- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : محقق نمبر ایک
- 2024/12/31
- 0 رائ
مقالہ حاضر دو اہم عناوین (نہج البلاغہ کے عمیق و عظیم مطالب اور اس کی بے مثال جاذبیت) کے بارے میں نہج البلاغہ کو موضوع بحث قرار دیتا ہے لیکن دونوں کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیات کی صرف ایک جھلک ہے۔ مقالہ حاضر میں ہم نہج البلاغہ کے عظیم و عمیق مطالب اور بے مثال جاذبیت ہوںے کو بیاں کریں گے تاکہ نہج البلاغہ کی یہ ممتاز خصوصیت مزید عیاں ہو جائے۔
نہج البلاغہ کے عظیم و عمیق مطالب
نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیت جس کی طرف ہر قاری بادی النظر میں متوجہ ہو جاتا ہے، اس کی جامعیت کے ساتھ مختلف انواع و اقسام کے پیغامات ہیں۔ انسان کا یقین کرنا مشکل ہے کہ ایک شخص اس طرح شیریں اور دقیق موضوعات پر، جو ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد بھی ہوں، گفتگو کرسکتا ہے۔ یہ کام سوائے امیر المؤمنین (ع) کے ممکن نہیں۔ اس مقالے میں چند دانشوروں کے اقوال نقل کرتے ہیں:
۱- شیخ محمد عبدہ
جب اہل سنت کے معروف بزرگ عالم شیخ محمد عبدہ کی نگاہ نہج البلاغہ کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر پڑی تو انھوں نے بہترین انداز میں جائزہ لیتے ہوئے کہا:
’’جب بھی میں نہج البلاغہ کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوا، مجھے احساس ہوا کہ مکمل طور پر نظر ہی تبدیل ہو گئی ہے؛ اپنے آپ کو اس عالم میں پایا، جہاں ارواح کے بلند معانی، بہترین عبارتوں کے لباس میں پاک نفوس کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں اور پاک دلوں کے قریب ہورہے ہیں، انھیں راہ راست کی ہدایت کر رہے ہیں اور انھیں لغزشوں سے آگاہ کرتے ہوئے ہدف تک رسائی کا راستہ دکھا رہے ہیں اور فضل و کمال کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔‘‘
’’ایک دوسرے موقع پر دیکھا تو نہج البلاغہ کا چہرہ بالکل مختلف نظر آیا، اس طرح کہ جیسے کوئی حملہ آور حملے کے لئے تیار ہو۔ کبھی اس طرح دیکھتا ہوں کہ جیسے ایک نورانی عقل جو مخلوقات جسمانی سے کسی بھی طرح کوئی شباہت نہیں رکھتی، الہی لشکر سے جدا ہوئی اور ارواج انسانی سے متصل ہو جاتی ہے، انھیں نور اجلیٰ تک پہنچا دیتی ہے اور انھیں عالم قدس میں مقام دیتی ہے کہ دھوکا دہی اور قریب خوری سے نجات نصیب ہو جائے۔’’
’’پھر کچھ دیر بعد حکمت آموز خطیب کے سخن میرے کانوں سے ٹکراتے ہیں کہ وہ دانشمندوں اور معاشرے کو چلانے والوں سے خطاب کرتے ہوئے صحیح راہ بتاتے ہیں اور ان کو شک و تردد، خطاؤں سے بچاتے ہوئے سیاست کی روشنی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور حکومت کرنے کا بہترین درس اور تدبیری امور انھیں سکھاتے ہیں۔‘‘[1]
۲- شیخ بہائی
آپ اپنی کتاب ’’کشکول‘‘ میں کتاب “الجواہر‘‘ سے ابو عبیدہ کا قول نقل کرتے ہیں: “حضرت علی (ع) نے نو (۹) جملے ایسے بیان فرمائے ہیں کہ عرب کے بلیغ افراد ایک جملہ بھی ان کے مقابلے میں لانے سے قاصر ہیں: تین جملے مناجات کے، تین علوم اور تین ادب کے ہیں۔[2] پھر ان (۹) نو جملوں کی شرح بیان کرتے ہیں، جن میں سے کچھ نہج البلاغہ میں اور کچھ مولا علی (ع) کے دوسرے اقوال میں ہیں۔
