- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
تفسیر آیات
۱۔ آیہٴ تبدیل
وہ آیت جو سورئہ نحل کی مکی آیات کے ضمن میں آئی ھے:خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ھے : جب کبھی ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ قرار دیتے ھیںیعنی گزشتہ شریعت کا کوئی حکم اٹھا کر کوئی دوسرا حکم جو قرآن میں مذکور ھے اس کی جگہ رکھ دیتے ھیں تو ھمارے رسول سے کہتے ھیں: تم جھوٹ بولتے ھو۔
اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! کھو : قرآنی احکام کو مخصوص فرشتہ خدا کی جانب سے حق کے ساتھ لاتا ھے تاکہ مومنین اپنے ایمان پر ثابت قدم رھیں اور مسلمانوں کے لئے ھدایت اور بشارت ھو، تم جھوٹ بولنے والے یا گڑھنے والے نھیں ھو، جھوٹے وہ لوگ ھیں جوآیات الٰھی پر ایمان نھیں رکھتے،یعنی مشرکین،وہ لوگ خود ھی جھوٹے ھیں۔
خدا وندعالم اس کے بعد محل اختلاف کی وضاحت کرتے ھوئے فرماتا ھے: جو کچھ ھم نے تم کو روزی دی ھے جیسے اونٹ کا گوشت اور حیوانات کی چربی اور اسکے مانندجس کو بنی اسرائیل پر ھم نے حرام کیا تھا،حلال و پاکیزہ طور پر کھاوٴ،کیونکہ خدا ونداعالم نے اسے تم پر حرام نھیں کیا بلکہ صرف مردار ،خون ،سوٴر کا گوشت اور وہ تمام جانور جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ھو ان کا کھانا تم پر حرام کیاھے،سوائے مضطر اور مجبور انسان کے جو کہ اس کے کھانے پر مجبورھو،یہ وہ تمام چیزیں ھیں جو تم پر حرام کی گئی ھیں تم لوگ اپنے پاس سے نہ کھو:”ےہ حرام ھے اور وہ حلال ھے“جیسا کہ مشرکین کہتے تھے اور خدا وندعالم نے سوٴرہ انعام کی ۱۳۸سے۱۴۰ویں آیات میں اس کی خبر دی ھے کہ یہ سب مشرکوں کا کام ھے ،رھا سوال یھود کا توخدا وندعالم نے ان لوگوں پر مخصوص چیزوں کو حرام کیا تھا جس کا ذکر سورہٴ انعام میں ایا ھے۔
رھے تم اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! تو ھم نے تم پر وحی کی :حلال و حرام میں ملّت ابراھیم (ع) کے پیرو رھو اور شریعت ابراھیم(ع) کے تمام امور میں سے یہ ھے کہ جمعہ کا دن ھفتہ میں آرام کر نے کا دن ھے،لیکن سنیچر تو صرف بنی اسرائیل کے لئے تعطیل کا دن تھا ان پر اس دن کام حرام تھا جیسا کہ سورہٴ اعراف کی ۱۶۳ ویں آیت میں مذکور ھے۔
جو کچھ ھم نے ذکر کیا ھے اس کی بنیاد پر تبدیل آیت کے معنی یھاں پر یہ ھیں کہ صرف توریت کے بعض احکام کو قرآن کے احکام سے تبدیل کرناھے اور شریعت اسلامی کی حضرت ابراھیم خلیل الله (ع) کی شریعت کی طرف باز گشت ھے ۔
جو چیز ھمارے بیان کی تاکید کرتی ھے، خدا وندسبحان کا فرمان ھے کہ ارشاد فرما تا ھے:
<و اِذا بد لنا آیة مکان آیة … قالوانما مفتر… قل نزّلہ روح القدس>
کیونکہ لفظ” نزلہ“ میں مذ کر کی ضمیر آیت کے معنی یعنی ”حکم“کی طرف پلٹتی ھے اور اگر بحث اس آیت کی تبدیل کے محورپر ھوتی جو کہ سورہ کا جز ھے تو مناسب یہ تھا کہ خدا وندسبحان فرماتا:”قل نزلھا روح القدس“یعنی مونث کی ضمیر ذکر کرتا نہ مذکر کی( خوب دقت اور غور و خوص کیجئے)۔
۲۔ آیہٴ نسخ
یہ آیت سورہ بقرہ کی مدنی آیات کے درمیان آئی ھے،خداوندمتعال ان آیات میں فرماتا ھے:
اے بنی اسرائیل ؛خداوندعالم کی نعمتوں کو اپنے اوپر یادکرو اور اس کے عھد وپیمان کووفا (پورا)کروایسا پیمان جو توریت بھیجنے کے موقع پر ھم نے تم سے لیا تھا اور تم سے کھا تھا :جو کچھ ھم نے تم کو دیا ھے اسے محکم انداز میں لے لواورجو کچھ اس میں ھے اسے یادرکھو۔
اس میں خاتم الانبیاء(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت سے متعلق بشارت تھی خدا سے اپنے عھد وپیمان کو وفا کروتا کہ خدا بھی اپنے پیمان کو جو تم سے کیاھے وفا کرے اور اپنی نعمتوں کادنیا واخرت میں تم پر اضافہ کرے اور جو کچھ خاتم الانبیاء پرنازل کیا ھے اس پر ایمان لاوٴ کہ وہ یقینا جو کچھ تمھارے پاس کتاب خدامیں موجود ھے سب کا اثبات کرتا ھے، حق کو نہ چھپاوٴ اوراسے دانستہ طور پر باطل سے پوشیدہ نہ کرو ،خدا وند عالم نے موسیٰ (ع) کو کتاب دی اوران کے بعد بھی رسولوں کو بھیجا کہ انھیں میں سے عیسیٰ ابن مریم (ع) بھی تھے وھی جن کی خدانے روشن دلائل اور روح القدس کے ذریعہ تائید کی ،کیا ایسا نھیں ھے کہ جب بھی کسی پیغمبر نے تمھارے نفسانی خواھشات کے خلاف کوئی چیز پیش کی تو تم لوگوں نے تکبر سے کام لیا کچھ لوگوں کوجھوٹا کھا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟اور کھا ھمارے دلوں پر پردے پڑے ھوئے ھیں اوران چیزوں کو ھم نھیں سمجھتے ھیں،اب بھی قرآن خدا کی جانب سے تمھارے لئے نازل ھوا ھے اور جو خبریں تمھارے پاس ھیںان سے بھی ثابت ھے پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ھو جبکہ تم اس سے پھلے کفار پر کامیابی کے لئے اس کے نام کو اپنے لئے شفیع قرار دیتے تھے اور اب تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آگئے ھیں اور تم لوگ پہچانتے بھی ھو پھر بھی اس کا اور جو کچھ اس پر نازل ھوا ھے ان سب کا انکار کرتے ھو،تم نے خود کو ایک بری قیمت پر بیچ ڈالاکہ جو خدا نے نازل کیا اس کا انکار کرتے ھو، اس بات پر انکار کرتے ھو کہ کیوں خدا نے حضرت اسماعیل (ع)کی نسل میں پیغمبر بھیجا حضرت یعقوب (ع) کی نسل میں یہ شرف پیغمبری کیوں عطا نھیں کیا؟لہٰذا وہ غضب خدا وندی کا شکار ھوگئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ھے۔
