- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/10
- 0 رائ
اس مقاله کا اصلی مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ کی ازواج کے ساتھ ساز گاری موافقت کو بیان کرنا ھے تاکہ روشن ھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ساتھ کس طرح رھتے تھے کہ وہ آپ سے راضی تھیں اور آپ کا زیادہ وقت نہیں لیتی تھیں، تاکہ آپ عبادت و تہجد، تبلیغ دین، رسالت الٰھی کی ادائیگی اور لوگوں پر حکومت و نظارت کے فرائض کو باحسن وجہ انجام دے سکیں۔
مبادا کوئی تصور کرے کہ پیغمبر کی ساری بیبیاں اچھی تھیں اور ان کے درمیان آپس میں کوئی نزاع نہیں تھا بلکہ دست بدست فرائض کی تکمیل اور وظائف کی انجام دھی میں آپ کی مدد کرتی تھیں، پہلی اور دوسری فصل میں ازواج پیغمبر کی ناسازگاری کے واقعات بیان ھوئے اور معلوم ھوا کہ اچھی بیویاں جیسے زینب بنت جحش جو پیغمبر کے لئے شھد کا شربت تیار کرتی تھیں اور دوسری بیویوں پر افتخار کرتی تھیں کہ خدا نے ان کا عقد پڑھا ھے جب کسی سفر میں جناب صفیہ کا اونٹ چلنے سے انکار کر دیتا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب سے درخواست کرتے ھیں کہ وہ جناب صفیہ کو اپنے اونٹ پر سوار کرلیں تو جواب دیتی ھیں کہ کیا میں آپ کی یہودی بیوی کو اپنے اونٹ پر سوار کرلوں؟ ایسا ھرگز نہیں ھوگا۔1
البتہ یہ ایک نمونہ وہ بھی پیغمبر کی اچھی بیویوں میں سے ایک کی جانب سے سامنے آیا ھم اس فصل میں دوسروں کے ساتھ پیغمبر کے طرز معاشرت اور سلوک کا جائزہ لیں گے تاکہ اس سے اپنی روز مرہ کی زندگی میں درس عبرت لیں۔
دوسروں کے ساتھ سلوک پیغمبر(ص) کے نمونے
افراد کی شخصیت کو جاننے اور پہچاننے کی ایک راہ اس کے تربیت یافتہ لوگوں کی شناسائی ھے۔ اگر ھم پیغمبر(ص) کی شخصیت اور آپ کی شرافت و بزرگی کا اس زاویے سے جائزہ لیں، تو ھمیں بہت اچھے نتائج ھاتھ آئیں گے۔
1۔ پیغمبر کے آرام کی خاطر اپنی جان قربان کرنا
پیغمبر کے پروردہ اور عاشق افراد میں ایک نام ابو رافع ھیں۔ وہ پیغمبر کے چچا عباس بن عبد المطلب کے غلام تھے۔ عباس نے انھیں پیغمبر کو بخش دیا اور وہ اسلام لے آئے۔ اس کے بعد پہلے آپ نے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ھجرت کی۔ نیز پیغمبر کی بیعتوں میں موجود تھے اور آپ سے عہد کیا اور بالآخر جب جناب عباس کے اسلام لانے کی خبر پیغمبر کے گوش گزار کی تو آپ(ص) نے ان کو آزاد کردیا۔
ابو رافع جو کہ پیغمبر کے اخلاق و عادات کے عاشق تھے آپ سے جدا نہ ھوئے اور مسلسل گھر میں آپ کی خدمت گزاری میں مشغول رھتے تھے اور اس کو آزادی پر ترجیح دیا۔ ایک روز وہ پیغمبر کے پاس آئے کیا دیکھا کہ آپ استراحت فرما رھے ھیں اور ایک سانپ آپ کی جانب چلا آرھا ھے۔ سوچنے لگے کہ اگر سانپ کو ماریں تو ممکن ھے پیغمبر خواب سے بیدار ھو جائیں اور اگر کوئی اقدام نہ کریں تو ممکن ھے سانپ پیغمبر کو ڈس لے۔ اس لئے پیغمبر کی جان کی حفاظت اور آپ کے خواب میں خلل نہ پڑنے کی خاطر پیغمبر اور سانپ کے درمیان لیٹ گئے تاکہ آنحضرت کی سپر ھو جائیں۔ کچھ دیر بعد پیغمبر خواب سے بیدا ھوئے اس حال میں کہ آپ آیہ(انَّما وَلِیُّكُمُ الله وَرَسُوله) کی تلاوت فرما رھے تھے اور ابو رافع کو اپنی بغل میں دیکھا۔
