- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/03
- 0 رائ
و قال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا هذا القرآن مہجوراً (فرقان:۳۰)
اور (اس وقت) رسول اللہ (بارگاہ خداوندی میں) عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا۔
اس آیت مبارکہ کے صدر میں ”و قال الرسول“ ہے رسول سے مراد ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ہیں اور ہجرانِ قرآن کا مطلب، قرآن کو چھوڑ دینا یا ترک کر دینا ہے، ”قَالَ“ فعل ماضی کا صیغہ ہے، یہاں اس کے معنی ”کہا“ بمعنی ماضی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ”کہے گا“ صحیح ہے کیونکہ قیامت ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کا صیغہ کیوں استعمال ہوا؟ اس کی وجہ بعد میں بیان کریں گے۔
آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب اس کائنات کی بساط سمیٹ لی جائے گی۔ قیامت (جو کہ برحق ہے) کا ہولناک واقعہ رونما ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ کی کرسی عدالت لگا دی جائے گی ”لا حکم الا اللہ الواحد القہار“ کی صدا بلند ہو گی، ایسی عدالت جس میں ہر قسم کی دھونس، دھاندلی، جھوٹ، فریب، رشوت، بلیک میلنگ اثر و رسوخ کا استعمال اور جھوٹی گواہی کا تصور بھی نہیں گا۔(۱)
اس میدان میں نفسا نفسی اور خوف و رجاء کا عجیب منظر ہو گا۔ میدان میں کچھ لوگ تو اپنے اعمال صالح اور نیکیوں کی بنا پر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے ہوئے وعدوں کے پیش نظر ”انہ لا تخلف المیعاد“ جنت میں داخل ہونے کی امید سے حاضر ہوں گے اور کچھ لوگو پر اپنے برے اعمال، نافرمانی، عصیان گری کی وجہ سے اپنے خالق کے کہتے ہوئے وعیدوں کی بناء پر غضب الہٰی میں مبتلا ہونے اور جہنم میں داخل ہونے کی صورت میں لرزہ جاری ہو گا۔ اس عدالت میں جہاں تمام مظلوموں کو اپنا حق فوراً ملنے کی مکمل ہوتی ہے، اس لئے ہر شخص اپنا کیس دائر کرنا چاہے گا۔ کوئی کہے گا، میرے مالک فلاں شخص نے مجھے اپنی وراثت پدری محروم کیا تھا؟ کوئی کہے گا۔ اس نے مجھے ناحق قتل کیا تھا، کوئی کہے گا کہ فلاں شخص نے میرا گھر بار لوٹا تھا جو پر تو خود شاہد ہے۔
انہی استغاثہ دائر کرنے والوں میں ایک نمایاں شخص ایک انوکھا کیس دائر کرے گا اور یہ نمایاں شاکی کوئی عام انسان ہیں بلکہ سید الانبیاء محمد مصطفےٰ کی ذات گرامی ہو گی۔ آپ بھی اس عدالت میں ایک گلہ اور شکوہ لے کر حاضر ہوں گے اور قرآن کریم میں آنحضور اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ کو یوں بیان کیا ہے:
و قال الرسول یا رابالخ
اور رسول اللہ فرمائے گا! اے میرے پالنے والے: میری قوم (امت) نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔
جس امت کی خاطر میں نے بہت سے مصائب وآلام برداشت کئے ”ما اوذی نبی بما اوذیت“ اس راہ میں جو اذیتیں مجھے ملی ہیں وہ کسی نبی کو نہیں ملیں۔ میرے پالنے والے! میں نے تیرا ایک ایک پیغام ان تک پہنچایا۔ ان پر خود عمل کرکے دکھایا، مگر میرے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا!!