۳- ڈاکٹر زکی مبارک
کتاب ’’عبقریۃ الشریف الرضی‘‘ میں نہج البلاغہ کے بارے میں لکھتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ نہج البلاغہ پر غور و فکر اور تدبر انسان کو بہادری، شجاعت اور عظمت عطا کرتا ہے، کیونکہ نہج البلاغہ ایک روح پرور بزرگ کا کلام ہے، جس نے مشکلات اور حادثات کے مقابلے میں مانند شیر مقابلہ کیا ہے۔[3] یہاں بات نہج البلاغہ کی عظمت اور روح شہامت، شجاعت اور روحانی بلندی کی ہے، جو نہج البلاغہ میں غور و فکر کے زیر سایہ میسر ہے۔
۴- ابن ابی الحدید معتزلی
نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیت کو معروف شارح ابن ابی الحدید معتزلی اس طرح بیاں کرتے ہیں:
مجھے بہت تعجب ہوا اس مرد کے بارے میں جو میدان جنگ میں اس طرح خطبہ دیتا ہو، جس طرح کوئی شیر صفت ہو اور جب اس میدان میں وعظ و نصیحت کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے اس سے بہتر کوئی واعظ نہیں کہ جس سے نہ تو کسی جانور کا خون ہوا اور نہ ہی اس نے کسی جانور کا گوشت کھایا ہو۔ کبھی وہ ’’بسطام بن قیس‘‘ اور ’’عتیبہ بن حارث‘‘ اور ’’عامر بن طفیل‘‘[4] کی صورت میں آشکار ہوتے ہیں۔
کبھی حکیم سقراط کبھی یوحنا اور کبھی مسیح بن مریم کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں اُس کی جس کی تمام امتیں قسمیں کھاتی ہیں، میں خطبہ ’’أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ‘‘ خطبہ (۲۲۱) کو پچاس سال سے مسلسل ہزار مرتبہ سے زیادہ پڑھ چکا ہوں، جب بھی پڑھتا ہوں ایک وحشت و خوف اور بیداری میرے وجود میں پیدا ہو جاتی ہے، جو دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے، میرے اعضاء میں لرزش پیدا ہو جاتی ہے۔
جب کبھی اس خطبے کے مضامین میں غور کیا، تو اپنے خاندان، رشتے داروں اور دوستوں میں مرنے والوں کا خیال دل میں آیا اور ایسا محسوس ہوا، گویا مولا (ع) میرے بارے میں گفتگو فرما رہے ہیں۔ کتنے ہی واعظوں، خطیبوں، فصحاء نے اس موضوع پر بات کی مگر حضرت کے کلام کے علاوہ کسی کے کلام نے مجھ پر اثر نہیں کیا۔[5]
ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ کے ایک مقام پر کہتے ہیں: ’’سبحان اللہ‘‘ کون ہے، جس نے فضیلتیں اور شرف و گرانقدر خوبیاں اس نمونہ عمل انسان ’’علی (ع)‘‘ کو عطا کیں، کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان جو ایک عرب (مکے) کا رہنے والا ہو اور جس نے عرب کے اس ماحول میں زندگی بسر کی ہو اور کسی فلسفی سے کبھی دوستی نہ رہی ہو، پھر بھی علوم البہیۃ اور حکمت متعالیہ میں افلاطون و ارسطو سے زیادہ آگاہی رکھتا ہو۔
جو کسی بھی علم عرفان و اخلاق کے ماہر کے ساتھ نہ رہا ہو لیکن سقراط سے برتر ہو۔ جو بہادروں کے ساتھ نہ رہا ہو، کیونکہ اہل مکہ تاجر تھے جنگجو نہیں تھے اور شجاع ترین فرد ہو کہ گویا اس جیسے نے اس زمین پر قدم ہی نہ رکھا ہو۔[6]
۵- سید رضی
