- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 14 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
۷۔قرآن کی علمی اور عملی تربیت :
اگر کسی کا دعوٰی هو کہ وہ تمام اطباء جھان سے بڑا ھے تو یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس دو راستے ھیں: یا تو علم طب سے متعلق ایسی کتاب پیش کرے کہ اس کی طرح امراض کے اسباب، دواؤں اور علاج کو پھلے کسی نے ذکر نہ کیا هو۔
یا پھر ایسے مریض کو جس کے تمام اعضاء وجوارح بیماریوں میں مبتلا هوں، تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے هوں اور وہ مرنے کے قریب هو، اگر اس کے سپرد کردیا جائے تو وہ ایسے مریض کو صحت وسلامتی کا لباس پھنا دے۔
انبیاء علیھم السلام، افکار و روح کے طبیب اور امراض ِانسانیت کے معالج ھیں۔
ان میں سرفھرست پیغمبر اسلام(ص) کی ذات اطھر ھے، جس کی علمی دلیل قرآن جیسی کتاب ھے جو انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی امراض کے اسباب وعلاج میں بے مثال ھے اورھدایت قرآن کی بحث میں مختصر طور پر جس کے چند نمونے ذکر کئے گئے ھیں اور عملی دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اسلام (ص) بد ترین امراضِ انسانیت میں مبتلا ایک معاشرے میں مبعوث هوئے جن کے افراد فکری اعتبار سے اس حد تک گر چکے تھے کہ ھر قبیلے کے پاس اپنا ایک مخصوص بت تھا، بلکہ گھروں میں افراد اپنے لئے کجھور اور حلوے سے معبود بناتے تھے، صبح سویرے ان کے سامنے سجدہ بجا لاتے اور بھوک کے وقت ان ھی معبودوں کو کھا لیا کرتے تھے۔
معرفت اور ایمان کے مرھم کے ذریعے ناسور زدہ افکار کا ایسا علاج کیا کہ وہ لوگ خالق جھاں کی تعریف ان الفاظ میں کرنے لگے <اَللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَاٴْخُذُہ سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ لَّہ مَافِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہ إِلاَّ بِإِذْنِہ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِنْ عِلْمِہ إِلاَّ بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ وَلاَ یَوٴُدُہ حِفْظُہُمَا وَ هو الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ> [63] اور اس خالق ِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز هوکر کھنے لگے ((سبحا ن ربی الاعلی وبحمدہ))
باھمی الفت کے اعتبار سے حیوانات سے زیادہ پست تھے کہ باپ اپنے ھی ھاتھوں اپنی بیٹی کو نھایت ھی سنگدلی سے زندہ دفن کردیتا تھا۔ [64] اس درندہ صفت قوم میں باھمی الفت کو اس طرح زندہ کیا کہ مصر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک خیمے میں پرندے نے گھونسلا بنایا هوا ھے تو واپس پلٹتے وقت اس خیمے کو وھیں پر رھنے دیا کہ کھیں پرندے کے بچے اور گھونسلا ویران نہ هوجائیں اور اسی لئے وھاں آباد هونے والے شھر کا نام ”فسطاط“ رکھا گیا۔ [65]
