- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/28
- 0 رائ
علوم قرآن کے مہمترین اور پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک قرائت قرآن سمجھا جاتا ہے، جس کے متعلق بہت سارے محققین نے مقالے کتابیں لکھی ہیں،لہذا شاید اس کے بارے میں مزید قلم اٹھانا تحصیل حاصل کے مترادف ہو لیکن ہماری اس ناچیز زحمت کے ہدف کے حصول کی خاطر قرائت قرآن کی طرف بھی اشارہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو ں کیونکہ ہمارے استاد محترم علوم قرآن کے ماہر آقای رجبی جو عرصہ دراز سے موسسہ امام خمینی کے علوم قرآن کے مدیر ہونے کے علاوہ حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کا سپیشلسٹ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے مؤسسۃ امام خمینی میںدیئے ہوئے اپنے لکچرز میں کئی مرتبہ فرمایا جب تک علوم قرآن کے تمام مسائل سے اجمالی بحث نہ کریں تب تک علوم قرآن کی ضرورت کا احساس نہ ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ، لہذا قرائت قرآن کا مختصر خاکہ قارئین کے گوشزد کرنے میں آسانی ہونے کے علاوہ قرآن کے افہام و تفہیم کے مرحلہ میں مشکل پیش نہیں آتی۔
حقیقت قرائت قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے بہت سے علماء نے فرمایا قرائت یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو اس طرح پڑھنا جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تلاوت کی ہے ۔
یا دوسرے الفاظ میں قرائت قرآن یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو ان کے مخارج اور لہجے کے ساتھ پڑھنا ۔
لیکن ہمارا مقصد قرائت قرآن کی طرف اجمالی اشارہ کرنا ہے لہذا قرائت کے معنی لغوی اور اصطلاحی سے ہٹ کر دیگر کچھ ایسے مطالب کی طرف اشارہ کردوں جو قرائت قرآن سے وابستہ ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور الفاظ میں سے بعض کی قرائت یقینا مختلف ہے اور مخارج کے ساتھ کتابوں میںنقل کیا گیا ہے، حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی بہت سے کتابوں میں قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ کے عنوان سے ان کے اسامی گرامی بھی نقل کیئے گئے ہیں، چنانچہ قراء سبعہ کانام صاحب حدایق نے اس طرح بیان کیا ہے :
( ١ ) عبداللہ بن عامر (٢) عبداللہ بن کثیر (٣) عاصم (٤) ابو عمرو بن العلاء (٥) حمزہ بن زیات (٦) نافع (٧) الکسائی۔
البتہ علم قرائت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد اصحاب کے دور میں افراد ذیل کی قرائت معروف اور مشہور تھی۔
(١) حضرت علی (٢) عثمان (٣) ابن کعب (٤) زید بن ثابت (٥) عبداللہ بن مسعود (٦) ابو الدرداء (٧) ابو موسی ۔
اور اصحاب کا دور ختم ہونے کے بعد لفظ قراء ، قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ انہی افراد کے لئے لقب کے طور پر استعمال ہونے لگا یعنی کلمہ قراء سے ہمیشہ انہیں افراد کی طرف تبادر ہوتا تھا، لہذا مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے کہ ان قرائت میں سے کونسی قرائت صحیح ہے ، کونسی غلط ،کیا ان تمام قراأات کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہ۔
اس مسئلہ کے بارے میں اہل سنت کے محققین میں سے ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرائت سبعہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے حتیٰ جناب سبکی نے مناہل العرفان میں فرمایا ہے قرائت عشرہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔ (١ )
