- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
مکہ معظمہ کے پھاڑ سے آنحضرت (ص)کے ظہور کی بدولت ھی یہ هوا کہ ساری زمین ((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر))کی صداوٴں سے گونج اٹھی اور ((سبحان ربی العظیم وبحمدہ))و ((سبحان ربی الاٴعلی وبحمدہ )) ساری دنیا کے مسلمانوں کے رکوع وسجود میں منتشر هوئے۔
۲۔انجیل یوحنا کے چودہویں باب میں مذکور ھے کہ :”اور میں اپنے والد سے چاہوں گا اور وہ تمھیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ھمیشہ کے لئے تمھارے ساتھ رھے۔“
اور پندرہویں باب میں مذکور ھے کہ :”اور جب وہ تسلی دینے والا آئے ، جسے والد کی جانب سے تمھارے لئے بھیجوں گا یعنی حقیقی روح جو والد سے صادر هوگی ، وہ میری گواھی دے گی ۔“
اصلی نسخے کے مطابق ، عیسیٰ جس کے متعلق خدا سے سوال کریں گے، کو ”پار قلیطا“کے نام سے یاد کیا گیا ھے جو ”پر یکلیطوس “ھے اور اس کاترجمہ ”تعریف کیا گیا“ ،”احمد“اور”محمد“کے موافق ھے،لیکن ”انجیل “لکھنے والوں نے اسے ”پاراکلیطوس“میں تبدیل کر کے ”تسلی دینے والا“کے معنی میں بیان کیا ھے ۔
اوریہ حقیقت انجیل برنابا کے ذریعے واضح وآشکار هوگئی کہ اس میں ”فصل ۱۱۲“ میں نقل هوا ھے کہ: ”-((۱۳)) اور اے برنابا !جان لوکہ اس لئے میرے اوپر اپنی نگھداری واجب ھے اور نزدیک ھے کہ (عنقریب )میر اایک شاگرد مجھے تیس کپڑوں کے عوض نقد بیچ دے گا ((۱۴))اور لہٰذا مجھے یقین ھے کہ مجھے بیچنے والا میرے نام پر ماراجائے گا((۱۵)) کیونکہ خدا مجھے زمین سے اٹھا لے گا اور اس خائن کی صورت اس طرح بدل دے گا کہ ھر شخص گمان کرے گا کہ میں هوں ((۱۶))اور اس کے ساتھ جو وہ بدترین موت مرے گا میں بچ جاوٴں گا اور دنیا میں دراز مدت تک رہوں گا ((۱۷))لیکن جب محمد پیغمبر خدا ((محمد رسول اللّٰہ))آئے گا مجھ سے یہ عیب اٹھا لیا جائے گا “۔
اور محمد رسول اللہ (ص) کی بشارت انجیل کی فصول میں ذکر هوئی ھیں ۔
اور اس انجیل کی بعض فصول میں((محمد رسول اللّٰہ))کے عنوان سے بشارتیں مذکور ھیں ،جیسا کہ انتالیسویں فصل میں ھے: ”اور جب آدم اپنے قدموں پرکھڑا هوا تو اس نے فضا میں کلمات لکھے هوئے دیکھے جو سورج کی طرح چمک رھے تھے کہ جن کی صریح نص یہ تھی ((لا الہ الااللّٰہ ))اور ((محمد رسول اللّٰہ))((۱۵))پس اس وقت آدم نے لب کھولے اور کھا : اے پروردگار !میرے خدا میں تیرا شکر ادا کرتا هوں کیونکہ مجھے زندگی عطا کر کے تو نے اپنا تفضل فرمایا ((۱۶))لیکن تیری بارگاہ میں فریاد کرتا هوں کہ تو مجھے ان کلمات ((محمد رسول اللّٰہ)) کے معنی بتا دے ((۱۷))پس خدا نے جواب دیا :مرحبا!اے میرے عبد آدم((۱۸))بے شک میں تمھیں بتاتا هوں کہ تم پھلے شخص هو جسے میں نے خلق کیا ھے۔“
اور اکتالیسویں فصل میں ھے: ”((۳۳))جب آدم نے توجہ کی تو دروازے کے اوپر((لا الہ الا اللّٰہ ،محمد رسول اللّٰہ)) لکھا هوا دیکھا۔ “
اور چھیانویں فصل میں ھے: ”((۱۱))اس وقت خد اجھان پر رحم فرمائے گا اور اپنے پیغمبر کوبھیجے گا، جس کے لئے ساری دنیا خلق کی ھے ۔((۱۲))جو قوت کے ساتھ جنوب کی جانب سے آئے گا اور بتوں اور بت پرستوں کو ھلاک کردے گا ۔((۱۳))اور شیطان کے انسان پرتسلط کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکے گا((۱۴)) اور خدا کی رحمت سے خود پر ایمان لانے والوں کی خلاصی کے لئے آئے گا ((۱۵))اور جو اس کے سخن پر ایمان لائے گا بابرکت هوگا۔“
اور ستانویں فصل میں ھے:”((۱))اور اس کے باوجود کے میں اس کے جوتوں کے تسمے کھولنے کے قابل نھیں هوں، خدا کی رحمت سے اس کی زیارت سے شرفیاب هوا هوں۔ “
تورات اور انجیل کی بشارتوں کو ثابت کرنے کے لئے یھی بات کافی ھے کہ رسول خدا(ص) نے یہودیوں، نصاریٰ او ر ان کے احبار ،قسیسین اور سلاطین کو اسلام کی دعوت دی۔ یہود کے اس اعتقاد کہ<عُزَیْرٌ ابْنُ اللّٰہِ>[148] اور نصاریٰ کے اعتقاد <إِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ >[149] کو غلط قرار دیتے هوئے ان کے مقابلے میں قیام کیااور مکمل صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ میں وھی هوں جس کی بشارت تورات وانجیل میں دی گئی ھے <اَلَّذِیَْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَبِیَّ اْلاٴُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْباً عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَ اْلإِنْجِیْلِ>[150] <وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِِسْرَائِیْلَ إِنیِّ رَسوُْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبْشِّراً بِّرَسُوْلٍ یَّاٴْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ اٴَحْمَدُ>[151]
اگر آپ(ص)کا دعوی سچا نہ هوتا تو کیا ان دشمنوں کے سامنے جو اپنی معنوی اور مادی سلطنت کو خطرے میں دیکھ رھے تھے اور ھر کمزور پھلو کی تلاش وجستجو میں تھے ، پیغمبر اکرم(ص) کا اس قاطعیت سے اعلان کرنا ممکن تھا؟!
