- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/07/22
- 0 رائ
قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کے شروع میں حروف مقطّعات آئے ھیں، اور جیسا کہ ان کے نام سے ظاھر ھے کہ یہ الگ الگ حروف ھیں اور ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتے ھیں، جس سے کسی لفظ کا مفھوم نھیں نکلتا۔
قرآن مجید کے حروف مقطّعات، ھمیشہ قرآن کے اسرار آمیز الفاظ شمار ھوئے ھیں، اور مفسرین نے اس سلسلہ میں متعدد تفسیریں بیان کی ھیں، آج کل کے دانشوروں کی جدید تحقیقات کے مد نظر ان کے معنی مزید واضح ھوجاتے ھیں۔
یہ بات قابل توجہ ھے کہ کسی بھی تاریخ نے بیان نھیں کیا ھے کہ دورِ جاھلیت کے عرب یا مشرکین نے قرآن کے بہت سے سوروں میں حروف مقطّعات پر کوئی اعتراض کیا ھو، یا ان کا مذاق اڑایا ھو، جو خود اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ وہ لوگ حروف مقطّعات کے اسرار سے بالکل بے خبر نھیں تھے۔
بھر حال مفسرین کی بیان کردہ چند تفسیریں موجود ھیں، سب سے زیادہ معتبراور اس سلسلہ میں کی گئی تحقیقات سے ھم آھنگ دکھائی دینے والی تفاسیرکی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔ یہ حروف اس بات کی طرف اشارہ ھیں کہ یہ عظیم الشان آسمانی کتاب کہ جس نے تمام عرب اور عجم کے دانشوروں کو تعجب میں ڈال دیا ھے اور بڑے بڑے سخنور اس کے مقابلہ سے عاجز ھوچکے ھیں، نمونہ کے طور پر یھی حروف مقطّعات ھیں جو سب کی نظروں کے سامنے موجود ھیں۔
جبکہ قرآن مجید انھیں الفابیٹ اور معمولی الفاظ سے مرکب ھے، لیکن اس کے الفاظ اتنے مناسب اور اتنے عظیم معنی لئے ھوئے ھے جو انسان کے دل و جان میں اثر کرتے ھیں، روح پر ایک گھرے اثر ڈالتے ھیں، جن کے سامنے افکار اور عقول تعظیم کرتی ھوئی نظر آتی ھیں، اس کے جملے عظمت کے بلند درجہ پر فائز ھیں اور اپنے اندر معنی کا گویا ایک سمندر لئے ھوٴئے ھیں جس کی کوئی مثل و نظیر نھیں ملتی۔
حروف مقطّعات کے سلسلے میں اس بات کی تا ئید یوں بھی ھوتی ھے کہ قرآن مجید کے جھاں سوروں کے شروع میں حروف مقطّعات آئے ھیں ان میں سے ۲۴ مقامات پر قرآن کی عظمت بیان کی گئی ھے، جو اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ ان دونوں (عظمت قرآن اور حروف مقطّعہ) میں ایک خاص تعلق ھے۔
ھم یھاں پر چند نمونے پیش کرتے ھیں:
۱۔ <اٰلٰرٰ. کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیر>[۱]
الرٰیہ وہ کتاب ھے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ھیں اور ایک صاحب علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھیں“۔
۲۔ <طٰس. تِلْکَ آیَاتُ الْقُرْآنِ وَکِتَابٍ مُبِینٍ >[۲]
”طٰس ،یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ھیں“۔
۳۔ <اٰلٰم۔تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیمِ >[۳]
” الم ، یہ حکمت سے بھری ھوئی کتاب کی آیتیں ھیں“۔
۴۔ <اٰلٰمص. کِتَابٌ اٴُنزِلَ إِلَیْکَ>[۴]
”المص، یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ھے“۔
ان تمام مقامات اور قرآن مجید کے دوسرے سوروں کے شروع میں حروف مقطّعہ ذکر ھونے کے بعد قرآن اور اس کی عظمت کی گفتگو ھوئی ھے۔[۵]