فقراء کے مقابلے میں اغنیاء کے اظھارِ قدرت وگستاخی کو اس طرح دور کیا کہ ایک دن جب آنحضرت (ص) کی خدمت میں ایک مالدار شخص بیٹھا تھا، ایسے میں ایک نادار شخص آکر اس کے ساتھ بیٹھ گیا، اس مالدار شخص نے اپنا دامن ہٹا لیا اور جب متوجہ هوا کہ آنحضرت (ص) یہ سب دیکھ رھے ھیں، کھنے لگا : یا رسول اللہ (ص) !میں نے اپنی آدھی ثروت اس غریب کو دی، اس غریب نے کھا : مجھے قبول نھیں ھے،کھیں میں بھی اس مرض میں مبتلا نہ هوجاؤں جس میں یہ مبتلا ھے ۔ [66]
یہ کیسی تربیت تھی کہ مالدار کو ایسی بخشش اور نادار کو اتنی بلند نظری عطا کی اور امیر کے تکبر کو تواضع اور غریب کی ذلت کو عزت میں تبدیل کر دیا ۔کمزور پر طاقتور کے مظالم کا اس طرح قلع قمع کیا کہ امیر المومنین (ع) کی حکومت کے زمانے میں جس وقت مسلمانوں کے خلیفہ کے پاس ایران اور روم کے شھنشاہوں جیسی عظیم فوجی طاقتیں موجود تھیں اور مالک اشتر سپہ سالار تھے، ایک دن جب مالک اشتر ایک سادہ اور عام انسان کی طرح بازار سے گزر رھے تھے تو کسی نے ان کا مذاق اڑایا۔لوگوں نے کھا جس کا تم نے مذاق اڑایا، جانتے هو وہ شخص کون ھے؟ اس نے کھا: نھیں ؛جب اسے بتایا گیا کہ کون تھاتو پریشان هوا کہ مالک اشتر کے پاس اس قدرت مطلقہ کے هوتے هوئے اب اس کا کیا حشرہوگا، مالک کی تلاش میں نکلا، اسے بتایا گیا کہ مالک اشتر مسجد کی طرف گئے ھیں، سر جھکائے مالک کے پاس گیا تاکہ اپنے کئے کی معافی مانگے، مالک نے کھا :”تیرے عمل کی وجہ سے میں نے مسجد میں آکر دو رکعت نما زادا کی ھے تاکہ خدا سے تیری مغفرت کی درخواست کر سکوں ۔“ [67]
یہ تربیت ھی کا اثر تھا کہ طاقت وقدرت کا غرور اسے حی قیوم کے سامنے پیشانی رگڑنے سے نہ روک سکا اور اھانت کرنے والا جب سزا پانے کے خوف واضطراب میں مبتلا تھا، اسے سزا دینے کے بجائے خدا سے طلبِ مغفرت جیسا بہترین تحفہ عطا کیا ۔
قومی فاصلے اس طرح مٹا ئے کہ عجم کی نسبت عرب قومیت کے رسوخ کے باوجود، سلمان فارسی کو اس آیت کے حکم کے مطابق [68]<وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاوَةِ وَالْعَشِِيِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ وَلاَ تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ لاَ تُطِعْ مَنْ اٴَغْفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ هواہُ وَکَانَ اٴَمْرُہ فُرُطاً> [69] اپنے پھلو میں بٹھایا [70] کہ جس کے نتیجے میں مدائن کی امارت ان کے حوالے کی گئی۔
رنگ ونسل کے امتیازات کو جڑ سے یوں اکھاڑا کہ بلال حبشی جیسے غلام کو اپنا موٴذن قرار دیا، اس وقت جب آنحضرت (ص) سے کھا گیا کہ آپ نے جو بھی حکم دیا ھم نے قبول کیا لیکن اس کالے کوے کی آواز سننے کو تیار نھیں، تو آپ (ص) کا جواب یہ تھا، <یَا اٴَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقنَْاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اٴُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اٴَتْقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ> [71]
