- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/26
- 0 رائ
اہل کوفہ کی جانب سے خط و کتابت کا سلسلہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے جاری تھا اور ہر خط کا موضوع امام علیہ السلام کی کوفہ میں آمد تھا اور یہاں تک کہ بعض خطوط کے مضامین اس قدر شدید تھے کہ مثلاً آپ کی تاخیر اللہ تعالیٰ کے حضور پرسش کی جائے گی پس اسی بناء پر اہل بیت علیہم السلام سے اپنے بزرگ مسلم بن عقیل علیہ السلام کو اپنا سفیر منتخب کر کے مکہ سے کوفہ روانہ کیا۔
5 شوال المکرم 60ھ کو جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام شہر کوفہ میں پہنچے اور مختار ثقفی کے گھر قیام فرمایا جب کہ بعض روایات میں عوسجہ کے گھر میں قیام فرمایا اور بعض کے نزدیک ہانی بن عروۃ کے گھر میں مہمان ہوئے۔
حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام نے بیعت کا سلسلہ شروع کیا اور روایات میں بیعت کرنے والے اعوان و انصار کی تعداد 18 ہزار اور تاریخی راوی مسعودی 12 ہزار اور دیگر روایات میں 18 ہزار کا عدد ملتا ہے۔
اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام کو جناب مسلم بن عقیل نے اطمینان بخش خطوط روانہ کئے کہ واقعاً کوفہ کے حالات آپ علیہ السلام کے حق میں ہیں اور بنو امیہ کے ظلم سے نجات چاہتے ہیں۔
خطوط کی روانگی کے بعد کوفہ کے والی نعمان بن بشیر نے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کا احاطہ کرنا شروع کر دیا مگر چونکہ اہل کوفہ آپ علیہ السلام کے ساتھ تھے تو بنوامیہ کے پیروکاران نے یزید لعین کو خطوط روانہ کئے کہ نعمان بن بشیر کو ہٹایا جائے کہ معاملہ کی سنگینی کو سلجھانے میں ناکام ہے جس کے جواب میں یزید ملعون نے ابن زیاد کو لکھا کہ یا جناب مسلم کو قتل کردے یا کوفہ سے بیرون کرے۔
ابن زیاد نے آتے ہی چند قوانین کا نفاذ کیا جن میں
1۔ تمام گھروں کی فردا فردا تلاشی لی جائے تاکہ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو بر آمد کیا جاسکے۔
2۔ انقلاب کے حامی مسلمین کی وسیع گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.
3۔ آخر میں ہر وہ شخص جس نے جناب مسلم بن عقیل کی مدد کی اسے قتل کر دیا جائے اور قتل کرنے والے کو بیش بہا انعام دیا جائے گا.
پندرہ رمضان المبارک کو حضرت مسلم بن عقیل(ع) کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔
سن 60 ھ ق حضرت مسلم بن عقیل(ع) کوفہ کی طرف روانہ ہوے۔
جب کوفہ کے لوگوں نے خاص کر وہاں کے شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سنا کہ انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا ہے اور اس وقت مکہ معظمہ میں ہیں ان کے درمیاں ایک عظیم لہر دوڑی کہ امام حسین(ع) کی حمایت کریں اور اس طرح انہوں نے امام کو خطوط لکھ لکھ کر آنحضرت کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ امام نے کوفیوں کی دعوت قبول کرتے ہوے اپنے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ بنی امیوں کے خلاف کوفیوں کی بغاوت کی قیادت سنبھالے اور اس کے بعد یزیدی حکومت کا تختہ پلٹ دے۔
آنحضرت نے وضو کیا اور مسجد الحرام میں رکن و مقام کے درمیان دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرنے کے بعد اپنے چچازاد مسلم بن عقیل کو بھلایا اور اسے کوفہ کے حالات کے بارے میں آگاہ کیا اور فرمایا میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنا نمایندہ بنا کر وہاں روانہ کروں تاکہ وہاں کے لوگوں کی بغاوت کی رھبری کر سکو۔(1)
مسلم بن عقیل(ع) نے کمال افتخار کے ساتھ یہ خطرناک ذمہ داری نبھانے کے لۓ اپنی رضایت کا اعلان کیا۔
اس وقت امام حسین علیہ السلام نے کوفیوں کے نام خط لکھا اور مسلم بن عقیل(ع) کو دیا تاکہ اسے وہاں لوگوں کے لۓ پڑھے۔ خط کی عبارت یوں تھی:
خدا کے نام سے جو بخشنے والا مھربان ہے
حسین بن علی(ع) کی طرف سے مؤمنین اور مسلمین کے نام ۔
اما بعد، ھانی اور سعید تمہارے آخری ایلچیوں نے آپلوگوں کے خطوط مجھ تک پہنچاۓ ۔ اور میں خطوط کے متون سے آگاہ ہوا ہوں۔ تم لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم بے امام ہیں ہمارے پاس آجاۓ شاید خدا تمہارے ذریعے ہماری ھدایت فرمائے گا۔
میں نے اپنے بھائی اور چچازاد کہ جسے میں اپنےخاندان میں اپنا معتمد اور موثق جانتا ہوں یعنی مسلم بن عقیل کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں اگر وہ مجھے لکھے کہ وہاں کے اکثر لوگوں خاص کر وہ شایستہ اور بڑی شخصتیں جنہوں نے مجھےخطوط لکھے ہیں کی بھی رائے یہی ہے ان شااللہ میں آپ کے پاس آؤں گا۔ میں اپنی قسم کھاتا ہوں امام حق وہی ہے جو کتاب خدا کے مطابق حکومت قائم کرے اور عوام کے ساتھ عدل و انصاف کرے اور حق کو قبول کرتا ہو اور اپنے آپ کو احکامات دین کا پائبند جانتا ہو۔ والسلام۔(2)
امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عقیل(ع) کو لازم سفارشات کرکے اسے آخری نامہ رساں؛ یعنی قیس بن مسھر صیدوی، عمارہ بن عبداللہ سلولی، عبداللہ بن شداد اور عبد الرحمن شداد کے ہمراہ پندرہ رمضان سن ساٹھ ہجری کو کوفہ روانہ کیا۔(3)
شایان ذکر ہے کہ مسلم بن عقیل امیر المؤمنین علی بن ابیطالب کا بھتیجا اور داماد تھا اور رقیہ بنت علی(ع) ان کی زوجہ تھی۔ آپ بنی ھاشم میں سے نہایت بہادر، اھل علم، صاحب سیاسی مذھبی بصیرت اور ولایت و امامت کے مخلص پیروکار تھے۔
مسلم بن عقیل(ع) مکہ سے مدینہ منورہ چلے گۓ اور وہاں اپنے اھل و عیال سے رخصتی حاصل کرکے اپنے دو بیٹوں اور بنی قیس قبیلے کے دو رھنما کے ھمراہ بیراہے سفر آغاز کیا تا کہ جلدی مقصد کو پہنچ جائیں اور حکومتی کاروندوں کی نظروں سے اوجھل رہیں۔(4)
…………………..
حواله جات
1- وقايع عاشورا (سيد محمد تقي مقدم)، ص 199.
2- الارشاد (شيخ مفيد)، ص 380؛ منتہي الآمال (شيخ عباس قمي)، ج1، ص 303.
3- الارشاد، ص 381؛ منتہي الآمال، ج1، ص 303 و ص 306؛ وقايع الايام (شيخ عباس قمي)، ص 35؛ وقايع عاشوار، ص 201.
4- الارشاد، ص 381؛ منتہي الآمال، ج1، ص 306؛ وقايع عاشوار، ص 201.