- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/08
- 0 رائ
حضرت عیسیٰ بن مریم کے زمانے میں ایک عورت بہت ہی زیادہ نیک و عبادت گزار تھی، جب بھی نماز کا وقت ہو جاتا تھا اور جس کام میں بھی مشغول رہتی تھی فوراً اس کام کو اسی حالت پر چھوڑ دیا کرتی تھی اور نماز و اطاعت خداوندی میں مشغول ہوجاتی تھی، ایک دن جب یہ عورت تنور میں روٹیاں بنانے میں مشغول تھی تو موذٔن کی صدائے اذان بلند ہوئی تو اس کام کو درمیان میں ہی چھوڑ کر نماز کے لئے کھڑی ہو گئی اور عبادت الہٰی میں مشغول ہو گئی، وہ نماز پڑھ رہی تھی تو شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ پیدا کیا کہ جب تک تو نماز سے فراغت پائے گی تو تنور میں لگی ہوئی روٹیاں جل کر راکھ ہو جائیں گی، مومنہ نے دل میں جواب دیا: اگر میری تمام روٹیاں بھی جل جائیں تو یہ روز قیامت میرے بدن کے آتش جہنم میں جلنے سے بہتر ہے، ابھی یہ عورت نماز میں ہی مشغول تھی کہ اس کا بچہ تنور میں گر گیا، شیطان نے کہا:
اے عورت! تو نماز پڑھ رہی ہے اور تیرا بچہ تنور میں جل رہا ہے، اس عابدہ نے جواب دیا: اگر الله تبارک و تعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ میں نماز پڑھوں اور میرا بیٹا آگ میں جل جائے تو میں خدا کے اس حکم پر راضی ہوں اور مجھے مکمل یقین ہے کہ جب تک میں نماز میں مشغول ہوں میرا پروردگار میرے فرزند کو آگ میں جلنے سے محفوظ رکھے گا، ابھی یہ عورت نماز میں مشغول تھی کہ اس کا شوہر گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ زوجہ نماز میں مشغول ہے اور تنور میں روٹیاں صحیح و سالم موجود ہیں اور بچہ بھی سکون کے ساتھ تنو ر میں بیٹھا ہوا آگ سے کھیل رہا ہے اور اس کے بدن پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہے، خدائے مہربان کی قدرت سے وہ آگ گلزار بن گئی، جب وہ عورت نماز سے فارغ ہو گئی تو شوہر نے زوجہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے تنور کے پاس لایا، عورت نے جیسے ہی تنور میں نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ بچہ اور روٹیاں دونوں صحیح وسالم ہیں: آگ نے نہ بچہ کے بدن پر کوئی اثر کیا ہے اورنہ روٹیاں جلی ہیں، یہ ماجرا دیکھ کر دونوں تعجب میں رہ گئے، مرد نے باری تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور عورت نے سجدہ شٔکر ادا کیا، شوہر نے بچہ کو تنور سے باہر نکالا اور حضرت عیسٰی کی خدمت میں لے کر آیا اور آپ سے پورا واقعہ بیان کیا، حضرت عیسیٰ نے کہا: جاؤ اور اس بچہ کی ماں سے معلوم کرو اس نے خدا کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے اور اس کے پاس خدا کا کیا راز ہے؟ اگر یہ کرامت کسی مرد کے پاس ہوتی تو جبرئیل خدا کی طرف سے اس پر وحی لے کر نازل ہوتے وہ مرد بچہ کو لے کر اپنے گھر واپس آیا اور زوجہ سے معلوم کیا: تم خدا سے کتنی زیادہ قریب ہو کہ یہ معجزہ رونما ہوا ہے؟ بیوی نے جواب دیا: میں کار آخرت کو دنیا کے کاموں پر ترجیح دیتی ہوں، نماز وعبادت کو ہر کام پر مقدم رکھتی ہوں اور جب سے ہوش سنبھالا ہے ان چند روز کے علاوہ جو ہر ماہ میں عورتوں سے مخصوص ہیں بغیر طہارت (وضو) کے نہیں رہتی ہوں اُن ایّام کے علاوہ بقیہ دوسرے دنوں میں خواہ میرے پاس ہزار کام ہی کیوں نہ ہوں جیسے ہی اذان کی آواز سنتی ہوں فوراً کام سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیتی ہوں اور نماز وعبادت پروردگار میں مشغول ہو جاتی ہوں، اگر کوئی مجھ پر ظلم و جفا کرتا ہے یا مجھ کو گالیاں دیتی ہے، ان تمام کینہ و عداوت کو دل سے نکال دیتی ہوں اور اس کے عوض میں کوئی جواب نہیں دیتی ہوں، میں خداوند متعال کی قضاء و قدر پر راضی ہوں، فرمان خدا کی تعظیم کرتی ہوں، اس کی مخلوق پر رحم کرتی ہوں، اپنے گھرسے کسی بھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتی ہوں اور نماز شب وصبح ہر گز ترک نہیں کرتی ہوں، جب حضرت عیسٰی اس عورت کی یہ تمام خصوصیات سنی تو فرمایا: اگر یہ عورت مرد ہوتی تو ضرور پیغمبر خدا ہوتی۔(۱۹)