ایسا پاک و پاکیزہ درخت کاشت کیا کہ علم ومعرفت جس کی جڑیں،مبدا ومعاد پر اعتقاد اس کا تنا، ملکاتِ حمیدہ واخلاقِ فاضلہ اس کی شاخیں، تقویٰ وپرھیزگاری اس کی کلیاں، محکم وسنجیدہ گفتار اور پسندیدہ کردار جس کے پھل تھے <اٴَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اٴَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَائِخ تُوٴْتِیْ اٴُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِإِذْنِ رَبِّھَا> [72]
انسانیت کے درخت کو اس تعلیم و تربیت کے ساتھ پروان چڑھایا او رعلی ابن ابی طالب (ع) کی شکل میں اس درخت کا بہترین ثمرعالم بشریت کے حوالے کیا کہ جس کے علمی و عملی فضائل کے عظیم الشان مجموعے میں سے یھی چند سطریں بہت ھیں کہ حیات رسول خدا (ص) میں جس کے ادب کا تقاضہ یہ تھا کہ اپنے علم و عرفان کا اظھار نہ کرتے ، لہٰذا آفتاب کی شعاع کے تحت ماہتاب کی طرح رھے اور آنحضرت (ص)کے بعد بھی استبداد کی گھٹا چھا جانے کے باعث نور افشانی نہ کر پائے اور تقریباً پانچ سال کی مدت میں جمل، صفین و نھروان جیسی فتنہ انگیز اور تباہ کن جنگوں میں مبتلا هونے کے باوجود، نھایت ھی کم فرصت میں جب منبر خطابت پر بیٹھنے کا موقع ملا تو گفتار کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کے بقول آپ (ع) کا کلام خالق کے کلام سے نیچے اورمخلوق کے کلام سے بلند قرار پایا۔ [73] معرفت خدا، تربیت ِنفس اور مضبوط معاشرتی نظام کے لئے فقط نھج البلاغہ کے بالترتیب خطبہٴ اول، خطبہٴ متقین اور عھد ِمالک اشتر کا مطالعہ ھی یہ بات واضح اور روشن کرنے کے لئے کافی ھے کہ علمی و عملی حکمت کا وہ کیسا بحرِ بے کراں ھے کہ یہ تمام نمونے جس کے قطروں کی مانند ھیں۔
جب میدان جنگ میں قدم رکھا تو تاریخ اس جیسا دلاور نہ دکھا سکی، جس کی پیٹھ زرہ سے خالی هوا کرتی تھی اور جس نے ایک ھی رات میں پانچ سو تیئیس بار صدائے تکبیر بلند کی اور ھر تکبیر پر ایک دشمنِ اسلام کو واصل جھنم کیا۔ [74] اسی رات باوجود اس کے کہ چاروں طرف سے تیروں کی بارش هورھی تھی اور دائیں بائیں تیر گر رھے تھے، بغیرکسی کمترین اضطراب و پریشانی کے ھمیشہ کی طرح بندگی و عبادت ِخدا سے غافل نہ هوئے اور نھایت سکون و اطمینان کے ساتھ میدان جنگ میں دونوںلشکروں کے درمیان نماز شب ادا کی [75]، اور عمرو بن عبدودّ جیسے تنو مند اور دیو ھیکل سوار کو زمین پر پٹخ دیا۔ سنی و شیعہ محدثین نے رسول خدا (ص)سے یہ روایت نقل کی ھے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ((لمبارزة علی بن اٴبی طالب لعمرو بن عبدودّ یوم الخندق اٴفضل من عمل اٴمتي إلی یوم القیامة)) [76]
