- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
ڈاکٹر محمود احمد غازی دنیا میں ہر کتاب کا کوئی نام هوتا هے جس سے وہ جانی پہچانی جاتی هے ۔ قرآن پاک کا بھی ایک معروف نام ”القران“ هے جس کے حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر میں جانی جاتی هے لیکن خود قرآن پاک میں اس کتاب کے کئی اور نام بھی دئیے گئے ہیں ۔ ان میں سے چار نام ایسے نمایا ں ہیں جن کا ذکر مختلف سورتوں اور مختلف آیات میں ملتا هے ۔ قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں خاص طور پر یہ چار نمایاں نام اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتے ہیں ۔ یہ معنویت اتنی غیر معمولی اہمیت رکھتی هے کہ خود اس سے قرآن پاک کے معجزہ هونے کے شواہد اور مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔
یوں تو دنیا کا ہر مصنف اپنی کتاب کا کوئی نہ کوئی نام رکھ ہی دیتا هے، لیکن دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں هے کہ جس کا نام اس کتاب پر اتنا مکمل طور پر صادق آتا هو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کتاب کے نام سے زیادہ کوئی نام اس کتاب پر صادق نہیں آسکتا ۔ یہ بات قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ مثال کے طورپر مشهور کتاب ” داس کپیٹال“ کارل مارکس کی لکھی هوئی ایک معروف اور اہم کتاب هے جس کا موضوع سرمایہ هے ۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ کے موضوع پر دنیا میں ہزاروں کتابیں موجود هوں گی۔ ممکن هے ان میں سے بعض کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی هوں، اور فرض کریں اگر یہ سب کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی نہ بھی هوں بلکہ فرض کر لیں کہ ساری کتابیں اس سے کم درجہ ہی کی هوں تب بھی ان میں سے ہر کتا ب کو سرمایہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا هے ۔ جو کتاب بھی سرمائے کے موضوع پر هے تو آپ اسے داس کپیٹال کہہ سکتے ہیں اور کوئی شخص اس نام پر نہ اعتراض کر سکتا هے نہ اس نام کو غلط قرار دے سکتا هے ۔ اس لیے اس نام میں کوئی ایسی خصوصی معنویت نہیں هے جو کارل مارکس کی داس کپیٹال کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہ پائی جاتی هو اور اس کی وجہ سے یہ نام اس موضوع کی کسی اور کتاب کے لئے آپ استعمال نہ کر سکیں ۔
” دیوان غالب“ کو لیجئے جو اردو ادب تو کیا عالمی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ هے ۔ لیکن لفظ ” دیوان غالب“ میں کیا معنویت هے، کچھ نہیں ۔ ہر وہ شاعر جس کا تخلص غالب هو اپنے مجموعہ کلام کو دیوان غالب کے نام سے موسوم کر سکتا هے ۔ اس لیے کہ ہرصاحب دیوان شاعر کا دیوان هوتا هے جو اس کے نام سے معروف هوجاتا هے ۔ اس میں نہ کوئی خاص بات هے اور نہ کوئی منفرد انداز کی معنویت۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں شاعر هوئے ۔ ہر شاعر کے مجموعہ کلام کو آپ اس کا دیوان کہہ سکتے ہیں ۔ اس طرح سے آپ دیکھتے جائیں تو دنیا میں جتنی کتابیں ہیں ان کے نام کے بارے میں آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا ۔ کسی کتاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن هے ۔ صرف ”قرآن“ ایسا نام هے جو صرف ایک ہی کتاب پر صادق آتا هے اور اس کے علاوہ کسی بھی کتاب پر اس مفهوم میں اس منفرد نام کا اطلاق نہیں هو سکتا ۔
القرآن کے لغوی معنی ہیں وہ تحریر جسے باربار پڑھا جائے ۔ لہذا باربار پڑھی جانے والی کتاب کو عربی زبان میں قرآن کہا جائے گا ۔ پھر جب اس میں حرف تخصیص یعنی الف لام لگتا هے تو اس میں مزید تخصیص پیدا هوجاتی هے، یعنی القرآن۔ اس اضافہ سے اس میں یہ مفهوم پیدا هوتا هے کہ وہ واحد چیز جو باربار کثرت اور تسلسل کے ساتھ پڑھی جارہی هے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں هے جو اتنے تواتر اور تسلسل سے پڑھی جارہی هو۔ القرآن کا یہ لفظی مفهوم ذہن میں رکھیں ۔
