- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/08
- 0 رائ
روایت میں ملتا ہے کہ مولائے کائنات نے کبھی نماز کو تاخیرمیں نہیں ڈالا فقط دو موقع ایسے پیش آئے ہیں کہ امام علی کو نماز پڑھنے میں اتنی دیر ہو گئی کہ آپ کے نماز قضا ہوگئی اور سورج کو پلٹایا گیا اور امام(علیه السلام) نے نماز کو اس کے وقت میں ادا کیا اور وہ دو موقع یہ ہیں: ١۔ محمد ابن عمیر حنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق کی محضر مبارک میں عرض کیا: جب اما م علی پر نماز ظہر وعصرجمع کرنا لازم تھا تو پھر کس علت و سبب کی بنا پر مولائے کائنات نے نمازعصر کو تاخیر میں ڈالا اور اسے ترک کیا؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا:
جب امیرالمومنین نمازظہر سے فارغ ہوئے تو ایک مردے کی کھوپڑی نظر آئی، امام(علیه السلام) نے اس سے معلوم کیا: تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا: میں فلان سر زمین کے فلان بادشاہ کا فرزند ہوں، امیر المومنین نے فرمایا: تو مجھے اپنی داستان زندگی کو بیان کر اور اپنے زمانے میں اچھے اور برے رونما ہوئے واقعات کو بیان کر، اس جمجمہ نے اپنے داستان زندگی بیان کرنا شروع کی اور اپنے زمانے میں گذرے ہوئے واقعات کو بیان کرنے لگا اور امام(علیه السلام) اس کی داستان زندگی سننے میں سرگرم ہو گئے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، اس کے بعد جب امام (علیه السلام) اس جمجمہ سے باتیں سن چکے تو سورج کو پلٹنے کا حکم دیا، سورج نے کہا: اب میں غروب ہو چکا ہوں لہٰذا اس وقت کیسے پلٹ سکتا ہوں، امیرالمومنین نے خدائے عزوجل سے سورج کو پلٹا دینے درخواست کی پس خداوند عالم نے ستر ہزار فرشتوں کو ستر ہزار زنجیروں کے ساتھ سورج کی طرف روانہ کیا، ان فرشتوں نے زنجیروں کو سورج کی گردن میں ڈالا اور کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ سورج اوپر آگیا اور دوبارہ اس کی روشنی سب جگہ پھیل گئی اور سورج صاف طرح نظر آنے لگا اور امیرالمومنین نے اپنی نماز کوعصر کو اس کے وقت میں ادا کیا اور پھر سورج دوبارہ اپنی جگہ پر پہنچ گیا، اس کے بعد امام صادق نے فرمایا: یہ تھی امیرالمومنین کی تاخیرسے نماز کی پڑھنے وجہ۔.(۱۴)
٢۔ محمد ابن جعفر کی دو بیٹیاں“ام جعفر” یا “ام محمد” نے اپنی جدّہ محترمہ“ اسما بنت عمیس سے روایت کی ہے، ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کا بیان ہے کہ: میں اپنی جدّہ محترمہ اسما بنت عمیس اور اپنے چچا عبدالله ابن جعفرکے ہمراہ گھر سے باہر گئی ہوئی تھی، جب “صهبا” کے قریب پہنچے تو اسما بنت عمیس نے مجھ سے فرمایا: اے میرے بیٹی! ایک دن ہم رسول اکرم (صلی الله علیه و آله) کے ہمراہ اسی جگہ پر موجود تھے کہ آنحضرت نے نماز ظہر پڑھی اور اس کے بعد علی (علیه السلام) کو اپنی خدمت میں طلب کیا اور امام(علیه السلام) سے اپنی