فتح خیبرکے روز ایک ھی وار میں یہود کے یکّہ تازدلاور، مرحب کے دو حصّے کردیئے اس کے بعد ستر سواروں پر تن تنھا حملہ کرکے انھیں اس طرح ھلاک کیا کہ مسلمان و یہود سب کے سب متحیر رہ گئے [77] اور اس شجاعت کے ساتھ خوف خدا کا ایسا امتزاج پیش کیا کہ نماز کا وقت آتے ھی چھرے کا رنگ زرد پڑ جاتا اور بدن لرزنے لگتا تھا، لوگ پوچھتے تھے: کیا هوا؟ آپ کی ایسی حالت کیوں هورھی ھے؟ تو فرماتے:”اُس امانت کا وقت آ پھنچا ھے کہ اسے جب آسمان و زمین اور پھاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا اور انسان نے وہ امانت لے لی۔“ [78]
وہ، کہ جس کی ھیبت سے دن کے وقت میدان جنگ میں بڑے بڑے بھادروں کے بدن کانپ اٹھتے تھے، راتوں کو محراب عبادت میں مار گزیدہ انسان کی مانند، تڑپتے هوئے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اس طرح فریاد کرتا تھا: ”اے دنیا! اے دنیا! کیا تو میرے پاس آئی ھے؟! کیا تو میری مشتاق ھے؟! ھیھات! ھیھات! کسی اور کو دھوکہ دے، مجھے تیری کوئی حاجت نھیں، میں نے تجھے تین طلاقیں دیں …،آہ! آہ! زاد راہ کتنا کم ھے اور راہ کتنی طویل ھے؟“ [79]
سائل کے سوال کرنے پر حکم دیا: اسے ایک ہزار دے دو۔ جسے حکم دیا تھا اس نے پوچھا: سونے کے ہزار سکے دوں یا چاندی کے؟ فرمایا : میرے نزدیک دونوں پتھر ھیں، جس سے سائل کو زیادہ فائدہ پھنچے وہ دے دو۔ [80]
شجاعت اور سخاوت کا ایسا امتزاج کس امت و ملت میں پایا جاتا ھے کہ میدان جنگ میں لڑائی کے دوران جب ایک مشرک نے کھا: یا ابن ابی طالب! ھبنی سیفک، تو آپ(ع) نے تلوار اس کی جانب پھینک دی۔ جب مشرک نے کھا:وا عجبا! اے فرزند ابی طالب!ایسے سخت وقت میں تم نے ا پنی تلوار مجھے دے دی؟ تو آپ (ع)نے فرمایا: تم نے میری طرف دست سوال دراز کیا تھا اور سائل کو رد کرنا کرم کے خلاف ھے۔ اس مشرک نے اپنے آپ کو زمین پر گرا کر کھا یہ اھل دین کی سیرت ھے!!، پھر آپ کے قدموں کا بوسہ لیا اور مسلمان هوگیا۔ [81]
ابن زبیر نے آپ(ع)کے پاس آکر کھا: میں نے اپنے والد کے حساب کتاب میں دیکھا ھے کہ آپ(ع) کے والدمیرے والد کے اسّی ہزار درھم کے مقروض تھے ۔ آپ(ع) نے وہ رقم اسے دے دی۔ اس کے بعد دوبارہ پلٹ کر واپس آیا اور کھنے لگا مجھ سے غلطی هوئی ھے، آپ کے والد نھیں بلکہ میرے والدآپ کے والد کے مقروض تھے۔ آپ نے فرمایاوہ رقم تمھارے والد کے لئے حلال اور جو رقم تم نے مجھ سے لی وہ بھی تمھاری هوئی۔ [82]
زمانہ ایسے صاحب منصب کی مثال کھاں پیش کر سکتا ھے جس کی حکومت مصر سے خراسان تک پھیلی هوئی هو اور عورت کے کاندھے پر پانی کی مشک دیکھ کر اس سے لے اور منزل تک پھنچا آئے۔ اس سے احوال پرسی کرنے کے بعد، صبح تک اضطراب کی وجہ سے سو نہ سکے کہ اس بیوہ عورت اور اس کے بچوں کا خیال کیوں نہ رکھا گیا۔ اگلے دن صبح سویرے یتیموں کے لئے اشیاء خوردنی لے جائے، کھانا پکا کر اپنے ھاتھوں سے بچوں کو کھلائے اور عورت امیر المومنین (ع) کو پہچاننے کے بعد جب شرمندگی کا اظھار کرے تو اس کے جواب میں کھے: اے کنیز خدا! تم سے شرمندہ تو میں هوں۔ [83]