سید رضی نے بھی کہیں کہیں نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیات کی طرف اشارے کیے ہیں: اکیسویں (۲۱) خطبے کے ذیل میں کہتے ہیں: مولا علی (ع) کے کلام کا مقام بلند و برتر ہے، خدا اور رسول (ص) کے کلام کے بعد، اولین و آخرین میں اس کلام کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
پھر اکیسویں (۲۱) خطبہ میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ کلام خد اور رسول (ص) کے کلام کے بعد سب سے بلند و برتر کلام ہے۔ حکمت ۸۱ کے ذیل میں اس جیسا ہی کلام لاتے ہوئے کہتے ہیں، یہ وہ کلام ہے جس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔ ایسی حکمت ہے جس کے ہم وزن کوئی حکمت نہیں۔[7]
۶- عباس محمود العقاد
مصر کے مشہور مصنف ’’عباس محمود العقاد‘‘، ’’العبقریات‘‘ میں امام علی (ع) کے بارے میں بلند و بالا تعبیرات بیان کرتے ہیں: نہج البلاغہ ایک ایسا ابلتا ہوا چشمہ ہے، جس سے توحید و حکمت کی آیات چھلکتی ہیں، جو عقائد و خداشناسی کے اصول کو وسعت بخشتی ہیں۔[8]
ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں: ان کا ہر کلام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ بیان حقائق کی قدرت و صلاحیت اور ملکہ رکھتے تھے۔ بے شک یہ وہ فرزند آدم ہیں جنہیں علم اسماء سکھایا گیا ہے اور ’’وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا‘‘ اور ’’أُوتُوا الْكِتَابَ‘‘ اور ’’فضل الخطاب‘‘ کا مکمل مصداق ہیں۔[9]
دوسرے مقام پر کہتے ہیں: حضرت امام علی (ع) سے جو بلند عظیم کلمات روایت ہوئے ہیں، ان سے برتر کلمات تصور نہیں کئے جاسکتے۔[10]
۷- محمد امین نواوی
معروف مصنف ’’محمد امین نواوی‘‘ نہج البلاغہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نہج البلاغہ وہ کتاب ہے، جسے خدا نے اس حقیقت پر حجت قرار دیا ہے کہ علی (ع) قرآن کے نور، اس کی حکمت اور معجزہ ہونے پر دلیل ہیں۔ اس کتاب میں ایسے مطالب و نکات جمع ہیں کہ سوائے علی (ع) کے کوئی حکیم، فلسفی، عالم ربانی اور نابغہ روزگار فلسفہ اور اصول سیاست جیسے موضوعات کو بیان کرنے پر قادر نہیں تھا۔[11] یہ باتیں نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیت ہونے کا ایک اہم ثبوت ہے۔
۸- ثقۃ الاسلام کلینی
آپ توحید کے بارے میں نہج البلاغہ کے خطبے کو بیان کرتے ہیں: یہ خطبہ بہت مشہور ہے، اکثر لوگ اسے جانتے ہیں اور جو توحید کے طالب علم ہیں، ان کا اس پر غور و فکر کرنا کافی ہے۔ اگر انبیاء (ع) کے علاوہ تمام انس و جن کی زبانیں ملکر توحید کو بیان کریں تو ہرگز امام علی (ع) جیسا کلام نہیں لاسکتیں۔[12]
۹- ڈاکٹر طہ حسین
مصر کے ایک اور معروف مصنف ’’ڈاکٹر طہ حسین‘‘ نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب جنگ جمل میں شک و تردد کے شکار ایک شخص نے حضرت علی (ع) سے سوال کیا تو اُس کا کہنا ہے کہ آپ (ع) کا جواب ایسا تھا کہ میں نے وحی الہی کے بعد ایسا با عظمت اور رساتر جواب نہ دیکھا نہ سنا۔
۱۰- آیت اللہ علامہ خوئی