احبار،[152] قسیسین،[153] علماء یہود ونصاریٰ اور سلاطین، جنہوں نے آپ(ص)کے مقابلے میں ھر حربے کا سھارا لیا، یھاں تک کہ جنگ اور مباھلہ سے عاجز هو کر جزیہ دینا قبول کر لیا،پیغمبر اسلام (ص)کے اس دعوے کے مقابلے میں کس طرح لا چار هوکر رہ گئے اور ان کے لئے ممکن نہ رھا کہ آنحضرت(ص) کے اس دعوے کا انکار کر کے ،آپ کی تمام باتوں کو سرے سے غلط ثابت کردیں !آنحضرت(ص) کا صریح دعوی او رعلماء وامراء یہود و نصاریٰ کا حیرت انگیز سکوت، آپ(ص)کے عصرِ ظہور میں ان بشارتوں کے ثبوت پر برھانِ قاطع ھے۔
اگرچہ اس کے بعد حب جاہ ومقام اورمال ومتاع کی وجہ سے انھیںتحریف کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہ سوجھی کہ جس کا نمونہ فخرالاسلام نے اپنی کتاب ”انیس الاعلام“ میں اپنے ذاتی حالات کا تذکرہ کرتے وقت پیش کیا ھے، جس کا خلاصہ یہ ھے کہ :میں ارومیہ کے گرجا گھر میں متولد هوا اور تحصیل علم کے آخری ایام میں کیتھولک فرقے کے ایک بڑے عالم سے استفادہ کرنے کا موقع میسر هوا۔ اس کے درس میں تقریبا چار سو سے پانچ سو افراد شرکت کرتے تھے۔ ایک دن استاد کی غیر موجودگی میں شاگردوں کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ جب استاد کی خدمت میں حاضر هوا تو انہوں نے پوچھا بحث کیا تھی؟ میں نے کھا:”فارقلیط“کے معنی کے بارے میں۔ استاد نے اس بحث میں شاگردوں کے نظریات معلوم کرنے کے بعد کھا:” حقیقت کچھ اور ھے “، پھر اس مخزن کی جسے میں اس کا خزانہ تصور کرتا تھا، چابی مجھے دی اور کھا :”اس صندوق میں سے دو کتابیں جن میں سے ایک سریانی اور دوسری یونانی زبان میں جو حضرت خاتم الانبیاء کے ظہور سے پھلے کھال پر لکھی هوئی ھے ،لے کر آؤ۔“
پھر مجھے دکھایا کہ اس لفظ کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ لکھے هوئے تھے اور مجھ سے کھا:”حضرت محمد(ص)کے ظہور سے پھلے عیسائی علماء میں اس کے معنی میں کوئی اختلاف نہ تھا اور آنحضرت(ص) کے ظہور کے بعد تحریف کی“۔ میں نے نصاریٰ ٰ کے دین سے متعلق اس کا نظریہ دریافت کیا۔اس نے کھا: ”منسوخ هو چکا ھے ۔اور نجات کا طریقہ محمد(ص) کی پیروی میں منحصر ھے۔“ میں نے اس سے پوچھا: ”اس بات کا تم اظھار کیوں نھیں کرتے ؟“
اس نے عذر یہ بیان کیا تھا کہ اگر اظھار کروں مجھے مار ڈالیں گے اور …اس کے بعد ھم دونوں روئے اور میں نے استاد سے یہ استفادہ کرنے کے بعد اسلامی ممالک کی طرف ھجرت کی ۔[154]
ان دو کتابوں کا مطالعہ اس عالی مقام راھب کے روحی انقلاب کا سبب بنا اور اسلام لانے کے بعد عیسائیت کے بطلان اور حقانیت ِاسلام کے بارے میں کتاب انیس الاعلام لکھی جو عھد قدیم[155] وجدید[156] میں اس کے تتبع اور تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ھے ۔
حواله جات
[148] سورہ توبہ ، آیت ۳۰۔”عزیز اللہ کے بیٹے ھیں“۔
[149] سورہ مائدہ ، آیت ۷۳۔”خدا ان تین میں کا تیسرا ھے“۔
[150] سورہ اعراف ، آیت ۱۵۷۔”جو لوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ھیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا هوا پاتے ھیں“۔
[151] سورہ صف، آیت ۶۔”اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کھا کہ اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف اللہ کا رسول هوں اپنے پھلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جس کا نام احمد ھے“۔
[152] احبار:علمائے یہود۔
[153] قسیسین:علمائے نصاریٰ۔
[154] انیس الاعلام ج۱ ص۶۔
[155] عھد قدیم :حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پھلے نازل هونے والی وحی اور احکامات۔
[156] عھد جدید :وحی و الھام کا وہ مجموعہ جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تالیف کیا گیا۔