- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 15 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/05/15
- 0 رائ
امام محمد باقر کے حلقہ درس ميں جو علوم پڑھائے جاتے تھے ان ميں ايک فزکس بھي تھا- اگرچہ جعفر صادق کے طبي علوم کے مباني کے بارے ميں ہميں تصيلا علم نہيں ہے – ليکن اس کے عوض ميں ان کے فزکس کے مباني يعني فزکس کے مضمون کے بارے ميں انکي معلومات سے نسل در نسل تفصيلا مطلع ہيں –
محمد باقر کے درس ميں ارسطو کي فزکس پڑھائي جاتي تھي اور کسي پر يہ بات پوشيدہ نہيں کہ ارسطو کي فزکس چند علوم پر مشتمل تھي آج کوئي بھي حيوانات ‘نباتات اور جيالوجي کو فزکس کا حصہ شمار نہيں کرتا کيونکہ ان ميں ہر ايک علم جداگانہ ہے ليکن ارسطو کي فزکس ميں ان علوم پر بحث کي گئي ہے اسي طرح جس طرح ميکينکس بھي ارسطو کي فزکس ميں داخل ہے اگر ہم فزکس کو علم الاشياء سمجھيں تو ارسطو کو يہ حق ديا جانا چاہيے کہ اوپر کي بحث اپني فزکس ميں لائے کيونکہ يہ ساري بحث علم الاشياء ميں شامل ہے اس بات کا قوي احتمال ہے کہ ارسطو کي فزکس بھي اسي راستے سے محمد باقر کے حلقہ درس تک پہنچي جس راستے سے جغرافيہ اور ہندسہ کے علوم ان کے درس ميں شامل ہوئے يعني مصري قبطيوں کے ذريعے محمد باقر کے حلقہ درس ميں شامل ہوئے –
فريد وجدي دائرة المعارف جيسي مشہور عربي کتاب کا حامل لکھتا ہے کہ علم طب اسکندريہ کے مکتب کے ذريعے جعفر صادق تک پہنچا اور يہ بات درست نہيں ہے کيونکہ جس وقت امام جعفر صادق علم کے حصول ميں مشغول تھے اسکندريہ کا علمي مدرسہ موجود نہيں تھا کہ علم طب آپ تک وہاں سے پہنچتا –
اسکندريہ کا علمي مکتب اس کتا خانے سے مربوط تھا جو عربوں کے مصر پر قبضے کے بعد تباہ ہو گيا تھا شايد وہ لوگ جنہوں نے اسکندريہ کے کتاب خانے کي کتابوں سے اپنے لئے نسخے تيار کئے ہوئے تھے ان کے پاس اس کتاب خانے کي کتابوں کے نسخے باقي تھے ليکن اسکندريہ کا علمي مکتب کتاب خانے کے خاتمے کے ساتھ ہي ختم ہو گيا ليکن وہ لوگ جنہوں نے اسکندريہ کے علمي مکتب ميں پرورش پائي تھي انہوں نے اس مکتب کے نظريات کو خصوصا اس تھيوري کو جسے جديد افلاطونوں کا فلسفہ کہا جاتا ہے اسے اپنے شاگردوں يا مريدوں کو سکھايا اور ان کے بعد نسل در نسل ہم تک پہنچي –
اس بات کا امکان ہے کہ وہ کتاب يا کتابيں جن کي نقول کتابخانہ (اسکندريہ کي کتابوں ) سے تيار کي گئي تھيں مصر سے امام جعفر صادق تک پہنچيں –
شايد فريد وجدي کي اسکندريہ کے مکتب سے مراد وہ مرکزي کتابخانہ اسکندريہ نہ ہو بلکہ اس کے کہنے کا مطلب يہ ہو کہ وہ کتاب يا کتابيں جو اسکندريہ کے مکتب کي ياد گار شمار کي جاتي تھيں امام جعفر صادق تک پہنچيں المختصر امام جعفر صادق اپنے والد گرامي کے حلقہ درس ميں فزکس سے واقف ہوئے –