سوال کیا اے ابو رافع یہاں پر کیا کر رھے ھو؟ کیوں یہاں پر لیٹے ھو۔ ابو رافع نے ماجرا بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا: اٹھو اور سانپ کو مار دو 2 شایان ذکر ھے کہ آیہ انّما وَلِیُّكُمُ الله وَرَسُوله حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں ھے اور سورہ مایدہ کی آیات میں سے ھے اور پیغمبر کی عمر کے آخری ایام میں نازل ھوئی ھے۔ اور جناب عباس کا اسلام لانے کا قصہ حتما اس سے پہلے کا ھے بنا بر این ابو رافع اس وقت غلام نہ تھے بلکہ آزاد تھے۔ بدیھی ھے کہ ایسا انسان اپنی حیات اور زندگی کو ھر چیز پر مقدم رکھے کیونکہ استقلال و آزادی کا مزہ پہلی بات منھ کو لگ رھا ھے۔ لیکن ابو رافع نہ صرف یہ کہ پیغمبر کی جان کی حفاظت کو اپنی زندگی پر ترجیح دیتے ھیں بلکہ اس فکر میں ھیں کہ اپنی جان کو پیغمبر کے آرام پر فدا کردیں، اس وجہ سے پیغمبر اور سانپ کے درمیان فاصلہ ھو جاتے ھیں تاکہ خود موت کی آغوش میں میٹھی نیند سو جائیں اور پیغمبر اسلام کے آرام اور نیند میں کوئی خلل واقع نہ ھو۔
پیغمبر اسلام کا طرز رفتار اور سلوک کیسا تھا کہ آپ کا غلام یا بہر حال ایک انسان آپ کا اس طرح عاشق ھوجاتا ھے اور آپ کے تھوڑی دیر کے آرام کے لئے اپنی جان کی قربانی دیتا ھوا نظر آتا ھے در آنحالیکہ کسی رخ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دنیاوی امور یا انعام کی لالچ وغیرہ نے ابو رافع کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ھے یہاں پر ھم آپ کی ایک خصوصیت کی طرف جو اس داستان میں سرسری طور پر نظر آتی ھے اشارہ کر رھے ھیں۔
اچھے کام کے عوض بڑی جزا کا بڑا بدلا
جیسا کہ گزر چکا ھے ابو رافع جناب عباس کے غلام تھے اور آپ نے انھیں پیغمبر(ص) کو بخش دیا تھا اور جب ابو رافع نے جناب عباس کے مسلمان ھونے کی خبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہونچائی تو آپ(ص) نے انھیں آزاد کردیا اس سے پتہ چلتا ھے کہ پیغمبر(ص) اچھے کام کو ھر چند چھوٹا ھو نظر انداز نہیں فرماتے تھے اور اس کے مقابلے میں زیادہ اجر و پاداش ادا کرتے تھے۔
جب ایک انسان کے اسلام لانے کی خبر کی اتنی بڑی جزا ھو اور یہ بھی روشن ھے کہ انسان احسان کا بندہ ھے اس سے ابو رافع کے پیغمبر(ص) سے عشق کا راز معلوم ھوتا ھے۔
البتہ یہ تنہا ایک علت ھے جو اس ماجرا میں منظر عام پر آئی ھے اور ھم تک پہونچتی ھے؛ یقینا آپ بے شمار خصوصیات کے مالک تھے جنھوں نے ابو رافع کو آپ کا عاشق اور گرویدہ بنا رکھا تھا کہ شاید ھم اس نوشتہ میں آپ کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرسکیں۔
چنانچہ ھر شخص خود سے سوال کرتا ھے کہ اگر جناب عباس کے اسلام لانے کی خبر کی ایسی جزا ھے تو پھر سانپ کے اور آپ کے درمیان حائل ھونے اور سانپ کو مارنے کی کیا جزا ھوگی؟ ابو رافع اس طرح نقل کرتے ھیں:
جب میں نے سانپ کو مارا تو آنحضرت(ص) نے میرا ھاتھ پکڑا اور فرمایا: اے ابو رافع! جس وقت ایک گروہ علی(ع) سے جنگ کرے گا چونکہ وہ حق پر ھونگے اور وہ گروہ باطل پر ھوگا تمھاری کیا حالت ھوگی اور تمھارا موقف کیا ھوگا؟ میں نے آنحضرت(ص) سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا فرمائیے کہ اگر میں امام کے دشمنوں کو دیکھوں تو خدا مجھکو ان سے لڑنے کی قوت عطا کرے اور آنحضرت(ص) نے دعا فرمائی اس کے بعد میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لیکر لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا: جو شخص چاھتا ھے کہ میری جان اور میرے اھلبیت کے سلسلے میں میرے مورد اعتماد شخص کی طرف دیکھے تو ابو رافع کی طرف دیکھے کہ وہ میری جان کا امین ھے۔ 3
ابو رافع کے دو عمل (پیغمبر کے اور سانپ کے درمیان حائل ھونا اور سانپ کا مارنا) اور پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی جزا حضرت علی(ع) اور مخالفین کے درمیان ھونے والی جنگ کی پیشین گوئی اور حضرت علی(ع) کا حق پر ھونا اور آپ کی نصرت کا واجب ھونا اور ابو رافع کے حق میں پیغمبر کا دعا کرنا) اس روایت کا مضمون ھے یہی وجہ ھے کہ ابو رافع جنگوں میں حضرت علی(ع) کی خدمت میں تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی شھادت کے بعد کوفے میں اپنے گھر کو فروخت کرکے حضرت امام حسن علیہ السلام کے ھمراہ مدینہ چلے آئے اور آپ کی خدمت میں رھے۔ 4
اگر اس نکتہ کی طرف توجہ مرکوز رھے کہ لوگ ھر زمانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ھیں اور اس بات کی کوشش کرتے ھیں کہ کسی عالی رتبہ مقام کے حامل شخص سے اپنے بارے میں کوئی تائید حاصل کریں تو روشن ھوگا کہ پیغمبر(ص) نے ابو رافع کے سلسلے میں کیا لطف و عنایت کی ھے۔ آپ اپنی عمر کے آخری ایام میں درانحالیکہ تمام جزیرۂ نمائے عرب پر آپ کی حکومت تھی اور آپ لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رھے تھے ابو رافع کو کتنی اھم سند عطا فرماتے ھیں اور ان کو مجمع عام میں اپنے اور اپنے اھلبیت کے امین کی حیثیت سے متعارف کراتے ھیں اور وہ بھی اس سے مادی اور دنیاوی فائدہ اٹھانے کے بجائے صحیح اور درست راہ کا انتخاب کرتے ھیں اور اس کی پیروی کرتے ھیں۔
2۔ زید بن حارثہ، قیدی سے منھ بولا بیٹا بننے تک
زید، حارثہ کے بیٹے شراحیل کے پوتے اور اپنے خانوادے میں بہت محبوب شخص تھے وہ اپنی ماں “سُعدیٰ” کے ھمراہ قبیلۂ طی کی ایک شاخ بنی لعن(جو ان کی ماں کا قبیلہ تھا) کی زیارت کو جارھے تھے کہ بنی القین کے لشکر نے بنی معن پر حملہ کردیا اور اسیروں کے درمیان زید کو بھی اسیر کرلیا اور بازار عکاظ میں ان کو فروخت کرنے کے لئے لائے، حکیم بن حزام نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لئے خرید لیا اور حضرت خدیجہ نے ان کو پیغمبر کی بعثت سے پہلے جب کہ وہ ابھی آٹھ سال کے تھے آپ(ص) کو بخش دیا۔ باپ نے بیٹے کی جدائی میں بہت غمناک اشعار کہے جن سے بیٹے کے تئیں ان کی گہری محبت کا پتہ چلتا ھے۔