جناب مفتی البلاد الندلیسہ ابو سعید فرج ابن لب کا کہنا ہے کہ جو قرائت قراء سبعہ کو تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچے سے انکار کرے تو وہ کافر ہے، (٢ )
نیز ہمارے مذہب کے علماء میں سے کچھ مجتہدین کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے جیسے شہید اول نے کتاب ذکری میں جناب محقق شیخ علی، مرحوم جندی وغیرہ نے فرمایا قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے ۔(٣) لیکن مذہب تشیع کی نظر میں معروف اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہونچی ہے بلکہ انہیں قراأات میں سے بعض قرائت قاری کا خود ساختہ ہے بعض ان کا اجتہاد ہے بعض قرائت اگرچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے
لیکن نہ تواتر کے ساتھ، بلکہ باالاحاد منقول ہے ، اور اسی نظریہ کو اہل سنت کے محققین میں سے ایک گروہ نے بھی اختیار کیاہے ۔
چنانچہ مرحوم فخررازی نے نظریہ اول کو اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کرنے کے بعد فرمایا: اتفق الاکثرون علی ان القراأات المشہورۃ منقولۃ بالتواتر وفیہ اشکال لانّ….. یعنی اکثر علماء کا اجماع ہے کہ مشہور قرائت تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس میں اشکال ہے کیونکہ اس نظریہ کے قائل ہونے کی صورت میں ترجیح بلا مرجح لازم آتا ہے، جو عقلا ممکن نہیں ہے ۔(۴) اگرچہ ہمارے علما میں سے جیسے شہید ثانی وغیرہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کے طرفدار ہیں جناب فخر رازی کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : لیس المراد بتواترہا ان کل ما ورد متواتر بل المراد الخصار المتواتر الان فی ما نقل۔(۵ )
قرائت سبعہ تواتر سے منقول ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان قرائت میں سے ہر ایک تواتر سے ہم تک پہونچی ہو بلکہ اس کا مقصد ہے کہ اب تک جو قرائت نقل کی گئی ہے انہیں میں تواتر، منحصر ہے لیکن حقیقت میں اس طرح توجیہ کرکے جواب دینا ظہور کلام کے مخالف ہے ۔
لہذا پہلا نظریہ اگرچہ اکثر اہل تسنن اور اہل تشیع کے برجستہ علماء میں سے ایک جماعت کا نظریہ ہے . لیکن اسی کی حجیت پرکوئی ٹھوس دلیل نظر نہیں آتی ہے،کیونکہ تواتر کے دعویدار سنّی ہیں، جس پر ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بات قبول نہیں کرسکتے ۔
ثانیاً: خود اہل سنت کی پوری ایک جماعت نے اس نظریہ کو رد کیا ہے ۔
ثالثا: پہلے نظریہ کے طرفدار اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ”ان القرآن قد نزل علی سبعہ احرف کلہا شاف واف”۔(۶) قرآن سات حروف پر نازل ہواہے جو تمام صحیح ہے اور کافی ہے ۔اور اس طرح کی ایک اور روایت جناب صدوق نے نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:ان اللہ یأمرک ان تقراء القرآن علی حرف واحد فقلت یا ربّ وسع علی امتی فقل ان اللہ یأمرک ان تقراء القرآن علی سبعہ احرف(۷ )
” بتحقیق اللہ نے تجھے قرآن کو ایک حرف پر پڑھنے کا حکم دیاہے. اس وقت میں نے اللہ سے درخواست کی پالنے والے میری امت پر( رحم فرمایا) انکو تلاوت قرآن پر توسعہ فرما، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: آپ قرآن کوسات حرف پر تلاوت کرسکتے ہیں۔