اپنی خلافت کے زمانے میںاپنے نوکر کے ساتھ کپڑے کے بازار سے گزرتے هوئے لٹھے کی دو قمیضیں خریدے اور ان میں سے اچھی قمیض اپنے نوکر کو عطا کردے تاکہ نوجوان کی خواھشِ آرائش کی تسکین هوتی رھے اور کم قیمت لباس خود پھنے۔ [84]
زر و جواھر کے خزانے اختیار میں هونے کے باوجود فرمایا: ((واللّٰہ لقد رقعت مدرعتي ھذہ حتی استحییت من راقعھا)) [85]
آپ(ع) کی خدمت میں مال غنیمت لایا گیا جس پر ایک روٹی بھی رکھی تھی۔ کوفہ کے سات محلّے تھے۔ اس غنیمت اور روٹی کے سات حصے کئے، ھر محلے کے منتظم کو بلا کر اسے غنیمت اور روٹی کا ایک حصہ دیا [86]۔ غنیمت کو تقسیم کرنے کے بعد ھمیشہ دو رکعت نماز بجا لاتے اور فرماتے:((الحمد للّٰہ الذي اٴخرجنی منہ کما دخلتہ)) [87]
ایام حکومت میں اپنی تلوار بیچنے کی غرض سے بازار میں رکھوائی اور فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہٴِ قدرت میں علی کی جان ھے! اگر ایک لنگ خریدنے کے بھی پیسے میرے پاس هوتے تو اپنی تلوار ھرگز نہ بیچتا۔ [88]
جب کبھی آپ(ع) پر کوئی مصیبت وارد هوتی اس دن ہزار رکعت نماز بجالاتے، ساٹھ مسکینوں کو صدقہ دیتے اور تین دن روزہ رکھتے تھے۔ [89]
خون پسینے کی کمائی سے ہزار غلام آزاد کئے[90]، اور دنیا سے رخصت هوئے تو آٹھ لاکھ درھم کے مقروض تھے۔ [91]
جس رات افطار کے لئے اپنی بےٹی کے ھاں مھمان تھے، اس وسیع ملک کے فرمانروا کی بیٹی کے دستر خواں پر جَو کی روٹی، نمک اوردودھ کے ایک پیالے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ (ع) نے جَو کی روٹی اور نمک سے افطار فرمایا اور دودھ چھوا تک نھیں کہ کھیں آپ (ع) کا دستر خوان رعایا کے دستر خوان سے زیادہ رنگین نہ هوجائے۔ [92]
تاریخ کو اس جیسی کوئی دوسری شخصیت دیکھنا نصیب ھی نہ هوئی کہ مصر سے خراسان تک سلطنت هونے کے باوجود خود اس کے اورا س کے گورنروں کے لئے حکومت کا منشور ایسا هو جسے امیرالموٴمنین (ع) نے عثمان بن حنیف کے خط میں منعکس کیا ھے۔ اس خط کا مضمون و مفہوم تقریباً یہ ھے:
”اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ھے کہ بصرہ کے بڑے لوگوں میں سے ایک شخص نے تمھیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پھنچ گئے۔ رنگا رنگ کھانے اور بڑے بڑے پیالے تمھارے لئے لائے گئے۔ امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن میں فقیر و نادار دھتکاردیئے گئے هوںاور جن میں دولت مند مدعو هوں۔ جو لقمے چباتے هوانھیں دیکھ لیا کرو اور جس کے متعلق شبہ هوا سے چھوڑ دو اور جس کے پاک وپاکیزہ راہ سے حاصل هونے کا یقین هو اس میں سے کھاؤ۔