اس مفهوم کے بعد میں آپ کے سامنے ایک دعویٰ پیش کرتا هوں اور اس دعویٰ کی ایک دلیل بھی آپ کے سامنے پیش کرتا هوں ۔ دعویٰ یہ هے کہ قرآن پاک دنیا کی تاریخ میں واحد کتاب هے جو گذشتہ چودہ سو سال سے روئے زمین پر اتنے تسلسل سے پڑھی جارہی هے اور ہر وقت، ایک ایک وقت میں، بلکہ ایک ایک لمحہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اس کو مسلسل اور تواتر سے اس طرح پڑھ رهے ہیں کہ اس تلاوت میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کا بھی وقفہ نہیں آتا ۔ روئے زمین کا اگر نقشہ ہمارے سامنے هو اوراس کو سامنے رکھ کر اس دعویٰ پر غور کیا جائے کہ چودہ سو برس سے لے کر اس لمحہ تک اور آئندہ جب تک یہ دنیا موجود هے ایک سیکنڈ کا وقفہ اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا کہ اس وقفہ میں لاکھوں آدمی کہیں نہ کہیں قرآن پاک کی تلاوت نہ کر رهے هوں تو ذرا سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح اور مبرہن هو جاتی هے، اور یہ صاف سمجھ میں آجاتا هے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی کہیں ایسا نہیں هوتا ۔ یہ محض دعویٰ نہیں هے، بلکہ اس کی دلیل خود آپ کے سامنے موجود هے ۔ روئے زمین پر ایک ارب بیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں ۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو پتا چلتا هے کہ روئے زمین کے جنوب مشرقی کونے میں فجی اورآاسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں ۔ فجی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں ۔ اسی طرح آسٹریلیا میں چار لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو اکثر وبیشترآسٹریلیا کے بالکل جنوب مشرق کے علاقہ نیو ساؤتھ ویلز میں رہتے ہیں ۔ جب فجی اورآسٹریلیا میں صبح کی نماز کا وقت هوتا هے اور یہ یاد رهے کہ دنیا میں صبح سب سے پہلے فجی اورآسٹریلیا ہی میں هوتی هے تو وہاں کے مسلمان کیا کرتے هوں گے؟ آپ مان لیجئے کہ نماز پڑھنے والوں کا اوسط مسلمانوں میں بہت کم رہ گیا هے ۔ فرض کر لیں کہ مسلمان قوم میں بہت سے لوگ لا مذہب اور بے دین هو گئے ہیں اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا هے ۔ کوئی مخالف زیادہ سے زیادہ یہی فرض کر سکتا هے ۔ لیکن اس بات سے کوئی بڑے سے بڑا مخالف اسلام بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سے ایک چوتھائی یعنی پچیس فی صد لوگ ضرور نماز پڑھتے هوں گے ۔ اگر پچیس فیصد لوگ نماز پڑھتے هوں تو گویا کم از کم ایک لاکھ مسلمان اس علاقے میں ایسے ضرور ہیں جو روزانہ علی الصباح فجر کی نماز کے لئے کھڑے هوتے ہیں، اور کھڑے هو کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں ۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا هے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد بقدر توفیق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ۔ مان لیجئے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان دس فیصد میں بھی دس فیصد ہیں تو پھر بھی کئی ہزار مسلمان وہ ہیں جو قرآن پاک کھول کر تلاوت کر رهے هوں گے، اور جو باقاعدہ تلاوت نہیں کرتے وہ بھی کم از کم نماز میں سورةفاتحہ اور سورة اخلاص وغیرہ کی تلاوت ضرور کرتے ہیں ۔ اول تو یہ تعداد لاکھوں میں هے ۔ لیکن بڑے سے بڑا مخالف بھی چند ہزار کا اعتراف ضرور کرے گا اور نہیں کرتا تو آپ اسے فجی اور آسٹریلیا لے جا کر دکھا دیجئے ۔
اس کے بعد جب آسٹریلیا میں فجر کی نماز کا وقت ختم هونے لگتا هے تو انڈونیشیا میں فجر کی نماز کا وقت شروع هو جاتا هے ۔ انڈونیشیا میں بیس کروڑسے زائد مسلمان بستے ہیں ۔ پورے ملک میں ساڑھے پانچ ہزار جزائر ہیں جو تین ہزار میل کے رقبے میں پھیلے هوئے ہیں ۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جزائر کا ایک لمبا سلسلہ آپ نقشہ پر دیکھ لیجئے ۔ ان بیس کروڑ کی آباد ی میں اگر دس فیصد بھی نماز پڑھتے هوں تو پہلے مشرقی علاقہ میں فجر کا وقت شروع هو جاتا هے پہلے مشرقی جزائر میں فجر کی نمازوں سے سلسلہ کا آغاز هوتا هے، پھر وسطی جزائر میں پھر آخر میں مغربی جزائر میں ۔ یاد رهے کہ انڈونیشیا کے مغربی جزائر ملائیشیا کے ساتھ ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں ۔ یوں فجر کا وقت ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بیک وقت شروع هو جاتا هے، اور جونہی وہاں یہ سلسلہ ختم هوتا هے تو بنگلہ دیش میں شروع هو جاتا هے ۔ بنگلہ دیش میں ختم هوتے ہی بھارت میں شروع هو جاتا هے جہاں بیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں ۔