ضرورتوں میں مدد چاہی یہاں تک کہ عصر کا وقت پہنچ گیا اور نبی اکرم(صلی الله علیه و آله) نے نماز پڑھی، اس کے بعد علی (علیه السلام) آنحضرت کی خدمت میں پہنچے اور پیغمبر کے پہلو میں بیٹھ گئے، الله تبارک و تعالیٰ نے وحی نازل کی اور آنحضرت نے اپنے سر مبارک کو امیرالمومنین کے دامن اقدس رکھ کر آرام کرتے رہے یہاں تک سورج غروب ہو گیا، جب آنحضرت نے آنکھیں کھولیں تو علی(علیه السلام) سے معلوم کیا:
اے علی(علیه السلام)! کیا تم نماز پڑھ لی تھی، حضرت علی(علیه السلام) نے عرض کیا: نہیں یا رسول الله (صلی الله علیه و آله) کیونکہ آپ کا سر مبارک میرے دامن پر رکھا اور آپ آرام کر رہے تھے اور میں نے آپ کو بیدار نہیں کرنا چاہا لہٰذ اسی طرح بیٹھا رہا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله) نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کی:
اللّہمّ ان ہذا علیّ عبد احتبس نفسہ علی نبیک فردّ علیہ الشرقها. بارالٰہا! یہ علی(علیه السلام) تیرا بندہ ہے کہ جس نے تیرے نبی کی خاطر اپنے آپ نماز پڑھنے سے روکے رکھا اور اپنے آپ کو محبوس رکھا پس تو اس کے لئے سورج پلٹا دے تاکہ وہ نماز کو ادا کر سکے ابھی نبی دعا میں مشغول تھے کہ سورج طلوع ہوا اور تمام زمین و پہاڑ پر اس کی روشنی پھیل گئی اور علی(علیه السلام) نے بلند ہو کر وضو کیا اور نماز عصر پڑھی، اس کے بعد سورج دوبارہ غروب ہوگیا۔(۱۵)
روایت میں ایا ہے کہ ایک روز مامون نے اپنے دربار میں امام علی رضا کو دعوت دی جب امام(علیه السلام) اس کے دربار میں پہنچے اور وہاں پر عمران صابی(گروہ صائبین کے رہنما) سے بحث و مناظرہ شروع ہوا، بحث و گفتگو یہاں اس حد تک پہنچی کہ عمران کے دل میں آہستہ آہستہ قبول اسلام کی حالت پیدا ہو رہی تھی کہ اسی دوران اذان کی آواز بلند ہوئی، جیسے امام(علیه السلام) نے اذان کی آواز کو سنا تو بحث و مناظرہ کو اسی جگہ پر ختم کر دیا اور عمران سے فرمایا: نماز کا وقت ہو گیا ہے، عمران نے کہا: اے میرے آقا! اس وقت میرا دل کچھ نرم ہوتا جارہا تھا اگر آپ اور کچھ دیر تک مناظرہ کو جاری رکھتے تو شاید میں مسلمان ہو جاتا، امام نے فرمایا : پہلے نماز پڑھیں اس کے بعد مناظرہ کو ادامہ دیں گے، امام (علیه السلام) نے نماز سے فارغ ہو نے کے بعد دوبارہ بحث و مناظرہ شروع کیا اور عمران صابی نے مذہب اسلام قبول کرلیا یہ واقعہ بہت طولانی ہے مگر اصل چیز کو بیان مقصود ہے اور وہ یہ ہے کہ امام (علیه السلام) نے ___اول وقت کو ترجیح دی اور مناظرہ کو روکنا پسند کیا، اس واقعہ کو شیخ صدوق نے اپنی کتاب توحید میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
