- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
ڈاکٹر محمود احمد غازی
اب آپ دیکھئے کہ قران مجید یہاں جب اپنے آپ کو الکتاب کہتا هے تو وہ گویا دو باتیں کہتا هے ۔ ایک تو وہ اپنی ایک بنیادی صفت کا تذکرہ کرتا هے کہ اس وقت یہ اسی طرح کی الکتاب (دی بک) هے جس طرح ایک زمانہ میں تورات الکتاب تھی یا انجیل الکتاب تھی۔ یعنی اللہ کی مرضی کی واحد ترجمان اور اس کے قانون اور نظام کا واحد اور قطعی ماخذ۔ دوسری بات جو اس پہلی بات سے آپ نکلتی هے وہ یہ هے کہ اب رہتی دنیا تک کے لئے یہی الکتاب هے ۔ اس لیے کہ اس کو لانے والا خاتم الانبیاء هے اور جس امت پر یہ اتاری گئی و ہ خاتم الامم هے،لہذا لا محالہ اس کو بھی خاتم الکتب هونا چاہیے ۔
دوسری جگہ جہاں الکتب (کتابوں) کا ذکرکرتا هے وہاں ایک تو اشارہ پچھلی کتابوں کی طرف هے، قرآن ان سب کی تصدیق کرتا هے کہ ان کا سارا پیغام درست تھا ۔ اس لیے کہ ہم ہی نے ان کو بھی اتار ا تھا، ہم اس پہلی بات کی آج تصدیق کرتے ہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ وہ صحیح بات تھی اورآج بھی وہی بات کہتے ہیں جو پہلے کہی تھی۔ گویا مصنف خود یہ کہہ رہا هے ۔ اس آیت مبارکہ میں اگلی صفت یہ بتائی کہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مہیمنا علیہ بھی هے، یعنی یہ اس سابقہ کتاب(یا کتابوں) پر اس طرح حاوی هے کہ اس کے جو بنیادی عناصر ہیں یہ ان سب کو اپنے اندر سموئے هوئے هے اور گویا اپنے احاطے میں لیے هوئے هے ۔
عربی زبان میں بڑے جامع قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو مفهوم کو اس طرح اداکرتے ہیں کہ اور کسی زبان میں وہ مفهوم اس جامعیت کے ساتھاادا نہیں هوتا ۔ ”مہیمن“ کہتے ہیں اس طرح حاوی هو جانے کو جس طرح وہ مرغی کہ جب کوئی چیل یا کوا اس کے بچوں پر جھپٹنے لگے تو وہ پر پھیلا کر اپنے سارے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر ایسے بیٹھ جاتی هے کہ کوئی بچہ اس کا باہر نہیں رہتا، اور یوں وہ اپنے سب چوزوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی هے ۔ اس کیفیت کو ”مہیمن“ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی قرآن میں ”مہیمن“ آتی هے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس طرح اپنے قبضہ اور حفاظت میں لیے هوئے هے کہ کوئی قوت ایسی نہیں هے کہ اس کی کائنات میں دخل اندازی کر سکے یا خالق کائنات کے کام میں مداخلت کر سکے ۔ قرآن پاک کیلئے بھی یہی لفظ استعمال هوا هے، جس کا صاف مفهوم یہ هے کہ قرآن پاک پچھلی آسمانی کتابوں میں دی گئی تعلیمات کا اس طرح محافظ هے اور ان کے عطر اور جوہر کو اس نے اس طرح اپنے قبضے میں لیا هوا هے کہ کوئی اس میں دخل اندازی کرکے اس کو مٹا نہیں سکتا ۔
لوگوں نے تورات کو مٹا دیا، انجیل کو مٹا دیا، دیگر کتابوں میں ملاوٹیں کر دیں ۔ لیکن تورات میں کیا تھا آج ہمیں معلوم هے، اس لیے کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کہا وہ قرآن میں لکھا هوا هے ۔ زبور میں جو پیغام دیا گیا تھا وہ قرآن میں لکھا هوا هے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن میں لکھا هوا هے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن مجید محفوظ هے لہذا ساری کتابوں کی بنیادی تعلیم بھی محفوظ هے اور یوں ہر نبی نے جو تعلیم دی وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی هے ۔
