت تکراری طور پر ذکر کرسکتے ہیں۔