واقعہ غدیر ولایت کی وہ روشنی جو کبھی مدھم نہ ہوگی

واقعہ غدیر ولایت کی وہ روشنی جو کبھی مدھم نہ ہوگی

کپی کردن لینک

واقعہ غدیر خم میں 18 ذی الحجہ کو شدید گرمی میں 70 سے 120 ہزار لوگوں کا اجتماع تھا۔ لوگ اپنے بدن کو چادروں سے ڈھانپ کر تاریخی واقعے کا انتظار کر رہے تھے۔ اذان ظہر کے بعد پیغمبر اکرم ﷺ نے اس عظیم اجتماع کے ساتھ نماز ادا کی۔

واقعہ غدیر اور پیغمبر ﷺ کا خطبہ

واقعہ غدیر کے دن ہی پیغمبر ﷺ اونٹوں کے پالان سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ شروع کیا اور فرمایا: "حمد و ثنا تنہا خدا کے لئے ہے، ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں، اور اسی پر توکل کرتے ہیں، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اس خدا کی پناہ لیتے ہیں، جس کے سوا گمراہوں کی ہدایت و رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ جسے خداوندِ کریم ہدایت کرے کوئی اسے گمراہ نہیں کر سکتا۔

ہم اس خدا کی گواہی دیتے ہیں جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور محمد خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

"اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ہر پیغمبر ﷺ کی رسالت کی مدت اس سے پہلے کی رسالت کی آدھی ہوتی ہے، اور میں جلد ہی دعوتِ حق کو لبیک کہنے والا اور تم سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو، میرے بارے میں کیا سوچتے ہو؟”

اصحابِ رسول نے کہا: "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے دینِ خدا کی تبلیغ کی، ہمارے بارے میں خیر خواہی کی اور ہماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔”

مجمع پر خاموشی چھا گئی تو پیغمبر ﷺ نے فرمایا: "کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور محمد خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت، جہنم اور موت حق ہے۔ بے شک قیامت آئے گی اور اللہ تعالٰی زمین میں دفن لوگوں کو پھر سے زندہ کرے گا؟”

اصحابِ رسول: جی ہاں! جی ہاں! ہم گواہی دیتے ہیں۔

پیغمبر ﷺ: میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟

ایک شخص: یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ہیں؟

پیغمبر ﷺ: ثقلِ اکبر خدا کی کتاب ہے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو اور "ثقلِ اصغر” میری عترت اور اہلِ بیت (ع) ہیں۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔

خبردار، اے لوگو! خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رہنا تاکہ نابودی سے بچے رہو۔

اس موقے پر پیغمبر ﷺ نے علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اس قدر بلند کیا کہ آپ کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ہوگئی اور تمام لوگوں نے علی (ع) کو پیغمبر ﷺ کے پہلو میں دیکھا اور انہیں اچھی طرح سے پہچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی (ع) سے مربوط کوئی اعلان ہے۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر ﷺ کی بات سننے کے منتظر تھے۔

پیغمبر ﷺ: اے لوگو! مؤمنوں پر، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ہے؟

اصحابِ پیغمبر ﷺ: خدا اور اس کے پیغمبر ﷺ بہتر جانتے ہیں۔

پیغمبر ﷺ: خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر، خود ان سے زیادہ اولیٰ و سزاوار ہوں۔ اے لوگو! "مَنْ کنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِی مَوْلَاهُ” یعنی جس جس کا میں مولا، خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار، ہوں اس کے علی (ع) بھی مولا ہیں” اور پیغمبر ﷺ نے اس جملے کو تین بار فرمایا۔

اس کے بعد فرمایا: پروردگارا! اس کو دوست رکھ، جو علی (ع) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی (ع) سے دشمنی کرے۔ خدایا! علی (ع) کے دوستوں کی مدد فرما اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما۔ خداوندا! علی کو مرکزِ حق قرار دے۔”

اس کے بعد پیغمبر ﷺ نے فرمایا: ضروری ہے کہ اس جلسے میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پہنچا دیں اور دوسروں کو بھی اس واقعے سے باخبر کریں۔

ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتۂ وحی تشریف لایا اور پیغمبر ﷺ کو بشارت دی کہ خداوندِ کریم فرماتا ہے: میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اور اس پر راضی ہوں کہ یہ کامل شدہ اسلام تمہارا دین ہو۔