اور جس طرح علم جغرافيہ ميں سورج کے زمين کے گرد چکر لگانے پر تنقيد کي اسي طرح ارسطو کي فزکس کے کچھ حصوں پر بھي تنقيد کي جب کہ اس وقت آپ کي عمر بارہ سال بھي نہيں تھي ايک دن جب وہ والد گرامي کے درس ميں ارسطو کي فزکس پڑھنے کے دوران فزکس کے اس حصے تک پہنچے کہ دنيا چار عناصر پر مشتمل ہے يعني خاک ‘ پاني ‘ ہوا اور آگ امام جعفر صادق نے تنقيد کرتے ہوئے کہا کہ ارسطو جيسے انسان نے اس پر غور کيوں نہيں کيا کہ خاک ايک عنصر نہيں ہے بلکہ اس خاک ميں متعدد عناصر پائے جاتے ہيں اور زمين ميں پائي جانے والي ہر دھات ايک عليحدہ عنصر شمار ہوتي ہے –
ارسطو کے زمانے سے جعفر صادق کے زمانے تک تقريبا ہزار سال کي مدت گزري ہو گي اور اس طويل مدت ميں جيسا کہ ارسطو نے کہا تھا چار عناصر علم الاشياء شمار ہوتے تھے اور کوئي ايسا شخص نہيں تھا جس کا يہ عقيدہ نہ ہو اور کسي کو فکر نہيں ہوئي کہ اس کي مخالفت کرے ہزار سال کے بعد ايک ايسا لڑکا پيدا ہو اجو ابھي بارہ سال کا نہيں ہوا تھا کہ اس نے کہا يہ خاک ايک عنصر نہيں ہے بلکہ کئي عناصر کا مجموعہ ہے –
جعفر صادق نے يورپ کے اٹھارويں صدي عيسوي کے علماء سے ہزار سال پہلے ہي يہ کہہ ديا تھا کہ ہوا ايک عنصر نہيں ہے بلکہ چند عناصر کا مجموعہ ہے ياد رہے کہ اٹھارويں صدي عيسوي کے سائنس دانوں نے ہوا کے اجزاء کو دريافت کرنے کے بعد عليحدہ عليحدہ کيا –
اگر کافي غور و خوض کے بعد سائنس دان اس بات کو قبول کر ليتے ہيں کہ خاک ايک عنصر نہيں ہے بلکہ چند عناصر کا مجموعہ ہے پھر بھي ہوا کے ايک عنصر ہونے پر کسي کو اعتراض نہ ہو تا ارسطو کے بعد قابل ترين فزکس دان بھي نہيں جانتے تھے کہ ہوا ايک عنصر نہيں ہے حتي کہ اٹھارويں صدي عيسوي ميں جو علمي لحاظ سے تابناک صديوں ميں سے ايک صدي شمار ہوتي ہے لا دوازيہ کے فرانسيسي سائنس دانوں کے زامنے تک چند علماء ہوا کو ايک بڑا عنصر سمجھتے تھے اور انہوں نے يہ فکر نہيں کي کہ ہوا چند عناصر کا مرکب ہے اور جب بعد ميں لا دوازيہ نے آکسيجن کو ہوا ميں شامل دوسري گيسوں سے عليحدہ کيا اور بتايا کہ آکسيجن سانس لينے اور جلانے ميں کتني موثر ہے ؟
اس بات کو اکثر علما نے قبول کيا کہ ہوا غير مرکب يا عنصر نہيں ہے بلکہ چند گيسوں پر مشتمل ہے اور 1792 ء عيسوي ميں سر لادوازيہ کا سر سا طور گيوٹين کے ہمراہ تن سے جدا کر ديا گيا اور يہ بابائے جديد کيميا اگر زندہ رہتا تو شايد مزيد دريافتيں کرتا ليکن افسوس اسے دوسرے جہاں بھيج ديا گيا –
امام جعفر صادق نے ايک ہزار ايک سو سال پہلے يہ جان ليا تھا کہ ہوا ايک عنصر نہيں شيعوں کا اور تمام گيسيں جو ہوا ميں بہت کم مقدار ميں پائي جاتي ہيں ميں سانس لينے ميں مفيد ہيں مثال کے طور پر اور زون گيس کو لے ليں جس کي کيميائي خصوصيات آکسيجن کي مانند ہيں اور اس کا ہر ماليکيول آکسيجن کے تين يٹموں سے مل کر بنا ہے بظاہر وہ عمل تنفس ميں اتني اہم نہيں ليکن جب آکسيجن خون سے ملتي ہے تو اسے اس دوران واپس باہر نہيں نکلنے ديتي يہي وجہ ہے کہ جعفر صادق کا نظريہ کہ “ہو ا کے تمام اجزاء عمل تنفس کيلئے ضروري ہيں ” انيسويں صدي کے وسط سے لے کر آج تک تائيد کيا گيا ہے –
