- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/04
- 0 رائ
ولادت با سعادت: حضرت امام حسینؑ بن علیؑ مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال تین شعبان کو منگل یا بدھ کے دن پیدا ہوۓ۔ بعض مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت ہجرت کے تیسرے سال ربیع الاول اور بعض کے مطابق ہجرت کے تیسرے یا چوتھے سال جمادی الاول کی پنجم کو ہوئی ہے۔ بنابریں آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف اقوال ہیں لیکن قول مشہور یہ ہے کہ آپ تین شعبان ہجرت کے چوتھے سال میں پیدا ہوۓ۔
اذان و اقامت اور عقیقہ:
ولادت کے بعد آپ کو آپ کے جد بزرگوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پاس لایا گيا۔ آپ کو دیکھ کر رسول اکرمؐ مسرور و شادمان ہوۓ آپ کے دائيں کان میں اذان کہی اور بائيں کان میں اقامت، اور ولادت کے ساتویں دن ایک گوسفند کی قربانی کر کے آپ کا عقیقہ کیا اور آپ کی والدہ جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا کہ “بچے کا سر مونڈ کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دو۔
حیات طیبہ
حضرت امام حسین علیہ السلام نے چھ سال چند ماہ کا عرصہ اپنے جد امجد رسول اللہ کے زیر سایہ گزارا اور 29 سال و گیارہ ماہ اپنے پدر بزرگوار امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام اور دس سال کا عرصہ اپنے برادر بزرگوار حضرت امام حسن مجتبٰیؑ کے ساتھ گزارا، امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کی امامت کی مدت دس برسوں پر مشتمل ہے۔
اسم مبارک
روایات میں آیا ہے کہ سبطین علیھما السلام کے اسماء مبارکہ کا انتخاب خود رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے اور یہ نام خدا کے حکم سے رکھے گئے ہیں۔
• حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ جب حسنؑ کی ولادت ہوئی تو میں نے اس کا نام اپنے عم محترم حمزہ کے نام پر رکھا اور جب حسینؑ پیدا ہوۓ تو اس کا نام اپنے دوسرے چچا جعفر کے نام پر رکھا۔ ایک دن رسول اکرمؐ نے مجھے طلب فرمایا اور کہا مجھےخداوند نے حکم دیا ہے کہ ان دونوں بچوں کے نام بدل دوں اور آج سے ان کے نام حسن و حسین ہونگے۔
• ایک اور روایت میں ہے کہ: رسول اکرمؐ نے فرمایا میں نے اپنے بچوں حسن و حسین کے نام فرزندان ہارون کے ناموں پر رکھے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو شبر و شبیر کہتے تھے اور میں نے اپنے بچوں کے نام اسی معنی میں عربی میں حسن و حسین رکھے ہیں۔
ولادت کے بعد خبرِ شہادت:
اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ جب حضرت امام حسینؑ کی ولادت ہوئی تو رسولؐ اللہ تشریف لاۓ اور فرمایا؛
اسماء میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤ میں نے بچے کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول اللہ کی گود میں دیا آپ نے بچے کے دائيں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور ایسے عالم میں جب آپ امام حسینؑ کو گود میں لیے ہوۓ تھے گریہ بھی فرما رہے تھے۔
میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کے گریے کا کیا سبب ہے؟
آپؐ نے فرمایا؛ میں اس بچے کے لیے گریہ کر رہا ہوں۔
میں نے کہا؛ یہ بچہ تو ابھی پیدا ہوا ہے پس گریہ کیسا؟
آپ نے فرمایا؛
ہاں اسماء ایک سرکش گروہ اس کو قتل کرے گا خدا انہیں میری شفاعت سے محروم کرے، اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ بات فاطمہ کو مت بتانا ابھی اس کے بچے کی ولادت ہوئی ہے۔
• ایک دن ام الفضل رسول اکرمؐ کے چچا عباس کی زوجہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں آئیں اور کہا؛
یا رسولؐ اللہ! میں نے گذشتہ شب بڑا بُرا خواب دیکھا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن مبارک کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر میرے دامن میں گر گيا ہے۔
آپ نے فرمایا؛
خیر ہے، فاطمہ کے ہاں ایک بچہ ہو گا جس کی پرورش آپ کریں گی۔ میں رسولؐ اللہ کی خدمت میں پہنچی اور بچے کو آپ کی گود میں دیدیا جب دوبارہ میں آپ کی طرف متوجہ ہوئی تو دیکھتی ہوں کہ آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔
میں نے عرض کیا؛
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ کس وجہ سے گریہ فرما رہے ہیں؟
آپؐ نے فرمایا:
ابھی ابھی جبرائيل آئے تھے اور مجھے بتایا ہے کہ میری امت اس بچے کو قتل کر دے گی۔
صفین جاتے ہوۓ حضرت امیرالمؤمنینؑ کا گزر کربلا سے ہوا آپ وہاں کچھ دیر کے لیے رکے اور اس قدر گریہ کیا کہ زمین آپ کے آنسووں سے تر ہو گئی، آپ نے فرمایا؛
ایک دن ہم رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ آپ گریہ فرما رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟
رسول اللہ نے فرمایا؛
ابھی ابھی جبرائيل آۓ تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ میرا بیٹا حسین دریاۓ فرات کے کنارے کربلاء نامی زمین پر مارا جاۓ گا اور جبرئيل مجھے سنگھانے کے لیے کربلا کی ایک مٹھی خاک لیکر آۓ تھے، جسے دیکھ میں گریے پر ضبط نہ کر سکا۔
اس کے بعد امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہیں ان کا پڑاؤ ہو گا یہاں ان کا خون بہایا جاۓ گا اور آل محمد کے بعض لوگ اس صحرا میں قتل کیے جائيں گے جن کے حال پر زمیں و آسماں گریہ کریں گے۔