اہل تشیع کی معتبر کتاب ”وسائل الشیعہ“ میں ایک حدیث ہے۔
قال رسول اللہ انا اول وافد علی عزیز الجبار یوم القیامة وکتابہ واہل بیتی ثم امتی ثم اسئلہم ما فعلتم بکتاب اللہ واہلبیتی۔
” آنحضور نے فرمایا! قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب کو لے کر حاضر ہو جاؤں گا، اس کے بعد میری اہل بیت عصمت اور آخر میں میری امت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگی پھر میں اپنی امت سے پوچھوں گا کہ تم نے کتاب خدا اور میری اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے؟“
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ قیامت کا برپا ہونا برحق ہے اور مستقبل میں ہی وقوع پذیر ہو گی۔ لیکن اس آیہ شریفہ میں ”وقال الرسول“ سے تعبیر کیا ہے یعنی ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے جو کہ گذشتہ زمانے میں واقع ہونے والے امور کے ساتھ مخصوص ہے جب کہ قیامت مستقبل میں واقع ہونے والے ایک عمل ہے اسے ماضی کے ساتھ تعبیر کرنے میں ایک خاص نکتہ مضمر ہے۔
جس کی بنیاد پر مستقبل میں ہونے والے اس واقعے کو فعل ماضی کے صیغے میں بیان کیا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ عربی زبان کے رسالیب میں سے ایک یہ ہے کہ جس امر کا مستقبل میں واقع ہونا۔ یقینی ہو، اسے صیغہ ماضی میں بیان کیا جاتا ہے۔ بنابرایں اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ امر حتمی الوقوع ہے، جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہیں ہے۔
آیہ شریفہ میں ”قال“ سے تعبیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی امت کے خلاف آنحضور کا یہ استغاثہ حتماً دائر ہو گا جس کے واقع ہونے کے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
اب اس بات کی تحقیق کی ضرورت ہے کہ پیغمبر گرامی اسلام جس قوم کے خلاف گلہ فرمائیں گے، وہ قوم ہم امت اسلامیہ ہیں یا کوئی اور قوم ہے؟ کیا امت اسلامیہ ہی ہے جس نے قرآن کو ترک کیا ہے؟ آیہ شریفہ میں ”قوی“ کہہ کر قوم کو آنحضور نے اپنی طرف نسبت دی ہے یعنی ”میری امت“ سے تعبیر کیا ہے۔ اسے معلوم ہوتا کہ وہ قوم جس کے خلاف آنحضور شکوہ لے کر بارگاہ الہٰی میں پہنچیں گے وہ ہم ہی ہیں اور اگر اس گلے اور شکوے کو کسی اور قوم یاامت کی طرف نسبت دینا ممکن نہیں ہے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہم نے ہی قرآن کو چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہم تارک قرآن ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ قرآن کریم کو کلام اللہ تسلیم کرتے ہوئے ھی۔ اسے چھوڑ دیں؟ ہم اسے آنحضور کا اعجاز تسلیم نہیں کرتے؟ ہم قرآن کے احترام کے قائل نہیں؟ ہم ہمیشہ وضو اور طہارت کے ساتھ اسے نہیں اٹھاتے؟ اور تعظیم و احترام کی خاطر اسے چومتے نہیں؟ کیا اسے دیگر کتابوں کے مقابل امتیازی حیثیت دے کر نفیس غلاف چڑھا کر نہیں رکھتے؟ کیا اپنی اولاد کو پہلا سبق قرآن سے شروع نہیں کراتے؟ جب کوئی مسلمان اس دارفانی سے بقاء کی خاطر رحلت کر جاتا ہے اس کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی نہیں کرتے؟ کیا ہم قرآن کریم کے حفظ میں کوشاں نہیں رہتے؟ کیا امت اسلامیہ کے اندر ایک معتنایہ تعداد میں حفظانِ قرآن کریم نہیں ہیں؟
مذکورہ بالا وہ امور ہیں جنہیں ہم بخوبی انجام دیتے ہیں اگر امت اسلامیہ کا ہر فرد نہیں تو کم از کم ہر گھر میں ان پر ضرور عمل ہوتا ہے۔ لیکن در اصل سوال یہ ہے کہ ارسال رسل اور انزال کتب کا ہدف اور مقصد یہی ہیں؟ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انہی امور کی خاطر آئے تھے؟ قران کریم کا مقصد صرف اس کے ذریعے فاتحہ پڑھوانا تھا؟ کیا کتاب اللہ ہم سے صرف یہی چاہتی ہے؟ کیا محمد مصطفےٰ خاتم الانبیاء کا ابدی معجزہ صرف انہی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے؟ یا آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کا مقصد اور ہدف کچھ اور ہیں؟
اگر قرآن کریم کا مقصد صرف یہی ہیں تو ہم سرخرو ہیں کیونکہ ہم ان اعمال کو بطور احسن انجام دیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نہیں چھوڑا اور اس کے نتیجے میں ہمارے خلاف آنحضور اللہ کی بارگاہ میں شکایت نہیں فرمائیں گے اور ہم تارک قرآن نہیں ہوں گے۔
لیکن اگر یہ اعمال جنہیں ہم انجا دیتے ہیں قرآن کریم کے مقاصد کو پورا نہیں کرتے۔ قرآنی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یعنی یہ اعمال یا تو اصلاً قرآنی مقاصد میں شامل نہیں ہیں یا اگر شامل ہیں تو یہ سارے مقاصد نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کے اہداف اور ہیں جنہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے مثلاً قرآن یہ چاہتا ہے کہ ہم اسے بنی نوع بشر کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر لاگو کریں۔ اسے راہنما تسلیم کریں اور یقینا ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ تو اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم ہی وہ بدنصیب امت ہیں جن کے خلاف اسی امت کا رسول شکوہ لے کر بارگاہ، الہٰی میں پہنچیں گے کیونکہ وہی تو ہیں جو اپنے آپ کو امت اسلامیہ یا امت محمد عربی کے لئے ہیں یا امت قرآن نام رکھتے ہیں۔