ابھی بھارت کے مسلمان نماز پڑھ ہی رهے هوتے ہیں کہ فجی میں ظہر کا وقت داخل هو جاتا هے وہ سلسلہ دوبارہ شروع هوجاتا هے ۔ اب گویا دو سلسلے هوگئے ۔ اس روئے زمین پر تلاوت قرآن پاک کی دو لہریں چل رہی ہیں، یہ دو لہریں یا سلسلے یا دو (Waves) جو مشرق سے شروع هو کر مغرب کو جار ہی ہیں ۔ ہندوستان میں ابھی یہ لہر ختم نہیں هوتی کہ پاکستان میں شروع هوجاتی هے اور پاکستان کے بعد پورا سنٹرل ایشیا، پورا افغانستان، پورا چین جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اس لہر میں شامل هو جاتے ہیں،اور یوں اس وسیع وعریض خطہ میں تلاوت قرآن کا سلسلہ شروع هو جاتا هے پاکستان کے چودہ کروڑ میں سے اگر بیس مسلمان بھی قرآن پڑھتے هوں تو کم وبیش ستر اسی لاکھ مسلمان پاکستان بھر میں فجر کے وقت تلاوت اور نماز میں مشغول هوتے ہیں اگرچہ یہاں تلاوت قرآن کرنے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ هے ۔ جب نماز فجر کا یہ سلسلہ مصر تک پہنچتا هے تو فجی میں عصر کا وقت داخل هو چکا هوتا هے ۔ اس طرح بیک وقت تین سلسلے شروع هو جاتے ہیں، اور جب یہ سلسلہ آگے پہنچتا هے اور مراکش میں داخل هوتا هے تو پیچھے فجی میں مغرب کا وقت داخل هو جاتا هے ۔ اب چار سلسلے هو گئے اور جب امریکہ میں جہاں نوے لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں فجرکا وقت داخل هو چکا هوتا هے اور وہ فجر کی نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں تو فجی میں عشاء کا وقت شر وع هوجاتا هے، یوں روئے زمین پر نمازوتلاوت کے پانچ سلسلے ایسے چلتے رہتے ہیں کہ جن میں چاروں طرف سے تسلسل قائم رہتا هے ۔ اس میں کبھی وقفہ نہیں هوتا ۔ اگر کسی کو شک هوں تو وہ ٹیلیفون کرکے معلوم کر سکتا هے کہ دنیا میں کہاں کہاں اس وقت کون کونسی نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور کہاں کہاں تلاوتیں هو رہی ہیں ۔ یوں بھی دنیا کا نقشہ سامنے هو، نمازوں کے اوقات اور دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا علم هو اور سورج کی حرکت کا اندازہ هو تو ٹیلی فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ نقشہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ چوبیس گھنٹے میں نمازو تلاوت کی ہر وقت یہ پانچ روئیں مسلسل اور متواتر چلتی رہتی ہیں، اور روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ہزاروں، لاکھوں مسلمان قرآن پاک کی تلاوت یا قرآن پاک کے کسی ایک حصہ کی تلاوت یا سماعت کر رهے هوتے ہیں ۔
اس اعتبار سے اگر ہم یہ کہتے ہیں تو درست کہتے ہیں کہ القرآن وہ واحد کتاب هے جس پر یہ لفظ اس کمال اور بھر پور طریقہ سے صادق آتا هے کہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا اور دنیا میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں هے جو اتنے تسلسل کے ساتھ اور اتنی کثرت کے ساتھ پڑھی جار ہی هو کہ اس میں چودہ سو سال سے کوئی وقفہ ہی نہ آیا هو۔ وقفہ آہی کیسے سکتا هے، اس تسلسل میں ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی اس لیے نہیں آ سکتا کہ پانچ روئیں متواتر چل رہی ہیں ۔ لہذا القرآن ایسا نام هے کہ یہ کسی اور کتاب پر پورا اتر ہی نہیں سکتا ۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کے لئے نام بھی ایسا رکھا هے کہ اس ایک کتاب کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں هے جو القرآن تو کیا قرآن بھی کہلا سکے ۔ یہ نام 26مرتبہ قرآن پاک میں استعمال هوا هے۔