بَکیتُ علی زَیدٍ وَلَمۡ أدۡرِ ما فَعَل أحَیٌّ یُرجٰی أم أَتیٰ دونه الأجَل فَوَالله ما ادری واِن کنتُ سائلاً أغالَكَ سَهلُ الأرضِ أمۡ غالَكَ الجَبَل فیالیتَ شعری هلۡ لَكَ الدَّهر رَجعة فَحَسبی مِنَ الدُّنیا رُجوعَكَ لی مَجَل۔ 5
“میں نے زید پر آنسو بہائے اور مجھے نہیں معلوم میرا بیٹا کیا ھوا، آیا زندہ ھے جس سے ملنے کی امید ھے یا موت کی آغوش میں میٹھی نیند سو گیا ھے۔
بخدا نہیں معلوم اگر چہ میں نے اس کے بارے میں سب سے پوچھا اس کو زمین کھا گئی یا آسمان نکل گیا۔
اے کاش مجھے معلوم ھوتا کہ زمانے میں تیرے پلٹنے کی امید ھے دنیا سے تیرا تنہا پلٹنا ھی میرے لئے کافی ھے”۔
زمانہ گذرا یہاں تک کہ قبیلۂ بنی کلب کے ایک گروہ نے فریضۂ حج انجام دیا اور وھاں پر زید کو دیکھا اور پہچان لیا اور زید نے بھی ان لوگوں کو پہچان لیا اور کہا: میں جانتا ھوں انھوں(ماں باپ) نے میری جدائی میں بہت جزع و فزع کیا ھے” اور چند اشعار کے ضمن میں اپنی سلامتی اور اپنے راضی ھونے کی خبر دی اور خدا کی حمد و ثنا کی کہ اس نے مجھے ایسے پیغمبر کے گھر میں جگہ دی ھے جو اھل کرم و بزرگی ھے۔
فَانّی بحَمدِ الله فی خَیرِ اُسرَة کرامٍ مَعَدٍّ کابراً بَعد کابرٍ۔ 6
طائفہ بنی کلب نے زید کے زندہ ھونے اور ان کے حالات کی خبر ان کے باپ تک پہونچائی زید کے باپ اور چچا فدیہ دینے اور زید کو آزاد کرانے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں آئے اور عرض کیا “اے عبد المطلب کے فرزند! اے ھاشم کے فرزند! اے اپنی قوم کے سردار کے بیٹے! ھم اس لئے آئے ھیں تاکہ آپ سے اپنے بیٹے کے سلسلے میں گفتگو کریں۔ ھم پر منت و احسان کیجئے اور فدیہ لے کر ھمارے بیٹے کو آزاد کردیجئے”۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس کو؟
انھوں نے کہا: زید بن حارثہ کو۔
فرمایا: کوئی دوسری تجویز کیوں نہیں پیش کرتے؟
انھوں نے کہا کونسی تجویز؟
پیغمبر نے فرمایا: “اس کو بلاؤ اور اسے اختیار دے دو۔ اگر اس نے تمھارا انتخاب کیا تو تمھارا ھے اسے لے جاؤ(میں کوئی فدیہ نہیں لوں گا) اور اگر مجھے انتخاب کیا، تو خدا کی قسم جو مجھ کو ترجیح دے میں اس کو کسی صورت کسی چیز سے معاملہ نہیں کروں گا”۔
انھوں نے کہا۔ “آپ نے بڑے انصاف سے گفتگو کی اور ھم پر احسان کیا”
پیغمبر نے زید کو آواز دی اور فرمایا: ان لوگوں کو پہچان رھے ھو؟
کہا: ھاں یہ میرے والد اور یہ میرے چچا ھیں۔
پیغمبر نے فرمایا: “میں وھی ھوں جسے تم پہچانتے ھو اور میری ھم نشینی تمھاری نگاھوں کے سامنے ھے ھم میں سے کس کو انتخاب و اختیار کرتے ھو جسے انتخاب کرنا چاھو انتخاب کرلو”۔
زید نے کہا: میں ان لوگوں کو آپ پر ترجیح نہیں دوں گا آپ ھی میرے لئے باپ اور چچا ھیں زید کے باپ اور چچا نے کہا: اے زید تجھ پر وائے ھو کیا تو غلامی کو آزادی پر، باپ، چچا اور اپنے گھر والوں پر ترجیح دے گا؟
زید نے جواب دیا: ھاں آپ(ص) میں ایسے خصوصیات اور خوبیاں ھیں کہ میں کسی کو بھی آپ(ص) پر ترجیح نہیں دوں گا