حضرت آیت اللہ علامہ خوئی فرماتے ہیں: امام علی (ع) جب نہج البلاغہ کے خطبوں کو بیان کرتے ہیں، تو کسی اور کو اس موضوع پر بات کرنے کا اہل نہیں چھوڑتے، یہاں تک کہ جو لوگ حضرت علی (ع) کی زندگی کے بارے میں نہیں جانتے، وہ سمجھتے ہیں کہ گویا مولا علی (ع) نے ساری زندگی اس موضوع کو بیان کرنے میں صرف کردی ہے۔[13]
نہج البلاغہ کی بے مثال جاذبیت
نہج البلاغہ کی ممتاز خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ نہج البلاغہ کے پڑھنے والے تمام افراد چاہے وہ شیعہ دانشور ہوں، مسلم یا مسیحی علماء ہوں، بغیر کسی استثناء کے سب نے نہج البلاغہ کی بے مثال جاذبیت کو تسلیم کیا ہے۔ یہ کشش اور جاذبیت نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور کلمات قصار میں بطور کامل محسوس کی جا سکتی ہے، جو سبب بنی ہے کہ دانشوروں نے نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ جاذبیت اور کشش چند چیزوں کی وجہ سے ہے جو درج ذیل ہیں:
۱۔ نہج البلاغہ میں مظلوموں، محروم اور ستم رسیدہ افراد سے ہمدردی اور ظلم، بے انصافی، استعمار اور طاغوت سے نفرت کی بات ہوئی ہے۔ نہج البلاغہ کے ’’عہد نامہ مالک اشتر‘‘ میں مختصر عبارت کے ذریعے مملکت کے امور سنبھالنے سے متعلق بیان ہے، جس میں معاشرے کے سات طبقات اور ان کی ذمے داریاں اور ان کے حقوق کو بہت آرام اور سکون سے بیان فرمایا، مگر جوں ہی محروم و مظلوم طبقے کی بات آئی تو گویا امام (ع) کے کلام کو پرواز مل گئی اور دل کی گہرائی سے فرمایا:
الله الله في الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا جِيْلَةَ لَهُمْ مِنَ الْمَسَاكِينِ وَالْمُحْتَاجِينَ وَ أَهْلِ الْمُوسى وَالزَّمني
خدا کے لئے، خدا کے لئے اے مالک اشتر! نچلے درجے کے افراد جو مظلوم، محروم، ضرورت مند، ستم دیدہ اور مجبور ہیں، ان کے ساتھ اپنا برتاؤ اچھا رکھو۔ ان کے پاس کسی اور کو نہ بھیجنا، خود ان کا خیال کرنا اور پوری مملکت میں ان پر نظر رکھنا اور کسی اور کو ان کے معاملات میں مداخلت کرنے نہ دینا اور مسلسل ان سے ملاقات رکھنا، تا کہ سب کی مشکلات عدل و انصاف کے ساتھ دور ہوجائیں۔
اور یہ فرمان صرف اسی جگہ نہیں بلکہ نہج البلاغہ کے مختلف مقامات پر آپ نے ان کے بارے میں سفارش فرمائی ہے۔
۲۔ نہج البلاغہ انسانی آزادی، غلامی سے نجات، ہوا و ہوس سے آزادی، ذلت و خواری سے آزادی اور ثروت مندوں کے حملوں سے آزادی دلانے کے لئے ہر موقع سے استفادہ کرنے کا درس دیتی ہے اور حضرت (ع) نے سمجھایا کہ جہاں بھی مادی نعمتوں کے انبار لگے ہوں جان لو کہ وہاں دوسروں کے حقوق پامال کئے گئے ہیں۔[14]
امام متنبہ کرتے ہیں کہ آزادی، مساوات اور عدالت کی راہ میں کسی بھی دھمکی کو برداشت نہ کیا جائے بلکہ حضرت نے تو حکومتی اعلیٰ منصب اسی وجہ سے قبول کیا تھا۔[15] اور جو لوگ اس خام خیالی میں تھے کہ حضرت علی (ع) اس موضوع پر کوئی سودا بازی کریں گے وہ کھلی گمراہی میں تھے جو امام علی (ع) کو نہ پہچاننے کی دلیل ہے۔[16]
۳۔ نہج البلاغہ کی عرفانی جاذبیت اور کشش ایسی ہے کہ روحانیت و معنویت کی تشنہ ارواح کو سیراب کردیتی ہے اور جب معرفت خدا اور صفات جمال و جلال الہی کی بات آتی ہے تو نہج البلاغہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ فرشتوں کے بال و پر کا سوار ہے اور ایسے ایسے آسمانوں کی سیر کررہا ہے جہاں تک رسائی ممکن نہیں تھی۔[17]
