- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/10
- 0 رائ
سوال: مباہلہ کس طرح پیغمبر(ص) کی حقانیت کی دلیل ہے؟
جواب: خداوند سوره «آل عمران» کی آیت نمبر 61 میں اپنے پیغمبر(ص) کو حکم دیتا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاوٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔
سوال : کیا مباہلہ ایک عام حکم ہے؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مباہلہ کی آیت تمام مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت دینے کے لیے ایک عام حکم نہیں ہے، بلکہ اس آیت میں مخاطب صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص) ہیں ، لیکن یہ موضوع اس بات سے منع نہیں کرتا کہ مخالفین کے سامنے مباہلہ ایک عام حکم ہو جائے اور ایماندار لوگ جو کہ کامل طور پر تقوی اور خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ اپنے استدلال پیش کرتے وقت دشمن کی لجاجت کی وجہ سے ان کو مباہلہ کی دعوت دے سکتے ہیں۔
اسلامی کتب میں جو روایات نقل ہوئی ہیں ان سے بھی اس حکم کا عام ہونا سمجھا جاتا ہے : تفسیر نور الثقلین کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر 351 پر امام صادق (ع) سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے:
اگر مخالفین تمہاری حق بات کو قبول نہ کریں تو تم ان کو مباہلہ کی دعوت دو!
راوی کہتا ہے: میں نے سوال کیا کہ ان سے کس طرح مباہلہ کریں؟
فرمایا : تین دن تک اپنی اخلاقی اصلاح کرو!
مباہلہ کی آیت میں صیغہ جمع کا مفرد پر اطلاق:
سوال: اگر پیغمبر اکرم(ص) مباہلہ کے واقعہ میں فقط حضرت فاطمہ زہرا (س)، حسنین(ع) اور امام علی(ع) کو اپنے ساتھ لے کر گئے تو پھر آیت میں عورتوں، بچوں اور نفسوں کے لیے جمع کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے؟
جواب: علمائے اسلام کا اجماع، اور وہ بہت سی حدیثیں جو شیعہ اور اہل سنت کی معتبر اور اسلامی کتابوں میں اس حدیث کے شان نزول کو اہل بیت (ع) کی شان میں نازل ہونے کو بیان کرتی ہیں ،ان میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے ساتھ علی (ع)، فاطمہ زہرا (ع) اور حسنین (ع) کے علاوہ کسی اور کو نہیں لے گئے اور یہ خود آیت کی تفسیر کے لیے بہترین قرینہ ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے لیے جو قرائن استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک سنت اور شان نزول ہے۔
اس بناء پر مذکورہ اعتراض صرف شیعوں پر نہیں ہے، بلکہ تمام اسلامی علماء کو اس کا جواب دینا چاہیے ۔
ثانیا : صیغہ جمع کا مفرد یا تثنیہ پر اطلاق ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے اور قرآن و غیر قرآن اور ادبیات عربی بلکہ غیر عرب میں بھی اس پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔
تفصیل کے ساتھ وضاحت :
بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ کس قانون کو بیان، یا کسی عہد نامہ کو تنظیم کرتے وقت حکم عمومی طور پر یا جمع کے صیغہ میں بیان کیا جاتا ہے ،مثلا عہد نامہ میں اس طرح لکھتے ہیں: اس کو جاری کرنے والے ذمہ دار ، دستخط کرنے والے اور ان کے بچے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ دونوں طرف سے ان کے صرف ایک یا دو بچے ہوں ، یہ موضوع کبھی بھی جمع کے صیغہ کے ساتھ قانون اور عہد نامہ لکھتے وقت غلط نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کے دو مرحلے ہیں : قرار داد کا مرحلہ اور اس کو جاری کرنے کا مرحلہ ۔ قرار داد کے مرحلہ میں کبھی الفاظ جمع کی صورت میں ذکر ہوتے ہیں تا کہ تمام مصادیق پر تطبیق کریں ، لیکن جاری کرنے کے مرحلہ میں ممکن ہے کہ مصداق صرف ایک آدمی میں منحصر ہو اور مصداق میں یہ انحصار ، مسئلہ کے عمومی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے نجران کے نصارا کے ساتھ جو قرار داد کی تھی اس کے مطابق آپ کی ذمہ داری تھی کہ اپنے خاندان کے خاص بچوں، عورتوں اور تمام ان لوگوں کو جو آپ کی جان کی طرح تھے، مباہلہ میں لے جاتے، لیکن دو بچوں ، ایک مرد اور ایک عورت کے علاوہ کوئی دوسرا مصداق نہیں تھا(غور کریں)
اس کے علاوہ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر لفظ جمع استعمال ہوا ہے لیکن اس کا مصداق صرف ایک فرد میں منحصر ہے : مثلا اسی سورہ آل عمران کی 173 ویں آیت میں بیان ہوا ہے :
الَّذینَ قالَ لَھمُ النَّاسُ انَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْھمْ۔
یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لیے عظیم لشکر جمع کر لیا ہے، لہذا ان سے ڈرو۔
اکثر مفسرین کی رائے کے مطابق یہاں پر: الناس (لوگوں) سے مراد نعیم بن مسعود ہے، جس نے مسلمانوں کو مشرکین کی طاقت سے ڈرانے کے لیے ابو سفیان سے کچھ مال لیا تھا۔
تفسیر «قرطبى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»/تفسیر «فخر رازى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»/تفسیر «آلوسى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران» اسی طرح سورہ آل عمران 181 ویں آیت میں ملتا ہے :
لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذینَ قالُوا اِنَّ اللَّہَ فَقیر وَ نَحْنُ أَغْنِیاء۔
اللہ نے ان کی بات کو بھی سن لیا ہے جن کا کہنا ہے کہ خدا فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ لہذا اس نے ہم سے زکات دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
جب کہ آیت میں الذین سے مراد حُیی بن ا خطب یا فنحاص ہے۔(تفسیر «طبرى»، جلد 4، صفحه 129، ذیل آیه 181 سوره «آل عمران»؛/ تفسیر «قرطبى»، ذیل آیه 181 سوره «آل عمران»؛ تفسیر «ابن کثیر»، جلد 2، صفحه 155، ذیل آیه 188 سوره «آل عمران».)
کبھی کبھی مفرد کے لیے لفظ جمع کا استعمال احترام کے لیے بھی ہوتا ہے جس طرح سے ابراہیم (ع) کے لیے ملتا ہے:
اِنَّ ابْراہیمَ کانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّہِ حَنیفاً وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکینَ۔
بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔
(سوره نحل، آیه 120.)
یہاں پر لفظ امت جو کہ اسم جمع ہے ایک شخص کے اوپر اطلاق ہوا ہے۔
(اقتباس از کتاب: تفسیر نمونه، آيت الله العظمي مکارم شيرازي، دار الکتب الإسلامیه، چاپ چهل و هفتم، ج 2، ص 680.)
آیت مباہلہ اور آیت تطہیر کی روشنی میں فضائل پنجتن آل عبا:
پنجتن آل عباء اور اصحاب کساء کے فضائل مختلف مقامات پر منظر عام پر آتے رہے اور دنیا والوں کے لیے ان کی عظمت پر ثبوت پیش ہوتے رہے۔ فضائل اہل بیت (ع) کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے کچھ فضائل آیت مباہلہ اور آیت تطہیر میں رونما ہوئے۔ بعض نقل کے مطابق یہ دونوں آیات مباہلہ کے دن میں ہی نازل ہوئی ہیں۔