۲۔ ممکن ھے قرآن کریم میں حروف مقطّعات بیان کرنے کا دوسرا مقصد یہ ھو کہ سننے والے متوجہ ھوجائیں اور مکمل خاموشی کے ساتھ سنیں، کیونکہ گفتگو کے شروع میں اس طرح کے جملے عربوں کے درمیان عجیب و غریب تھے، جس سے ان کی توجہ مزید مبذول ھو جا تی تھی اور مکمل طور سے سنتے تھے، اور یہ بھی اتفاق ھے کہ جن سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں وہ سب مکی سورے ھیں، اور ھم جانتے ھیں کہ وھاں پر مسلمان اقلیت میں تھے اور پیغمبر اکرم(ص) کے دشمن تھے، آپ کی باتوں کو سننے کے لئے بھی تیار نھیں تھے، کبھی کبھی اتنا شور و غل کیا کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی آواز تک سنائی نھیں دیتی تھی، جیسا کہ قرآن مجید کی بعض آیات (جیسے سورہ فصلت، آیت نمبر۲۶) اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ھیں۔
۳۔ اھل بیت علیھم السلام کی بیان شدہ بعض روایات میں پڑھتے ھیں کہ یہ حروف مقطّعات، اسماء خدا کی طرف اشارہ ھیں جیسے سورہ اعراف میں ”المص“ ، ”انا الله المقتدر الصادق“ (میں صاحب قدرت اور سچا خدا ھوں) اس لحاظ سے چاروں حرف خداوندعالم کے ناموں کی طرف اشارہ ھیں۔
مختصر شکل ( یا کوڈ ورڈ) کو تفصیلی الفاظ کی جگہ قرار دینا قدیم زمانہ سے رائج ھے، اگرچہ دورحاضر میں یہ سلسلہ بہت زیادہ رائج ھے اور بہت ھی بڑی بڑی عبارتوں یا اداروں اور انجمنوں کے نام کا ایک کلمہ میں خلاصہ ھوجا تا ھے۔
ھم اس نکتہ کا ذکرضروری سمجھتے ھیں کہ ”حروف مقطّعات“ کے سلسلہ میں یہ مختلف معنی آپس میں کسی طرح کا کوئی ٹکراؤ نھیں رکھتے اور ممکن ھے کہ یہ تمام تفسیریں قرآن کے مختلف معنی کی طرف اشارہ ھوں۔[۶]
۴۔ ممکن ھے کہ یہ تمام حروف یا کم از کم ان میں ایک خاص معنی اور مفھوم کا حامل ھو، بالکل اسی طرح جیسے دوسرے الفاظ معنی و مفھوم رکھتے ھیں۔
اتفاق کی بات یہ ھے کہ سورہ طٰہٰ اور سورہ یٰس کی تفسیر میں بہت سی روایات اور مفسرین کی گفتگو میں ملتا ھے کہ ”طٰہ“ کے معنی یا رجل (یعنی اے مرد) کے ھیں ، جیسا کہ بعض عرب شعرا کے شعر میں لفظ طٰہ آیاھے اور اے مرد کے مشابہ یا اس کے نزدیک معنی میں استعمال ھوا ھے ، جن میں سے بعض اشعار یا تو اسلام سے پھلے کے ھیں یا آغاز اسلام کے ۔[۷]
یھاں تک کہ ایک صاحب نے ھم سے نقل کیا کہ مغربی ممالک میں اسلامی مسائل پر تحقیق کرنے والے دا نشوروں نے اس مطلب کو تمام حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا ھے اوراس بات کا اقرار کیا ھے کہ قرآن مجید کے سوروں کی ابتداء میں جو حروف مقطّعات بیان ھوئے ھیں وہ اپنے اندر خاص معنی لئے ھوئے ھیں جو گزشتہ زمانہ میں متروک رھے ھیں، اور صرف بعض ھم تک پھنچے ھیں، ورنہ تو یہ بات بعید ھے کہ عرب کے مشرکین حروف مقطّعات کو سنےں اور ان کے معنی کو نہ سمجھيں اور مقابلہ کے لئے نہ کھڑ ے ھوں، جبکہ کوئی بھی تاریخ یہ بیان نھیں کرتی کہ ان کم دماغ والے اور بھانہ باز لوگوں نے حروف مقطّعات کے سلسلہ میں کسی ردّ عمل کا اظھار کیا ھو۔