جب بے حس اور سوئی ہوئی روحوں کی بیداری کی بات آتی ہے تو تازیانہ سخن ایسے چلتا ہے کہ گویا زندگی ختم ہو رہی ہے اور جب گزشتہ امتوں کی گفتگو ہوتی ہے تو ایسا لرزہ طاری ہوتا ہے کہ گویا دردناک بھی ہے اور لذت آور بھی۔ [18]
۴۔ نہج البلاغہ کی ایک اور جاذبیت یہ ہے کہ ہر میدان میں ایسے قدم رکھا ہے کہ گویا حق سخن ادا کردیا اور ہر چیز کی ہر زاویے سے شرح کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہنے والے نے تمام زندگی انہی موضوعات پر صرف کی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ جب حضرت امام علی (ع) خطبہ توحید کا آغاز کرتے ہیں اور اسماء و صفات جمال و جلال پر گفتگو کرتے ہیں تو ایک عظیم فلسفی کا چہرہ دکھائی دیتا ہے جس نے عرصہ دراز تک صرف توحید پر گفتگو کی ہو۔
وہ ایسے گراں بہا گہر پیش کرتے ہیں جو اس سے قبل بیان نہیں ہوئے، نہ تجسم خدا نہ صفات کی تفصیل، بلکہ اس طرح کا انداز گفتگو کہ انسان، دل کی آنکھوں سے زمین و آسمان اور خود کو اپنے لئے حاضر محسوس کرتا ہے اور روح معرفت الہی سے سرشار ہو جاتی ہے۔ پھر ہماری نگاہ جب ان خطبات پر پڑتی ہے، جو جہاد کے بارے میں ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ایک سپہ سالار شجاع و دلیر، لباس جنگ زیب تن کئے جنگی آداب بیان کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ جیسے اس نے تمام عمر میدان جنگ میں گزار دی ہو۔
۵۔ جب ہم نہج البلاغہ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو حضرت امام علی (ع) کو کرسی، حکومت اور رہبری امت پر پاتے ہیں کہ آپ گورنروں کو حکومت چلانے کے احکامات صادر کرتے ہیں۔ تمدن کے انحطاط سے بچنے اور ترقی کے رموز، ظالم قوموں اور ستمگروں کا انجام اور معاشرتی و سیاسی بہتری و سکون حاصل کرنے کے طریقے پختہ ترین عبارات کے سانچے میں ایسے بیان کرتے ہیں گویا صرف انہی امور میں آپ نے ساری زندگی صرف کی ہے۔
پھر مسند اخلاق پر آپ کو پاتے ہیں تو تہذیب نفس، تربیت افکار و ارواح کا درس دیتے ہیں۔ ’’ہمام” آپ سے متقین کی صفات بیان کرنے کا تقاضا کرتے ہیں، وہ اتنے پیاسے تھے کہ ایک دو جام سے سیراب ہونے والے نہیں تھے۔
حضرت امام علی (ع) ان کو اس طرح علم و دانش عطا کرتے ہیں کہ پرہیزگاروں کی تقریباً سو (۱۰۰) صفات جو محکم عبارات اور گہرے مطالب سے آراستہ ہیں، بیان فرماتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ہزاروں برس اس مسند پر آپ بیٹھے رہے اور یہی کام ہی کرتے رہے ہوں۔ تاریخ میں ایسے سخنور کی اور کہیں نظیر نہیں ملتی، نہج البلاغہ کے یہ مختلف زاویے جو ہر ایک اپنی جگہ بے مثال ہے۔
خاتمہ
مقالہ حاضر میں نہج البلاغہ کے دو زاویے (نہج البلاغہ کے عظیم و عمیق مطالب اور نہج البلاغہ کی بے مثال جاذبیت) کو مختلف قدیم اور جدید محققین کی نظر میں روشن کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ پہلے حصے میں سید رضی سے لیکر جدید شارحین نہج البلاغہ کی نظر میں نہج البلاغہ کی عظمت کو مطالب کے آئینے میں روشن کی گئی ہے جبکہ دوسرے حصے میں نہج البلاغہ کی بے مثال جاذبیت کو مظلوموں کی حمایت، انسانی آزادی اور تمام علوم کا اعلیٰ نظریہ نہج البلاغہ میں پیش ہونے کے لحاظ سے بحث کی گئی ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ عبده، شرح نہج البلاغۃ، ص۱۰۔