اور جب یھود سے کھا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ھے اس پرایمان لاوٴ،تو انھوں نے کھا : جو کچھ ھم لوگوں پر نازل ھوا ھے ھم اس پر ایمان لائے ھیں اور جو ھم پر نازل نھیں ھوا ھے ھم اس کے منکر ھیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ھے اور انبیاء کی کتابوں میںموجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ھے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ھیں اوران کے پاس ھیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ھو تو پھر کیوں اس سے پھلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح کہتے ھو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ھے اس پر ھم ایمان لائے ھیں جب کہ حضرت موسیٰ (ع)روشن علامتوں اور آیات کے ساتھ تمھارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ھوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ (ع) پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی نازل کی ھیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نھیں ھوگا۔
اگر یھود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اھل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نھیں ھے کہ تم مسلمانوں پر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ھو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاھے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔
خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ھے خدا ھر چیز پر قادر اور توانا ھے۔
بہت سارے اھل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰھی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ھوئی ھے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ھیں کہ تمھیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ھے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ھو چکاھے!یہ تم لوگوں سے کہتے ھیں کہ یھود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نھیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبھشت سے محروم رھو گے؛کھو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے یھاں محفوظ ھے اور یھود ونصاری تم سے کبھی راضی نھیں ھوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔
اُس کے بعد یھود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ھم نے تم پر نازل کیا ھے اور تم لوگوں کو تمھارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ھے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔
اس کے بعد یھود اور پیغمبر (ع) کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ھوئے فرماتا ھے: ھم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمھاری انتظار آمیز نگاھوں سے باخبر ھیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ھو جاوٴ گے۔
(اے رسول! )تم جھاں کھیں بھی ھو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اھل کتاب،یھود جو تم سے دشمنی کرتے ھیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ھیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ھے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمھاری بات نھیں مانیں گے اور تمھارے قبلہ کی پیروی نھیں کریں گے۔
عنقریب بیوقوف کھیں گے: انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ھے؟ کھو حکم ، حکم خدا ھے مشرق و مغرب سب اسکا ھے جسے چاہتا ھے راہ راست کی ھدایت کرتا ھے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یھود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ھے تا کہ ظاھر ھو جائے کہ آیاےہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ھے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ھیں یا نھیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ھیں یا نھیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ھوا تاکہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاھلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ھوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ھیں خدا کے نزدیک برباد نھیں ھوں گی۔
اس طرح واضح ھو جاتا ھے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورہٴ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ھے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ھوناھے، اس نزاع کی تفصیل سورہٴ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ھے۔
اور یہ بھی واضح ھو جاتا ھے کہ (یھود مدینہ کی داستان میں) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ھونا ھے (اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ھے)
راغب اصفھانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میںصحیح راستہ اختیار کیاھے وہ فرماتے ھیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ھے آیت ھے، چاھے وہ ایک کامل سورہ ھو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ (سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے) یا اس کے چند حصّے ھوں۔
لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یھی ھے کہ جس کا تذ کرہ ھم نے کیا ھے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