حضرت امام خمینی اپنے زمانے میں ایک نمونہ شخصیت تھے کہ جنھوں نے نماز پڑھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور لوگوں کو نماز کی حقیقت ومعارف سے آگاہ کیا ہے، آپ نے کبھی بھی زندگی کے مشکل تریں حالات یا اوج کامیابی کے وقت، صحیح وسالم ہوں یا بیمار ہوں، سفر میں ہوں یا حضر میں، اپنے ملک میں ہوں یا جلا وطنی میں نماز اول وقت ادا کرتے تھے اور کسی بھی کام کو نماز پر ترجیح نہیں دیتے تھے بلکہ نماز کو ہر کام پر مقدم رکھتے تھے، حضرت امام خمینی کی تاریخ زندگی میں لکھا ہے:
جس وقت آپ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے، وہ حضرات جو آپ کے ہمراہ تھے ان میں سے بعض کا بیان ہے کہ جس وقت آپ فرانس میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے معلوم کیا کہ قبلہ کسی طرف ہے، آپ پیرس میں رات میں بھی تین بجے نیند سے بیدار ہوتے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے.
حجت الاسلام جناب سید احمد خمینی بیان کرتے ہیں: جس وقت ایران سے شاہ نے فرار اختیار کی، ہم اس وقت پیرس میں تھے، فرانس کی پولیس نے تمام سڑکیں اور شاہراہ بند کردئے تھے، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے صحافی اور خبرنگار وہا ں پر موجود تھے، افریقہ، ایشیا، پورپ و امریکہ وغیرہ کے اخباری نمائندے بھی موجود تھے اور تقریباً ایک سو پچاس ملکوں کے ویڈیو کیمرے فیلم بنا رہے تھے اور امام خمینی کی تقریر کو براہ راست نشر کر رہے تھے، آپ یقین کیجئے اتنی تعداد میں خبرنگار حاضر تھے، کیونکہ اس سال کی یہ سب سے بڑا حادثہ اور خبر تھی، سب کی نظریں اس طرف جمی ہوئی تھی کہ ایران سے شاہ فرار کر گیا ہے، پس اس کے بعد اب امام خمینی کیا تصمیم گیری کرتے ہیں، امام سڑک کے کنارے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، تمام کیمروں کے رخ آپ ہی کی طرف تھے، امام نے چند منٹ تقریر کی اور حالات و مسائل کو بیان کیا، میں آپ کے برابر میں کھڑا ہوا تھا، ایک دفعہ امام میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: احمد بیٹا! کیا نمازظہر کا وقت ہوگیا ہے؟ میں نے کہا: جی بابا جان! اب ظہر کا وقت ہے، جیسے ہی امام خمینی کو وقت نماز سے آگاہ ہوئے فوراً:“ السلام علیکم ورحمتہ ا لله وبرکاتہ” کہا اور اسی موقع پر اپنی تقریر کو ختم کرکے نماز کے لئے آمادہ ہوگئے کیونکہ نماز ظہر کا اول وقت تھا، آپ فکر کریں ایسی جگہ پر کہ جہاں پر آپ کو پوری دنیا میں اور بی بی سی لندن کے ٹیلیویزن سے دیکھ رہے ہیں .CNN لاکھوں، کروڑوں انسان خصوصاً اور امام اپنی تقریر کو اول وقت نماز کی وجہ سے ختم کردیں اور نماز ظہر کو اول وقت ادا کر نے کے لئے تقریر کو ختم کردیں.(۲۰)
اور جب آپ رات میں پیرس سے تہران کے لئے روانہ ہوئے تو جہاز کے اندر سب حضرات سو رہے تھے، صرف آپ ہی تنہا بیدار تھے اور نماز شب پڑھ رہے تھے۔
نماز کو ضائع کرنے کا عذاب
بغیر کسی مجبوری کے نماز کو تاخیر میں ڈالنے اور اول وقت ادا کرنے میں غفلت اور سستی کرنے کو دوسری عبارت میں نماز کو ضائع کرنا کہا جاتا ہے، جس طرح قرآن و روایات میں اول وقت نمازادا کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اول وقت اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہیں اسی طرح ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں سہل انگاری کرتے ہیں، اور اول وقت نمازکے ادا کرنے میں غفلت و سستی استعمال کرتے ہیں۔ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے لئے ایک عذاب معین کا وعدہ دیا کہ جس کا نام ویل ہے:
>فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَ الَّذِ یْنَ ھُمْ عَن صَلاَ تِھِمْ سٰاھُونَ>( سورہ ماعون/آیت ۴۔ ۵)
ویل اور تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔
امام صادق اس قول خداوندی کے بارے میں فرماتے ہیں:
“ساہون ”سے مراد یہ ہے: تاخیرالصلاة عن اول وقتہا لغیر غذر.
