- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/08
- 0 رائ
وہ لوگ جو مسجد کے پڑوسی ہیں یا مسجد سے اذان کی آواز سنتے ہیں ان کے لئے مستحب ہے بلکہ سنت موکٔدہ ہے کہ اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کریں، بالخصوص نماز صبح اور مغرب و عشاء کی نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کریں اور نماز جمعہ اورعیدین کو بھی جماعت سے پڑھے۔
نماز جماعت کے اہمیت کے لئے چند احادیث ذکر ہیں
نبی اکرم(صلی الله علیه و آله) نے پنجگانہ نمازوں میں سے ایک بھی نمازکو جماعت کے بغیر ادا نہیں کیا ہے اور اسلام کے آغاز سے نماز جماعت قائم کرتے تھے اور حضرت علی اور جناب خدیجہ کے ساتھ نماز جماعت برگذار کرتے تھے یہاں تک کہ آپ نے رحلت کے وقت بھی نماز جماعت قائم کی۔
مرحوم شیخ عباس قمی “منتہی الاعمال” میں نقل کرتے ہیں: نبی اکرم(صلی الله علیه و آله) نماز جماعت کو اس قدر اہمیت دیا کرتے تھے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی نماز جماعت کا دامن نہیں چھوڑا اور شدید بیمار ہونے کے باوجود اپنے دستہا ئے مبارک کو امام علی(علیه السلام) اور فضل ابن عباس کے شانوں پر رکھا اور ان کا سہارا لے کر نہایت مشکل سے مسجد میں تشریف لائے اور نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کیا۔.(۱)
حضرت امام صادق فرماتے ہیں: ایک مرتبہ جب پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله) نے ان لوگوں کے گھروں کو جلا دینے کا حکم جاری کیا جو(منافقین) لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھتے تھے اور نماز جماعت میں حاضر نہیں ہوتے تھے، ایک نابینا شخص آنحضرت کی خدمت میں ایا اورعرض کیا: اے الله کے پیارے نبی! میں ایک نابینا شخص ہوں، جب اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو مجھے کوئی شخص ایسا نہیں ملتا ہے جو میری راہنمائی کرے تاکہ میں مسجد میں پہنچ سکوں اور آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر جماعت سے پڑھوں؟ رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے اس نابینا کی بات سن کر ارشاد فرمایا: شدّ من منزلک الی المسجد حبل واحضر الجماعة.
تم اپنے گھر سے لے کر مسجد تک ایک رسی کو وسیلہ قرار دو اور اس کی مدد سے اپنے آپ کو نماز جماعت کے لئے مسجد تک پہنچایا کرو۔(۲)
امام صادق فرماتے ہیں: کوفہ میں امام المتقین حضرت علی کو خبر دی گئی کہ مسجد کے ہمسایوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز جماعت میں حاضر نہیں ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا:
لیحضرون معناصلاتنا جماعة، او لَتحولن عنّ اولا یجاورنا ولا نجاورهم۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ ہمارے ساتھ نمازجماعت میں شرکت کیا کریں یا پھر وہ ایسا کریں یہاں سے دور چلے جائیں تاکہ انھیں مسجد کا ہمسایہ نہ کہا جاسکے اور ہم بھی ان کے ہمسایہ نہ کہلائیں۔(۳)
دین اسلام میں نماز جماعت کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس کے بارے میں اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اجتماع سے پرہیز کرنے کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہو یا جماعت سے بے اعتنائی کرے اور بغیرعذر کے جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
زرارہ اور فضیل سے روایت ہے کہ ہم دونوں نے (امام صادق عیله السلام) سے معلوم کیا: کیا نماز کو جماعت سے پڑھنا واجب واجب ہے؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا: الصلوات فریضة و لیس الاجتماع بمفروض فی الصلوات کلها ولکنها سنة من ترکها سنة رغبة عنها وعن جماعة المسلمین من غیرعلة فلا صلاة لہ. نمازواجب ہے لیکن کسی بھی نماز کو جماعت سے پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت موکٔدہ ہے اور جو شخص اس سنت سے دوری اور جماعت مسلمین سے دوری کرنے کی بنا پر بغیر کسی مجبوری کے نماز جماعت کو ترک کرے تواس کی نماز ہی نہیں ہوتی ہے۔(۴)
عن ابی جعفرعلیہ السلام قال: من ترک الجماعة رغبة عنہا وعن جماعة المسلمین من غیرعلة فلا صلاة لہ۔
