- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/04/08
- 0 رائ
سائنسدانوں اور میڈیکل کے ماہرین نے روزے سے کے اثرات پر کافی تجربات کیے ہیں۔اس سے انہیں بہت سے کیمیائی اور بائیالوجیکل اثرات کا پتہ چلا ہے جو روزہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک اور دیگر کیفیات سے روزہ دار پر مترتب ہوتے ہیں۔بہت سے اثرات ایسے ہیں جو تمام روزہ داروں پر ہوتے ہیں اور وہ بہت ہی واضح ہیں اور کچھ ایسے اثرات ہیں جو پوشیدہ نوعیت کے ہیں۔سب سے اہم یہ ہے کہ جگر کی شوگر میں تبدیلی آتی ہے اور جلد کے نیچے ذخیرہ شدہ چربی پر اثر پڑنے لگتا ہے۔ انسان روٹین میں کھانا کھاتا ہے تو بہت پروٹین پیدا ہوتے ہیں جس سے جگر اور دیگر اعضا حرکت کرتے ہیں۔ کچھ فاسد مادے جمع ہو جاتے ہیں جن سے جسمانی اعضا متاثر ہوتے لگتے ہیں روزہ کے نیتجے میں یہ فاسد مادے ختم ہونے لگتے ہیں اور دل و جگر محفوظ ہو جاتے ہیں۔جسم کو جس چیز کی جتنی ضرورت ہوتی ہے وہ اتنی مقدار میں ملنے لگتی ہے۔
ان میڈیکل فوائد پر میڈیکل کے کافی ماہرین کی آراء موجود ہیں:
پروفیسر نیکولائف بیلوی کہتے ہیں بڑے شہروں میں رہنے والے تمام لوگ اگر صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو وہ مکمل بھوک کی مشق کریں یعنی روزہ رکھیں۔ یہ ہر سال تین سے چار ہفتے تک ہونی چاہیے تاکہ جسم فاسد اور زہریلے مادوں سے چھٹکارا پا لے۔
ڈاکٹر بندکٹ جو امریکہ کے مشہور ماہر طب ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے غلطی کی جو کہتے ہیں جب انسان کچھ کھاتا نہیں ہے تو اسے غذا نہیں ملتی۔حقیقت یہ ہے کہ انسان جب روزہ سے ہوتا ہے تو جسم میں بڑی مقدار میں موجود مواد کو کھاتا ہے وہ مواد دل اور دیگر اعضا کے اردگرد موجود ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روزہ کا رکھنا جسم کے لیے بہترین عمل ہے جس میں جسم میں اعضا کے اردگرد موجود فاسد مادے جو جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں ان کو کھا لیتا ہے۔روزہ معدے میں موجود فاسد مواد سے بھی نجات دیتا ہے اور اعضا کو مختلف بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ روزہ کی حالت میں انسانی جسم اپنی خوراک ان اجزاء سے حاصل کرتا ہے جو بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔اس طرح روزہ جسم میں موجود بیماریوں سے نجات دلاتا ہے۔ معدے اور دیگر مقامات پر موجود اندرونی زخموں سے نجات دیتا ہے اس لیے ڈاکٹرز اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ روزہ رکھا جائے تاکہ روزہ میں جسم کے اندر موجود یہ تمام امور انجام پا سکیں۔
دوسری طرف ڈاکٹر حامد بدری کہتے ہیں کہ پورا سال انسان کا معدہ فرصت نہیں پاتا کہ وہ کچھ ضروری کاموں کو انجام دے سکے جس وجہ سے انسان بیمار ہو جاتا ہے تو وہ معدہ بیماری کی حالت میں وہ کام کرتا ہے اور اس کا روز مرہ کا کام بہت متاثر ہوتا ہے۔اس لیے بہت ضروری ہے کہ معدے کو کچھ وقت دیا جائے اور روزہ کی صورت میں بہترین انداز میں مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر فاک فادون جو ان عالمی ماہرین میں سے جنہوں نے روزہ پر بات کی ہے کہتے ہیں ہر انسان روزہ کا محتاج ہےاگرچہ وہ مریض نہ بھی ہو کیونکہ غذاوں اور دوائیوں کے زہریلے مادے انسانی جسم میں رہ جاتے ہیں یہ انسان کو مریض کی طرح بنا دیتے ہیں۔ اس سے اس کی زندگی پر جوش نہیں رہتی اور پھر جب انسان روزہ رکھتا ہے تو ان زہریلے مادوں سے شفاء پا لیتا ہےاس طرح اس کی خوشگوار زندگی پوری قوت و طاقت کے ساتھ پہلے کی طرح اس کی طرف لوٹ آتی ہے۔
اس طرح روزہ وہ پہلا اصول بن گیا ہے جس کی ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔زمانہ قدیم سے آج تک طبی ماہرین اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں عظیم فلسفی بقراط کہتے ہیں تھکاوٹ سے بچنا اور صحت کو برقرار رکھنا ہے تو معدہ کو خالی رکھنا ہو گا۔