قرآن میں یہ جو باربار کہا گیا کہ فلاں نبی کا ذکر کرو، فلاں نبی کا ذکر کرو، یہ اس لیے نہیں هے کہ بلاوجہ قصے سنانے مقصود ہیں ۔ بلکہ یہ ذہن نشین کرانا مقصود هے کہ ہر علاقہ میں، ہر زمانہ میں، ہر نبی نے یہی بنیادی تعلیم دی هے کہ اللہ ایک هے اور وہی عبادت کے لائق هے ۔ اسی طرح آخرت، رسالت اور مکارم اخلاق کے متعلق ایک جیسی تعلیم دی گئی۔ اس لیے الکتاب کا لفظ قرآن پاک کے لئے بھی استعمال هوا اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے بھی استعمال هوا هے ۔ جس میں یہ بتا یا گیا هے کہ یہ کتاب وہ واحد کتا ب هے جو پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی هے ۔ اب ان پرانی کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو کچھ هے وہ اب اس کتاب میں موجود هے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب یہی واحد کتاب هے جو ان ساری کتابوں کی قائم مقام کی حیثیت رکھتی هے ۔ اب ان کتابوں کے صرف نام اور حقیقت پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ اتاری گئی تھیں،تو وہ صحیح تھیں، اور جس زمانے کے لئے وہ اتاری تھیں اس وقت تک کے لئے صحیح تھیں ۔ ان سب کی تعلیم اور خلاصہ کے طور پر اب اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود هے ۔ یہ هے مفهوم الکتاب کا جو قرآن پاک کے نام کے طورپر کئی مقام پر آیا هے ۔
اس کتاب کا تیسرا اہم اور معنی خیز نام الفرقان هے ۔ سورة فرقان کا آغاز ہی اس اعلان سے هوتا هے کہ وہ ذات انتہائی بابرکت هے جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمائی۔ عربی زبان میں فرقان مصدر کا وزن هے اور عربیت کے قاعدہ سے اگر مصدر کے وزن کو کسی صفت کے مفهوم میں استعمال کیا جائے تو اس میں دوام اور تسلسل کا مفهوم پیدا هو جاتا هے ۔ لغوی اعتبار سے فارق اور فاروق سے مراد وہ چیز یا وہ فرد هے جو کوئی سی دو چیزوں کے درمیان فرق کرتا هو۔ فاروق میں مبالغہ کا مفهوم بھی موجود هے اور اصطلاحاً فاروق سے مراد وہ ہستی یا شخصیت هے جو حق وباطل کے درمیان فرق کردے ۔ جو جھوٹے اور سچے کو الگ الگ کر دے، جو کھرے اور کھوٹے کو جداجدا کر دے ۔ فرقا ن کا بھی یہی مفهوم هے ۔ لیکن اس میں مبالغہ کے ساتھ ساتھ دوام اور تسلسل کا مفهوم بھی پایا جاتا هے ۔ لہذا فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق وباطل میں دائمی طورپر تمیز کر سکے اور کھرے کھوٹے کو الگ الگ کرکے یہ بتا سکے کہ صحیح کیا هے اور غلط کیا هے ۔ گویا فرقان سے مراد وہ دائمی کسوٹی هے جو پرکھ کر یہ بتا سکے کہ سونا کھرا هے کہ کھوٹا ۔
قرآن مجید نہ صرف فرقان هے بلکہ ”الفرقان“ هے، یعنی وہ واحد اور مخصوص کسوٹی جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے هے ۔ الفرقان کے آجانے کے بعد اب کسی فارق یا کسی اور فرقان کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق وباطل کی واحد کسوٹی یہی الفرقان هے ۔ اب یہی الفرقان وہ ”المیزان“ هے جس پر تول کر دیکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا هے اور کون ہلکا ثابت هوتا هے ۔ اب جو کچھ اس دائمی کسوٹی کی پرکھ پر پورا اترتا هے وہ صحیح اور قابل قبول هے، اور جو پورا نہیں اترتا وہ غلط اور ناقابل قبول هے ۔ یہ ایک فولادی چوکھٹا هے جس سے کسی بھی چیز کا صحیح اور مکمل هونا جانچا جائے گا، جو جتنا پورا هے اتنا مکمل هے اور جو جتنا جھوٹا هے اتنا کھوٹا هے۔ یہ سارے مفاہیم الفرقان کے لفظ میں شامل ہیں