امام باقر فرماتے ہیں: جو شخص نماز جماعت سے اور مسلمانوں کے ساتھ ایک جگہ جمع ہو جانے سے دوری اختیار کرنے کی بنا پر بغیر کسی مجبوری کے نماز جماعت کو ترک کرتا ہے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی ہے۔(۵)
قال امیرالمومنین علیہ السلام: من سمع النداء فلم یجبہ من غیرعلة فلا صلاة لہ۔ امیرالمومنین حضرت علی فرماتے ہیں: جو شخص اذان کی آواز سنے اور اس پر لبیک نہ کہے اور بغیر کسی مجبوری کے نماز جماعت میں شرکت نہ کرے (اور فرادیٰ نماز بڑھے) گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی ہے۔(۶)
عن ابی جعفرعلیہ السلام انّہ قال: لا صلاة لمن لا یشہد الصلاة من جیران المسجد الّا مریض اؤ مشغول۔
حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں: جو شخص مسجد کا ہمسایہ ہے اور نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتاہے، اس کی نماز ہی نہیں ہے مگر یہ کہ وہ شخص مریض ہو یا کوئی عذر رکھتا ہو۔(۷)
عن الصادق علیہ السلام: شکت المساجد الی الذین ل ایشہدونها من جیرانہا، فاوحی الله عزوجل الیہا: وعزتی و جلالی لا اقبلت لہم صلاة واحدة ولا اظہرت لہم فی الناس عدالة ولا نالتہم رحمتی ولا جاورنی فی الجنة ۔
حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجدوں نے بارگاہ خداوندی میں ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی عذر کے نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے ہیں شکایت کی تو خداوند عالم نے مسجدوں پر وحی نازل کی: میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں ان لوگوں میں سے کسی ایک شخص کی بھی نماز قبول نہیں کرتا ہوں، (میں دنیا میں ان لوگوں کو) ان کے معاشرے میں اچھے اور نیک آدمی کے نام سے شناخت نہیں کراتا ہوں (اور تمام لوگ انھیں برا بھلا کہتے ہیں اورآخرت میں ان کا انجام یہ ہوگا کہ) انھیں میری رحمت نصیب نہ ہو گی اور بہشت میں میرے قرب وجوار میں جگہ نہیں پائیں گے۔(۸)
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال: قال لقمان لابنہ…صلّ فی الجماعة و لوعلی راسٔ زجّ۔ حضرت امام صادق فرماتے ہیں: حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے وصیّت کی: اے بیٹا! ہمیشہ نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا خواہ تم نیزے پر ہی کیوں نہ ہو۔(۹)
جماعت کی فضیلت و فوائد
جب دین اسلام نمازجماعت کی ات نی زیادہ تاکیدکی گئی اور اس قدر کی اہمیت بیان کی گئی ہے یقیناً نماز جماعت کے لئے بہت زیادہ ثواب معین کیا گیا ہے اور بہت زیادہ فضائل بیان کئے ہے۔
دین اسلام میں معصومین کی زبانی نمازجماعت فضائل کے جو فضائل وفوائد ذکر گئے ہیں ہم ان میں سے چند احادیث کو ذکر کر رہے ہیں:
امیرالمومنین حضرت علی فرماتے ہیں: خداوند عالم نے جتنے بھی فرشتے خلق کئے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہمیشہ صف میں سیدھے کھڑے رہتے ہیں اور کسی بھی وقت حالت قیام سے باہر نہیں آتے ہیں اور بعض فرشتے ایسے ہیں جو ہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اور کسی بھی وقت حالت رکوع سے باہر نہیں آتے ہیں اور بعض فرشتے ایسے ہیں جو ہمیشہ زمین پر سجدے میں رہتے ہیں اور کسی بھی وقت سجدے سے سر بلند نہیں کرتے ہیں، پس جو لوگ اپنی نمازوں کوجماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو وہ قیام، رکوع اور سجود کی حالت میں ان فرشتوں کے مشابہ ہیں اب اگر کوئی شخص ان تمام فرشتوں کے ثواب سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے ان سب کے برابر ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ نماز جماعت کو ترک نہ کرے۔(۱۰)
محمد بن عمارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا سے ایک خط کے ذریعہ معلوم کیا: کسی شخص کا نماز واجب کو مسجد کوفہ میں فرادیٰ پڑھنا افضل ہے یا اسے جماعت پڑھنا؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا: الصلاه فی جماعة افضل. جماعت سے پڑھنا افضل ہے۔(۱۱)
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم: من حافظ علی الجماعة حیث ما کان مرّعلی الصراط کالبرق اللامع فی اول زمرة مع السابقین و وجہہ اضٔوءُ من القمر لیلة البدر، و کان لہ بکل یوم ولیلة یحافظ علیها ثواب شہید.