ہوا ميں موجود گيسوں کے خواص ميں سے يہ بھي ہے کہ وہ آکسيجن کو تہہ ميں نہيں بيٹھنے ديتيں اگر اس طرح ہوتا تو آکسيجن ‘ سطح زمين سے ايک بلندي کي حد تک چھائي رہتي –
اور دوسري گيسيں جو ہوا ميں پائي جاتي ہيں آکسيجن سے اوپر ہوتيں جس کے نتيجے ميں تمام جانوروں کا نظام تنفس جل جاتا اور جانداروں کي نسل نابود ہو جاتي دوسرا يہ کہ پودے پيدا نہ ہوتے کيونکہا گرچہ پودے کے زندہ رہنے کيلئے دوسرے جانداروں کي مانند آکسيجن ضروري ہوتي ہے ليکن اسے کاربن ڈائي آکسائيڈ کي بھي ضرورت ہوتي ہے اور اگر آکسيجن کچھ بلندي تک زمين کو ڈھک ليتي تو کاربن کي سطح زمين تک رسائي نہ ہو سکتي جس کي وجہ سے حيواني اور جماداتي زندگي باقي ہے –
جعفر صادق وہ پہلے انسان ہيں جنہوں نے عناصر اربعہ کے عقيدے کو جو ايک ہزار سال کي مدت تک نا قابل متزلزل سمجھا جاتا تھا قابل اصلاح قرار ديا وہ بھي اس وقت جب وہ نوجوان تھے بلکہ لڑکے شمار ہوتے تھے ليکن ہوا کے بارے ميں نظريئے کو وہ اس وقت زبان پر لائے جب وہ بالغ ہو چکے تھے اور انہوں نے درس پڑھانا شروع کر ديا تھا –
آج ہميں يہ عام سا موضوع لگتا ہے کيونکہ ہميں معلوم ہے کہ ہماري آج کي دنيا ميں ايک سو دو عناصر دريافت ہو چکے ہيں ليکن ساتويں صدي عيسوي اور پہلي صدي ہجري ميں يہ ايک برا انقلابي نظريہ تھا اور اس زمانے ميں انساني عقل قبول نہيں کر سکتي تھي کہ ہوا ايک وسيع عنصر نہيں ہے اور ہم ايک بار پھر اور اس زمانے ميں انساني عقل قبول نہيں کر سکتي تھي کہ ہوا ايک وسيع عنصر نہيں ہے اور ہم ايک بار پھر کہتے کہ اس زمانے ميں اور اس کے بعد آنے والے زمانوں ميں اٹھارھويں صدي عيسوي تک اس علمي انقلابي عقيدے اور ان دوسري باتوں کو جو جعفر صادق نے فرمائي تھيں – اور ان کا ذکر آگے آئے گا يورپ ميں برداشت کرنے کي گنجائش نہ تھي –
عقيدہ يہ ہے کہ جعفر صادق نے يہ اور دوسرے علمي حقائق ‘ علم لدني يعني علم امامت کے ذريعے استنباط کر لئے تھے مورخ کہتا ہے اگر يہ استنباط اور دوسرے علمي استنباط جعفر صادق کے علم امامت کي وجہ سے تھے تو وہ مادے کے توانائي ميں تبديل ہونے کے قانون کو جسے آئن سٹائن نے اس صدي ميں دريافت کيا اسے بھي بيان فرماتے کيونکہ ان کے پاس علم امامت ہے وہ ہر چيز کو جانتے ہيں اور کوئي بھي علمي قانون ان سے پوشيدہ نہيں اور چونکہ علمي قوانين کا ايک حضہ اٹھارويں انيسويں اور بيسويں صدي ميں دريافت ہوا جعفر صادق نے ان کے متعلق کچھ نہيں کہا يہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے علم بشر کے ذريعے يہ معلوم کيا کہ خاک و ہوا کوئي وسيع و عريض عنصر ہے –
