- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 12 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
چونکہ پیغمبر اکرم(ص) کی رسالت رہتی دنیا تک کے لئے ھے اور آپ(ص) خاتم النبیین ھیں، لہٰذا ضروری ھے کہ آنحضرت(ص) کا معجزہ بھی ھمیشہ باقی رھے۔
دوسرے یہ کہ آپ(ص) کی بعثت کا دور کلام میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے مقابلے کا دور تھا اور اس معاشرے میں شخصیات کی عظمت و منزلت، نظم و نثر میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کی بنیاد پر طے هوتی تھی۔
ان ھی دو خصوصیات کے سبب قرآن مجید، مختلف لفظی اور معنوی اعتبارات سے حضور اکرم (ص) کی نبوت و رسالت کی دلیل قرار پایا۔ جن میں سے بعض کی طرف ھم اشارہ کرتے ھیں:
۱۔قرآن کی مثل لانے سے انسان کی عاجزی:
پیغمبر اکرم(ص) نے ایسے زمانے اور ماحول میں ظہور فرمایا جھاں مختلف اقوام کے لوگ گوناگوں عقائد کے ساتھ زندگی بسر کر رھے تھے۔ کچھ تو سرے سے مبداٴ متعال کے منکر اور مادہ پرست تھے اور جو ماوراء مادہ و طبیعت کے قائل بھی تھے تو، ان میں سے بھی بعض بت پرستی اور بعض ستارہ پرستی میں مشغول تھے۔ باقی جو ان بتوںاور ستاروں سے دور تھے وہ مجوسیت، یہودیت، یا عیسائیت کی زنجیروں میں جکڑے هوئے تھے۔
دوسری جانب شاھنشاہ ایران اور ھرقل روم کمزور اقوام کی گردنوں میں استعمار و استحصال کے طوق ڈالے هوئے تھے یا پھر جنگ و خونریزی میں سرگرم تھے۔
ایسے دور میں پیغمبر اسلام(ص) نے غیب پر ایمان اور توحید کے پرچم کو بلند کرکے کائنات کے تمام انسانوں کو پروردگار عالم کی عبادت اور کفر و ظلم کی زنجیریں توڑنے کی دعوت دی۔ ایران کے کسریٰ اور قیصر روم سے لے کر غسان و حیرہ کے بادشاہوں تک، ظالموں اور متکبروں کو پروردگارِ عالم کی عبودیت، قبولِ اسلام، قوانین الٰھی کے سامنے تسلیم اور خود کو حق و عدالت کے سپرد کرنے کی دعوت دی۔
مجوس کی ثنویت، نصاریٰ کی تثلیث، یہود کی خدا اور انبیاء علیھم السلام سے ناروا نسبتوں اور جاھلیت کی ان غلط عادات ورسوم سے، جو آباء و اجداد سے وراثت میں پانے کے سبب جزیرة العرب کے لوگوں کے ر گ وپے میں سما چکی تھیں، مقابلہ کیا اور تمام اقوام و امم کے مد مقابل اکیلے قیام فرمایا۔
اقی معجزات کو چھوڑ کر معجزہٴِ قرآن کو اثبات نبوت کی قاطع دلیل قرار دیا اور قرآن کو چیلنج بناتے هوئے بادشاہوں، سلاطین، نیز علمائے یہود اورعیسائی راھبوں جیسی طاقتوں اور تمام بت پرستوں کو مقابلے کی دعوت دی <وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا شُہَدَآئَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ>[1]
واضح ھے کہ عوام الناس کا اپنے عقائد میں تعصب، علماء مذاھب کی اپنے پیروکاروں کے ثابت قدم رھنے پر سختی اور سلاطین کے لئے رعایا کی بیداری کا خطرہ هوتے هوئے اگر ان کے بس میں هوتا تو قرآن کا جواب لانے میں ھرگز سستی نہ کرتے۔
دانشوروں، شعراء، اور اھل سخن کے هوتے هوئے جو فصاحت و بلاغت کے ماھرین تھے اور بازار عکاظ کو ان کے مقابلوں کا میدان قرار دیا جاتا تھا اور ان مقابلوں میں جیتنے والوں کے اشعارکو خانہ کعبہ کی دیوار پر بطور افتخار آویزاں کیاجاتا تھا، اگر ان میں مقابلے کی قدرت هوتی تو آیا اس مقابلے میں، جس میں ان کے دین و دنیا کی ھار جیت کا سوال تھا، کیا کچھ نہ کرتے؟