ان روایات اور ان کی مانند دیگر تمام روایات کا جواب یہ ہے کہ یہ سند کے حوالے سے ضعیف ہونے کے علاوہ مجمل ہے ، ان تقراء القرآن علی سبعۃ احرف کا مختلف قرائت کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے، یا کیا ہے واضح نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ مرحوم ثقۃالاسلام کلینی نے روایت کی ہے حضرت امام محمد باقر نے فرمایا: ان القرآن واحد منزل من عند الواحد و لکن الاختلاف من قبل الرواۃ.(۸) قرآن ایک ہے جو ایک ہی کی طرف سے نازل ہواہے لہذا اگر اختلاف اور متعدد نظر آئے تو یہ راویوں کی طرف سے ہے ۔روایت مطلق ہے جسمیں ہر اختلاف اور تعدد شامل ہے ، حتی قرائت کا اختلاف اور تعدد بھی۔
نیز سند صحیح کے ساتھ کلینی نے روایت کی ہے فضیل بن یسار نے کہا : میں نے حضرت امام جعفر صادق سے پوچھا:ان الناس یقولون نزل القرآن علی سبعۃ احرف فقال کذبوا اعداء اللہ و لکنہ نزل علی حرف واحد من عند واحد.(۹) تحقیق لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے (کیا یہ صحیح ہے) آپ نے فرمایا: اللہ سے بغض رکھنے والے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ قرآن ایک ہی
ہستی کی طرف سے ایک ہی حرف پر نازل ہوا ہے ۔ان دو، روایتوں کو نقل کرنے کے بعد مرحوم محدث کاشانی نے فرمایا:نزل علی حرف کامعنی یہ ہے کہ قرأت میں سے فقط ایک صحیح ہے ۔
صاحب وافی نے مذکورہ دوحدیثوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا :ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرائت فقط ایک صحیح ہے، جو بھی قرائت ہے وہ اہل بیت ؑ کی قرائت کے مطابق ہے، لیکن اس کی قرائت ہمارے دور میں مشخص نہیں ہے ۔
لہذا ان مطالب کے پیش نظر حضرت آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا قرائت قرآن تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے اورمرحوم سیوطی اور قاضی کے نظریہ کو واضح الفساد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرأ سبعۃ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کا نظریہ صحیح نہ ہونے پر دلیل قطعی ہے ۔(۱۰ )
ان نکات کی بناء پر قرائت سبعہ با تواتر ہم تک پہونچنے کی بات قبول نہیں کر سکتے ہیں، لہذا ہم اپنی بات کی مزید استحکام کی خاطر اختلاف قرائت کے عوامل و اسباب کی طرف اشارہ کرینگے ۔
١۔ کچھ اسباب و عوامل کو غیر اختیاری اور قہری سمجھا جاتا ہے جس کی بازگشت حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی طرف ہوتی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے جو قرائت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں
معمول تھی، اس دور میں قبیلے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا مخصوص لہجہ اور لحن ہوا کرتا تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا تم قرآن کو فصیح ترین لحن اور لہجے میں تلاوت کرو۔
اور فارابی کا کہنا ہے: کانت قریش اجود العرب اتقا لا فصیح من الالفاظ و اسہلہا علی اللسان عند المنطق و احسنہا مسموعا و (۱١) قریش ،عرب قوموں میں سے رفتار میں نیکو ترین بولنے میں فصیح ترین الفاظ کی ادائیگی میں آسان ترین سنے میںبہترین سیرت کے عادی تھے ۔
اور عرب اقوام میں قریش فصاحت کے حوالے سے بنی سعد زبان کی سلامتی کے اعتبار سے معروف اور مشہور تھا،لہذا شاید اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ”انا افصح العرب بید انی من قریش و انی نشأت فی بنی سعد بن بکر ”(۱۲)
” میں عرب میں فصیح ترین ہستی ہوں کیونکہ میرا تعلق قریش سے ہے اور میرا نشو و نما بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں ہوا ہے ”