جعفر صادق نے فرمايا ہوا ميں چند اجزاء ہوتے ہيں سانس لينے کيلئے جن کي موجودگي اشد ضروري ہے جب لادوازيہ نے آکسيجن کو ہوا کي دوسري گيسوں سے جدا کيا اور بتايا کہ جو چيز جانداروں کے زندہ رہنے کيلئے ضروري ہے وہ آکسيجن ہے سائنس دانوں نے ہوا کي دوسري گيسوں کو زندگي کيلئے بے فائدہ جانا اور يہ نظريہ صادق کے خلاف ہے جنہوں نے فرمايا ہوا کے تمام اجزاء سانس لينے کيلئے ضروري ہيں –
ليکن انيسويں صدي کے نصف ميں سائنس دانوں نے سانس لينے کے لحاظ سے آکسيجن کے بارے ميں اپنے نظريئے کي تصحيح کي –
کيونکہ يہ تسليم کر ليا گيا کہ اگرچہ آکسيجن جانداروں کي زندگي کيلئے لازمي ہے اور ہوا کي دوسري تمام گيسوں کے درميان تنہا گيس ہے جو خون کو بدن ميں صاف کرتي ہے ليکن جاندار خالص آکسيجن ميں زيادہ عرصہ کيلئے سانس نہيں لے سکتے کيونکہ ان کے نظام تنفس کے خليات کي آکسيڈيشن شروع ہو جاتي ہے يعني وہ آکسيجن کے ساتھ مل کر مرکب بنا ديتے ہيں اور سادہ لفظوں ميں ہم کہہ سکتے ہيں کہ نظام تنفس کے خلليات جلتے ہيں –
آکسيجن خود نہيں جلتي بلکہ جلنے ميں مدد ديتي ہے اور ايسے جسم کے ساتھ جو جلنے کے قابل ہوتا ہے جب عمل کرتي ہے تو وہ جسم جلنے لگتا ہے اور جب کبھي انسان يا جانوروں کے بھيپھڑوں کے خليات ايک مدت تک خالص آکسيجن ميں سانس ليتے ہيں –
چونکہ گيسوں کا ان کے ساتھ ري ايکشن ہوتا ہے اس لئے پھيپھڑوں کے خليات جلنے لگتے ہيں اور کوئي انسان يا جانور جس کے پھيپھڑے جل جائيں تو وہ مر جاتا ہے اس لئے چاہيے کہ آخسيجن کے ہمراہ دوسري گيسيں بھي انسان يا جانوروں کے پھيپھڑوں ميں داخل ہوں تاکہ جانداروں کے پھيپھڑے خالص آکسيجن ميں سانس لينے کي وجہ سے نہ جليں جب علماء نے آکسيجن کے متعلق سانس لينے کے لحاظ سے اپنے نظريہ کي تصحيح کي تو پتہ چلا کہ جعفر صادق کا نظريہ صحيح ہے –
ليکن مشرقي ممالک ميں حتي کہ پيغمبر اسلام کے شہر مدينہ ميں بھي اس طرح کے علمي نظريات کو زبان پر لايا جا سکتا تھا کيونکہ وہاں اس پر کوئي کفر کا فتوي نہ لگاتا تھا –
اگر دين اسلام ميں کوئي يہ کہتا کہ ہوا وسيع نہيں ہے تو اسے کافي قرار نہيں ديتے تھے ليکن بعض قديم اديان ميں ايسا کہنا ‘ کہنے والے کے کفر کي دليل شمار ہوتي تھي کيونکہ ان اديان کے پروکار ہوا کي طارت کا عقيدہ رکھتے تھے اور اس طہارت کو ہوا کے وسيع ہونے کي وجہ سے سمجھتے تھے جس طرح پاني کا مطہر ہونا بھي ان مذاہب کے پروکاروں کي نظر ميں اس کے وسيع ہونے کي بنا پر تھا –
جب ہم کيميا کي تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں تو يہ لکھا ہوا پاتے ہيں کہ ايک انگريز جوزف پر يسٹلے نے جو 1733ء ميں پيدا ہوا اور 1804ء ميں فوت ہوا آکسيجن گيس دريافت کي ليکن وہ اس کي خصوصيات کو نہ پہچان سکا اور جس نے اس گيس کے خوص کو پہچانا وہ لوازيہ تھا علم کيماي کي تاريخ ميں اس طرح بتايا گيا ہے کہ آکسيجن کا نام بھي پريسٹلي نے رکھا تھا جب کہ آکسيجن کا مفہوم پريسٹلي سيپہلے موجود تھا آکسيجن يوناني کلمہ ہے جو دو اجزاء سے مل کر بنايا گيا ہے دوسرے جزو کے معني پيدوار کرنے والے اور پہلے جزو کے معني ترشي کے ہيں اس لئے آکسيجن کو ترشي پيدا کرنے والي گيس کہتے ہيں آکسيجن کا نام شايد انگريز پريسٹلي نے رکھا ہو گا (کيونکہ ہميں يقين نہيں ہے کہ واقعا اس نے يہ نام رکھا ہے ) ليکن ” ترشي پيدا کرنے والا ” مفہوم پہلے سے موجود ہے ہميں پريسٹلے کي خدمات سے سر موانحراف نہيں ہے اور ہماري اس سے مراد يہ نہيں کہ پريسٹلے کو حقير بنا کر پيش کريں اور اس پادر کو جس نے مذہبي لباس کو اتار کر ليبارٹري ميں کام کيا اور آکسيجن کو دريافت کيا اس کے باوجود کہ وہ ايک قابل ترين انسان تھا اس نے کبھي اپني دريافت پر فخر نہيں کيا –
اگر وہ سياست ميں حضہ نہ ليتا تو وہ آکسيجن کے بارے ميں اپني تحقيق کو جاري رکھ سکتا تھا پھر اسے سمجھ آتي کہ اس نے کتني بڑي دريافت کي ہے ليکن سياست نے اسے ليبارٹري سے دور کر ديا اور وہ انگلستان ميں فرانسيسي انقلابيوں کي حمايت ميں اٹھ کھڑا ہوا اور لوگ اس سے اس قدر نفرت کرنے لگے کہ اس کا اپنے ملک ميں جينا دوبھر ہو گيا مجبور اس نے امريکہ ہجرت کيا ور وہاں قيام کے دوران آکسيجن کے علاوہ کسي دوسرے موضوع پر چند کتابيں لکھيں –
وہ انسان جس نے سب سے پہلے ترشي پيدا کرنے والي آکسيجن کو پہچانا وہ جعفر صادق تھے يہ تصور نہيں کرتے کہ انہوں نے والد گرامي کے حلقہ درس ميں اس موضوع کو سمجھا ہو گا کيونکہ ہم نے کہا کہ انہوں نے جب پڑھانا شروع کيا تو کہا کہ ہوا ايک وسيع عنصر نہيں ہے اور قوي احتمال ہے کہ اسي موقع پر انہوں نے اخذ کر ليا کہ آکسيجن ترشي پيدا کرنے والي ہے تاکہ اس کي مماثل چيز پيدا نہ ہو ہمارا کہنے کا مقصد يہ ہے کہ ترشي پيدا کرنے والي کا نام جعفر صادق کے منہ سے نہيں نکلا ليکن انہوں نے اپنے حلقہ درس ميں فرمايا ہوا چند اجزا پر مشتمل ہے اور ہوا کے اجزا ميں سے يہي وہ جزو ہے جو جلنے والي چيزوں کے جلنے ميں مدد ديتا ہے يہ نہ ہو تو ہر گز نہ جليں اور جعفر صادق نے اس موضوع کي مزيد وضاحت کيا ور اپنے درس ميں فرمايا ہوا کہ وہ جزو جو اجسام کے جلنے ميں مدد ديتا ہے اگر ہوا سے جدا ہو جائے اور خالص حالت ميں ہاتھ آئے تو وہ اجسام کو جلانے ميں اتنا زبردست ہے کہ اس سے لوہا بھي جلايا جا سکتا ہے –
اس بنا پر پريسٹلي اور لادوازيہ سے ہزار سال پہلے ہي آکسيجن کي تعريف کر دي تھي اور صرف اس کا نام آکسيجن يا مولد الموضہ (ترشي پيدا کرنے والي ) نہيں رکھا تھا پريسٹلے نے جب آکسيجن دريافت کي تو اس کي سمجھ ميں نہ آيا کہ لوہے کو جلايا جائے لادوازيہ جس نے اکسيجن کے کچھ خواص ليبارٹري ميں جان لئے تھے نہ سمجھ سکا کہ وہ گيس لوہے کو جلانے والي ہے ليکن جعفر صادق ہزار سال پہلے اس بات سے آگاہ تھے –