آخر کار آپ(ص) کی گفتار کو جادو سے تعبیر کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہ کر سکے <إِنْ ہٰذَا إِلاَّ سَحْرٌ مُّبِیْنٌ> [2]
اور یھی وجہ تھی کہ جب ابو جھل نے فصحاء عرب کے ملجا و مرجع، ولید بن مغیرہ سے قرآن کے متعلق رائے دینے کی درخواست کی تو کھنے لگا:((فما اٴقول فیہ فواللّہ ما منکم رجل اٴعلم بالاٴشعار منی ولا اٴعلم برجزہ منی ولا بقصیدہ ولا باٴشعار الجن، واللّٰہ ما یشبہ الذی یقول شیئاً من ہذا، و واللّٰہ إن لقولہ لحلاوة و إنہ لیحطم ما تحتہ و اٴنہ لیعلو و لا یعلی۔ قال ابوجھل: واللّٰہ لا یرضی قومک حتی تقول فیہ، قال: فدعنی حتی اٴفکرّ فیہ، فلمّا فکّر، قال: ھذا سحر یاٴثرہ عن غیرہ)) [3]
ولید بن مغیرہ کا یہ بیان اعجاز قرآن کے مقابلے میں شکست تسلیم کرنے کی دلیل ھے، کیونکہ جادو کی انتھا بھی عادی اسباب پر ھے جو انسان کی قدرت سے باھر نھیں اور تاریخ گواہ ھے کہ اس زمانے میں جزیرة العرب اور اس کے ھمسایہ ممالک میں جادوگروں اور کاھنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو جادو اور علم نجوم میں کمال کی مھارت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود پیغمبر اکرم (ص) کا قرآن کے ذریعے چیلنج کرنا اور ان سب کا قرآن کے مقابلے میں عاجز هونا تاریخ کے اوراق میں ثبت ھے، لہٰذا قرآن سے مقابلے کے بجائے آنحضرت (ص) کو مال و مقام کا لالچ دیا گیا اور جب ان کی اس سعی و کوشش نے بھی اپنا اثر نہ دکھایا تو آپ (ص) کی جان کے درپے هوگئے۔
۲۔ھدایت ِقرآن
ایسے دور میں جب ایک گروہ کا ماوراء الطبیعت پر اعتقاد ھی نہ تھا بلکہ ادارک سے عاری اور بے شعور مادّے کو عالمِ وجود کے حیرت انگیز نظام کے انتظام وانصرام کا مالک سمجھتے تھے، جب کہ ماوراء الطبیعت پر اعتقاد رکھنے والے گوناگوں بتوں کی صورت میں اپنے اپنے معبودوں کی پوجا کرتے تھے اور آسمانی ادیان کے معتقد، تحریف شدہ کتب کے مطابق، خالق کو اوصاف ِخلق سے متصف خیال کرتے تھے۔ ایسا ماحول جھاں تاریخ، عوام کے شدیدفکری، اخلاقی اور عملی انحطاط کی گواہ ھے، وھاں ایک ایسے فرد نے قیام کیا جس نے نہ کھیں سے پڑھا اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا تھا، لیکن گمراھی کی ھرتاریک کھائی کے مقابلے میں ھدایت کی عظیم شاھراہ ترسیم کی۔ انسان کو ایسے پروردگار عالم کی عبادت کی دعوت دی جو ھر قسم کے نقص سے پاک و منزہ اور تمام کمال و جمال اسی کے وجود سے ھیں، ساری تعریفیں اسی کے لئے مخصوص ھیں، جس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نھیں، اس کی ذات اس سے کھیں بڑھ کر ھے کہ اس کے لئے کوئی حد معین کی جائے یا اوصاف میں سے کوئی صفت بیان کی جا سکے ((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلا اللّہ واللّٰہ اٴکبر) [4]
ان ایام میں جب عدد ومعدود کے خالق او ر اولاد و ازواج سے پاک ومنزہ ذات کو ترکیب، تثلیث،احتیاج اور تولید نسل سے نسبت دینے کے ساتھ ساتھ اس کا ھمسر بھی تصور کیا جاتا تھا، قرآن نے اس کی ذات کو ان تمام اوھام سے پاک ومنزہ قرار دیتے هوئے پروردگار عالم کی وحدانیت کا اعلان فرمایا کہ خدا کی ذات ھر قسم کی عقلی، وھمی اور حسی ترکیب سے منزہ ھے، وہ ھر شخص اور ھر شے سے بے نیاز ھی نھیں بلکہ اس کے علاوہ ھر چیز وھر شخص محتاج ھے ، اس کی مقدس ذات میں تولیدِ نسل کو عقلاً وحسا ًکسی بھی معنی کے اعتبار سے گنجائش نھیں، تمام موجودات اس کی قدرت وارادے سے موجود ومخلوق ھیں۔ذات، صفات اور افعال میں اس کی کوئی مثا ل نھیں ۔
