- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/08/04
- 0 رائ
کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال پر نظر ڈالنے سے، عاشورا کے جو پیغام ہمارے سامنے آتے ہیں ان کوہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔
(1) پیغمبر (ص) کی سنت کو زندہ کرنا:
بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ”میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سنت پر چلنا ہے۔“
(2) باطل کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹنا:
بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا، تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔
(3) امر بالمعروف کو زندہ رکھنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا ۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے اللہ! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہے۔
(4) حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا:
آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروںا ور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی سماج اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔
(5) عزت کی حفاظت کرنا:
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ : ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میںذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں.
(6) طاغوتی طاقتوں سے جنگ:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبراکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ” اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ا ور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کررہا ہو، تواس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے اللہ کی طرف سے سزا دی جائے گی۔“
(7) دین پر ہر چیز کو قربان کردینا چاہئے:
دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔
(8) شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا :
جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے یہ خونی قیام کیا ،تاکہ عوام میں جذبہٴ شہادت زندہ ہو اور عیش و آرام کی زندگی کا خاتمہ ہو۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ : میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔
(9) اپنے ہدف پرآخری دم تک باقی رہنا:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میںیہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوںکے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہئے۔
(10) جب حق کے لئے لڑو تو ہر طبقہ سے کمک حاصل کرو:
کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سماج میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو سماج میں موجود ہر س طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔
(11) افراد کی قلت سے گھبرانا نہیں چاہئے :
کربلا، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ”حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعدا د کی قلت سے نہیںگھبرانا چاہئے۔“ جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے —–۔
(12) ایثار کے ساتھ سماجی تربیت کوملا دینا:
کربلا، تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و وعظ ونصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام پوشیدہ ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا، تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک، اپنے نتیجہ کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے۔
(13) تلوار پر خون کوفتح:
مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے۔ لیکن کامیابی انھیں کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔
(14) پابندیوں سے نہیں گھبرانا چاہئے :
کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام علیہ حسین السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔
(15) نظام:
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموںکے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔
(16) خواتین کے کردار سے استفادہ:
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام—— یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہونچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے ہی پہنچایا ہے۔
(17) میدان جنگ میں بھی یاد خدا:
جنگ کی حالت میں بھی اللہ کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔ میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصدتلاوت قرآن کریم ، نماز اور اللہ سے مناجات تھا۔ اسی لئے اپنے فرمایاتھاکہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشور کے دن امام علیہ السلام نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی نماز شب بھی قضا نہ ہوسکی ، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔
(18) اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا:
سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہداری کو نبہانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھاکہ جو اللہ چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔
(19) مکتب کی بقاء کے لئے قربانی:
دین کے معیار کے مطابق، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کو باقی رکھنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام و حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنے خون و جان کو فدا کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کی بیعت دین کے اہداف کے خلاف ہے لہٰذا بیعت سے انکار کردیا اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی، اور امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے مکتب کے چاہنے والوں کی قربانیاںضروری ہے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قانون فقط آپ کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں تھا بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔
(20) اپنے رہبر کی حمایت ضروری ہے:
کربلا، اپنے رہبر کی حمایت کی سب سے عظیم جلوہ گاہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کے سروں سے اپنی بیعت کو اٹھالیا تھااور فرمایا تھا جہاں تمھارا دل چاہے چلے جاؤ۔ مگر آپ کے ساتھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور آپ کو دشمنون کے نرغہ میں تنہا نہ چھوڑا۔ شب عاشور آپ کی حمایت کے سلسلہ میں حبیب ابن مظاہر اور ظہیر ابن قین کی بات چیت قابل غور ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے اصحاب نے میدان جنگ میں جو رجز پڑہے ان سے بھی اپنے رہبر کی حمایت ظاہر ہوتی ہے ،جیسے حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے میران داہنا ہاتھ جدا کردیا تو کوئی بات نہیں، میں پھر بھی اپنے امام ودین کی حمایت کروں گا۔
مسلم ابن عوسجہ نے آخری وقت میں جو حبیب کو وصیت کی وہ بھی یہی تھی کہ امام کو تنہا نہ چھوڑنا اور ان پر اپنی جان قربان کردنیا۔
(21) دنیا ، خطرناک لغزش گاہ ہے:
دنیا کے عیش و آرام و مالو دولت کی محبت تمام سازشوںا ور فتناو فساد کی جڑہے۔ میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیںکیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے شہر ری کی حکومت کے لالچ اور امیر سے ملنے والے انعامات کی امید پر امام علیہ السلام کا خون بہا یا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑآئے انھوںنے بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہا۔ شاید اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زیانوں تک رہ گیا ہے۔ خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابربھی محبت نہیں تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آجانا۔
(22) توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے:
توبہ کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا، انسان جب بھی توبہ کرکے صحیح راستے پر آ جائے بہتر ہے۔ حر جو امام علیہ السلام کو گھیرکر کربلا کے میدان میں لایا تھا، عاشور کے دن صبح کے وقت باطل راستے سے ہٹ کر حق کی راہ پر آگیا۔ حر امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر اپنی جان کو قربان کرکے، کربلا کے عظیم ترین شہیدوں میں داخل ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لئے ہر حالت میں اور ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
(23) آزادی :
کربلا ،آزادی کا مکتب ہے اور امام حسین علیہ السلام اس مکتب کے معلم ہیں۔ آزادی وہ اہم چیز ہے جسے ہر انسان پسندکرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے عمر سعد کی فوج سے کہا کہ اگر تمھارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو تو کم سے کم آزاد انسان بن کر تو جیو۔
(24) جنگ میں ابتداء نہیں کرنی چاہئے:
اسلام میں جنگ کو اولویت نہیں ہے۔ بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوںکی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ ک دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ یہی کوشش کی، کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہوجائے۔ اسی لئے آپنے کبھی بھی جنگ میں ابتداء نہیں کی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ہم ان سے جنگ میں ابتداء نہیں کرےں گے۔
(25) انسانی حقوق کی حمایت:
کربلا جنگ کا میدان تھا ،مگر امام علیہ السلام نے انسانوں کے مالی حقوق کی مکمل حمایت کی۔ کربلا کی زمین کو اس کے مالکوں سے خرید کر وقف کیا۔ امام علیہ السلام نے جو زمین خریدی اس کا حدود اربع چارضر ب چار میل تھا۔ اسی طرح امام علیہ السلام نے عاشور کے دن فرمایا کہ اعلان کردو کہ جو انسان مقروض ہو وہ میرے ساتھ نہ رہے۔
(26) اللہ سے راضی رہنا:
انسان کا سب سے بڑا کمال، ہر حال میں اللہ سے راضی رہنا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ ہم اہل بیت کی رضا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی اللہ سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