- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/02/17
- 0 رائ
کیا امت مسلمہ میں اتحاد کی خاطر اس مطلب کو بیان کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ امامت فروع دین میں سے ہے نہ کہ اصول دین میں سے ؟ یہ وہ بحثیں ہیں جو استاد معظم حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کے فقہ اور اصول کے درس خارج کےاختتام پر مطرح ہوئیں تھیں ۔ ہم یہاں پر مختصراًکچھ ایسے مطالب جو امامت کی بحث سے مربوط ہیں ذکر کرتے ہیں ۔ مسئلہ امامت بہت اہم مسائل میں سے ہے اور یہ اعتقاد ات کی بنیاد ہے ۔
میں یہاں کچھ دلیلوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امامت
اصول دین میں سے ہے نہ کہ فروع دین میں سے :
پہلی دلیل: سورہ مائدہ کی کی آیت کہ جس میں خداوند متعال پیامبر(ص) سے فرماتا ہے: یا ایّھاالرسول بلّغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ (ای پیامبر اگر اس بات کو لوگوں تک نہیں پہنچایا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام ہی نہیں دیا۔(رسالتہ )میں جو ضمیر پائی جاتے ہے وہ خداوند متعال کی پلٹ رہی ہے نہ پیامبر کی طرف، یعنی اس کے علاوہ رسالت الہی واقع ہی نہیں ہو سکتی۔ اگر امامت نہ ہو تو رسالت ناقص ہے ۔اور اس بات کے یہ معنی ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے نہ کہ فروع دین میں سے۔
دوسری آیت: سورہ مائدہ کی یہ آیت ( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت الکم الاسلام دیناً) کہ جس پر شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے مربوط ہے کہ جب پیامبر اکرم حجة الوداع سے واپس آ رہے تھے اور حضرت علی-ع- کی ولایت کا اعلان کیا۔
اس آیہ شریفہ میں کچھ اہم موضوعات پائے جاتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر امامت نہ ہو تو دین ناقص ہے اور ایسے جسم کی مانند ہو جاتی ہے کہ جس کا سر نہ ہو۔
اسی مسئلہ کی بناء پر خدا نعمتیں تمام ہوئی ہیں۔
اور خدا اس دین سے راضی ہے کہ جس میں ولایت پائی جاتی ہو۔
پس معلوم ہوا کہ امامت اصول دین میں سے ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی اسلام نہیں ہے ۔ اور امامت ہی کی وجہ سے نعمتیں تمام ہوئی ہیں ۔روایات میں بھی ایک مشہور روایت پائی جاتی ہے کہ جس وقت علماء کسی سے بحث کرتے تھے تو اس حدیث کو دلیل کے عنوان سے پیش کرتے تھے اور مقابل اسی وجہ سے مغلوب ہو جا تا تھا وہ حدیث یہ ہے( من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتةالجاہلیہ)اگر کوئی شخص اس حال میں
مر جائے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تووہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
جاہلیت کی موت سے مراد یہ ہے یعنی اسلام سے پہلے مرا ہو یعنی غیر مسلمان مرا ہو۔
یہ روایت اہلسنت کی اکثر کتابوں میں موجود ہے کہ جن کو مرحوم علامہ امینی نے کتاب الغدیرکی دسویں جلد میں اہل سنت کی بہت ساری کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جیسے مسند احمد حنبل، السنن الکبری بیہقی، معجم الکبیر طبرانی ۔۔ وغیرہ ہیں کی جنہوں نے اس حدیث کو مختلف تعابیر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اب یہ امام کہ جس کی معرفت ہر انسان کیلئے ضروری ہے یہ وہی مسئلہ امامت ہے کہ جس کے ہم معتقد ہیں۔ وگرنہ وہ حاکم کہ جس کو لوگ انتخاب کریں اور اس کو رئیس قرار دیں کہ نہ جس کی عدالت کا پتہ ہو نہ اس کے تقوے کی کوئی خبر ہو وہ کبھی اسلام کے ساتھ میل نہیں کھا سکتا بلکہ اس ادمی کی معرفت اسلام کے ساتھ میل کھاتی ہے کہ جو حقیقت اسلام سے آشنا ہو علم کامل کا مالک ہو اور معصوم بھی ہو۔
اگر انسان ایسے شخص کو پہچانے بغیر مر جائے وہ واقعاً جاہلیت کی موت مرا ہے اس بناءپر یہ روایت بھی اچھے طریقے سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے نہ کی فروع دین میں سے ۔