بغیر کسی مجبوری کے نماز کو اس کے اول وقت سے تاخیر میں ڈالنے کو سہل انگاری کہا جاتا ہے
اور خداوند عالم سورہ مٔریم ارشاد فرماتاہے: >فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌاَضَاعُواالصَّلَاةَوَاتَّبَعُوالشَّہَوٰاتَ فَسَوْفَ یَلْقُوْنَ غَیا<.(سورہ مریم /آیت ۵٨ ۔ ۵٩)
پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پس یہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔
”غی” جہنم میں ایک وادی ہے کہ جس کی آگ سب سے زیادہ تیز او رعذاب سب سے زیادہ سخت ہوگا۔
تفسیر منہج الصادقین میں لکھا ہے کہ: آیت میں نماز کے ضائع کرنے اورخواہشات نفس کی اتباع کرنے والوں سے امت محمدی کے یہودی اور فاسق و گنہگار لوگ مراد ہیں۔(۲۱)
قال النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم: لا تضیعوا صلاتکم فانّ من ضیع صلاتہ حشرہ اللھ مع قارون و فرعون وہامان (لعنهم الله واخزلهم) و کان حقاً علی الله ان یدخلہ النار مع المنافقین و الویل ) لمن لم یحافظ صلاتہ۔(۲۲)
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: اپنی نمازوں کو ضایع نہ کرو، جو شخص اپنی نمازوں کو ضایع کرتا ہے خداوند عالم اسے قارون، فرعون اور ہامان (خدا ان پر لعنت کرے اور رسوا کرے) کے ساتھ محشور کرے گا اور خداوند متعال کوحق ہے کہ نماز کے ضایع کرنے والوں کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے اور ویل ہے ان لوگوں کے لئے جو اوقات نمازکی محافظت نہیں کرتے ہیں۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم: لایزال الشیطان دعراًمن المومن ماحافظ علی ) الصلوات الخمس فاذا ضیعن تجارا عٔلیہ و اؤقعہ فی العظائم۔(۲۳)
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: بیشک شیطان ہر اس مومن سے خوف کھاتا ہے جو اپنی پنجگانہ نمازوں کو اول وقت پاپندی سے ادا کرتا رہتا ہے لیکن جب وہ اپنی نمازوں کو ضایع کرتا ہے تو شیطان اس پر قابض ہو جاتا ہے اور اسے گناہ کبیرہ میں ڈال دیتا ہے۔) قال علی علیہ السلام: من ضیع صلاتہ ضیع عملہ غیرہ۔(۲۴)
امام علی فرماتے ہیں: جس نے اپنی نماز کو تباہ و برباد کر دیا اس کے دوسر ے اعمال اس سے زیادہ تباہ وبرباد ہو جائیں گے.
عن امیرالمومنین علیہ السلام انّہ قال:علیکم بالمحافظة علی اوقات الصلاة فلیس منی) من ضیع الصلاة.(۲۵)
امام المتقین حضرت علی فرماتے ہیں: اوقات نماز کی حفاظت کرنا تم پر واجب ہے جو شخص نماز کو ضایع کرتا ہے وہ ہم سے نہیں ہے۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ: من صلی الصلاة لغیر وقتها رفعت لہ سوداء مظلمة) تقول ضیعت نی ضیعک الله کما ضیعت نی.(۲۶)
پیغمبراکرم(صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: جو شخص نماز کو اس کے غیر وقت میں پرھتا ہے تو وہ نمازسیاہ اور تاریک ہو کر روانہ ہوتی ہے اور صاحب نماز سے کہتی ہے: تو نے مجھے ضائع کیا ہے خدا تجھے بھی اسی طرح ضائع و برباد کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع و برباد کیا ہے۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ: لا ینال شفاعتی غدا من اخر الصلاة المفروضة بعد وقتها۔ نبی اکرم(صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: کل روز قیامت اسے میری ہرگز شفاعت نصیب نہ ہو گی جو اپنی واجب نمازوں کو ان کے وقت سے تاخیرمیں ڈالتے ہیں۔(۲۷)
———-
حواله حات
۱۹- ہزار و یک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۴٢٩ /ص ١٣۵.
۲۰- ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٩٠ /ص ٩۴
۲۱- منہج الصادقین /ج ۵/ص ۴٣٨
۲۲- بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠٢ )
۲۳- بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠٢.
۲۴- مستدک الوسائل/ج ١/ص ١٧٢.
۲۵- مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٨۴.
۲۶-. ثواب الاعمال/ص ٢٢٩.
۱۷- امالی (شیخ صدوق)/ص ۴٨٣