اور قرآن کی آیات اور الفاظ فصیح ترین اور بلیغ ترین ترکیبات کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جبکہ اقوام عرب ،مختلف لحن ولہجے کے مالک تھے جسکو ادبی کتابوں میں مختلف قبیلوں
کا لحن یا لہجہ دلیل اور برہان کے طور پرنقل بھی کیا گیا ہے ۔
لہذا فصیح ترین کلام کو جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اقوام عرب میں سے کم از کم مکہ و مدینہ کے عرب زبان والوں کی خدمت میں تلاوت کی اور یاد کرنے کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ تلاوت کرنے کی تاکید کی اس اختلاف لحن اور لہجے کی بنا پر قرآن کی قرائت میں بھی اختلاف لحن اور لہجہ عام ہو گیاہے ۔
٢۔ اختلاف کی دوسری وجہ حفاّظ قرآن یا محافظین قرآن کی حفاظت اور ثبت و ضبط کی نارسائی بتایا جاتا ہے ۔
یعنی بسا اوقات کوئی مسلمان مدینہ میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے کوئی آیہ سنتے تھے اسو قت معمول یہ تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنی ہوئی آیت کو دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں پیش کریں، اس وقت مسلمان عین وہ الفاظ جو مخصوص ہیأت اور شکل و صورت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنا تھا وہ فراموش کرتے تھے اس کی مانند اور شبیہ دوسری ہیئت اور لحن پر پیش کرتے تھے. اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت بھی منقول ہے جو اسی مطلب کی عکاسی کرتی ہے:”و کلہا شاف کاف مالم یختم آیۃ عذاب برحمۃ و آیۃ رحمۃ بعذاب کقولک ہلمّ و تعالی”(۱۳ )
وہ تمام قراأات صحیح اور کافی ہیں جب تک آیت رحمت آیت عذاب میں اور آیت عذاب آیت رحمت میں مختلف قرائت کی وجہ سے نہ بدل جائے،نیز رسم الخط اور علامت و اعراب گذاری کی وجہ سے بھی اختلاف واقع ہوا ہے جسکی مثالیں علوم قرآن کی کتابوں میں وافر مقدار میں موجود ہیںرجوع کیجیے ۔
٣۔ اختلاف کی تیسری وجہ کاتبین اورنساّخ کافراموش اور سہو بتایا جاتا ہے ۔
چنانچہ زبیر نے ابان بن عثمان سے پوچھا المتقین کے نون پر فتحہ کیوں آیا ہے؟ ابان نے جواب میں کہا یہ کاتبین کی فراموشی اور خطاء کا نتیجہ ہے، نیز عین اسی مطلب کو عروۃ بن زبیر نے عایشہ سے نقل کیاہے، ایسے اسباب اور عوامل کو غیر اختیاری اور قہری بتایا جاتا ہے جن کے نتیجے میں قرائت قرآن متعدد اور مختلف ہو چکی ہے ۔
عمدی اور اختیاری اسباب :
قرائت قرآن کے مختلف ہونے کے اسباب میں سے ایک عمدی اور اختیاری بتایا جاتا ہے جس کے بارے میں علوم قرآن کے محققین نے تفصیلی گفتگو کی ہے پھر بھی کچھ اشارہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قارئین محترم کی تشنگی کو بجھا سکیں، عمدی اور اختیاری اسباب سے مراد لیا جاتا ہے کہ قرآن کے واضح اورروشن دستور کو اپنے مفادات اور اغراض کی خاطر تلاوت قرآن اور قرائت قرآن میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ فاعل کو مفعول یا مفعول کو فاعل یا دیگر وجوہ کی شکل میں پیش کرسکیں۔
اسی وجہ سے ہر علم میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں جیسے ابوعبید نے کتاب فضائل میں ابن جریر نے تفسیر میں، ابو شیخ محمد بن کعب قرظی اور حاکم مستدرک نے اسامہ سے انہوںنے محمد بن ابراہیم التمیمی سے نقل کیا ہے کہ جناب عمر نے آیت ذیل کی قرائت اس طرح کی :