نبی اکرم(صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو نماز جماعت کا پابند رہتا ہے وہ روز قیامت سب سے پہلے پل صراط سے بجلی کے مانند تیزی سے گذر جائے گا اور اس کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بھی زیادہ چمکدارہوگا، پس وہ شخص جو شب و روز کی پنجگانہ نمازوں کے اوقات کی محافظت کرتا ہے اور نماز کو جماعت سے ادا کرتا ہے تو اسے ایک شہید کا درجہ و ثواب عطا کیا جاتا ہے۔(۱۲)
عن النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة نفر بغیرحساب، و یشفع کل واحد منہم فی ثمانین الفا: المؤذّن، والامام، و رجل یتوضا ثٔمّ دخل المسجد، فیصلّی فی الجماعة.
رسول اکرم(صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: خداوند متعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیر کسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص٨٠ ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں: ١۔ مو ذٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ وہ شخص جو اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجد میں جاتا ہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے.(۱۳)
قال النبی صلی الله علیہ والہ: صفوف الجماعة کصفوف الملائکة و الرکعة فی الجماعة، اربعة وعشرون رکعة، کلّ رکعة احب الی اللھ من عبادة اربعین سنة۔ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: میری امت کی نماز جماعت کی صفیں آسماں پر ملائکہ کی صفوں کے مانند ہیں، خداوند عالم نماز جماعت کی ہر رکعت کو چالیس برس کی عبادتوں سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہے۔(۱۴)
قال رسول الله صلی علیہ وآلہ: من مشیٰ الیٰ المسجد یطلب فیہ الجماعة کان لہ بکل خطوة سبعون الف حسنة و یرفع لہ من الدرجات مثل ذٰلک فان مات و هو علیٰ ذٰلک و کّل الله بہ سبعین الف ملک یعودونہ فی قبرہ و یبشرونہ و یونٔسونہ فی وحدتہ و یستغفرون لہ حتی یبعث۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: جو شخص نماز جماعت میں شریک ہونے کی غرض سے مسجد کی جانب قدم بڑھائے تو اس کے ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اسی مقدار میں اس کا مقام بلند ہوتا ہے، اگر وہ اس حالت میں انتقال کر جائے تو خداوندعالم ستر ہزارملائکہ کو اسے قبر میں اتارنے کے لئے روانہ کرتا ہے، وہ فرشتے اسے خوشخبری دیتے ہیں اور قبر کی تنہائی (اور تاریکی) اس کی مدد کرتے ہیں اور جب تک وہ فرشتے اس کی قبر میں رہتے ہیں اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔(۱۵)
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال: الصلاة فی جماعة تفضل علی کلّ صلاة الفرد باربعة وعشرین درجة تکون خمسة وعشرین صلاة.
امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں: نماز جماعت فرادیٰ نماز پر چوبیس درجہ فضیلت رکھتی ہے کہ ایک نماز پچیس نمازوں کا ثواب رکھتی ہے۔(۱۶)
پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: ایک دن نماز ظہر کے بعد جبرئیل امین سترہزار فرشتوں کے ہمراہ نازل ہوئے اور مجھ سے کہا: اے محمد! تمہارا پروردگار تم پر درود و سلام بھیجتا ہے اور اس نے تمہارے لئے دو تحفے بھیجے ہیں جو تم سے پہلے کسی بھی نبی کو ہدیہ نہیں کئے گئے ہیں، میں نے جبرئیل سے پوچھا: وہ دو ہدیہ کیا ہیں؟ جبرئیل نے عرض کیا: تین رکعت نماز وتر اور پانچ وقت نمازجماعت، میں نے کہا: اے جبرئیل! الله تبارک تعالیٰ نے میری امت کے لئے نماز جماعت میں کیا اجر و ثواب معین کیا ہے؟ جبرئیل نے جواب دیا: اگر جماعت میں دو شخص(ایک امام اوردوسراماموم) ہوں تو خداوند عالم ہر شخص کے نامہ أعمال میں ہر رکعت کے عوض ایکس و پچاس نمازوں کا ثواب درج کرتا ہے اور اگر تین شخص ہوں تو ہر ایک شخص کے لئے ہر رکعت کے عوض چھ سو نمازوں کا ثواب درج کرتا ہے اور اگر چار آدمی ہوں تو ہر ایک کے لئے ہر رکعت کے عوض بارہ سو نمازوں کا ثواب لکھتا ہے، اگر پانچ آدمی ہیں تو ہر ایک کے لئے دس ہزارچارسو نمازوں کا ثواب لکھتا ہے، اگر چھ آدمی ہیں تو ہر ایک کے لئے چار ہزار آٹھ سو نمازوں کا ثواب لکھتا ہے، اگر سات آدمی ہیں تو ہر ایک کے لئے نو ہزار چھ سو نمازیں لکھی جاتی ہیں، اگر آٹھ آدمی ہوں تو ہر ایک کے لئے ١٩٢٠٠ نمازیں لکھی جاتی ہیں اسی طرح اگر جماعت میں نو شخص موجود ہوں تو تب بھی یہی ثواب لکھا جاتا ہے اور جب نمازجماعت میں حاضر ہونے والوں کی تعداد دس تک پہنچ جاتی ہے تو اگر تمام آسمان کاغذ، تمام دریا و سمندر روشنائی، تمام درخت قلم اور تمام جن و ملک اور انسان کاتب بن جائیں تب بھی ان دس لوگوں کی ایک رکعت کا ثواب نہیں لکھ سکتے ہیں.
اس کے بعد جبرئیل نے مجھ سے عرض کیا: اے محمد! کسی مومن کا امام جماعت کی ایک تکبیر کو درک کر لینا ساٹھ ہزار حج وعمرہ سے بہتر ہے اور دنیا و مال دنیا سے ستر ہزار درجہ افضل ہے اور کسی مومن کا امام(علیه السلام) کے پیچھے ایک رکعت نماز پڑھنا فقیروں اور حاجتمندوں پرایک لاکھ دینارخرچ کرنے سے افضل ہے اور کسی مومن کا امام(علیه السلام) کے ساتھ ایک سجدہ کرنا راہ خدا میں سو غلام آزاد کرنے سے افضل ہے۔(۱۷)
ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک دن عبد الله ابن مسعود اتنی تاخیر سے نماز جماعت میں پہنچے کہ نبی اکرم(صلی الله علیه و آله) پیغمبر افتتاحی تکبیر(یعنی تکبیرة الاحرام) کہہ چکے تھے اور ابن مسعود اس تکبیر کو حاصل نہ کر سکے تو اس کے عوض ایک بندہ آزاد کیا، اس کے بعد پیغمبر اسلام کی خدمت میں ائے اور عرض کیا: یا نبی الله! کیا ایک غلام کے آزاد کر دینے سے مجھے جماعت کی اس تکبیر کا ثواب حاصل ہو گیا ہے جسے میں درک نہیں کر پایا تھا؟ رسول خدا(صلی الله علیه و آله) نے جواب دیا: ہر گز نہیں، یہ جواب سن کرعبد الله ابن مسعود نے عرض کیا: اگر میں ایک اور غلام آزاد کردوں؟ آنحضرت نے فرمایا: اے ابن مسعود! اگر تم جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اس کو راہ خدا میں انفاق کر دو پھر بھی اس تکبیر کا ثواب حاصل نہیں کرسکتے ہو۔.(۱۸)
———-
حواله جات
۱- منتہی الاعمال/ج ١/ص ١٠٣
۲- تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢۶۶
۳- امالی (شیخ صدوق)/ص ۶٩۶
۴- تہذیب الاحکام/ ٣/ص ٢۴
۵- امالی/ص ۵٧٣
۶- تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۴
۷- من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶
۸- سفینة البحار/ج ١/ص ۶۶٠
۹- من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢٩٧
۱۰- مناہج الشارعین /ص ٢١٢ ۔ ٢١٣
۱۱- تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵
۱۲-. ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٢٩١
۱۳- مستدرک الوسائل /ج ۶/ص ۴۴٩
۱۴- الاختصاص (شیخ مفید) ٣٩
۱۵- من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ١٧
۱۶- تہذب الاحکام/ج ٣/ ص ٢۵
۱۷- بحارالانوار/ج ٨۵ /ص ١۴ ۔ ١۵
۱۸- جامع الاخبار/ص ٩١ ۔ ٩٢