- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
جب کوئي قوم قرآن مجيد کي عزت و تعريف و تمجيد کرتي ہے تو در حقيقت وہ خود اپني تعريف و تمجيد کرتي ہے ايسي قوم اس انسان کے مانند ہے جوفتات عالمتاب کي مدح و ثنا کرتا ہے، کيونکہ قرآن کتاب ہدايت ہے، قرآن انسان کے لئے قيمتي الٰہي يتوں کا مجموعہ ہے
قرآن کتاب ارتقائے انساني ہے ۔ جوشخص واقعي طور پر اس کتاب کا احترام کرے درحقيقت اس نے اپني ذات، اپنے ادراک اور اپنے عمل کو قدروقيمت عطا کي ہے ۔
مسلمانوں کو قرآن سے جدا کرنے کے لئے برسہا برس سعي و کوشش کي گئي اور افسوس ہے کہ يہ کوشش کرنے والے اپنے مقصد ميں کامياب بھي ہوگئے ۔ اس طويل عرصہ ميں اسلامي معاشرے ميں قرآن مجيد کي ظاہري شکل و صورت کے سواکچھ باقي نہ رہا ۔ جوکتاب ہر دور کي نسل انساني کي ہدايت کے لئے نازل ہوئي تھي وہ،اسلامي معاشرے ميں ظاہري تکلفات اور رسوم و رواج کا ذريعہ بنادي گئي ۔ قرآن مجيد کو اس کي اصل حيثيت سے دور کرديا گيا، التبہ خدا کا شکر ہے کہ مسلم قوموں کا ايمان قرآن سے ہرگز نہ اٹھا اور يہ خود قرآن کا ايک معجزہ ہے ۔ ليکن قرآن کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک اس کے نزول کے اہداف و مقاصد کے مطابق نہ تھا ۔قرآن ، جو انسانوں کو تاريکي وظلمات سے نکال کر نور و روشني کي جانب ہدايت کرنے يا تھا، جس کتاب ميںہر چيز موجود تھي، انسانوں کے تمام سوالوں کے جواب موجود تھے ۔ جو کتاب انسان کي پوري زندگي کے لئے کافي تھي وہ رسومات و تکلفات کا ذريعہ بن گئي ۔
اس جرم کا حقيقي مجرم کون ہے؟
قوميں مجرم نہيں ہيں، انھيں اس جرم کا ذمہ دار نہيں ٹھہرايا جا سکتا ۔ سب سے پہلے ذمہ دار وہ سياست باز و منصوبہ ساز توسيع پسند ہيں جو اسلامي قوموں کے درميان قرآن مجيد کو اپنے مفادات کي راہ ميں رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ لہٰذا انھوں نے عوام سے قرآن مجيد کو چھيننے کے لئے کمر باندھ لي تھي ۔ اس کے بعد وہ لوگ گناہگار ہيں جنھوں نے انسانيت سے دور اور اسلامي مصالح و مفادات سے بے گانہ اغيار کي سازشوںاور ان کي شيطاني ومنحوس تدبيروں کو قبول کيا اور اپنے معاشرے ميں انھيں مدد پہنچائي ۔
قوميں قرآن کي محتاج ہيں
خود ہمارے معاشرے ميں انقلاب سے قبل، اسلام و قرآن کي نشاۃ ثانيہ سے پہلے کلام ا کي حالت افسوس ناک تھي ۔ مقصد يہ نہيں ہے کہ کوئي شخص تلاوت قرآن نہيں کرتا تھا، قرآن تھامگر صرف ظاہر داري کي حد تک، تلاوت قرآن کو ايک اضافي اور دوسرے درجے کي چيز سمجھا جاتا تھا، معاشرہ، توحيدي حاکميت اورقرآني تعليمات پر عمل پيرا نہ تھا ۔
جب کسي معاشرے ميں يہ چيزيں نہ ہوں تو درحقيقت اس معاشرے ميں قرآن کا وجود ہي نہيں ۔ ج مسلمان قوميں اپنے معاشرے ميں بازگشت قرآن کي محتاج ہيں اور يہ قرآن مجيد پر عمل کئے بغير ناممکن ہے ۔
ہميں يہ بات جان لينا چاہئے کہ بڑي طاقتيں قرآن مجيد کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتي ہيں ۔ وہ نہيں چاہتيں کہ حيات انساني کي قيادت وہدايت قرآن مجيد کے ذريعہ انجام پائے ۔ اسلاميان عالم کا فريضہ ہے کہ احيائ قرآن اور انساني معاشرے ميں قرآن مجيد حاکم کرنے کے لئے عظيم جہاد کريں، اس کے لئے جہاد کرنا مسلمانوں کا حق ہے ۔ اگر قرآن مسلمانوں کي زندگي ميںواپس جائے تو اسلامي قوموں پر بڑي طاقتوں کا اقتدار و تسلط ختم ہوجائے گا، امت اسلامي اورمسلم معاشرہ قرآن پسند شکل اختيار کرلے گا ۔