یہ بات بزرگوں کے کلمات میں بھی واضح طور ہر موجود ہے مثال کے طور پر: مرحوم ملامھدی نراقی کتاب شھاب الثاقب کہ جو کچھ ہی عرصہ پہلے چاپ ہوئی ہے اس میں واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے اور اس بات پر ایک عقلی دلیل ذکر کرتے ہیں ۔انھوں نے فرمایا ہے کہ ہر وہ دلیل جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبوت اصول دین میں سے ہے اور اس پر اعتقاد ایمان کا ایک جزء ہے وہی دلیل بالکل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے۔
نبی بندوں اور خدا کے درمیان ایک واسطہ ہے خدا اور اسکے بندوں کے درمیان ایک حجت ہے احکام کو جس طرح خدا نے فرمایا ہے بیان کرتا ہے اور امامت بھی نبوت کا ادامہ ہے اور احکام دین کا محافظ بلکہ خود دین ہے اس بناءپر اس کا مرتبہ خود نبوت کا مرتبہ ہونا چاہیے۔ جس طرح انسان بغیر نبوت کے مسلمان نہیں ہو سکتا اور نبوت دین کے محکم اصول میں سے ہے امامت بھی بالکل اسی طرح ہے ۔
لہذ اگر کوئی امامت کی دلیلوں پر ایک اجمالی نظر بھی ڈالے تو وہ کھبی شک نہیں کرے گا کی امامت اصول دین میں سے نہیں ہے۔
اور اگر کسی کا عقیدہ اس کے علاوہ ہو تو یہ اعتقاد شیعوں کا اعتقاد نہیں ہو گا۔ یعنی ایک شیعہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امامت فروع دین میں سے ہے۔اس سے ہٹ کہ جب ہم کلامی کتابوں کو دیکھتے ہیں کو جو امامت کی تعریف کرتی ہیں اس یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلسنت بھی امامت کے اس طرح معنی کرتے ہیں گویا کہ ایک اصل دین ہے مگر امامت کے مصداق کے بارے میں یہ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں ۔
اہلسنت کے بعض علماء جیسے قاضی بیضاوی نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ امامت اصول دین میں سے ہے ۔اب اگر ہم اور یہ واضح دلیلیں موجود ہوں تو کیا ہم امامت کو ایک جزئی امر قرار دے سکتے ہیں؟
کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت فروع دین میں سے ہے؟
امامت ایک ایسا مرکزی نکتہ ہے کہ جس کی وجہ سے تمام عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں اس سے بڑھ کے تمام کاموں کی حقیقت چاہے وہ فرعی ہوں یا اصلی ان سب کی روح امامت ہے ۔اور ایک مختصر سے الفاظ میں تمام فروع دین کی بازگشت امامت کی طرف ہے اور کوئی بھی عمل بغیر امامت اور ولایت کے علاوہ قابل قبول نہیں اور وہ کسی کام نہیں ائیں گے ۔ لیکن یہ کبھی کبھی سنا جاتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امامت فروع دین میں سے ہے نہ کہ اصول دین میں سے وہ لوگ اس بات آشنا نہیں ہیں کہ ہماری دلیلیں کیسی ہیں وہ لوگ دلیلوں سے اگاہ نہیں ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں کہ وہ تمام آیتیں اور روایتیں جو امامت پر دلالت کرتی ہیں ان کا انکار کرتے ہیں ۔
اور وہ یہ کہتے ہیں نماز بغیر ولایت کے بھی قبول ہے اور اسی طرح حج بھی بغیر ولایت کے قبول ہے ۔
ان شاءاللہ خداوند متعال ہم کو شیطان رجیم کے شرّ سے محفوظ رکھے۔
مجھے یہاں پر ان بحثوں سے جو اخلاقی نکتہ پیش کرنا ہے وہ یہ ہےکہ انسان جڑھ تلاش کرے اگر وہ اپنے نفس کی اصلاح کیلئے کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے تو پہلے کہاں سے شروع کرے؟
انسان کو چاہیے کہ وہ اصل کی تلاش کرے سیر و سلوک اور تہذیب نفس میں امامت کا ایک اہم رول ہے اور اس مسئلہ کی طرف توجہ کیے بغیر انسان کسی جگہ تک نہیں پہونچ سکتا ہے۔
عبارت( اللھم عرفنی حجتک) ہماری دعاوں کا ایک حصہ ہونا چاہیے کہ خداوند متعال انسان کوتوفیق عطا کرے کہ انسان اپنے زمانے کے ا مام کو پہچانے اور ان بزرگان کی طرف توجہ کئے بغیر انسان خدا کو نہیں پہچان سکتا۔ اس بناءپر ہمارا جتنا رابطہ امامت سے محکم ہو گا ہماری نمازوں کو اتنا ہی عروج ملے گا ، اگرہمارا عقیدہ امامت پر محکم ہو گا نوافل کی ادائیگی میں ہماری توفیقا ت میں اضافہ ہوگا ۔ لیکن ہم کیا کریں تا کہ ہم ان انوار مقدسہ کو پہچانیں یہ خود ایک اہم بحث ہے کہ جس کو کسی دوسری جگہ پیش کیا جائے گا۔ .
source : tebyan