جان لو کہ ھر مقتدی کا ایک پیشوا هوتا ھے جس کی وہ پیروی کرتا ھے اور جس کے نورعلم سے کسب نور کرتا ھے۔دیکھو تمھارے امام کی حالت تو یہ ھے کہ اس نے دنیا کے سازوسامان میں سے دو بوسیدہ چادروں اور دو روٹیوں پر قناعت کرلی ھے۔ یہ تمھارے بس کی بات نھیںھے لیکن اتنا تو کرو کہ پرھیزگاری، سعی وکوشش ، پاکدامنی اور امور میں مضبوطی سے میرا ساتھ دو ، خدا کی قسم میں نے تمھاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نھیں رکھا ،نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ھیں ، نہ اپنے اس بوسیدہ لباس کی جگہ کوئی اور لباس تیار کیا ھے اور نہ ھی اس دنیا کی زمین سے ایک بالشت پر بھی قبضہ جمایا ھے۔“
یھاں تک کہ فرماتے ھیں :”اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شھد ، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے هوئے کپڑوں کو اپنے لئے مھیا کر سکتاتھا، لیکن یہ کیسے هو سکتاھے کہ خواھشات مجھ پر غلبہ حاصل کرلیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانے چن لینے کی دعوت دے، جب کہ حجاز اور یمامہ میں شاید ایسے لوگ هوں کہ جنھیں ایک روٹی ملنے کی آس بھی نہ هو اور نہ ھی کبھی انھیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب هوا هو۔“ [93]
اسلامی حکومت کی حقیقت کو ایسے شخص کے آئینے میں دیکھنا چاہئے جو خود کوفہ میں هوتے هوئے لذیذ کھانے کی طرف اس احتمال کی بنا پر ھاتھ تک نھیں بڑھاتا کہ کھیں حجاز یا یمامہ میں کوئی بھوکے پیٹ نہ ہو ،جو لٹھے کے ایک پرانے پیوند لگے کرتے کے هوتے هوئے دوسرے پرانے کرتے کے بارے میں سوچتا بھی نھیں اور اپنے لئے ایک بالشت زمین تک تیار نھیں کرتا ۔اس دنیا سے اس کی روٹی ،کپڑے اور مکان کی حدیھیں تک ھے کہ کھیں اس کا معیارِ زندگی اس کی رعایا کے فقیر ترین فرد سے بہتر نہ هوجائے ۔
اس کی سلطنت میں عدالت اس طرح حکم فرما تھی کہ ایک دن اپنی زرہ یہودی کے پاس دیکھی تو اس سے کھا:”یہ زرہ میری ھے“ ۔اسلام کی پناہ میں زندگی بسر کرنے والے یہودی نے کمالِ جرات کے ساتھ جواب دیتے هوئے کھا : ”یہ زرہ میری ھے اور میرے ھاتھ میں ھے ،میرے اور تمھارے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا“۔
یہ جاننے کے باوجود کہ یہودی نے خیانت کی ھے اور زرہ چرائی ھے اس کے ساتھ قاضی کے پاس گئے اور جب قاضی، حضرت (ع)کے احترام میں کھڑا هوا تو قاضی کے اس امتیاز برتنے پر اس سے ناراضگی کا اظھار کیا اور فرمایا:اگر یہ مسلمان هوتا تو ضرور اس کے ساتھ ھی تمھارے سامنے بیٹھتا۔
آخر کار اس عدلِ مطلق کو دیکھ کر یہودی نے اعتراف کر لیا اور اسلام لے آیا۔ آپ(ع) زرہ کے ساتھ اپنا مرکب بھی اس یہودی کو بخش دیتے ھیں ۔یہودی مسلمان هونے کے بعد آپ(ع) سے جدا نہ هوا یھاں تک کہ جنگ صفین میں شھادت کے مقام پر فائز هوا۔ [94]
جب آپ(ع) کو خبر ملی کہ اسلام کی پناہ میں زندگی گزارنے والی غیر مسلم عورت کے پاؤں سے پازیب چھین لی گئی ھے تو اس قانون شکنی کا تحمل نہ کرپائے اور فرمایا:((فلو إن إمراٴ مسلما مات من بعد ھذا اٴسفا ماکان بہ ملوما،بل کان بہ عندی جدیرا)) [95]