جن امور کا تذکرہ کیا گیا یہ طبعی اور سائنسی حوالے سے ہیں۔ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے آپﷺ فرماتے ہیں: روزہ رکھو صحت مند رہو۔
ماہ مبارک رمضان کا روزہ اور تہذیب و تربیت
روزہ تربیت کا ایک بڑا مدرسہ ہے اور اس سے براہ راست استفادہ کیا جاتا ہے۔روزہ دار روزہ سے صبر،ارادہ ، مجاہدہ نفس اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز سیکھاتا ہے۔ روزہ کے ذریعے انسان کو ایسے ماحول سے آشنا کیا جاتا ہے جس میں ضرورت مندوں کی مدد کے جذبے کو پیدا کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے سے کمزور لوگوں کی مدد کرے۔
حضرت جعفریہ طیارؑ صاحبِ ذولجناحین کے بارے میں ہے جب وہ جنگ موتہ میں گِر پڑے تو عبداللہ بن رواحہ ایک پیالہ پانی کا لائے لیکن حضرت جعفرؑ نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا کہ میں روزہ دار ہوں اسے میرے سرہانے رکھ دو اگر میں غروب تک زندہ رہا تو افطار کروں گا نہیں تو میں اللہ سے روزہ کی حالت میں ملاقات کروں گا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت جعفر طیار ؑ روزہ پر باقی نہیں رہی کہ اسی حالت میں اپنے رب سے ملاقات کریں مگر انہوں نے پانی کے موجود ہونے اور زخموں سے خون جاری ہونے کے باوجود روزے پر اصرار کیا۔وہ اپنے رب کی طرف چلے گئے اور ان کی روح اپنے رب سے مطمئن تھی۔
امام سجاد سے مروی ہے کہ میں نے اپنی پھپھی زینبؑ کو شام کے راستے میں بعض مقامات پر دیکھا آپ بیٹھ کر نماز ادا کر رہی تھیں میں نے پوچھا ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:میں بھوک کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہوں تین راتیں ہو گئی ہیں کہ یہ لوگ مجھے ایک دن رات میں صرف ایک روٹی دیتے ہیں میں وہ بچوں میں تقسیم کر دیتی ہوں۔
یہ وہی صورتحال ہے جو آپ کے بابا امیر المومنینؑ اور آپ کی والدہ حضرت فاطمہ زہراءؑ کے ساتھ ان کے گھر میں پیش آئی تھی۔اس پر اللہ نے گواہی دیتے ہوئے قرآن کی آیات کو نازل کیا تھا اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾
۸۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ۹۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔
منھال بن عمرو دمشقی سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں میں دمشق کے بازار میں چل رہا تھا میں نے دیکھا کہ علی بن حسینؑ عصا کے سہارے چل رہے تھے وہ پاوں پر آہستہ چل رہے تھے اور ان کی پنڈلیوں سے خون جاری تھا اور آپ پر زردی چھائی تھی۔ منھال کہتا ہے مجھ پر عبرت طاری ہو گئی اور میں نے آپ سے پوچھا اے رسول اللہ ﷺ کے فرزند آپ نے کیسے صبح کی؟ اے منھال اس کی صبح کیسے ہو گی جو یزید بن معاویہ کا اسیر ہو؟ اے منھال ! اللہ کی قسم جب سے میرے والد شہید ہوئے ہیں، ہماری خواتین کے پیٹ نہیں بھرے اور نہ ان کے سروں پر چادریں ہیں وہ دن کو روزے رکھتی ہیں اور رات کو قیام کرتی ہیں۔
ماہ رمضان اور روحانی تربیت
ماہ مبارک رمضان دوسرے مہینوں سے اس لیے ممتاز ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں ہر مکلف انسان پر روزہ فرض کیا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) (سورة البقرة ـ 183(
اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
