- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- 2022/01/20
- 0 رائ
قرآن مجید نے متعدد آیات میں ضرورت قیامت پر دلائل و براھین پیش کئے ھیں۔ جن میں سے بعض مختصراً مندرجہ ذیل ھیں:
(۱) قیامت کے بغیر دنیا کا عبث اور بیکار ھونا
دنیاوی زندگی، خلقت انسان کا حقیقی اور نھائی ھدف قرار نھیں پاسکتی کیونکہ یہ ایک مختصر ، وقتی، گزرجانے والی اور مشکلات ومصائب سے پر،نیز آخر میں ختم ھوجانے والی زندگی ھے۔ لھٰذااگر قیامت نہ ھو تو زندگی انسان دنیاوی زندگی میں ھی محدود و مختصر ھو کر رہ جائگی جس کے نتیجہ میں خلقت انسان، عبث، لغو اور لایعنی ھو کر رہ جائے گی۔
)اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴَنَّمَا خَلَقْنَا کُم عَبَثاً وَّاٴَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ)
کیا تم یہ سمجھتے ھو کہ ھم نے تم کو یوں ھی عبث پیدا کردیا ھے اور تم ھماری طرف لوٹ کر نھیں آؤ گے۔ (۱)
(۲) قیامت کا واقع ھونا
عدل خدا کا تقاضا ھے اس دنیا میں اکثر نیک و بد دونوں قسم کے افراد ایک ھی صف میں کھڑے ھوتے ھیں اور مساوی طور پر دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ھوتے ھیں بلکہ ایسا بھی ھوتا ھے کہ شریف النفس افراد دیکھتے رہ جاتے ھیں اور ظالم صفت اشخاص سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیتے ھیں ۔یھاں عدل خداوند عالم کاتقاضا ھے کہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے جدا ھوں اور دونوں کو ان کے اعمال کی سزا یا جزا دی جائے اورچونکہ دنیا میںایسا ھونے والا نھیں ھے لھٰذا یہ دوسری دنیا یعنی آخرت میںیقینا واقع ھوگا۔
)اَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرِحُوا السَّیِّئَآتِ اٴَنْ نَجْعَلَهمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَا هم وَمَمَا تُهمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ(
کیا برائی اختیار کرنے والوں نے یہ خیال کرلیا ھے کہ ھم انھیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرار دیں گے کہ سب کی موت وحیات ایک جیسی ھو۔ یہ ان لوگوں نے نھایت بدترین فیصلہ کیا ھے۔ (۲)
(۳) قیامت کا واقع ھونا
رحمت الٰھی کا تقاضا ھے خداوند عالم بے حد وحدود رحمت وکرم والا ھے اور اس کی یہ رحمت وکرم اس بات کی موجب ھے کہ اس کا یہ فیض انسان کی موت پر ھی اختتام پذیر نہ ھو جائے بلکہ اس کے صالح اور مومن بندے اس کی نعمتوں سے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ھوتے رھیں۔
(کَتَبَ عَلٰی نَفْسِه الرَّحْمَةَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ لَا رَیبَ فِیْه )
اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ھے۔ وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کسی شک کی گنجائش نھیں ھے۔ (۳)
قیامت کے انکار کے اسباب وعلل
معمولاً انسان چاھتا ھے کہ اس دنیا میں بغیر کسی قید و بند کے آزاد زندگی گزارے تاکہ جو چاھے کرے، جو چاھے سنے، دیکھے یا کھے۔ دوسری طرف، قیامت پر اعتقاد، عدالت الٰھی میں حاضری اور نامہٴ اعمال کا کھلنا اس کی زندگی کو محدود ومقید بنادیتا ھے اور ساتھ ھی ساتھ اس کو بعض قوانین واحکام پر بھی عمل کرنا پڑتا ھے ۔یھی وجہ ھے کہ انبیاء کی مسلسل تاکیدات کے باوجود قیامت کا انکار کیا جاتا رھا ھے۔
(اٴیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَه، بَلیٰ قَادِرِیْنَ عَلیٰ اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَه، بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَاَمَامَه”
کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ھے کہ ھم اس کی ھڈیوں کوجمع نہ کرسکیں گے یقینا ھم اس بات پر قادر ھیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں بلکہ انسان یہ چاھتا ھے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے۔ (۴)
ھویٰ و ھوس کی پیروی ھی باطل پرستوں کے لئے قیامت اور اس کے وقوع پذیر ھونے کے انکارکی باعث ھوتی ھے اور یہ لوگ مختلف بھانوں اور حیلوں کے ذریعے اس حقیقت سے بچنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔ قرآن مجید کی آیات کے مطابق، یہ انکار اور پھلوتھی مختلف انداز سے سامنے آتی رھی ھے مثلاً ان لوگوں کے بقول:
(۱) قیامت کے واقع ھونے پر کوئی دلیل نھیں ھے۔ واذا قیل ان وعدالله حق والساعة لاریب فیها قلتم ماندری ماالساعة ان نظن الا ظناوما نحن بمستیقنین (۵)
(۲) قیامت گذشتہ زمانے کے افراد کے ذریعے گڑھا ھوا ایک افسانہ ھے۔قالوا ء اذامتنا وکنا تراباً انالمبعوثون لقد وعدنا نحن واٰباوٴناهذا من قبل ان هذا الا اساطیر الاولین (۶)
(۳) قیامت، خدا پر ایک بھتان یا پھر دیوانگی کی حالت میںکھی گئبات ھے۔وقال الذین کفروا هل ندلکم علیٰ رجل ینبئکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتریٰ علی الله کذباً ام به جنة (۷)
(۴) کبھی کھتے ھیں: مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا، جادو ھے۔و لئن قلت انکم مبعوثون من بعد الموت لیقولن الذین کفروا ان هذا الا سحر مبین (۸)
(۵) اگر قیامت حق ھے تو ھمارے گذشتہ لوگوں کو زندہ کرو۔ و اذا تتلیٰ علیهم آیاتنا بینات ما کان حجتهم الا ان قالوا ائتو بابائنا ان کنتم صادقین (۹)
(۶) انسان کو دوبارہ زندہ کرنا نھایت دشوار کام ھے۔ زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلیٰ و ربی لتبعثن۔۔۔(۱۰)
(۷) مردوں کو زندہ کرناخدا کی قدرت سے باھر ھے۔قال من یحیی العظام و هی رمیم (۱۱)
(۸) خدا انسان کے بکھرے ھوئے اجزاء سے آگاہ نھیں ھے لھٰذا انھیں دوبارہ یکجا نھیں کرسکتا۔و قال الذین کفرو ا لا تاٴتین الساعة قل بلیٰ و ربی لتاٴتینکم عالم الغیب لا یعزب عنه مثقال ذرة فی السموات و لا فی الارض و لا اصغر من ذلک و لا اکبر الا فی کتاب مبین (۱۲)
قرآن کریم ان اعتراضات وشبھات کے جواب میں خدا کی قدرت مطلقہ کو پیش کرتا ھے اور کھتا ھے کہ ان لوگوں نے خدا کو اس طرح نھیں پھچانا ھے جو پھچاننے کا حق ھے۔و ما قدروا الله حق قدره و الارض قبضته یوم القیامة (۱۳)
نیز یہ کہ جو آسمانوں کو خلق کرنے کی قدرت رکھتاھے وہ مردوں کودوبارہ زندہ بھی کرسکتا ھے۔ او لم یروا ان الذی خلق السموات و الارض و لم یَعْی بخلقهن بقادر علی ان یحیی الموتی(۱۴)
جو انسانوں کو ایک بار خلق کرسکتا ھے وہ دوبارہ انھیں زندہ بھی کرسکتا ھے۔ فسیقولون من یعیدنا قل الذی فطر کم اوّل مرة(۱۵)
خدا روئے زمین پر کم ھو جانے والی ھر شئے سے آگاہ ھے۔قد علمنا ما تنقص الارض منهم و عندنا کتاب حفیظ (۱۶)
حوالہ جات
۱۔مومنون: ۱۱۵
۲۔جاثیہ:۲۱
۳۔انعام:۱۲
۴۔قیامت:۵،۳
۵۔جاثیہ :۳۲
۶۔مومنون: ۸۲،۸۳
۷۔سبا :۷،۸
۸۔ھود :۷
۹۔جاثیہ: ۲۵
۱۰۔ تغابن :۷
۱۱۔یٰسین :۷۸
۱۲۔سبا :۳
۱۳۔زمر:۶۷
۱۴۔احقاف:۳۳
۱۵۔اسراء:۵۱
۱۶۔ق