ہم نے اپنے ملک ميں صحيح معنوں ميں قرآن سے دوري کا احساس کيا ہے ’’ا ن قومي اتخذوا ہذا القرآن مہجوراً‘‘ يہ ہماري زندگي کي ايک حقيقت تھي، قرآن مہجور تھا، اسے بھلايا جا چکا تھا ۔
حتي کہ معارف اسلامي اور حقائق اسلام کے ادراک کے لئے بھي قرآن مجيدکو بطور سند و مصدر کم ہي پيش کياجاتا تھا ۔ تفسير قرآن کے سلسلے ميں کم کوشش ہوتي تھي ۔ حتي کہ ان تعبيرات کے مفاہيم کے ادراک پر جو قرں مجيد ميں موجود ہيں،بہت کم توجہ دي جاتي تھي، قرں کي زبان اکثر لوگوں کے لئے ناشنا اور نسل جوان قرآن سے بيزار تھي ۔رفتہ رفتہ گھروں، مدرسوں اور جلسوں وغيرہ ميں تلاوت قرآن بھي متروک ہوتي جارہي تھي ۔ ايک ايسي حالت ہمارے معاشرے پر طاري تھي ۔ البتہ يہ حالت پيدا کي گئي تھي ، دشمنوں نیزبردستي ہمارے عوام مسلط کي تھي، ہماري نئي نسل قرآن سے نامانوس تھي ۔
رفتہ رفتہ قرآن مجيد سے دوري کي پاليسي بنانے والے اپنے مقصد سے نزديک ہوتے جارہے تھے ۔ ان کا ئيڈيل مسقتبل قريب رہا تھا، وہ ايسے دور کے چکر ميں تھے جب مسلمان صرف نام کے مسلمان ہوں، انھيں دين کے بنيادي ستون، دين کے اصل ماخذ، دين کے بارے ميں کلام الٰہي يعني قرآن مجيد سے کوئي واقفيت نہ ہو۔ ہم ايک ايسے بھيانک مستقبل کي طرف بڑھ رہے تھے اور افسوس ہے کہ ج کچھ مسلمان قوميں اس حالت کو پنہچ چکي ہيں يا اس سے بھي بہت قريب ہيں ۔
قرآن زبان کي ترويج موقوف تھي ۔ جب کسي معاشرے ميں قرآن سے بے گانگي کا يہ عالم ہو مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے قرآن نظريات سے بے توجہي برتي جائے تو ايسے معاشرے ميںزندگي بسر کرنے والے عوام ضلالت و گمراہي کے دلدل ميں غرق ہو جائيں گے ۔ اسلام کے نام پر حقيقت سے کوسوں دور غلط افکار معاشرے ميں رائج ہو جائيں گے ۔ ہمارے معاشرے ميں يہ ساري چيزيں ہو چکي تھيں ۔ مختلف ثقافتوں سے متاثر ہو کر پيدا ہونے والے افکار اسلامي نظريات کے طور پر ذہنوں ميں جاگزيں ہو چکے تھے ۔ قرآن مجيد کي حقيقي وجود جو سورج کي طرح تاريکيوں کا سينہ چير کي دنيا کو منور کرتا ہے، شبہات کو دور اور مسائل کا حل پيش کرتا ہے، معاشرے سے مٹ چکا تھا ۔
ليکن ہمارے انقلاب نے قرآن کو مرکز قرار ديا ۔ لہٰذا فطري بات تھي،انقلاب نے ہم لوگوں کو بھي قرآن سے وابستہ کرديا، قرں کي واپسي کا اثر، تلاوت ، تفسير اور تجويد جيسے قرآن مسائل سے ہمار عوام کا لگا پيدا کرنا ہے، يہ دلچسپي صحيح اوربجاہے ۔
خوشي کا مقام ہے کہ اب ہمارے معاشرے کو تحريک کا مرکز قرآن مجيد کے بنيادي اصول ہيں ۔ ہم يہي چاہتے تھي تھے، ہمارے ذمہ داروں نے قرآن تعليمات پر عمل کرنے کا عزم کيا ہے ۔ ہر چند ابھي ہميں مکمل کاميابي حاصل نہيں ہوئي ہے ليکن کامياب کوششيں ضرور ہوئي ہيں ۔
ہمارے معاشرے ميں تلاوت و قرآت قرآن کا رواج اس بات کي علامت ہیکہ قرآن معاشرے ميں واپس گيا ہے ۔ ہميں اعتراف ہے کہ اس سے پہلے ہمارے عوام قرآن س زياد مانوس نہ تھے ۔ لہٰذا ضروري ہے کہ ہمارے عوام مناسب اور موزوں طور پر قرآن سے انسيت پيدا کريں ۔ ممکن نہيں کہ ہم کسي قوم کي دنيا و خرت کو قرآن کے ذريعہ سنوارنا چاہيں اور وہاں نظام حکومت کي اساس وبنياد عوام ہوں ۔ ليکن خود عوام قرآن سے انسيت نہ رکھتے ہوں، يہ ناممکن ہے ۔