اگر چہ قرآن میں پروردگار عالم کی معرفت، اعلیٰ صفات اور اسماء حسنی سے متعلق ایک ہزار سے زیادہ آیات موجود ھیں، لیکن ان میں سے ایک سطر میں تدبر وتفکر ھی ھدایت کی عظمت کو وا ضح وروشن کر دیتا ھے<قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌخاللّٰہُ الصَّمَدُخلَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْخوَلَمْ یَکُنْ لَہ کُفُوٴاً اٴَحَدٌ>
کلام اھل بیت علیھم السلام، جو معرفت کے خزانوں کی کنجی ھے،یھاں ان میں سے دوحد یثیں نقل کرتے ھیں :
۱۔امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں : ((إن اللّٰہ تبارک وتعالی خلو من خلقہ وخلقہ خلو منہ وکل ما وقع علیہ اسم شیء ما خلا اللّٰہ عزوجل فھو مخلوق، واللّٰہ خالق کل شیء، تبارک الذي لیس کمثلہ شیٴ)) [5]
۲۔امام باقر(ع) فرماتے ھیں :((کلما میزتموہ باٴوھامکم فی اٴدق معانیہ، مخلوق مصنوع مثلکم مردود إلیکم)) [6]
آسمانی کتاب، جن پر کروڑوں یہود ونصاٰری کے عقائد کی بنیاد ھے، کے عھدِ عتیق وجدید کا مطالعہ کرنے کے بعد معارفِ الھیہ سے متعلق ھدایت ِ قر آن کی عظمت آشکار هوتی ھے۔ اس مقدمے میں نمونے کے طور پر چند ایک کا ذکر کرتے ھیں:
یهودیوں کے بعض عقیدے
سفر تکوین (پیدائش )باب دوم :”اور ساتویں دن اسے اپنے تمام کاموں سے فراغت ملی ۔ اس نے ساتویں دن اپنے تمام کاموں کو انجام دینے کے بعد فرصت پائی ۔ پھر خدا نے ساتویں دن کو مبارک اور پاکیزہ قرار دیا کیونکہ اس دن اس نے اپنے تمام امور سے فراغت کے بعد فرصت پائی ۔۔۔۔
خداوند خدا نے آدم کو حکم دیتے هوئے فرمایا : بغیر کسی روک ٹوک کے باغ کے تمام درختو ں سے کھا سکتے هو، لیکن نیک وبد کی معرفت کے درخت سے ھر گزنہ کھانا، کیونکہ جس دن اس سے کھاؤ گے یقیناً مر جاؤ گے۔“
سفر تکوین (پیدائش ) باب سوم :”خداوند خدا کے خلق شدہ صحرائی حیوانات میں سے سانپ سب سے زیادہ هوشیار تھا، اس نے عورت سے کھا :کیا واقعی خدا نے تمھیں باغ کے تمام درختوں سے کھانے سے منع کیا ھے؟ عورت نے سانپ سے کھا : ھم باغ کے باقی درختوںسے تو پھل کھا سکتے ھیں سوائے اس درخت کے جو باغ کے درمیان میں ھے، خدا نے فرمایا ھے کہ اس درخت سے نہ کھانا اور اسے چھونا بھی نھیں ورنہ مر جاؤگے ۔ سانپ نے کھا : ھر گز نہ مرو گے،بلکہ خد اجانتا ھے جس دن تم نے اس سے کھا لیا تمھا ری آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹ جائیں گے اور خدا کی طرح تمھیں بھی نیک وبد کی معرفت حاصل هوجائے گی ۔ جب عورت نے دیکھا کہ اس درخت سے کھانا اچھا ھے جس کی دید خوش نما و دلپذیر ھے اور جو معرفت بڑھانے والا ھے، پس اس درخت سے پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوھر کو بھی دیا، جو اس نے کھا لیا ۔ جب وہ کھا چکا، اس وقت دونوں کی آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹ گئے دونوں نے دیکھا کہ ان کے جسم عریاں ھیں انہوں نے انجیر کے پتوں کو آپس میں جوڑ کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کا سامان فراھم کیا اور انہوں نے خدا وند خدا کی آواز سنی جو نسیمِ صبح کے چلنے کے وقت باغ میں خراماں خراماں ٹھل رھا تھا۔ آدم اور ا س کی بیوی نے خود کو خداوند خدا کی نظروں سے اوجھل کر کے خود کو باغ کے درختوں کے درمیان چھپا لیا ۔ خداوند ِ خدا نے آدم کو آواز دی اور کھا: تم کھاں هو؟آدم نے کھا : میں باغ میں تمھاری آواز سن کر چوں کہ عریاںہوں، ڈر گیا هوں اور خود کو چھپا لیا ھے۔ کھا: کس نے تمھیں آگاہ کیا کہ تم عریاں هو ؟آیا تمھیں جس درخت سے کھانے کو منع کیا تھا، تم نے اس سے کھا لیا ؟…“
اسی باب کی بائیسویں آیت میں ھے:”اور خداوند خدا نے کھا: بے شک انسان نیک وبد کی معرفت کے بعد ھماری مانند هوگیاھے ۔ اب کھیں ایسا نہ هو کہ ھاتھ بڑھا کر درختِ حیات سے بھی کھا لے اور ھمیشہ باقی رھے۔“
باب ششم کی چھٹی اور ساتویں آیت میں یہ مذکور ھے: ”اور خداوند زمین پر انسان کی خلقت سے پشیمان اور اپنے دل میں غمگین هوا، خداوند نے کھا : انسان کو جو خلق کیا ھے اس زمین کو انسان، حیوانات، حشرات الارض اور پرندوں کے وجود سے پاک کردوں، کیونکہ انھیں خلق کر کے پشیمان هوں۔“
اب ھم ان آیات میں سے بعض نکات کی جانب اشارہ کرتے ھیں:
۱۔پروردگار عالم نے انسان کو خلق کیا ھے اور اسے عقل عطا کی ھے تاکہ وہ اچھے اور برے کی پہچان کر سکے۔ اس نے عقل کو علم و معرفت کے لئے پیدا کیا ھے، کیسے ممکن ھے کہ وہ اسے اچھے اور برے کی پہچان سے روک دے؟!
جب کہ ھدایت قرآن یہ ھے < قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اٴُوْلُواْلاٴَلْبَابِ > [7]، <إِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوْنَ> [8]
علم، معرفت،تعقل، تفکر، اور تدبر کے بارے میں آیات قرآن اتنی زیادہ ھیں کہ اس مختصر مقدمے میں ذکر کرنا ممکن نھیں ھے ۔
۲۔جو یہ کھے کہ اگر اس نیک وبد کے درخت سے کھایا تو مر جاؤگے جب کہ آدم اور اس کی زوجہ کھاتے ھیں اور نھیں مرتے، یا تو جانتا تھا کہ نھیں مریں گے، لہٰذا جھوٹا ھے، یا نھیں جانتا تھا پس جاھل هوا ۔ کیا جھوٹا اور جاھل، ”خداوند“ کے نام کا حق دار هوسکتاھے ؟!
اس سے زیادہ عجیب یہ کہ سانپ، آدم اور اس کی زوجہ کو نیک وبد کی معرفت کے درخت سے کھانے کے لئے ھدایت کر کے، خدا کے جھوٹ کو ان پر آشکار اور بناوٹی خد ا کے فریب اوردھوکے بازی کو نمایاںکرتا ھے ؟!
لیکن خدا کے علم سے متعلق قرآن کا نمونہ یہ ھے<یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہ إِلاَّ بِمَا شَاءَ> [9]، <وَلاَ یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ> [10]، <إِنَّمَا إِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْماً> [11]، <قُلْ اٴَنْزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ إِنَّہ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً> [12]،< لاَ جَرَمَ اٴَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ> [13]،<ھُوْ اللّٰہُ الَّذِیْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ> [14]
۳۔ایسا موجود جو خود محدودہو اور جو آدم کو باغ کے درختوں میں گم کردے اور کھے :کھاں هو؟ تاکہ آدم کی آواز سن کر اسے ڈھونڈے، باغ کے درخت جس کے دیکھنے میں مانع هوں، وہ رب العالمین، عالمِ السر والخفیات، خالق کون ومکان اور زمین وآسمان پر محیط کیسے هوسکتاھے ؟!