اگر ہم ہجرانِ قرآن کے حوالے سے دقیق انداز میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ امت قرآن کس قدر خود قرآن سے اجنبی یا قرآن سے دوری کا شکار ہے اور قرآن کریم کس قدر مظلوم واقع ہوا ہے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قیامت کے دن بارگاہ الہٰی میں ہمارے رسول قرآن کے مظلوم واقع ہونے کے بارے میں ہمارے خلاف شکایت فرمائیں گے۔
اب ہم اس مسئلے کا دقیق جائزہ لینے کے لئے یہ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں نے قرآن کریم کے ساتھ کیا سلوک رکھا ہے۔
قرآن کریم اور عامة الناس
علامہ اقبال فرماتے ہیں: والد بزرگوار نے میرے بچپن میں مجھ سے قرآن کے بارے ایک بات کی تھی جو میرے لئے ایک ناقابل فراموش درس بن گیا تھا۔ اور وہ بات یہ تھی انہوں نے فرمایا بیٹا! ”تم قرآن کو اس طرح پڑھا کرو گویا وحی تمہارے اوپر ہی نازل ہوئی ہو“ حقیقت بھی یہی ہے قرآن کو اسی طرح ہی پڑھنا چاہیے اور عملاً اپنے آپ پر لاگو کرنا چاہیے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عام لوگوں کا قرآن کے ساتھ جو تعلق اور رابطہ ہے وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ کے بہت کم لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور کچھ لوگ تلاوت کرتے بھی ہیں تو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے اور اگر سمجھتے ہیں تو عمل کے مرحلے میں آکر چند فیصد ہی رہ جاتے ہیں۔
یسمع آیت اللہ تتلی علیہ ثم یصر مستکبراً کان لم سیمعہا فبشرہ بعذاب الیم۔(الجاثیة: ۸)
”وہ اللہ کی آیتوں کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سن تو لیتا ہے پھر تکبر کے ساتھ ضد کرتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں۔ سو اسے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے“
اگر چہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے لیکن مسلمان بھی اس کے مصداق بن سکتے ہیں جو یا تو قرآن پڑھتے یا سنتے ہی نہیں اور اگر سنتے بھی ہیں تو عمل نہیں کرتے۔
مسلمانو کے ہاتھوں قرآن کریم اس قدر مظلوم واقع ہوا ہے کہ جس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے لوگوں کی زندگی یوں ہی گز جاتی ہے کہ جن کا بھولے سے بھی قرآن کے ساتھ تعلق یا واسطہ نہیں پڑتا۔ قرآن کو صرف اس وقت بڑے اہتمام سے لایا جاتا ہے جب انسان کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتی ہیں جب پانی سر سے گز جاتا ہے یا گویا امتحانی سنٹر سے صاف اور کورا جوابی کاغذ صرف نام نمبر لکھ کر ممتحن کے حوالے کر دیتا ہے تو نصاب کی کتاب کی زیارت کیلئے لاتا ہے۔ جب مسلمان مر جاتا ہے تو اسے قرآن کی اور قرآن کو اس کی زیارت نصیب ہوتی ہے ایک دو دن دوسرے لوگ اس پر فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد قرآن کا کام ختم ہو جاتا ہے۔
سب کا خیال یہی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے لہذا اسے تعویز کے طور پر آفات و بلیات سے بچنے کے لئے اپنے ساتھ یا گھر میں رکھنا ضروری ہے ان کے نزدیک قرآن کا اگر کوئی مقصد ہے تو صرف یہی ہے کہ امیر المومنین نے یوں جہاں فرمایا ہے:
انہ سیئاتی علیکم من بعدی زمان لیس فیہ شیء اخفی من الحق والا اظہر من الباطل والکتاب واہلہ فی ذلک الزمان فی الناس ولیسافیہم ومعہم ولیسامعہم۔ لان انضلالة لا توافق الہدی وان اجتمعا اجتمع القوم علی الفرقة او فترقوا علی الجماعة کانہم ائمة الکتاب ولیس الکتاب امامہم فلم یبق عندہم منہ الا اسمہ ولا یعرفون الا خطہ وزیرہ۔(نہج البلاغہ خطبہ: ۱۴۷)
”میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے کہ جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گا اور اللہ و رسول پر افتراء پردازی کا دور دورہ ہوگا ان کے نزدیک قرآن سے بے قیمت کوئی چیز نہ ہو گی جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے مقبول اور قسمیں کوئی چیز نہیں ہوگی جب اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اور (ان کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں ہو گی۔ چنانچہ قرآن کا بار بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کریں گے اور حفظ کرنے والے اس کی (تعلیم) بھلا بیٹھیں گے قرآن اور قرآن والے (اہل بیت) بے گھر و بے در ہوں گے اور ایک راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے انہیں پناہ دینے والا کوئی نہ ہوگا وہ بظاہر لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ ان کے ساتھ ہوں گے۔ مگر بے تعلق اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یکجا ہوں۔ لوگوں نے تفرقہ بازی پر اتفاق کر لیا ہے جماعت سے کٹ گئے ہیں گویا ہم وہ قرآن کے پیشوا ہیں اور قرآن ان کی پیشوا نہیں۔ ان کے پاس تو قرآن کا صرف نام باقی رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط ونقوش کو پہچان سکتے ہیں۔
……………
حواله
(۱) تمام مخلوقات وہاں جمع ہو جائیں گی۔
منابع:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ نہج البلاغہ
۳۔ بحارالانوار
۴۔ کنزالعمال
۵۔ آشنائی با واژہ ہائے قرآن
۶۔ وسائل الشیعہ