- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/01/05
- 0 رائ
نبوت ایک ایسا عظیم و مقدس مقام و منصب ھے جس پر فائز ھونے والا شخص لوگوں کے درمیان مومن ھو جاتا ھے، ان کے لئے محبوب و مقدس بن جاتا ھے اور اس کی اطاعت و پیروی لوگوں کے لئے شرعی اور دینی وظیفہ اور ذمہ داری ھو جاتی ھے۔ یھی وجہ ھے کہ تاریخ میں اکثر ایسا ھوا ھے کہ بعض قدرت پرست اور دوسروں سے سوء استفادہ کرنے والے افراد نبوت کا کاذب اور بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے ھیں تاکہ نبوت کے ظاھری فوائد سے مستفید ھوتے ھوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں اور ان پر غلبہ حاصل کرلیں۔ یھی امر اس بات کا موجب ھو جاتا ھے کہ ھم ان راھوں اور دلائل کو پھچانیں جو نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے دعویٰ کی صداقت و حقیقت کو واضح اور بیان کرسکیں۔ نبوت کا دعوی ٰکرنے والے شخص کی صداقت تین راھوں سے ثابت ھوسکتی ھے:
(۱) قرائن و شواھد
نبوت کا ادعا کرنے والے شخص کی صداقت کو سمجھنے کا ایک راستہ یہ ھے کہ اس کی گذشتہ زندگی، اخلاقی صفات و خصوصیات، اس کے پیغام، وہ معاشرہ جس میں دعوت دی جائے اور اس سے مربوط دوسرے تمام امور کا عمیق تجزیہ اور پھر ان تمام نکات کو یکجا کرکے اس کی صداقت پر غور و فکر کیا جائے۔
(۲) گذشتہ نبی کی تائید
ایسا شخص جس کی نبوت، دلائل کے ذریعہ ھمارے نزدیک ثابت اور مسلم ھے، اگر یہ خبر دے چکا ھو کہ میرے بعد فلاں فلاں خصوصیات و صفات کے ساتھ خدا کے طرف سے ایک نبی مبعوث ھوگا اور یہ تمام خصوصیات و صفات اس شخص پر منطبق ھوتی ھوں جو نبوت کا دعویٰ کر رھا ھے تو ان تمام افراد کے لئے جو گذشتہ نبی پر ایمان رکھتے ھیں اور اس کی طرف سے دی گئی بشارت سے آگاہ بھی ھیں، شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ یہ شخص نبی خدا ھے۔
(۳) معجزہ
انبیاء کرام عام طور پر معجزے کے ذریعہ اپنی نبوت کو ثابت کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی آیتوں سے واضح ھوتا ھے کہ امتیں اپنے نبی سے معجزے کی درخواست کیا کرتی تھیں اور جب بھی اس طرح کی کوئی درخواست حق و حقیقت کی جستجو کی خاطر ھوتی تھی، انبیاء معجزہ پیش بھی کرتے تھے البتہ اکثر ایسا بھی ھوتا تھا کہ نبی خدا کی طرف سے اتمام حجت اور حق کے روشن ھو جانے کے باوجود بھی مشرکین تمسخر، استھزاء اور دوسرے غلط افکار کی بنا پر دوبارہ معجزے کی خواھش کرتے تھے۔ فطری بات ھے کہ ایسے موقعوں پر ان افراد کی خواھش کو کوئی اھمیت نھیں دی جاتی تھی اور کوئی دوسرا نیا معجزہ وقوع پذیر نھیں ھوتا تھا۔
تعریف معجزہ
