منصب امامت و خلافت، اسلام میں ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اس موضوع پر مسلمانوں میں اختلاف نظر ہے۔ اہل سنت کا خیال ہے کہ یہ ایک سماجی عہدہ ہے، جسے عام لوگ کسی بھی شخص کے سپرد کر سکتے ہیں۔ اس رو سے خلیفہ کی ذمہ داریاں دینی اور دنیاوی دونوں امور کی سرپرستی کرنا ہے۔ اس کے برعکس، شیعہ علماء کا ماننا ہے کہ منصب امامت ایک الٰہی منصب ہے جو خدا کی طرف سے کسی خاص شخص کو عطا کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک امام، نبی کے بعد شریعت کا محافظ اور اس کی تعبیر و تشریح کرنے والا ہوتا ہے۔
منصب امامت و خلافت اور نظریہ اہل سنت
علمائے اہل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں، اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ امامت، وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے، دینی و دنیوی امور کی سر پرستی کرتی ہے۔ اور خود ”امام“ یا اہلسنت کی اصطلاح میں ”خلیفہ“ وہ شخص ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ہر گرہ اسی کے ذریعے کھلتی ہے۔
یہ علماء، امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں:
’’الإمامة رئاسة عامة في أمر الدين والدنيا خلافة عن النبي (ص)‘‘[1]۔
اہل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عہدہ اور امامت و خلافت کا مسئلہ ایک سماجی و معاشرتی بحث ہے۔ اور لوگوں کی طرف سے خلیفہ و امام کو انتخاب کے ذریعے اس مرتبے پر فائز کیا جا سکتا ہے۔ خلیفہ کی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ہے۔
الف:۔ دینی امور کی سرپرستی: اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ہاتھوں حل ہوتے ہیں مثلاً پوری دنیا میں جہاد کے ذریعے اسلام کی توسیع ایک دینی امر ہے جس کا عہدے دار امام کو ہونا چاہئے۔
ب:۔ دنیاوی امور کی سرپرستی: امام و خلیفہ کو چاہئے کہ طاقت کے ذریعے عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔
اس تعریف اور خلیفہ کے سپرد کی گئی ذمے داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ہے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے، عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل و انصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے۔ اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نہیں ہے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ہونے کی ضرورت ہے)
دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاہے جتنا بھی گناہ اور فساد سے پاک ہو، پھر بھی برائی مکمل طور پر اس سے دور نہیں ہوتی۔ اور کہیں نہ کہیں گوشے و کنار میں ایسے شریر افراد ضرور نظر آتے ہیں جو جوا و شراب کی طرف ہاتھ بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکا ڈالتے ہیں، اور ان پر قابض ہو جاتے ہیں۔ یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رہتے ہیں۔
اس لئے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ہے، جو گناہ گاروں اور فسادیوں کو، الٰہی قانون کی روشنی میں تنبیہ کر کے، اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے۔ یہ اور اسی طرح کے امور، وہ چیزیں ہیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ہیں، جن کی سرپرستی پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ہے۔
مذکورہ امور کے مقابل کچھ دوسرے امور بھی ہیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ہیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ہے۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ہر طرح کے باہری حملوں سے محفوظ رکھے، بلکہ اگر ممکن ہو تو جہاد کے ذریعے توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔
اب یہاں آپ یہ کہیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عہدہ کا ذمہ دار کون ہوگا؟ تو اس کے جواب میں علمائے اہل سنت کہیں گے کہ اصحاب پیغمبر (ص)، جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ہیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ہیں۔
اگر امام کی ذمہ داری ان ہی امور کی دیکھ بھال پر منحصر ہو، جنہیں ہم نے اہل سنت کی زبانی نقل کیاہے، تو ظاہر ہے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نہیں ہے، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔
افسوس کہ منصب امامت کا معنوی و روحانی مرتبہ اہل سنت کی نظر میں رفتہ رفتہ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود منصب امامت پر باقی رہ سکتا ہے! وہ کہتا ہے:
”لا ينخلع الإمام بفسقه وظلمه بغصب الأموال، وضرب الأبشار، وتناول النفوس المحرمة، وتضييع الحقوق، وتعطيل الحدود“[2]۔
یعنی امام اپنے فسق و فجور اور ظلم کے ذریعے، لوگوں کے اموال غصب کر کے، محترم افراد کو قتل کر کے، حقوق کو ضائع کر کے اور الٰہی حدود و قوانین کو معطل کر کے بھی اپنے منصب سے معزول نہیں ہوتا بلکہ یہ امت پر ہے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی ہدایت کریں!