البتہ یہ نظریہ عام طور پر قرآن مجید کے تمام حروف مقطّعات کے سلسلے میں قبول کیا جانا مشکل ھے، لیکن بعض حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا جاسکتا ھے، کیونکہ اسلامی منابع ومصادر میں اس موضوع پر بحث کی گئی ھے۔
یہ مطلب بھی قابل توجہ ھے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ھوا ھے کہ ”طٰہ“ پیغمبر اکرم(ص) کا ایک نام ھے ،جس کے معنی ”یا طالب الحق، الھادی الیہ“ ( اے حق کے طالب اور حق کی طرف ھدایت کرنے والے)
اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ لفظ ”طٰہٰ “ دو اختصاری حرف سے مرکب ھے ایک ”طا“ جو ”طالب الحق“ کی طرف اشارہ ھے اور دوسرے ”ھا“ جو ”ھادی الیہ“ کی طرف اشارہ ھے۔
اس سلسلہ میں آخری بات یہ ھے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لفظ ”طٰہ“ ، لفظ ”یٰس“ کی طرح آھستہ آھستہ پیغمبر اکرم(ص) کے لئے ”اسم خاص“ کی شکل اختیار کرگیا ھے، جیسا کہ آل پیامبر (ص)کو ”آل طٰہ“ بھی کھا گیا، جیسا کہ دعائے ندبہ میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ‘ کو ”یابن طٰہ“ کھا گیا ھے۔[۸]
۵۔ علامہ طباطبائی (علیہ الرحمہ) نے ایک دوسرا احتمال دیا ھے جس کو حروف مقطّعات کی ایک دوسری تفسیر شمار کیا جاسکتا ھے، اگرچہ موصوف نے اس کو ایک احتمال اور گمان کے عنوان سے بیان کیا ھے۔
ھم آپ کے سامنے موصوف کے احتمال کا خلاصہ پیش کررھے ھیں: جس وقت ھم حروف مقطّعات سے شروع ھونے والے سوروں پر غور و فکر کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں کہ مختلف سوروں میں بیان ھو ئے حروف مقطّعات سورہ میں بیان شدہ مطالب میں مشترک ھیں مثال کے طور پر جو سورے ”حم“ سے شروع ھوتے ھیں اس کے فوراً بعد جملہ <تَنْزِیْلُ الکِتَابِ مِن الله> (سورہ زمر آیت۱) یا اسی مفھوم کا جملہ بیان ھوتا ھے اور جو سورے ”الر“ سے شروع ھوتے ھیں ان کے بعد <تِلْکَ آیاتُ الکتابِ> یا اس کے مانند جملے بیان ھوئے ھیں۔
اور جو سورے ”الم“ سے شروع ھوتے ھیں اس کے بعد <ذٰلک الکتابُ لاریبَ فِیْہ> یا اس سے ملتے جلتے کلمات بیان ھوئے ھیں۔
اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ حروف مقطّعات اور ان سوروں میں بیان ھوئے مطالب میں ایک خاص رابطہ ھے مثال کے طور پر سورہ اعراف جو ”اٴلمٰص“ سے شروع ھوتا ھے اس کا مضمون اور سورہ ”الم“ اور سورہ ”ص“ کا مضمون تقریباً ایک ھی ھے۔
البتہ ممکن ھے کہ یہ رابطہ بہت عمیق اور دقیق ھو، جس کو ایک عام انسان سمجھنے سے قاصر ھو۔
اور اگر ان سوروں کی آیات کو ایک جگہ رکھ کر آپس میں موازنہ کریں تو شاید ھمارے لئے ایک نیا مطلب کشف ھو جائے۔[۹]([۱۰])
حواله جات
[۱] سورہ ھود ، آیت ۱۔
[۲] سورہٴ نمل ، آیت ا۔
[۳] سورہٴ لقمان ، آیت ۱و۲۔
[۴] سورہٴ اعراف ، آیت ۱و۲۔
[۵] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۶۱۔
[۶] تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۷۸۔
[۷] تفسیر مجمع البیان ،سورہٴ طہ کی پھلی آیت کے ذیل میں۔
[۸] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۱۵۷۔
[۹] تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۵و۶۔
[۱۰] تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۳۴۶۔