[2]۔ بہائی، کشکول، ج۳، ص۳۹۷۔
[3]۔ زکی مبارک، عبقريۃ الشریف الرضی، ج۱، ص۳۹۶۔
[4]۔ یہ تین افراد زمانہ جاہلیت میں بہادری کے حوالے سے ضرب المثل تھے۔ (زرکلی، الاعلام، ج۴، ص۲۰۱)۔
[5]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۱۵۳۔
[6]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱۶، ص۱۴۶۔
[7]۔ عقاد، العبقریات، ج۲، ص۱۳۸۔
[8]۔ عقاد، العبقریات، ج۲، ص۱۴۵۔
[9]۔ عقاد، العبقریات، ج۲، ص۱۴۴۔
[10]۔ حسینی، مصادر نہج البلاغۃ، ج۱، ص۹۰۔
[11]۔ شہید مطہری، سیری در نہج البلاغہ، ص۱۸ و ۱۹۔
[12]۔ کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۳۶۔
[13]۔ جاحظ، البیان، ص۹۰۔
[14]۔ جرداق، حضرت امام علی؛ صدای عدالت انسانی، ج۳، ص۱۷۷۔
[15]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۳ (خطبہ شقشقیہ)۔
[16]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، عثمان بن حنیف کے نام خط (خط نمبر ۴۵)۔
[17]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ اول و خطبہ اشباح (خطبہ ۹۱)۔
[18]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۳ و دیگر خطبے۔
منابع و مآخذ
۱۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبۃ الله، شرح نہج البلاغۃ، بغداد عراق، دار الکتاب العربي، ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ء۔
۲۔ جاحظ، عمرو بن بحر، البیان و التبیین، بیروت لبنان، دار و مکتبۃ الهلال، ۲۰۰۲ء۔
۳۔ جرداق، جورج، حضرت امام علی (ع)؛ صدای عدالت انسانی، ترجمہ هادی خسرو شاهی، تهران ایران، مؤلف، ۱۳۷۹ش۔
۴۔ حسینی، عبد الزهراء، مصادر نہج البلاغہ و أسانیده، بیروت لبنان، دار الزهراء، ۱۴۰۹ھ ۔ ۱۹۸۸ء۔
۵۔ زرکلی، خیر الدین، الأعلام؛ قاموس تراجم لأشهر الرّجال والنساء من العَرَب والمُستعربین والمُستشرقین، بیروت لبنان، دار العلم للملايين, ۱۹۸۹ء۔
۶۔ زکی مبارک، محمد، عبقریۃ الشریف الرضي، بیروت لبنان، دار الجيل، ۱۴۰۸ھ۔
۷۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم ایران، هجرت، ۱۴۱۴ھ۔
۸۔ شہید مطہری، مرتضی، سیری در نپج البلاغہ، تهران ایران، صدرا، ۱۳۹۹ش۔
۹۔ شیخ بہائی، محمد بن حسین، کشکول شیخ بہائی، قم ایران، نیلوفرانہ، ۱۳۹۰ش۔
۱۰۔ عبده، محمد، شرح نہج البلاغۃ (عبده)، قاهره مصر، مطبعۃ الاستقامۃ، بدون تاریخ۔
۱۱۔ العقاد، عباس محمود، مجموعۃ العبقریات الإسلامیۃ، بیروت لبنان، المکتبۃ العصريۃ، ۱۴۳۱ھ۔
۱۲۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الاصول من الکافی، تهران ایران، دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۶۳ش۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مکارم شیرازی، ناصراور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۴۵ تا ص۵۲۔