یہاں پر پیغمبر  اسلام ﷺ نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی (ع) کی ولایت پر خوشنود ہوا۔

اس کے بعد پیغمبر ﷺ اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے، آپ کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (ع) کو مبارکباد دی اور انہیں اپنے اور تمام مؤمنین و مؤمنات کا مولا کہا۔

اس موقع پر رسولِ خدا کا شاعر "حسان بن ثابت” اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دے دیا۔ اس کے اس قصیدے سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یہاں پر ذکر کرتے ہیں:

"پیغمبر ﷺ نے علی (ع) سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں نے تمہیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راہنمائی کے لیے منتخب کیا ہے۔ جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی (ع) بھی مولا ہیں۔ لوگو! تم لوگوں پر لازم ہے کہ علی (ع) کے سچے اور حقیقی دوست رہو۔”

اوپر بیان شدہ روداد واقعہ غدیر کا خلاصہ ہے جو اہلِ سنت علماء کے اسناد و مآخذ میں ذکر ہوا ہے۔ شیعوں کی کتابوں میں واقعہ غدیر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب "احتجاج” میں پیغمبر  خدا ﷺ سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ہے، شائقین اس کتاب میں اس خطبے کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔[1]

واقعہ غدیر لافانی و جاویدانی ہے

اللہ تعالٰی کا حکیمانہ ارادہ یہی تھا کہ وقعہ غدیر کا تاریخی منظر تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رہے تاکہ ہر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ہوں اور ہر زمانے میں اسلام کے اہلِ قلم تفسیر، حدیث، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذہبی مقررین، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ہوئے اسے امام (ع) کے ناقابلِ انکار فضائل میں شمار کریں۔

ادباء و شعراء بھی اس واقعہ غدیر سے الہام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو واقعہ غدیر سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بہترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔

یہ بات بِلا سبب نہیں کہ انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے واقعات گزرے ہیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء، محدثین، مفسرین، متکلمین، فلاسفہ، مقررین، شعراء، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ ان سب نے واقعہ غدیر کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔

بےشک واقعہ غدیر کے لافانی اور جاویدانی ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ واقعہ غدیر سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں نازل ہوئی ہیں۔[2] چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ہے اس لیے واقعہ غدیر بھی لافانی ہوگیا ہے اور ہرگز ختم ہونے والا نہیں ہے۔

اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانے میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ واقعہ غدیر کو مذہبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ہے اور واقعہ غدیر کی مناسبت سے ہر سال باشکوہ تقریبات منعقد کرتا ہے لہٰذا قدرتی طور پر واقعہ غدیر کے تاریخی منظر نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ہے اور واقعہ غدیر کبھی فراموش ہونے والا نہیں ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 18 ذی الحجۃ الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عیدِ غدیر کے طور پر معروف تھا، یہاں تک کہ "ابنِ خلکان” فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ہے:

"سن 487 ھ عیدِ غدیر کے دن، کہ 18 ذی الحجۃ الحرام ہے، لوگوں نے اس کی بیعت کی۔[3] "المستنصر باللہ” کے بارے میں "العبیدی” لکھتا ہے:

"وہ سن 487 ھ میں جب ماہِ ذی الحجہ میں 12 راتیں باقی بچی تھیں، فوت ہوا، یہ شب وہی 18ویں ذی الحجہ کی شب ہے، اور شبِ عیدِ غدیر ہے۔”[4]

ابنِ خلکان نے ہی واقعہ غدیر کی شب کو عیدِ غدیر کی شب کا نام نہیں دیا ہے بلکہ "مسعودی”[5] اور "ثعالبی”[6] نے بھی واقعہ غدیر کی شب شب کو امتِ اسلامیہ کی مشہور و معروف شبوں میں شمار کیا ہے۔

واقعہ غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر ﷺ کے عمل سے شروع ہوا ہے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر ﷺ نے مہاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی (ع) کے پاس جا کرانہیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔

زید بن ارقم کہتے ہیں: مہاجرین میں سے سب سے پہلے جن افراد نے علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی، ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکباد کی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رہی۔