ابراہیم ابن موسی القزار سے روایت ہے کہ امام رضا بعض آل ابوطالب کے استقبال کے لئے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور ہم آنحضرت کے ہمراہ تھے، جب نماز کا وقت پہنچا تو امام اپنے صحابیوں کے ساتھ اسی جگہ پرقریب میں گئے اور ایک بڑے سے پتھر کے پاس کھڑے ہوکر مجھ سے فرمایا: اے ابراہیم! نماز کا وقت ہوچکا ہے لہٰذا تم اذان کہو، میں نے عرض کیا: اے ہمارے آقا! ہم اس وقت اپنے آنے والے صحابیوں کے انتظار میں کھڑے ہوئے ہیں، امام (علیه السلام) نے فرمایا: خدا تمھارے گناہوں کو معاف کرے، بغیر کسی عذر کے نماز کو تاخیر میں نہ ڈالو، پس تم آؤ اور ہمارے ساتھ اول وقت نماز پڑھو، راوی کہتا ہے کہ میں نے اذان کہی اور امام (علیه السلام) کے ساتھ نماز ادا کی۔(۱۶)
حضرت امام حسن عسکری کی عادت یہ تھی کہ جیسے نماز کا وقت پہنچتا تھا تو فوراً اپنے ہاتھوں کو ہر اس کام جس میں مشغول ہوتے تھے پیچھے کھینچ لیا کرتے تھے اور کسی بھی کام کو نماز پر تر جیح نہیں دیتے تھے بلکہ نماز کو ہر کام پر مقدم رکھتے تھے ابو ہاشم جعفری سے مزوی ہے کہ: میں ایک روز جب حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں مشرف ہوا تو دیکھا کہ امام(علیه السلام) اس وقت کسی چیز کے لکھنے میں مشغول ہیں مگر جیسے ہی نماز کا وقت پہنچا تو امام(علیه السلام) نے لکھنا بند کر دیا اور فوراً نماز وعبادت میں مشغول ہوگئے
محمد شاکری سے مروی ہے کہ: امام حسن عسکری رات پھر نمازعبادت میں مشغول رہتے تھے اور رکوع و سجود کرتے رہتے تھے اور میں سو جاتا تھا، جب نیند سے بیدار ہوتا تھا تو امام(علیه السلام) کو سجدے کی حالت میں پاتا تھا(۱۷)
امام حسن عسکری کی سوانح حیات میں کہ: آپ زندان بھی میں دنوں میں روزہ رکھتے اور راتوں کو بیدار رہ کر عبادت کرتے تھے اور عبادت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے تھے اور کسی سے کوئی گفتگو بھی نہیں کرتے تھے، امام (علیه السلام) کی عبادت اور زہد و تقویٰ کا اثر یہ تھا کہ جن لوگوں کو امام کو آزار و اذیت پہنچانے کے لئے زندان میں بھیجا جاتا تھا، وہ آپ کو عبادت و مناجات کی حالت میں دیکھ کر بہت زیادہ متاثٔر ہوتے تھے، عباسیوں (کہ جن کے حکم سے امام حسن عسکری کو زندان کیا گیا تھا) نے صالح بن وصیف سے کہا: کہ وہ امام (علیه السلام) پر بہت زیادہ فشار ڈالے اور ہرگز ان پر رحم نہ کرے، صالح نے کہا: میں نے دو بد ترین جلاّد کو ان کے سر پہ چھوڑ رکھا ہے، لیکن ان دونوں کے دلوں پر امام کی عبادت و نماز) روزے کا اثر یہ ہوا کہ وہ دونوں عبادت کے بلند مرتبہ پر فائز گئے۔(۱۸)
حضرت امام جعفر صادق اپنے ایک شاگرد “مفضل ابن عمر” کو توحید باری تعالیٰ کے بارے میں ہفتہ میں چار دن، صبح سے زوال تک ایک خصوصی درس دیا کرتے تھے اور روزانہ نماز ظہر) کا وقت شروع ہوتے ہی درس کو ختم کر دیا کرتے تھے
——
حواله جات
۱۴- علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۵١.
۱۵- علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۵٢.
۱۶- منتہی الاعمال/ج ٢/ص ٨٨١
۱۷- امام حسن عسکری/ص ۴١ ۔ ۴٢
۱۸- بحارالانوار/ج ٣/ص ٨٩.