جب کہ اس کے مقابلے میں ھدایتِ قرآن کا نمونہ یہ ھے <وَعِنْدَہ مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُھَا إِلاَّ ھُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ إِلاَّ یَعْلَمُھَا وَلاَ حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ اْلاٴَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ> [15]
۴۔انجیل کی مذکورہ بالا آیات خدا کی توحید اور تقدیس کی جانب ھدایت کرنے کے بجائے کہ<لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْءٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ> [16]، اس کی ذات میںشرک اور تشبیہ پر دلالت کرتی ھےں اور کہتی ھےں :”…خدا نے کھا :نیک وبد کی معرفت حاصل کر کے انسان یقینا ھماری طرح هوگیا ھے…۔“
۵۔پروردگار عالم کا تخلیق آدم سے پشیمان هونا اس بات کی دلیل ھے کہ وہ اپنے کام کے انجام سے جاھل تھا۔ کیا پروردگار عالم کو جاھل سمجھنا، کہ جس کا لازمہ محدودیت ِذات ومخلوقیت ِخالق اور نورِ علم وظلمت ِجھل کی حق ِمتعال کے ساتھ ترکیب ھے، انسان کو خدا کی جانب ھدایت کرنے والی آسمانی کتاب سے ممکن ھے؟!
جب کہ ھدایت قرآن یہ ھے کہ<اٴَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ > [17]<وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی اْلاٴَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُوْا اٴَ تَجْعَلُُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِِّیْ اٴَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ> [18]
۶۔پروردگا ر عالم سے حزن وملال کو منسوب کیا جو جسم، جھل اور عجز کا لازمہ ھیں اور اس بارے میں ھدایت قرآن یہ ھے <سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُخ لَہ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ یُحْی وَیُمِیْتُ وَھُو َعَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌخ ھُوَ اْلاٴَوَّلُ وَاْلآخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیَءٍ عَلِیْمٌ> [19]
حواله جات
[1] سورہ بقرہ ، آیت ۲۳۔”اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس کا جیسا ایک ھی سورہ لے آوٴ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ھیں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوے میںاور خیال میں سچے هو“۔
[2] سورہ مائدہ، آیت ۱۱۰۔”یہ سب کھلا هواجادو ھے“۔
[3] تفسیر طبری ج۲۹ ص۱۵۶ ۔سورہ مدثر کی، آیت۲۴ ۔ (کھا اس بارے میں کھیں؟بس خدا کی قسم تم میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے زیادہ شعر میں معلومات نھیں رکھتا اس طرح رجز خوانی و قصیدہ واشعار میں بھی مجھ سے زیادہ عالم نھیں خدا کی قسم جو وہ (پیغمبر)کہہ رھا ھے ان میں سے کسی ایک کے طرح نھیں خدا کی قسم بس اس کے کلام میں ایسی مٹھاس ھے جو ھر کلام کو بے مزہ بنا دے گی بے شک سب سے برتر ھے اور اس پر کوئی کلام برتری نھیں رکھتا۔
ابو جھل نے کھا:خدا کی قسم تمھاری قوم اس وقت تک راضی نہ هوگی جب تک اس کلام کی برائی میں کچھ نہ کہہ دو ۔
ولید بن مغیرہ نے جواب دیا:مجھ کو کچھ مھلت دو تاکہ اس بارہ میں غور وفکر کرویں پھر کچھ فکر کرنے کے بعد کہتا ھے یہ جادو ھے جو دوسروں کی بارہ میں خبر رکھتا ھے“۔
[4] ”پاک ومنزہ خدا کی ذات جو ھر نقص و صفات مخلوق سے بری ھے ساری تعریفیں خدا کے لئے ھیں کوئی بھی لائق پرستش نھیں جز اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ، خدابالا وبرتر ھے اس سے کہ اس کی توصیف کی جائے“۔