واقعہ غدیر کی لافانیت کے دیگر دلائل

واقعہ غدیر کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ 110 صحابیوں نے اسے نقل کیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ہی افراد نے واقعہ غدیر کو نقل کیا ہے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں واقعہ غدیر کے صرف 110 راوی ذکر ہوئے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے ایک لاکھ کے مجمعے میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بہت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے، جن سے کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی ہے، یا اگر نقل ہوئی بھی ہو تو ہم تک نہیں پہنچی ہے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعے کو نقل بھی کیا ہے تو تاریخ ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

دوسری صدی ہجری میں، جو عصرِ تابعین کے نام سے مشہور ہے، 79 افراد نے واقعہ غدیر کی حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعد والی صدیوں میں حدیث کے بہت سے راوی سنی علماء تھے۔ ان میں سے تین سو ساٹھ راویوں نے واقعہ غدیر کی حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے واقعہ غدیر کی حدیث کے صحیح اور محکم ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔

تیسری صدی ہجری میں 92 سنی علماء نے، چوتھی صدی میں 43، پانچویں صدی میں 24، چھٹی صدی میں 20، ساتویں صدی میں 21، آٹھویں صدی میں 18، نویں صدی میں 16، دسویں صدی میں 14، گیارہویں صدی میں 12، بارہویں صدی میں 13، تیرہویں صدی میں 12 اور چودھویں صدی میں 20 سنی علماء نے واقعہ غدیر کی حدیث کو نقل کیا ہے۔

مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ہی اکتفاء نہیں کیا، بلکہ اس کے اسناد اور مفہوم پر مخصوص کتابیں لکھی ہیں۔

عالمِ اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان، طبری نے "الولایۃ فی طرق حدیث الغدیر” کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس میں اس حدیث کو 70 سے زیادہ طریقوں سے، پیغمبر اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے۔ ابنِ عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ "ولایت” میں اس حدیث کو 150 افراد سے نقل کیا ہے۔

جن افراد نے اس تاریخی واقعے کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ہیں، ان کی تعداد 26 ہے۔ ممکن ہے اس سے زیادہ افراد ہوں جنہوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ہیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نہیں ہوا ہے یا ہماری رسائی ان تک نہیں ہے۔

شیعہ علماء نے بھی واقعہ غدیر پر گراں بہا کتابیں لکھی ہیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاہد مرحوم آیت اللہ امینی کی کتاب "الغدیر” ہے۔

نتیجہ

پیغمبر ﷺ نے حجۃ الوداع کی واپسی پر غدیر خم کے مقام پر ایک عظیم اجتماع میں حضرت علی (ع) کی ولایت کا اعلان فرمایا۔ واقعہ غدیر اہل سنت کی اور شیعہ کتب میں مستند روایات کے ساتھ موجود ہے، جس میں آپ (ص) نے فرمایا: "جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔” اس موقع پر آیت "ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ” نازل ہوئی، جو اس واقعے کی عظمت کی گواہ ہے۔  ۱۲۰ سے زائد صحابہ کرام نے اس واقعے کی گواہی دی ہے، جو اس کی تاریخی حقیقت کو ناقابل تردید بناتا ہے۔

حوالہ جات

[1]۔ طبرسی، احتجاج طبرسی، ج۱، ص۷۱ تا ۷۴۔
[2]۔ سورہ مائدہ، آیت۶۷؛ سورہ مائدہ، آیت۳۔
[3]۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۶۰۔
[4]۔ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۱، ص۲۲۳۔
[5]۔ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص۲۲۔
[6]۔ ثعالبی، ثمارة القلوب، ص۵۱۱۔

فہرست منابع

1۔ قران مجید۔
2۔ ابن خلکان، احمد بن محمد، وفیات الأعیان و أنباء أبناء الزمان، بیروت، دار صادر، 1972م۔
3۔ ثعالبی، عبدالملک بن محمد، ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب، قاهرة، دار المعارف، 1965م۔
4۔ طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أهل اللجاج، نجف، دار النعمان للطباعة والنشر، 1386ه‍۔ ق۔
5۔ مسعودی، علی بن حسین، التنبیه والإشراف، قاهرة، دار الصاوی، 1938م۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص و ترمیم کے ساتھ)

سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، انیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے