- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/09
- 0 رائ
بت پرستوں کی باری آئی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”تم لوگ کیوں خدا کی عبادت سے روگرداں ہو اور ان بتوں کی پوجا کرتے ہو؟“
بت پرست: ہم ان بتوں کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: کیا یہ بت کچھ سنتے بھی ہیں؟ اور کیا یہ بت خدا کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں، اور کیا اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں؟ جس سے تم ان کے احترام کرنے کی بدولت خدا کا تقرب حاصل کرتے ہو؟
بت پرست: نہیں یہ تو نہیں سنتے اور نہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں!
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: کیا تم لوگوں نے ان کو اپنے ہاتھوں سے نہیں تراشا ہے اور ان کو نہیں بنایا ہے؟
بت پرست: کیوں نہیں، ہم نے ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: اس بنا پر تم لوگ ان کے صانع اور بنانے والے ہو، مناسب تو یہ ہے کہ یہ تمہاری عبادت کریں نہ کہ تم لوگ ان کی عبادت اور پرستش کرو، اس کے علاوہ جو خدا تمہاری مصلحت اور تمہارے انجام نیز تمہارے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اس کو چاہئے کہ بتوں کی پرستش کا حکم تمہیں دے، جبکہ خداوند عالم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔
جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو بت پرستوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔
ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: خدا نے ان بتوں کی شکل و صورت والے مردوں میں حلول کیا ہے اور ہم ان بتوں کی پرستش اور ان پر توجہ اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ ان شکلوں کا احترام کرسکیں۔
ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہم نے ان بتوں کو پرہیزگار اور خدا کے مطیع بندوں کی شبیہ بنایا ہے، ہم خدا کی تعظیم اور اس کے احترام کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے ہیں!
تیسرے گروپ نے کہا: جس وقت خداوند عالم نے جناب آدم کو خلق کیا، اور اپنے فرشتوں کو جناب آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا، لہٰذا ہم (تمام انسان) اس بات کے سزاوار ہیں کہ جناب آدم کو سجدہ کریں اور چونکہ ہم اس زمانہ میں نہیں تھے، اس وجہ سے ان کو سجدہ کرنے سے محروم رہیں، آج ہم نے جناب آدم کی شبیہ بنائی، اور خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تاکہ گزشتہ محرومیت کی تلافی کرسکیں، اور جس طرح آپ نے اپنے ہاتھوں سے (مسجدوں میں) محرابیں بنائی اور کعبہ کی طرف منھ کرکے سجدہ کرتے ہیں، کعبہ کے مقابل خدا کی تعظیم اور اس کے احترام کی وجہ سے سجدہ اور عبادت کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان بتوں کے سامنے در حقیقت خدا کا احترام کرتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تینوں گروہوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: تم سبھی لوگ حقیقت سے دور غلط اور منحرف راستہ پر ہو، اور پھر ایک ایک کا الگ الگ جواب دینے لگے:
پہلے گروہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:
تم جو کہتے ہو کہ خدا نے ان بتوں کی شکلوں کے لوگوں میں حلول کر رکھا ہے اس وجہ سے ہم نے ان بتوں کو انھیں مردوں کی شکل میں بنایا ہے اور ان کی پوجا کرتے ہیں، تم لوگوں نے اپنے اس بیان سے خدا کو مخلوقات کی طرح قرار دیا ہے اور اس کو محدود اور حادث مان لیا، کیا خداوند عالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے اور وہ چیز (جو کہ محدود ہے) خدا کو اپنے اندر سما لیتی ہے؟ لہٰذا کیا فرق ہے خدا اور دوسری چیزوں میں جو جسموں میں حلول کرتی ہیں جیسے رنگ، ذائقہ، بو، نرمی، سختی، سنگینی اور سبکی، اس بنیاد پر تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ جس جسم میں حلول ہوا ہو وہ تو حادث اور محدود ہے لیکن جو خدا اس میں واقع ہوا ہو وہ قدیم اور نامحدود ہے، جبکہ اس کے برعکس ہونا چاہئے یعنی احاطہ کرنے والا قدیم ہونا چاہئے اور احاطہ ہونے والا حادث ہونا چاہئے۔
اس کے علاوہ کس طرح ممکن ہے جو خداوند عالم ہمیشہ سے اور تمام موجودات سے پہلے مستقل اور غنی ہو، نیز محل سے پہلے موجود ہو، اس کو محل کی کیا ضرورت ہے کہ خود کو اس محل میں قرار دے!۔
اور تمہارے اس عقیدہ کے پیش نظر کہ خدا نے موجودات میں حلول کر رکھا ہے، تم نے خدا کو موجودات کی صفات کے مثل حادث اور محدود فرض کرلیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کا وجود قابل تغییر و زوال ہے، کیونکہ ہر حادث اور محدود چیز قابل تغییر اور قابل زوال ہوتی ہے۔