آج ہم اچھي طرح جانتے ہيں کہ اگر لوہے کے ايک ٹکڑے کو اتنا گرم کيا جائے کہ وہ سرخ ہو جائے اور پھر اسے خالص آکسيجن ميں ڈبو ديں تو وہ روشن شعلے کے ساتھ جلنے لگتا ہے جس طرح گھي يا تيل کے چراغوں ميں ان کے فتيلے کو گھي يا تيل ميں بھگو ديتے تھے اور اس کي روشني ميں ساري رات بسر کرتے تھے ايک ايسا چراغ بھي بنايا جا سکتا ہے جس کا فتيلہ لوہے کا ہو اور وہ مائع آکسيجن ميں ڈبو ديا جائے اور اگر فتيلے کو اس طرح جلائيں کہ سرخ ہو جائے تو وہ نہايت چمکدار روشني کے ساتھ رات کو روشن رکھے گا –
روايت ہے کہ ايک دن محمد باقر جعفر صادق کے والد گرامي نے اپنے درس ميں کہا پاني جو آگ کو بجھا ديتا ہے علم کے ذريعے اس سے آگ بھي جلائي جا سکتي ہے اگرچہ اس بات سے کوئي شاعرانہ تعبير نہيں لي گئي مگر يہ بات اس وقت بے معني نظر آئي تھي اور ايک عرصے تک جن لوگوں نے بھي يہ روايت سني انہوں نے سمجھا کہ محمد باقر کوئي شاعرانہ تعبير زبان پر لائے ہيں ليکن اٹھارويں صدي کے بعد يہ ثابت ہو گيا کہ علم کي مدد سے پانيس ے بھي آگ جلائي جا سکتي ہے-
وہ بھي ايک ايسي آگ کہ جو کوئلے يا لکڑي کي آگ سے زيادہ گرم ہو کيونکہ ہائيڈروجن جس کے دو حصے پاني ميں ہوتے ہيں آکسيجن کے ساتھ 6664ڈگري تک پہنچتي ہے اور آکسيجن کے ذريعے ہائيڈروجن کے جلنے کے عمل کو اکسيڈروجن کہتے ہيں اور يہ صنعتوں ميں دھاتوں کو پگھلانے يا دھاتوں کے ٹکڑوں ميں سوراخ کرنے کے کام آتي ہے –
ہميں معلوم ہے کہ محمد باقر نے فرمايا علم کي مدد سے پاني سے آگ جلائي جا سکتي ہے ليکن انہوں نے ہائيڈروجن کو دريافت نہيں کيا تھا اور ہمارے پاس اس کا بھي کوئي ثبوت نہيں ہے کہ ان کے بيٹے جعفر صادق نے ہائيڈروجن کو خالصتا دريافت کيا اسي طرح جس طرح ہمارے پاس کوئي دستاويزي ثبوت نہيں جس کي بنا پر ہم کہہ سکيں کہ جعفر صادق نے آکسيجن کو دريافت کيا –
ليکن بغير کسي شک و تردد کے ہم کہہ سکتے ہيں کہ امام جعفر صادق نے آکسيجن کو خالصتا دريافت کيا اور ہمارے پاس اس کي دليل ان کے کيميائي کارنامے ہيں –
جعفر صادق کے کيميائي کارناموں کا کچھ حصہ آکسيجن کي مدد سے انجام پايا ہے اور اس عنصر کي مداخلت کے بغير امام جعفر صادق ان کارناموں کو انجام نہيں دے سکتے تھے لہذا انہوں نے آکسيجن کو دريافت کيا ليکن خالصتا نہيں بلکہ دوسرے عناصر کے ساتھ مرکبات شکل ميں ملي ہوئي يہاں پر يہ ذکر کرنا ضروري ہے کہ انہوں نے کوئي تھيوري پيش نہيں کي انہوں نے جو نتائج حاصل کئے ان سے دو فارمولے بنائے پہلے يہ کہ ہوا کا ايک جزو ايسا ہے جو دوسرے اجزا کي نسبت زيادہ اہميت کا حامل ہے اور يہي جزو زندگي کے لئے نہايت اہم ہے دوسرا يہي وہ جزو ہے جس کي وجہ سے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ چيزوں کي شکل ميں تبديلي آتي ہے يا وہ باسي ہو جاتي ہيں اس مفہوم کو زيادہ ياد رکھنا چاہيے کيونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام جعفر صادق نے آکسيجن کو دريافت کرکے کتني باريک بيني کا ثبوت ديا –