اس کتاب کا چوتھا نام” الذکر“ هے ۔ ذکرکے معنی یاد دہانی کے ہیں ۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں قرآن مجید کو” الذکر“کے لفظ سے یاد کیا گیا هے ۔ سورة حجر کی آیت 9 میں جہاں قرآن پاک کی حفاظت کا ذکر هے وہاں الذکر ہی کا نام استعمال فرمایا گیا هے ۔ ارشاد هوتا هے: نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِناّٰ لَہ‘ لَحَافِظُونَ۔
کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا هے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
یاد دہانی کا لفظ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا هے ۔ اگر آپ پہلی مرتبہ کسی کو کوئی خط لکھیں یا پہلی مرتبہ کسی سے کوئی سوال، مطالبہ یا درخواست کریں تو آپ اس کو یاددہانی کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے ۔ یاددہانی اس صورت میں هوتی هے جب آپ وہ بات پہلے کہہ چکے هوں ۔ کوئی بات، تحریر یا خط اگر ایک بار بھیجا جا چکا هو اور اس پر عمل نہ هوا هو، یا اس کو غلط سمجھا گیا هو یا اس میں کسی نے ردوبدل کر دی هو یا وہ سابقہ تحریر سرے سے گم هو گئی هو تو پھر یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی هے ۔
قرآن مجید اس اعتبار سے ایک یاد دہانی کی حیثیت رکھتا هے کہ وہ پچھلی تمام کتابوں کی آخری، حتمی، قطعی اور مکمل یاد دہانی هے ۔ قرآن مجید چونکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا هے اور قرآنی وحی کو سابقہ کتابوں کی وحی کا ہی
تسلسل قرار دیتا هے اس لیے اس کی نوعیت دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے ایک یاددہانی ہی کی هونی چاہیے ۔
پہلے کہا جا چکا هے کہ قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے بنیادی اور اساسی پیغام پر حاوی هے۔ قرآن کا یہ حاوی هونا خود ایک مسلسل یاد دہانی کی حیثیت رکھتا هے۔
ذکر کے معنی یاد دہانی کے علاوہ کسی چیز کو زبانی یاد کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ قرآن مجید اس اعتبار سے بھی ”الذکر“ هے کہ دیگر آسمانی کتابوں کے برعکس یہ واحد کتاب هے جس کو حفاظت کی خاطر کروڑوں انسانوں نے کاغذی سفینوں کے ساتھ ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رکھا ۔ قرآن مجید کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسی کتاب نہیں هے جس کو اس محبت، عقیدت، احترام، اہتمام اور انتظام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کیا هو۔ اس مفهوم کے اعتبار سے بھی اگر کسی کتاب پر” الذکر“ کا لقب صادق آسکتا هے تو وہ یہی کتاب حکیم هے۔
یہ چار تو وہ نام ہیں جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں اور اس کتاب کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے صفاتی نام بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً قرآن پاک میں استعمال هوئے ہیں اور اس کتاب کی مختلف حیثیتوں کو اور مختلف صفتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ جن کا اندازہ سینکٹروں میں هے ۔ یہ ساری قرآن کی صفتیں ہیں یعنی یہ وہ کتاب هے جو سراپا حکمت و دانائی هے، جو عظیم الشان هے، جو بزرگی اور برتری والی هے۔ اس طرح دیگر صفات قرآن مجید کی مختلف حیثیتوں اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں۔