اور اگر تم لوگ یہ کہو کہ کسی موجود میں حلول کرنا تغییر اور زوال کا سبب نہیں ہے، تو پھر بہت سے امور جیسے حرکت، سکون، مختلف رنگ، سیاہ و سفیداور سرخ وغیرہ کو بھی ناقابل تغییر اور ناقابل زوال سمجھو، اس صورت میں تمہارے لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ خدا کے وجود پر ہر طرح کے عوارض اور حالات پیدا ہوتے ہیں، جس کے نتیجہ میں خدا کو دوسرے صفات کی طرح محدود اور حادث سے توصیف کرو اور خدا کو مخلوقات کی شبیہ مانو۔
جب شکلوں میں خدا کے حلول کا عقیدہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہوگیا، تو چونکہ بت پرستی کی بنیاد بھی اسی عقیدہ پر ہے تو پھر وہ بھی بے بنیاد اور باطل ہوجائے گی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان دلائل اور انداز بیان کے سامنے بت پرستوں کا پہلا گروہ لاجواب ہوگیا، اور سرجھکا کر غور و فکر کرنے لگا اور کہا: ہمیں مزید غور و فکر کی فرصت دیں۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: مجھے بتاؤ کہ جب تم نیک اور پرہیزگار بندوں کی شکل و صورت کو پوجتے ہو اور ان شکلوں کے سامنے نماز پڑھتے ہو اور سجدہ کرتے ہو، اور ان شکلوں کے سامنے سجدہ کے عنوان سے اپنے سر بلند چہروں کو زمین پر رکھتے ہو، اور مکمل خضوع کے ساتھ پیش آتے ہو، تو پھر خدا کے لئے کیا خضوع باقی رہا، (واضح الفاظ میں سب سے زیادہ خضوع سجدہ ہے، اور تم ان شکلوں کے سامنے سجدہ کرتے ہو تو پھر تمہارے پاس اور کیا خضوع باقی ہے جس کو خدا کے سامنے پیش کرو؟) اگر تم لوگ کہتے ہو کہ خدا کے لئے بھی سجدہ کرتے ہیں تو پھر ان شکلوں اور خدا کے لئے برابر کا خضوع ہو جائے گا، تو کیا حقیقت میں ان بتوں کا احترام خدا کے احترام کے برابر ہے؟
مثال کے طور پر:
اگر تم لوگ کسی حاکم اور اس کے نوکر کا برابر احترام کرو، تو کیا کسی عظیم انسان کو چھوٹے انسان کے ساتھ قرار دینا عظیم انسان کی بے احترامی نہیں ہے؟
بت پرستوں کا دوسرا گروہ: کیوں نہیں، بالکل اسی طرح ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: اس بنا پر تم لوگ ان بتوں (کہ تمہارے عقیدہ کی بنا پر خدا کے نیک اور پرہیزگار بندوں کی صورت پر ہیں) کی پوجا سے در حقیقت خدا کی عظمت اور اس کے مقام و مرتبہ کی توہین کرتے ہو۔
بت پرست، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منطقی دلائل کے سامنے لاجواب ہو گئے، اور کہا ہمیں اس سلسلہ میں غور و فکر کی فرصت عنایت کریں۔
اس کے بعد بت پرستوں کے تیسرے گروہ کی باری آئی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا:
تم نے مثال کے ذریعہ خود کو مسلمانوں کے شبیہ قرار دیا ہے، اس بنیاد پر بتوں کے سامنے سجدہ کرنا حضرت آدم(علیہ السلام) یا خانہ کعبہ کے سامنے سجدہ کی طرح ہے، لیکن یہ دو چیزیں مکمل طور پر فرق رکھتی ہیں اور قابل موازنہ نہیں ہیں۔
مزید وضاحت:
ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک خدا ہے، ہم پر فرض ہے کہ اس کی اس طرح اطاعت کریں جس طرح وہ چاہتا ہے، اس نے جس طرح حکم دیا ہے اسی طرح عمل کریں، اور اس کی حدود سے آگے نہ بڑھیں، ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ اس کے حکم اور اس کی مرضی کے بغیر اس کے حکم کے آگے بڑھ کر اپنی طرف سے (قیاس اور تشبیہ کے ذریعہ) اپنے لئے فرائض اور تکالیف معین کریں، کیونکہ ہم تمام پہلوٴوں سے آگاہ نہیں ہیں، شاید خدا ایک چیز کو چاہتا ہے اور ایک چیز کو نہیں چاہتا، اس نے ہمیں آگے بڑھنے سے منع کیا ہے۔
اور چونکہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ خانہ کعبہ کے سامنے عبادت کریں، ہم بھی اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور اس کے حکم سے تجاوز نہیں کرتے، اسی طرح اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں خانہ کعبہ کی سمت عبادت کریں، چنانچہ ہم اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں، اور جناب آدم(علیہ السلام) کے بارے میں اس نے اپنے ملائکہ کو حکم دیا کہ حضرت آدم(علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کریں نہ کہ آدم کی شکل و صورت پر بنے کسی دوسرے کے سامنے، لہٰذا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کی شکل و صورت کو اپنے سے مقائسہ کرو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ جو کام تم انجام دیتے ہو شاید وہ اس سے راضی نہ ہو، کیونکہ ممکن ہے اس نے تمہیں اس کام کا حکم نہ دیا ہو۔
مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص تمہیں کسی خاص دن میں کسی خاص اور معین مکان میں جانے کی اجازت دیدے، تو کیا تمہارے لئے کسی دوسرے دن بھی اس مکان میں جانے کی اجازت ہے، یا اس معین دن میں کسی دوسرے مکان میں چلے جاؤ؟ یا کوئی شخص تمہیں لباس، غلاموں، یا حیوانوں میں سے کوئی لباس، غلام یا حیوان تمہیں بخش دے۔
تو کیا تمہیں اس بات کا حق ہے کہ دوسرے لباس، یا دوسرے غلام یا دوسرے حیوان میں جو کہ اس کے مثل ہیں تصرف کرو جن میں اس کی اجازت نہیں ہے۔؟
بت پرستوں کا تیسرا گروہ: نہیں، ایسا ہمارے لئے جائز نہیں ہے، کیونکہ صرف ہمیں مخصوص کام میں اجازت دی گئی ہے کسی دوسرے میں نہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: مجھے بتاؤ کہ کیا خداوند عالم سزاوار تر ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور اس کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف کریں یا دوسرے لوگ؟
بت پرستوں کا تیسرا گروہ: یقینی طور پر خدا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور اس کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف نہ کیا جائے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: پس تم نے خدا کے حکم کے بغیر ہی ان بتوں کی پوجا کیوں شروع کردی، اور اس کی مرضی کے بغیر ہی ان بتوں کے سامنے سجدہ کرنے لگے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہترین دلائل کے سامنے بت پرستوں کا تیسرا گروہ لاجواب ہوگیا اور وہ خاموش ہوگئے، اور انھوں نے بھی عرض کی: ہمیں اس سلسلہ میں غور و فکر کی اجازت دیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان پانچ گروہوں سے مناظرہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث برسالت کیا، کہ ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ یہ پانچوں گروہ کے تمام ۲۵/ افراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے اور انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا:
”مَارَاٴَیْنَا مِثْلَ حُجَّتِکَ یَا مُحَمَّد! نَشْہَدُ اٴَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ“[5]
”اے محمد! ہم نے آپ جیسی مستدل گفتگو نہیں دیکھی ہے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے برحق پیغمبر ہیں“۔
……………………….
حواله جات
[1] جناب عزیر علیہ السلام، جناب موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے، جو بیت المقدس پر بخت النصر نامی حملہ میں اسیر کر لئے گئے اور شہر بابل (بغداد کے حدود میں) بھیج دئے گئے، جناب عزیر علیہ السلام تقریباً سو سال ”ہخامنشی بادشاہوں“ کے زمانہ میں بابل میں بنی اسرائیل کے لئے تبلیغ دین میں مشغول رہے۔
یہاں تک کہ ۴۵۸ سال قبل از میلاد (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے ساتھ یروشلم میں گئے جہاں پر بنی اسرائیلیوں میں توریت اور اس کے احکام کو بالکل بھلادیا تھا لیکن جناب عزیر علیہ السلام نے ان کو دوبارہ زندہ کیا اور ان کی اصلاح کی، سر انجام ۴۳۰ سال قبل از میلاد میں ان کا انتقال ہوا، ان کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل نے نہ جانے کیا کیا کہا یہاں تک کہ انھیں ”خدا کا بیٹا“ بھی کہہ ڈالا!!۔
لیکن آج یہ عقیدہ بالکل ختم ہوگیا ہے اور اس کا ماننے والا کوئی نہیں ہے۔
[2] واضح عبارت میں یوں کہیں: دن رات کی جدائی کے پیش نظر پہلے مقدم ہونے والی چیز حادث ہے۔
[3] یعنی ان کا ایک دوسرے کا محتاج ہونا ان کے حادث ہونے پر دلیل ہے۔
[4] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مادّیوں سے مناظرہ کرتے ہوئے آرام آرام، قدم بقدم کے طریقہ سے فائدہ اٹھایا اور درج ذیل چار چیزوں کی بنیاد پر ان کو مغلوب کیا:
۱۔ پہلے اس بنیاد پر کہ ”نہ ملنا، نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے“، حدوث کا مشاہدہ نہ کرنا اس کے ازلیت پر دلیل نہیں ہے، جیسا کہ فناء کا مشاہدہ نہ کرنا اس کے ابدی ہونے پر دلیل نہیں ہے۔؟
۲۔ ممکن ہے کہ ہم حدوث فعلی کے ذریعہ حدوث غائب پر استدلال کریں جو حدوث فعلی کی قسم سے ہے ، جیسے شب و روز کا حدوث فعلی گزشتہ اور آئندہ میں بھی اس کے حدوث کی حکایت کرتا ہے۔
۳۔ حدوث کا حکم محدود ہوتا ہے اگرچہ کے اس کے افراد بہت زیادہ ہوں۔
۴۔ اس دنیا کے تمام موجودات کے اجزاء ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان کے حادث ہونے پر دلیل ہے، کیونکہ قدیم چیز کا کسی چیز کا محتاج ہونا محال ہے۔
[5] احتجاج طبرسی، ج۱، ص۱۶ تا ۲۴۔