ماہ مبارک رمضان اللہ کا مہینہ ہے اسی لیے یہ تمام مہینوں سے افضل ہے۔ یہ رحمت، مغفرت اور توبہ کا مہینہ ہے۔ نبی اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اے لوگو خدا کا برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آرہا ہے، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں اس کے ساعات و لحظات تمام ساعات و لحظات سے افضل ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کی دعوت پر بلایا گیا ہے اور اس میں تم اللہ کی کرامات کے حامل قرار دیے گئے ہو۔ اس میں تمہارا سانس لینا عبادت ہے اور تمہارا اس میں سونا بھی عبادت ہے۔ اس میں تمہارے اعمال مقبول اور دعائیں قبول ہوتی ہے۔
اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس ثمر آوار مہینے سے فائدہ اٹھائے اور اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کے قرب کو اختیار کرے اور اس ماہ میں عبادت اور عمل صالح کو انجام دے۔
کامل روزہ :
انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے روزے کو کمال تک پہنچانے کے لیے مادی اور روحانی طور پر روزے کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے پرہیز کرے۔ جس طرح وہ کھانے اور پینے سے پرہیز کرے کیونکہ ان دونوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ انسان کے روحانی بلندی میں مانع بننے والی چیزوں سے بھی پرہیز کرے جیسے غیبت، جھوٹ اور تہمت سے رک جائے۔ اسی طرح روزہ دار کو چاہیے کہ وہ خود کو غنا اور فحش فلمیں دیکھنے سے بھی دور رکھے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: جسم کا روزہ یہ ہے کہ انسان کھانے پینے والی اشیاء سے اپنے اختیار سے اللہ کا خوف اختیار کرتے ہوئے رکے اور یہ پرہیز کر کے اللہ تعالی کے ثواب و اجر کی خواہش رکھتا ہو۔ نفس کا روزہ یہ ہے کہ انسان حواس خمسہ کو ہر طرح کے گناہوں سے بچائے اور انسان اپنے دل کو ہر طرح کے شر کے اسباب سے پاک کر لے۔ کامل ترین روزہ وہ ہے جس میں جسم مادی روزہ توڑنے والی اشیاء سے پرہیز کرے، اگر زبان و دل کے گناہ کرتا رہے تو ایسا روزہ بھی روزہ دار کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ نبی اکرمﷺ سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں: کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں۔
امیر المومنین حضرت علیؑ سے روایت ہے کتنے ہی روزہ رکھنے والے ایسے ہیں جن کا روزہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں،کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو سوائے جاگنے کے کوئی فائدہ نہیں۔ میں پسند کروں گا ایسے جاگنے سے سو جاوں او رایسے روزے کہ افطار کر لوں۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ماہ مبارک رمضان میں اپنی تربیت کرے اپنی روح کو پاکیزہ کرے۔ ماہ رمضان ایک ایسا مدرسہ ہے جس میں انسان اپنے ارادے کی مضبوطی کو طاقتور بناتا ہے، اپنے دل کو پاکیزہ کرتا ہے اور اپنی روح کی پرورش کرتا ہے۔ ماہ رمضان رحمت اور توبہ کا مہینہ ہے اسی طرح یہ مادی اور معنوی رذائل سے بچنے کا مہینہ ہے۔
روح کی تربیت :
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان میں اپنا تذکیہ نفس کریں اور اپنی روحانی تربیت کریں تو آپ کو ان امور پر عمل کرنا ہو گا:
آپ کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کریں۔اس کی آیات میں تدبر کریں، اس کے اوامر و نواھی پر عمل کریں۔ خود کو قرآن اخلاق و آداب سے مزین کریں۔
ہر رات دعائے افتتاح کی تلاوت کریں اس کے معانی اور رازوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہر شب جمعہ دعائے کمیل کی تلاوت نہ بھولیں۔ اسی طرح دعائے ابو حمزہ ثمالی اور دعائے جوشن کبیر و صغیر کی تلاوت کریں۔ اسی طرح ان دعاوں کی بھی تلاوت کریں جن کا پڑھنا ماہ مبارک رمضان میں مستحب قرار دیا گیا ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی ہر نماز تہجد ادا کریں۔ اگر ہم مکمل نہیں پڑھ سکتے تو چھوٹی پڑھ لیں۔ نماز شب کے ایک مومن انسان کی زندگی پر بہت ہی اہم اثرات ہوتے ہیں۔