جس کے بعد فرانسيسي لاووازيہ نے پريسٹلے انگريز کے بعد آکسيجن کے ابرے ميں تحقيق کي اور اس کے تحقيقي کام کا کھوج لگايا ‘ سائنس دان اس بات کے قائل ہو گئے کہ اجسام ميں تبديلي جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آتي ہے آکسيجن کي وجہ سے آتي ہے حتي کہ ايک فرانسيسي ” پاستور ” نے خلايہ دريافت کيا اور اس نے کہا کہ بعض چيزوں کا باسي ہو جانا آکسيجن کي وجہ سے نہيں بلکہ چھوٹے چھوٹے جراثيموں کي وجہ سے ہے (مثلا غذا وغيرہ جو وقت کے ساتھ ساتھ باسي ہو جاتي ہے ) اور يہ چھوٹے چھوٹے جراثيم مردہ جانداروں کے جسم اور غذا پر حملہ کرکے اسے باري کر ديتے ہيں ليکن پاستور کو غور کرنا چاہيے تھا کہ جو چيز ان جراثيموں کو زندہ رکھنے کا سبب ہے وہ آکسيجن ہے کيونکہ آکسيجن کے بغير ان کي زندگي نا ممکن ہے لہذا جيسا کہ جعفر صادق نے فرمايا آکسيجن اشياء ميں تبديلي لانے کا موثر ذريعہ ہے بلکہ بعض اوقات دھاتوں سے براہ راست مل کر ايک مرکب وجود ميں لاتي ہے اور اس عمل کو کيميا کي اصطلاح ميں اوکسيڈيشن کہتے ہيں –
اتنا گہرا اظہار نظر امام جعفر صادق کي طرف سے بغير عملي تجربات کے ناممکن تھا – جعفر صادق کا زمانہ ايسا تھا کہ وہ آکسيجن کي پہچان پر مزيد تحقيق نہيں کر سکے ليکن انہوں نے اندازہ لگا ليا تھا کہ ہوا کو وہ جزو جو زندہ رہنے کيلئے اشد ضروري ہے اور چيزوں کي اصلي حالت ميں تبديلي لاتا ہے وہ بھاري بھي ہے اور انسان کو ابھي مزيد ايک ہزار سال لاووازيہ کے دنيا ميں آنے تک صبر کرنا تھا –
جس نے کہا وزن کے لحاظ سے ہر نو کلو گرام پاني ميں آٹھ کلو گرام آکسيجن ہوتي ہے ليکن حجم کے لحاظ سے ہائيڈروجن آکسيجن کي نسبت دو گنا زيادہ ہوتي ہے لاووازيہ آکسيجن کو پہچاننے ميں اس قدر آگے نکل گيا کہ اس گيس کو مائع ميں تبديل نہ کر سکا وہ اس فکر ميں تھا کہ آکسيجن کو مائع ميں تبديل کرے ليکن دو چيزيں اس کے آڑے آئيں –
پہلي يہ کہ اس کے دور ميں جو اٹھارويں صدي کا آکري دور تھا صنعت اور ٹيکنالوجي نے اس قدر ترقي نہيں کي تھي کہ وہ محقق انسان اپنے مقصد کو حاصل کر سکے – دوسرا يہ کہ اس سے پہلے کہ وہ مزيد تحقيق کرتا – اسے مار ديا گيا –
اس کے بعد ايک عرصے تک سائنسدان کہتے رہے کہ آکسيجن کو مائع ميں تبديل نہيں کيا جا سکتا حتي کہ ٹيکنالوجي نے اتني ترقي کر لي کہ وہ چيزوں کو کافي مقدار ميں سرد کرنے ميں کامياب ہو گئے ليکن انيسويں صدي عيسوي تک وہ آکسيجن کو صنعتي استعمال کيلئے بڑے پيمانے پر مائع حالت ميں تيار نہيں کر سکے –
بيسويں صدي عيسوي ميں زيادہ سرد درجہ وجود ميں لانے کي ٹيکنيک انيسويں صدي کي نسبت زيادہ کامياب ہوئي اور صفر سے نيچے 184 درجہ تک آکسيجن کو (بغير زيادہ دباؤ کے ‘ نہيات ہي کم دباؤ کے ذريعے )ٹھنڈا کرنے ميں کامياب ہوئے –