جب رسول اسلام(ص) نے یہ مشاھدہ کیا تو زید کو حجر اسماعیل پر لے کر گئے اور اعلان کیا اے حاضرین گواہ رھنا کہ زید میرا بیٹا ھے وہ میری میراث پائے گا اور میں اس کی میراث پاؤں گا”
جب زید کے باپ اور چچا نے یہ مشاھدہ کیا تو خوش ھوگئے اور آسودہ خاطر ھوکر خوشی خوشی اپنے وطن لوٹ گئے۔ 7
زید کی داستان سے پتہ چلتا ھے کہ زید اپنے خاندان میں کافی محبوب تھے تبھی تو ان کے فقدان اور جدائی میں اشعار لکھے اور ان کو ڈھونڈھنے کے لئے چاروں طرف افراد روانہ کئے اور فدیہ دے کر ان کو آزاد کرانے کے لئے تضرع و زاری اور التماس کیا۔
عرب میں نسب کی اھمیت
اگر زید کے کام اور اس کام کے درمیان جو زیاد بن عبید اور اس کے بیٹے عبید اللہ بن زیاد نے حسب و نسب کے حصول کے لئے انجام دیا موازنہ کیا جائے تو حسب و نسب کی قدر و قیمت روشن ھوجائے گی اور اس وقت صراحت کے ساتھ یہ اعلان کیا جا سکتا ھے کہ ھم ابھی تک پیغمبر کے اخلاق اور آپ کے افکار و نظریات کے ادراک سے عاجز ھیں اور یہ نہیں سمجھ سکتے کہ آپ نے کس طرح ایسے عاشقوں اور چاھنے والوں کی تربیت کی۔
زیاد سمیہ نامی عورت کا بیٹا تھا جو زنا اور بدکاری میں شھرت یافتہ تھی اور اپنی مثال آپ، اسی وجہ سے معلوم نہ ھوسکا کہ زیاد کس کا بیٹا ھے
آیا اس کا نام عبید ھے یا کوئی دوسرا نام رکھتا ھے؟
زیاد مرد مسلمان اور حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں گورنر کے عھدہ پر فائز تھا لیکن چونکہ خامل النسب تھا اس لئے ھمیشہ اپنی گمنامی کی آگ میں جھلستا رھتا تھا۔
معاویہ نے اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اس سے کہا: اگر اپنی راہ و روش کو چھوڑ کر میری طرف چلے آؤ تو تم کو اپنے باپ ابوسفیان سے ملحق کرلوں گا۔ زیاد ابوسفیان سے ملحق ھونے اور حسب پیدا کرنے کے لئے حق کو اپنے پیروں تلے روندنے پر تیار ھوگیا اور حق کو چھوڑ کر معاویہ سے ملنے کے عوض زیاد بن ابی سفیان پکارا جانے لگا۔ 8
حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کربلا کے وقت یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد کے نام خط لکھا کہ یا اس بلا کو دور کرو یا یہ کہ میں تمھیں اپنے اصلی حسب و نسب(عبید) سے ملحق کردوں۔
ابن زیاد نے ابو سفیان کے حسب و نسب پر باقی رھنے کے لئے اتنا سنگین اور بھیانک جرم کیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و انصار با وفا کو کربلا کے تپتے صحرا میں تین دن کا بھوکا پیاسا شھید کردیا اور یہ صرف اس لئے کیا کہ ابو سفیان کے نسب پر باقی رھے مبادا یزید اس کو ابوسفیان کے نسب سے خارج کردے۔
بہر حال اس زمانے کے لوگوں کی نظر میں حسب و نسب کی اتنی اھمیت اور قدر و قیمت تھی کہ اپنے اعتقادات کو بھی اس پر قربان کر دیتے تھے چنانچہ فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کرنے کی ذلت و رسوائی مول لی۔
آباء و اجداد کے نام کا یاد رکھنا اور جنگوں میں اشعار کے ضمن میں ان کا نام لیکر مبارز طلبی کرنا اس سے نسب کی اھمیت کی عکاسی اور ترجمانی ھوتی ھے۔