” السابقون الاولون من المہاجرین والانصار” یعنی کلمۃ انصار کو مرفوع پڑھا تاکہ سابقون پر عطف کرسکیں نہ مہاجرین پر، اور والذین میں واو عاطفہ کو حذف کرکے والذین کو انصار اور مہاجرین پر عطف کرنے کی بجائے الذین پڑھکر انصار کیلئے صفت قرار دی ہے ۔
جبکہ باقی قراء نے” والانصار والذین التّبعوا” کی شکل میں قرائت کی ہے یعنی الانصار کو مکسور الذین کے اوپر واو عاطفہ کے ساتھ قرأت کی ہے ،ایسی قرائت کا سبب عمدی اور اختیاری تھا چونکہ ذاتی مفادات کو فروغ دینے کی خاطر اس طرح تلاوت کی ہے تاکہ سابقون انصار پر عظمت حاصل نہ کرسکیں اور تابعین کے نام سے ایک گروہ کو انصار کی عظمت اور فضیلت میں شریک قرارنہ دے سکیں، اس داستان اور کہانی کے پس منظر کو جناب بلاغی نے مقدمہ تفسیر الاء الرحمن میں یوں نقل کیا ہے ۔
جب زید بن ثابت نے عمر کی خدمت میں عرض کیا الانصار اور والذین دونوں المہاجرین پر عطف ہیں تو جناب عمر تعجب کے ساتھ زید بن ثابت سے کہنے لگے میں نے گمان کیا تھا کہ سابقیت مہاجرین کا مخصوص کوئی منصب ہے،زید بن ثابت نے کہا والذین واو عاطفہ کے ساتھ پڑھنا صحیح ہے. جناب عمر نے اس کی بات نہیں مانی بارہا بغیر واو عاطفہ قرائت کرتا رہا، اس وقت زید بن ثابت نے کہا جناب خلیفہ دانا تر ہیں، جناب عمر نے ابی بن کعب کو بلا بھیجا اس سے بغیر واو قرأت کی تصدیق کروانا چاہیے مگر ابی نے بھی والذین واو عاطفہ کے ساتھ قرائت کی پھر بھی جناب عمر نے نہیں مانا اور جناب عمر نے قرائت کے وقت جناب ابی بن کعب سے اشارہ بھی کیا اور کہا میری قرائت کی تصدیق کرو اس وقت ابی نے کہا خدا کی قسم اللہ کے رسول نے ہمیں والذین کی شکل میں تلاوت کرکے بتایا ہے لیکن آپ بہت بڑے اشتباہ کے شکار ہے اس وقت عمر نے کہا فنعم اذن۔ (۱۴)
لہذا کہا جا سکتا ہے کہ قرائت قرآن کی صورتحال مختلف ہونے کے اسباب عمدی میں سے قوی ترین اسباب سیاسی، کلامی اور حزبی اور عملی انگیزہ بتایا جاتا ہے،لہذا مصاحف عثمانی کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ مختلف قراء ات کو جائز التلاوت قرار دے سکیں(۱۵ )
حتی اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مصاحف عثمانی کو عبدالملک بن مروان کے دور حکو مت تک بغیر نقطہ و اعراب کے رکھا گیا اس کے دور میں حجاج بن یوسف کو جو عراق کا حکمران تھا مصاحف عثمانی کو نقطہ گذاری کرنے کا حکم ہوا اس نے دو ہستیوں کو بنام نصر بن عاصم اور یحیی بن یعمر کے ذمہ پر ڈالا یہ دونوں ابوالاسود ویلی کے شاگر دتھے ۔
نیز لکھا گیا ہے کہ جس مصحف میں تحریف ہونے کا خوف پیدا ہوا تو عبدالملک کے دور میں ابوالاسود ویلی کے بعد خلیل بن احمد نے نقطہ گذاری ، علائم ہمزہ تشدید (اشمام) دیگر حرکات کے کاموں کو مکمل کیا۔(۱۶ )
لہذا قراأات مختلف ہونے کے وجوہات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین محترم مفصل کتابوں کی طرف رجوع کریں تاکہ حقیقت کی عکاسی ہو اور نماز جیسی عبادات میں ہر قرائت کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں نماز اور عبادات کی صحت یا عدم صحت کو بیان کرسکیں۔
حواله جات
( ١ ) مناہل العرفان ص٤٣٣ )
( ٢ ) مناہل العرفان ص٤٢٨ )
( ٣ ) حدایق ج٨ص٩٥ )
( ۴ ) حدایق ج٨ ص٩٧)
(۵) حدایق ج٨ص٩٧
( ۶ ) تفسیر طبری، ج١، ص٩)
(۷) خصال ج٢،ص١١ )
۸ ) الوافی، ج٥،باب اختلاف القراء ات)
(۹) الوافی، ج٥ )
( ۱۰ ) البیان، ج١ ص ١٢٤ بیروت
( ۱١ ) کتاب الالفاظ والحروف )
( ۱٢ ) بحار الانوار، ج١٧،ص١٥٨
( ۱۳ ) شناخت قرآن ص١٣٤
( ۱۴ ) شناخت قرآن، ص١٣٩)
(۱۵) تاریخ عرب قبل الاسلام ج ٨ ص ١٨٦ )
( ۱۶ ) وفیات الاعیان)