جب تک موقع میسر ہو نماز جماعت کو ترک نہیں کرنا، نماز جماعت بالخصوص ماہ مبارک رمضان میں نماز با جماعت انسان کے اندر روح عبادت کی پرورش کرتی ہے۔
اس ماہ میں اپنے مضبوط ارادے سے بری عادات کو ترک کرنا ہے جیسے سگرٹ نوشی، بسیار خوری، ضرورت سے زیادہ سونا اور اس طرح کی دیگر بری عادات، ان سے نجات پانے کے لیے ماہ رمضان ایک بہترین موقع ہے۔
اپنا احتساب خود کریں اس سے پہلے کہ اس دن آپ کا احتساب کیا جائے جب مال اور اولاد میں سے کوئی بھی فائدہ پہنچانے والا نہیں ہو گا۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ ہر روز جو بھی اعمال نیک انجام دیے ہیں ان کا حساب کریں اور افعال قبیحہ کا بھی حساب کریں۔ ماہ رمضان ماہ توبہ اور ماہ مغفرت ہے اس لیے اللہ سے حقیقی توبہ کرنی چاہیے۔
ماہ مبارک رمضان میں سستی نہیں کرنی بلکہ اس ماہ میں اپنے اعمال کو انجام دینے میں دیگر مہینوں سے زیادہ کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ اس میں نیکیاں ڈبل ہو جاتی ہیں اور اس میں اجر بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
اپنے اردگرد موجود فقراء و مساکین کو نہیں بھولنا، اپنی استطاعت کے مطابق ان پر خرچ کرنا ہے، جتنا ممکن ہو ان کی مدد کرو اور جتنا پو سکے ان کو صدقہ دو۔
ماہ رمضان سے صبر، قوت ارادی، عزم، احساس مسئولیت، گناہوں اور شہوات کے خلاف مقاومت کا درس لیں۔ قول و فعل میں حکمت ہے۔
ماہ رمضان میں روزوں کو فقط ایک عادت نہ بناو کہ دوبارہ سے آگئے ہیں بلکہ ان کو زندگی تبدیل کرنے کا ایک محور قرار دیں جس کا موقع اللہ تعالی ہر سال دیتا ہے۔ خود احتسابی کریں، آخرت کے بارے میں سوچیں کہ آخرت کے لیے زاد راہ کے طور پر کیا جمع کیا ہے؟ کیا آپ موت کے لے تیار ہیں؟ کہ جب قضا آ جائے گی اور آپ کو اس دنیا سے اس آخرت کے گھر کی طرف لے جائے گی؟
روزہ کیوں رکھتے ہیں؟
جیسا کہ ہم نے بحث کی ابتدا میں اشارہ کیا تھا کہ روزہ کسی تخلیق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ روزے کا وجود دین کے وجود سے پہلےکا ہیں۔ اور اسلام نے مخصوص شرائط اور ھدف کے ساتھ اس کو واجب عبادات میں سے قرار دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ھدف کیا ہے؟ اور کیوں روزہ رکھتے ہیں؟
ظاہرا روزے کا عمل کھانے پینے اور دیگر ذائقہ دار چیزوں سے طلوع فجر سے سورج غروب ہونے تک پرہیز کرنے کا نام ہے، اور یہ معمولی اختلافات کے ساتھ تمام مذاہب میں مشترک ہے۔ لھذا اسلام میں اگر روزہ کھانے پینے اور جماع سے روکنے کا نام ہے تو وہ کونسی چیز ہے جو اسلام کو باقی ادیان سے جدا کرتی ہے؟ جیسا کہ اہل لغت روزے کی اس طرح سے تعریف کرتے ہیں۔
اس سوال کا جواب اس آیۃ شریفہ میں ملتا ہے (يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)) (البقرة ـ 183)
اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
پس اسلام میں روزے کا ھدف تقویٰ ہے پس یہی بنیادی فرق ہے جو اسلام اور باقی آدیان میں تصور روزے کا ہے۔ لھذا اسلام میں جب انسان اپنے اعضا کا روزہ رکھتا ہے تو وہ نہ صرف حرام کاموں سے اجتناب کرتا ہے بلکہ وہ اس اللھی عمل کو دیگر خراب ماحول کی آلودگی سے بھی محفوظ رکھتا ہے، مثلا زبان کا روزہ یہ ہے کہ غیبت، جھوٹ اورتہمت وغیرہ سے اجتناب کرے۔ روایت میں یہ بات مشہور ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک روزہ دار شخص کو غیبت کی وجہ سے کھانا کھانے کو کہا، یہ بات روزے کی قوت اور فلسفہ کو اجاگر کرتی ہے۔ پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ تم کس طرح روزہ رکھتے ہو جبکہ تم لوگوں کا گوشت کھا رہے ہو۔ یہاں اسلام یہ واضح کر رہا ہے کہ غیبت عام حالات میں بھی حرام ہے تو بھلا یہ روزے کی حالت میں کیسے حرام نہیں ہوگی؟