پیغمبر کا اخلاق اور زید جیسے غلام کے تئیں آپ کی محبت کتنی اور کیسی تھی کہ وہ ان کے نزدیک غلامی کی زندگی گزارنے اور بے حسب و نسب ھونے کو آزادی اور حسب نسب پر ترجیح دیتے ھیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کا اثر تھا یا پیغمبر کے اخلاق حسنہ کا کرشمہ یا کوئی دوسری چیز؟ بہر حال بانی اسلام کردار و صفات اور خصوصیات قابل غور ھیں۔
زید نے جو اشعار اپنے والدین کے پاس بھیجے ھیں اس سے پتہ چلتا ھے کہ وہ کتنے سمجھ دار عقلمند اور قوی ادراک کے مالک تھے۔ اس وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) کا انتخاب کرنا اور آپ کے پاس ٹھرنا احساسات یا سادگی کی بناء پر نہیں تھا۔
اسی طرح ان جملوں سے جو انھوں نے باپ اور چچا کے سامنے اپنی زبان سے ادا کئے پتہ چلتا ھے کہ واقعاً انھوں نے پیغمبر میں ایسے خصائل محمودہ اور اخلاق پسندیدہ دیکھے تھے جس کو ھر چیز پر ترجیح حاصل ھے اور کوئی چیز اس کا بدل نہیں قرار پاسکتی۔
رسول گرامی اسلام کی شرافت و بزرگی کا ایک نمونہ یہاں پر اور زید کے لئے فدیہ لینے کے ضمن میں مشخص ھوتا ھے جس کی طرف اشارہ کرنا لطف سے خالی نہیں ھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “زید کو آزاد چھوڑ دو، اگر زید نے تمھارا انتخاب کیا تو زید تمھارا، اور اگر میرا انتخاب کیا تو میرے پاس رھے اس جملہ سے روشن ھوتا ھے کہ اگر زید اپنے باپ اور قبیلہ کو منتخب کرتے تو پیغمبر ان لوگوں سے فدیہ نہ لیتے اور بغیر ان سے کچھ لئے ھوئے زید کو ان کے حوالے کر دیتے، اسی وجہ سے وہ لوگ بہت خوشحال ھوئے اور عرض کیا: “آپ نے بے حد انصاف کا ھمارے ساتھ سلوک کیا ھے اور ھم پر احسان کیا ھے”۔
جب زید نے پیغمبر کے پاس رھنے کو انتخاب کیا تو پیغمبر نے زید کی اچھی تشخیص کو بے جواب نہیں رکھا اور اس کے مقابلے میں زید کے اوپر چند احسان اور کئے۔ زید کو آزاد کر دیا، مجمع عام میں اپنا بیٹا کہا اس طرح سے کہ اس کے بعد ان کو زید بن محمد کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ھجرت کے آٹھویں سال آیۂ(اُدۡعُوهمۡ لآبائِهمۡ) 9 نے حکم دیا کہ “لوگوں کو ان کے اصلی باپ کے نام سے پکارو”۔
اسی طرح پیغمبر نے زید کو اپنا وارث اور خود کو زید کا وارث قرار دیا تاکہ منھ بولا بیٹا ھونا فقط رسم ادائیگی نہ ھو اور یہ حکم باقی تھا یہاں تک کہ آیۂ(وَ اوُلُوا الأرۡحامِ بَعضُهمۡ اَوۡلَی ببَعۡضٍ فِی كِتَابِ الله) 10 نازل ھوئی
………………..
حواله جات
1. دیکھئے: مسند احمد، ج۶ ص۳۳۷؛ و اسد الغابۃ، ج۷، ص۱۶۹۔
2. معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۵۔ ۱۷۶۔
3. معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۶۔
4. معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۷۶۔ ۱۷۷۔
5. استیعاب، ترجمہ، رقم ۸۴۸، الاصابہ، ترجمہ، رقم ۲۸۹۷؛ سیرۂ ابن ھشام، ج۱، ص۲۴۸؛ طبقات، ج۳، ص۲۸۔
6. اصابہ، ص۲۸۹۷؛ استیعاب، ص۸۴۸؛ طبقات، ج۳، ص۲۸۔
7. اسد الغابۃ، ص۲۵۰۔ ۲۵۲۔
8. اسد الغابۃ، ج۲، ص۳۳۶۔ ۳۳۷۔
9. احزاب(۳۳) آیت ۵۔
10. احزاب(۳۳) آیت ۶۔