آج آکسيجن کو صنعتي پيمانے پر تيار کيا اور استعمال ميں لايا جاتا ہے اور 183 درجہ صفر کي سردي کو کم سرد نہيں سمجھنا چاہيے کيونکہ صرف 90 درجہ کا يہ مطلق صفر درجہ سے کافي فاصلہ ہے اور يہ مطلق صفر درجہ 16ء272- ( منفي دو سو بہتر عشاريہ ايک چھ درجے ) صفر سے نيچے کا درجہ ہے اور اتنے کم درجہ حرارت پر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مادے کي اندروني حرکت ساکن ہو جاتي ہے –
جعفر صادق کا زمانہ سائنسي نقطہ نگاہ سے ايسا زمانہ نہ تھا کہ جعفر صادق سائنس کے بارے ميں مزيد پيشرفت کرتے ليکن جہاں تک آکسيجن کي پہچان کا تعلق ہے وہ اس لحاظ سے سب سائنس دانوں پر سبقت لے گئے –
اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ فزکس کے اس حصے ميں وہ اپنے معاصروں سے ہزار سال آگے تھے –
بعض روايات ميں ملتا ہے کہ امام جعفر صادق کے شاگردوں نے ان کے بعد کہا کہ ہوا يا آکسيجن کو مائع ميں تبديل کيا جا سکتا ہے ليکن جو کچھ امام جعفر صادق کے شاگردوں نے کہا وہ ايک عام نظريہ ہے قديم زمانوں سے حتي کہ ارسطو سے بھي پہلے يہ معلوم کر ليا گيا تھا کہ بخارات کو مائع ميں تبديل کيا جا سکتا ہے ليکن وہ گيسوں کو مائع ميں تبديل کرنے کا وسيلہ نہ رکھتے تھے – يہ ڈھکي چھپي بات نہيں ہے کہ قديم زمانے سيآج کے علوم کا کچھ حصہ تھيوري کي شکل ميں پيش کيا جا چکا تھا کمي صرف اس بات کي تھي کہ اس زمانے ميں وسائل موجود نہيں تھے جس کي وجہ سے ان تيھوريز کو عملي جامہ پہنانا مشکل تھا – يوناني دھو کريت نے عيسي کي ولادت سے پانچ سو سال پہلے ايٹمي نظريئے کو اسي طرح جسطرح آج ہمارے پاس موجود ہے –
پيش کيا اور کہا مادہ ايٹموں سے مل کر بنا ہے اور ہر ايٹم کے اندر تيز حرکات پائي جاتي ہيں اگر ہم اليکٹرون ‘ پروٹون اور نيوٹرون اور ايٹم کے دوسرے تمام حصوے کے ناموں کو درميان ميں نہ لائيں کيونکہ ان کا تعلق انيسويں صدي عيسوي سے ہے تو ہميں يہ معلوم ہو گا کہ دھو کر يت کي ايٹمي تھيوري اور موجودہ ايٹمي تھيوري ميں ذرہ برابر فرق نہيں ہے-
البتہ بني نو ع انسان نے اس ايٹمي توانائي سے کافي دير بعد فائدہ اٹھايا اور اگر دوسري جنگ عظيم پيش نہ آتي اور جرمن سائنسدان ايٹمي توانائي سے فائدہ اٹھانے کے بارے ميں غورو فکر نہ کرتے اور امريکہ جرمني کے ترقي کر جانے کے خوف سے ايٹمي توانائي سے فائدہ نہ اٹھاتا تو شايد اس صدي کے آخر تک بھي ايٹمي توانائي بروئے کار نہ لائي جاتي –
اگرچہ جعفر صادق کے شاگردوں نے ہوا يا آکسيجن کو مائع ميں تبديل کرنے کے امکانات کے بارے ميں جو کچھ کہا وہ پہلے سے موجود تھا ليکن خود جعفر صادق نے جو کچھ آکسيجن کے متعلق کہا ہے وہ تيھوري کي حدود سے تجاوز کرتا ہے اور اسي سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آکسيجن کي پہچان کے بارے ميں عملي مرحلہ ميں داخل ہو چکے تھے-
بشکريہ : الحسنين ڈاٹ کام