معجزہ فاعل اعجاز ھے جس کے معنی لغت میں عاجز کرنے یا عاجز پانےکے ھیں۔ اور اصطلاحاً معجزہ ایک ایسا غیر عادی اور خارق العادہ امر ھے جو خدا کے ارادے اور مرضی سے اس شخص سے صادر ھوتاھے جونبوت کا دعویدار ھو۔
خواجہ نصیر الدین طوسیۺ، کشف المراد میں فرماتے ھیں : معجزہ یعنی ثبوت امر غیر عادی یا نفی امر عادی ،خارق العادةاور مطابقت دعویٰ کے ساتھ ۔ (البتہ اس تعریف میں خارق العادت کے ساتھ والی عبارت زائد ھے کیونکہ غیر عادی ھونا اسی معنیٰ میں ھے ۔
اس کائنات میں رونما ھونے والے تمام امور کی دو قسمیں کی جاسکتی ھیں:
(الف) اموری عادی
یعنی ایسے امور جو اسباب وعلل کی بنا پر وقوع پذیر اور مختلف تجربات وآزمایشات کے ذریعے قابل شناخت ھوتے ھیں۔
(ب) امور غیر عادی
یعنی ایسے امور کہ آزمایشات وتجربات حسی کے باوجود جن کے تمام علل و اسباب کی شناخت نھیں کی جاسکتی ۔ یہ ایسے امور ھوتے ھیں جن کی پیدائش میں تجربات حسی سے ماوراء ایک دوسری نوع کے اسباب وعلل کارفرما ھوتے ھیں۔ معجزہ اسی قسم سے ھے۔
امور غیر عادی یا خارق العادہ بھی دو طرح کے ھوتے ھیں:
(الف) ایسے امور کہ جن کے اسباب و علل اگرچہ عادی نھیں ھوتے لیکن ان امور کو اسباب غیر عادی کے ذریعہ بھی کم و بیش حاصل کیا جا سکتا ھے یعنی مخصوص تعلیم و ریاضت کے ذریعہ ان تک دسترسی پیدا کی جاسکتی ھے مثلاً جادوگری یا ساحری وغیرہ۔
(ب) ایسے امور کہ جن کا وقوع پذیر ھونا صرف خدا کے مخصوص ارادے اور اذن سے مربوط ھوتا ھے ان کا اختیار کسی بھی ایسے شخص کے پاس نھیں ھوتا ھے جو ھدایت الٰھی کے تحت زندگی نھیں گزارتا۔ یھی وجہ ھے کہ یہ امور دو بنیادی خصوصیات کے حامل ھوتے ھیں:
اول: قابل تعلیم و تعلّم نھیں ھوتے۔
دوم: کوئی طاقت ان کو مغلوب نھیں کرسکتی۔
جب کبھی بھی ایسا فعل کسی ایسے شخص سے صادر ھوتا ھے جونبوت کا دعویٰ کرتا ھے تو اسی کو معجزہ کھا جاتاھے اور یھی اس کے دعوے کی صداقت پردلیل ھوتا ھے۔
صدق ادعائے نبوت پر معجزے کے ذریعے استدلال واثبات دوسری ھر چیز سے زیادہ اثبات وجود خدا اور اس کی بعض صفات پر موقوف ھے۔ اس استدلال کو مندرجہ ذیل طریقے سے بیان کیا جاسکتا ھے:
۱) خدا حکیم ھے۔
۲) حکیم نقص غرض وغایت نھیں کرتا یعنی ایسا کام نھیں کرتا جو اس کے ھدف کی نفی کرتا یا اس کے ھدف کے خلاف نتیجہ پیش کرتا ھویا پھر اس کو اس کے ھدف سے دور کردیتا ھو۔
۳) خدا ئے حکیم کا ارادہ یہ ھے کہ لوگ ھدایت حاصل کر لیں ،یعنی خدا چاھتا ھے کہ بنی آدم ھدایت یافتہ ھوں نہ کہ گمراہ۔
۴) معجزے کو ایسے شخص کے اختیار میں دینا جو نبوت کا کاذب دعویٰ کرتا ھواور لوگوں کی گمراھی کا باعث بنتا ھو ارادہ ٴ خدا اور غرض ھدایت کے خلاف ھے۔
مذکورہ نکات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ ھرگز ایسے شخص کے ذریعہ معجزہ صادر نھیں ھوتا جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ھو۔