اور ہمیں مزید تعجب نہ ہوگا اگر ہم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ پیغمبر (ص) کے بارے میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ہوئے دیکھیں، وہ لکھتے ہیں:
یہ ہرگز ضروری نہیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ہو یا امت کا سب سے اعلیٰ فرد شمار ہو۔ امام کی نا فرمانی اور الٰہی احکام سے اس کی جھالت منصب امامت و خلافت خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ہرگز نہیں ہو سکتی[3]۔
خلیفہ اسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ہے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجھ لیا ہے۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرے میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ہو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے۔ خود اس کا گناہ سے آلودہ ہونا یا اس کی غلطیاں اس منصب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ہوا ہے۔
منصب امامت و خلافت اور نظریہ اہل تشیع
مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ہے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ہیں۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ: منصب امامت ایک طرح کی الٰہی ولایت ہے جو خداوند عالم کی جانب سے بندے کو دی جاتی ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ: منصب امامت نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ہے اور اس کا عہدے دار خود خدا کی طرف سے، معین و منصوب ہوتا ہے۔
اس بنیاد پر امام رسالت ہی کا سلسلہ ہے فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اور آسمانی پیام لانے والا ہے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ہے۔ امام، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم (ص) کے برابر اور قدم بقدم ہے اور وہ تمام شرائط جو پیغمبر (ص) کے لئے ضروری و لازم قرار دیی گئیں ہیں (مثلاً اسلام کے معارف، اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ہر طرح کی خطا و گناہ سے اس کا محفوظ ہونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ہیں۔
یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ہیں کہ: صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ہونا چاہئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اور نکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم) کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
صحیح ہے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر (ص) کے زمانہ میں ہوئی ہے اور یہ احکام وحی الٰہی کے ذریعے انہیں بتائے گئے ہیں۔ لیکن مساعد حالات نہ ہونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ہے، اور اس منصب امامت کا سنبھالنا، اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ہونا چاہئے۔
چونکہ شیعہ علماء اہل سنت کے نظریہ کے برخلاف، منصب امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں لہٰذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں: ”الإمامة رئاسة عامة في أمر الدين والدنيا خلافة عن النبي“ امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰہی سرپرستی اور پیغمبر (ص) کے جانشینی ہے۔
لیکن امام معصوم کیوں ہو؟ تو جواب یہ ہے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ہیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پہلو رکھتی ہے اور مربی کے عمل کے ذریعے انجام پائی جانی چاہئے۔ اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پہچاننے والا نہ ہو تو لوگوں پر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟ لہذا یہ نظریہ کہتا ہے کہ، امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خدا داد علم اور ہر لحاظ سے عصمت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔
یہ دو نظریے ہیں جو ان دونوں گروہوں کے علماء کے ذریعے بیان ہوئے ہیں۔ اب ہم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوار نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم (ص) کی معتبر حدیث سے سازگار ہے۔
نتیجہ
منصب امامت و خلافت کے موضوع پر اہل سنت اور شیعہ علماء کے درمیان بنیادی اختلاف، اس کے الٰہی و غیر الٰہی ہونے پر ہے۔ اہل سنت کے عقائد کے مطابق کوئی بھی شخص چاہے گناہ گار ہو یا ظالم، عوام کے انتخاب سے، اس عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔ اس کی خطاوں پر، عوام اس کی ہدایت کر سکتی ہے۔ جبکہ شیعہ علماء منصب امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں۔ جو خدا کی طرف سے کسی خاص شخص کو عطا کیا جاتا ہے۔ شیعہ علماء کا ماننا ہے کہ امام کو دینی اور دنیاوی دونوں امور کی گہری سمجھ ہوتی ہے اور وہ امت کا رہنما اور معصوم عن الخطا ہوتا ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ قوشچی، شرح تجرید، ص ۴۷۲۔
[2]۔ الباقلانی، کتاب التمهید، ص ۱۸۲۔
[3]۔ تفتازانی، شرح مقاصد، ج ۲، ص ۲۷۱۔
منابع
۱۔ الباقلانی، ابی بکر محمد بن الطیب، کتاب التمهید، بیروت، المکتبہ الشرقیہ، ۱۹۵۷م۔
۲۔ تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، الشريف الرضي، ۱۴۱۲ھ ق۔
۳۔ قوشچی، علاءالدین علی بن محمد، شرح تجرید العقائد لنصیر الدین، قم، رائد، 1393ھ ش۔
مضمون کا مآخذ
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی دوسری فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