راستے میں ایک بوڑھے کو دستِ سوال دراز کرتے هوئے دیکھ کر جستجو شروع کی کہ اس کے بھیک مانگنے کا سبب کیا ھے ۔آپ (ع) کو تسلی دیتے هوئے کھا گیا یہ بوڑھا نصرانی ھے۔ آپ (ع) نے ناراضگی کا اظھار کرتے هوئے فرمایا:جوانی میں اس سے کام لیتے رھے اور بڑھاپے میں بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیاھے ؟!اور حکم دیا کہ اس کے مخارج زندگی بیت المال سے دیئے جائیں ۔ [96]
خلق کو حقوق مھیا کرنے کا یہ حال تھا کہ چیونٹی کے منہ سے اس کی محنت سے حاصل کیا هوا جوکا چھلکا چھیننے کے بدلے میں ہفت اقلیم بمع ان اشیاء کے جو ان کے آسمانوں کے نیچے ھیں لینے کو تیار نہ تھے، [97] اور خالق کے حقوق نبھانے میں یہ کیفیت تھی کہ نہ جنت کے شوق،نہ جھنم کے خوف ، بلکہ اسی کو اھل عبادت جان کر اس کی عبادت وبندگی میں ھمہ تن مصروف تھے ۔ [98]
جیسا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا:((اٴنا اٴدیب اللّٰہ وعلی اٴدیبی))، [99] ایسے انسان کی تربیت کر کے بشریت کو مقامِ کمال پر پھنچا دیا، کہ جس نے میدان ِ جنگ کی ایسی پامردی واستقامت دکھائی کہ جس کی مثال تاریخ میں نھیں ملتی اور ایسی رقت قلبی کا امتزاج پیش کیا کہ اگر یتیم کے چھرے پر نظر پڑ جاتی تو رخسار پر آنسو جاری هوجاتے اور جگر سوز فریاد بلند هوتی اور اس تربیت سے اسے آزادی وحریت کی اس منزل تک پھنچا دیا کہ پھر وہ دنیا کے محدود اور آخرت کے نامحدود تمام مصالح ومنافع سے بلند وبالا هو کر صرف بندگی وعبادت ِپروردگار عالم کے طوق غلامی کو ،وہ بھی اپنے فائدے کے لئے نھیں بلکہ اس کی اھلیت کی وجہ سے اپنی گردن میں ڈال لیا۔اور آزادی کے ساتھ ایسی بندگی کا امتزاج پیش کیا جو خلقت ِجھان وانسان کا اصل مقصد ھے اور اپنی رضا وغضب کو خالق کی رضا وغضب میں اس طرح فنا کیا کہ جس پر لیلة المبیت [100] میں رسول اللہ (ص) کے بستر پر نیند اور خندق کے دن ثقلین کی عبادت سے افضل ضربت، [101] گواہ ھیں ۔
یقینا، ایسا باغبان جو سیم زدہ جزیرة العرب میں چند محدود سالوں کے عرصے میں سخت ترین مشکلات میں مبتلا هونے کے باوجود، دنیا کے سامنے ایک ایسی امت اور درختِ آدمیت کا ایسا بہترین پھل پیش کرے ،یہ کھنے کا حق رکھتا ھے کہ بوستان انسانیت کا سب سے بڑا باغبان میں هوں ۔
آیا عقل وانصاف یہ تقاضا نھیں کرتے کہ ان معجزات سے قطع نظرکرتے هوئے کہ جنھیں اس مختصر مقدمے میں ذکر کرنا ممکن نھیں ، صرف اس ایک علمی وعملی نمونے کی بنیاد پر کہ جس کا نھایت ھی مختصر الفاظ میں ذکر کیاگیا ، انسان تعصب اور هوا وہوس کو خود سے دور کرتے هوئے اس بات پر ایمان لے آئے کہ فقط آئین ِ اسلام ھی بشریت کو کمال کے آخری درجے تک پھنچا سکتا ھے ؟!اور آیا فطرت وعقل ِانسانی جس چیز کا دین سے علماً وعملاً تقاضا کرتی ھے، کیا اس دین میں کماحقہ موجود نھیں ؟!
آیا انسان سازی کے لئے انفرادی واجتماعی نقطہ نظر سے اس سے بڑھ کر کوئی اور تعلیم وتربیت بھی ھے؟!