[5] بحار الانوار ج۴ ص۱۴۹۔”چھٹے امام ارشاد فرماتے ھیں:بے شک خدا وند متعال کی ذات والامیں مخلوق کی کوئی صفت نھیں اور مخلوق میں کوئی خداکی صفت نھیں بلکہ خدا اور مخلوق میں ذات وصفات کے اعتبار سے تبائن ھے ایک واجب ھے تو دوسرا ممکن کسی طرح کی مشابہت خالق و مخلوق میں نھیں پائی جاتی ھر وہ چیز جس پر اسم خدا کے علاوہ کسی چیز کا اطلاق هو وہ مخلوق ھے اور خدا ھر چیز کا خالق ھے بابرکت ھے وہ ذات جس کا مثل کوئی نھیں “۔
[6] بحار الانوار ج۶۶ ص۲۹۳ ۔پانچویں امام کا ارشاد ھے:”ھر وہ چیز جس کو تم اپنے خیال خام میں اس کے دقیق ترین معنی میں دوسروں سے جدا جانو وہ تمھاری طرح ایک مخلوق و مصنوع ھے جس کی باز گشت تمھاری طرف ھے“۔
[7] سورہ زمر ، آیت ۹۔”کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ھیں ان کے برابر هو جائیں گے جو نھیں جانتے ھیں ، اس بات سے نصیحت صرف صاحبان عقل حاصل کرتے ھیں“۔
[8] سورہ انفال ، آیت ۲۲۔”اللہ کے نزدیک بد ترین زمین پر چلنے والے وہ بھرے اور گونگے ھیں جو عقل سے کام نھیں لیتے ھیں“۔
[9] سورہ ،بقرہ آیت ۲۵۵۔”وہ جو کچھ ان کے سامنے ھے اور جو پس پشت ھے سب کو جانتا ھے اور لوگ اس کے علم سے کسی چیز پر بھی احاطہ نھیں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاھے“۔
[10] سورہ سباء، آیت ۳۔”اس کے علم سے زمین وآسمان کا کوئی ذرہ دور نھیں ھے“۔
[11] سورہ طہ، آیت ۹۸۔”یقینا تم سب کا خدا صرف اللہ ھے جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور وھی ھر شئے کا وسیع علم رکھنے والا ھے“۔
[12] سورہ فرقان، آیت ۶۔”آپ کہہ دیجئے کہ اس نے قرآن کو نازل کیا ھے جو آسمان اور زمین کے رازوں سے باخبر ھے اور یقینا بڑا بخشنے والا ھے“۔
[13] سورہ نحل، آیت ۲۳۔”یقینا اللہ ان تمام باتوں کو جانتا ھے جنھیں یہ چھپاتے ھیں یا جن کا اظھار کرتے ھیں“۔
[14] سورہ حشر، آیت ۲۲۔”خدا وہ ھے جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور وہ پوشیدہ اور ظاھر کا جاننے والا وہ ھی بڑا مھربان اور نھایت رحم والا ھے“۔
[15] سورہ انعام، آیت ۵۹۔”اور اس کے پاس غیب کے خزانے ھیں جنھیں اس کے علاوہ کوئی نھیں جانتا ھے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ھے کوئی پتہ بھی گرتا ھے تو اسے اس کا علم ھے۔ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نھیں ھے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ هو“۔
[16] سورہ شوریٰ، آیت ۱۱۔”اس کا جیسا کوئی نھیں ھے وہ سب کی سننے والا ھے اور ھر چیز کا دیکھنے والا ھے“۔
[17] سورہ ملک، آیت ۱۴ ۔”اور کیا پیدا کرنے والا نھیں جانتا ھے جب کہ وہ لطیف بھی ھے اورخبیر بھی ھے“۔
[18] سورہ بقرہ، آیت ۳۰۔”اے رسول! اس وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا هوں اور انھوں نے کھا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ھم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ھیں تو ارشاد هوا کہ میں وہ جانتا هوں جو تم نھیں جانتے هو“۔
[19] سورہ حدید ، آیت ۱/۲/۳۔”محو تسبیح پروردگار ھے ھر وہ چیز جو زمین وآسمان میں ھے اور وہ پروردگار صاحب عزت بھی ھے اور صاحب حکمت بھی ھے۔آسمان و زمین کا کل اختیار اسی کے پاس ھے اور وھی حیات و موت کا دینے والا ھے اور ھر شئے پر اختیار رکھنے والا ھے۔وھی اول ھے وھی آخر وھی ظاھرھے وھی باطن اور وھی ھر شئے کا جاننے والا ھے“۔