یھی چیز پیغمبر اسلام (ص) کی خاتمیت اور ان کی شریعت کے ابدی هونے پر ایمان ھے <مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِّنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّےْنَ وَکاَنَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْماً> [102]
حواله جات
[63] سورہ بقرہ، آیت ۲۵۵۔”اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے زندہ بھی ھے اور اسی سے کل کائنات قائم ھے اسے نہ نیند آتی ھے نہ اُنگھ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ھے سب اسی کا ھے۔ کون ھے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔ وہ جو کچھ ان کے سامنے ھے اور جو پس پشت ھے سب کو جانتا ھے اور یہ اس کے علم کے ایک حصہ کا بھی احاطہ نھیں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاھے ۔ اس کی کرسی علم واقتدار زمین وآسمان سے وسیع تر ھے اور اسے ان کے تحفظ میں کوئی تکلیف بھی نھیں هوتی وہ عالی مرتبہ بھی ھے اور صاحب عظمت بھی“۔
[64] کافی ج۲ ص۱۶۲ ، کتاب الایمان و الکفر ، باب البر بالوالدین، ح۱۸، الجامع لاحکام القرآن، ج۷، ص ۹۷، آیت ۱۴۰ سورہ انعام، اور دوسری کتابیں۔
[65] معجم البلدان ج۴ ص۲۶۳۔
[66] کافی ج۲ ص۲۶۲۔
[67] بحار الانوارج۴۲ ص۱۵۷۔
[68] مجمع البیان ج۶، ص۳۳۷ مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں ۔
[69] سورہ کہف ، آیت ۲۸۔”اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ھیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ھیں اور خبردار تمھاری نگاھیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاوٴ اور ھر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ھم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ھے اور وہ اپنے خواھشات کا پیروکار ھے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرناھے“۔
[70] مجمع البیان ج۹، ص۲۲۶، مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں۔
[71] سورہ حجرات ، آیت ۱۳۔”انسانو!ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ھیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پر ھیزگار ھے اور اللہ ھر شئے کا جاننے والا اور ھر بات سے باخبر ھے “۔
[72] سورہ ابراھیم، آیت ۲۴،۲۵۔”کیاتم نے نھیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ھے جس کی اصل ثابت ھے اور اس کی شاخ آسمان تک پھنچی هوئی ھے۔یہ شجرہ ھر زمانہ میں حکم پروردگار سے پھل دیتا ھے “۔
[73] شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص۲۴۔
[74] مناقب آل ابی طالب، ج۲ص۸۴۔
[75] بحار الانوار، ج۴۱، ص۱۷۔
[76] المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص ۳۲؛ تاریخ بغداد ج ۱۳ص۱۹۔بحار الانوار ج۴۱ ص۹۶۔
[77] بحار الانوار ج۴۲ ص۳۳۔
[78] بحار الانوار، ج۴۱، ص۱۷۔
[79] بحار الانوار، ج۴۱، ص۱۲۱۔
[80] بحار الانوار، ج۴۱، ص۳۲۔
[81] بحار الانوار، ج۴۱، ص۶۹۔
[82] بحار الانوار، ج۴۱، ص۳۲۔
[83] بحار الانوار، ج۴۱، ص۵۲۔
[84] بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۲۴۔
[85] نھج البلاغہ خطبہ۱۶۰(خدا کی قسم اپنی قبا میں اتنے پیوند لگائے کہ درزی سے شرم آنے لگی)
[86] حلیة الاولیاء ج۷ ص۳۰۰۔
[87] بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۲۱۔(حمد ھے اس خدا کی جس نے مجھ کو اس سے اسی طرح نکالا جیسے اس میں داخل هواتھا)
[88] بحار الانوار، ج۴۱، ص۴۳۔
[89] بحار الانوار، ج۴۱، ص۱۳۲۔
[90] بحار الانوار، ج۴۱، ص۴۳۔
[91] بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۳۸۔
[92] بحار الانوار، ج۴۲، ص۲۷۶۔
[93] نھج البلاغہ خطوط ۴۵۔
[94] حلیة الاولیاء ج۴ ص۱۳۹۔
[95] نھج البلاغہ خطبہ ۲۷(اگر ایک مسلمان اس واقعہ کو سننے کے بعد افسوس میں مر جائے تو کوئی ملامت کا مقام نھیں بلکہ میرے نزدیک اس پرمر ناھی مناسب ھے)
[96] وسائل الشیعہ ج۱۵ ص۶۶، کتاب الجھاد، ابواب جھاد العدو، باب ۱۹۔
[97] نھج البلاغہ خطہ۲۲۴۔
[98] عوالی اللئالی ج۱ ص۴۰۴۔
[99] بحار الانوار ج۱۶ ص۲۳۱(میں خدا کا تربیت شدہ هوں اور علی (ع) میرے تربیت شدہ ھیں)
[100] بحار الانوار ج۳۶ ص۴۰۔
[101] بحار الانوار ج ۳۹ ص۲۔
[102] سورہ احزاب ، آیت ۴۰۔”محمد تم میں سے کسی کا باپ نھیں ھے بلکہ خدا کا بھیجا هوا پیغمبر اور خاتم النبیین ھے اور خدا ھر چیز کا جاننے والا ھے“۔