- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/10
- 0 رائ
حضرت زینب کی جناب زید سے شادی
زید کے ساتھ پیغمبر کی شفقت و محبت کو دوسرے نمونے کے عنوان سے حضرت زینب کے ساتھ ان کی شادی کو کہا جا سکتا ھے۔ زینب، آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ نے ان کی زید سے شادی کرنے کی درخواست کی لیکن زینب مائل نہ تھیں یہاں تک کہ (وَما کانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مؤمِنَة اذا قَضَی الله ورَسُولُه أمۡراً أنۡ یَكُونَ لَهمُ الخِیَرَة مِنۡ أمرِهمۡ وَمَنۡ یَعصِ الله وَرَسُولَه فَقَدۡ ضَلَّ ضَلالاً مُبیناً) 11 “کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ھے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی چیز کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دیں تو وہ اس سلسلے میں اپنے اختیار کا استعمال کرے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ھوئی گمراھی میں مبتلا ھوگا” نازل ھوئی اور زینب نے اس شادی پر رضایت دیدی۔ اس سے پتہ چلتا ھے کہ پیغمبر اسلام اس شادی پر زور دے رھے تھے اور اس کی دلیل قرآنی آیت لفظ میں “قضیٰ” کی تعبیر ھے۔ اس سے پتہ چلتا ھے کہ پیغمبر زید کو بہت زیادہ چاھتے تھے تبھی اس شادی پر بہت زیادہ زور دے رھے تھے البتہ یہ اصرار فرمان خدا کے تحت تھا اور اس میں کچھ مصلحتیں تھیں جن کی طرف پیغمبر کی زینب سے شادی کے ذیل میں اشارہ کیا جا چکا ھے۔
زید سے پیغمبر کی محبت ایک اور کا نمونہ یہ ھے کہ آپ نے زید کے لئے ام ایمن کو بعنوان زوجہ منتخب کیا ام ایمن کنیز تھیں آپ کے والد ماجد جناب عبد اللہ نے ان کو آزاد کیا تھا۔ ان کا نام برکہ تھا۔ انھوں نے پیغمبر کی حصانت اور پرورش کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ابتداء ھی میں اسلام کی طرف مائل ھوئے اور دونوں ھجرت حبشہ اور مدینہ میں شریک تھیں۔ ام ایمن ایسی خاتون تھیں پیغمبر جن سے ملنے اور ان کی عیادت کرنے ان کے گھر جایا کرتے تھے آنحضرت نے ایسی محبوب اور بلند شخصیت کی مالک عورت سے زید کی شادی کی جس کے نتیجے میں اسامہ بن زید کی ولادت ھوئی جو پیغمبر کی وفات کے وقت اٹھارہ سال کے تھے اور آپ نے اس کو شام کی طرف جانے والے لشکر کا امیر مقرر کیا تھا جبکہ ابوبکر اور عمر جیسی بزرگ ھستیاں اس لشکر میں شامل تھیں 12 تاکہ دوسروں پر ان کی برتری و بلندی کا پتہ چلے۔
پیغمبر کی محبتیں
یہاں پر اگر چہ زید کے سلسلے میں گفتگو ھو رھی ھے لیکن ام ایمن کے ساتھ آپ کا سلوک اور طرز عمل بھی بہت راہ گشا ھے، کیونکہ یہ نکتہ سامنے آتا ھے کہ آپ ھر شخص کا احترام کرتے تھے اور ان کے اوپر اپنی گونا گوں محبتوں کے موتی نثار کرتے تھے۔ آنحضرت(ص) نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا: ام ایمن میری ماں کے بعد میری ماں ھیں۔ 13 اس طرح کے طرز عمل کا سبب آپ کا تواضع خود گذشتگی اور آپ کی جملہ امور میں تواضع و انکساری کی دلیل ھے۔
لوگوں کے دلوں میں الفت و محبت پیدا کرنا بذل و بخشش اور داد و دھش سے مخصوص نہیں ھے بلکہ اس کے لئے وہ دل چاھئے جو لوگوں کے عشق و محبت کے جذبے سے سرشار اور مالا مال ھو اور نامناسب اوقات میں قول و عمل میں اور ھر شخص کی شخصیت کی مناسبت سے ظھور کرے۔
جب پیغمبر ام ایمن جیسی عورت کے ساتھ جو عمر میں آپ سے بڑی ھیں ایسا سلوک کریں ان کی عیادت کو جائیں، ان کو اپنی ماں کہیں اور جب زید کے ساتھ آپ کا طرز عمل ایسا ھو اور آپ کو زید کی شادی کی فکر ھو اور جب زید کے باپ اور چچا کا سامنا ھو تو زید کو مخیر کرنے کی تجویز پیش کریں اور جب اسامہ بن زید کی لیاقت کو دیکھیں تو سردار لشکر مقرر کریں وغیرہ یہ سب پیغمبر کے اخلاق حسنہ اور بزرگواری کے نمونے ھیں۔
3۔ انس بن مالک
اخلاق پیغمبر کا دوسرا نمونہ انس بن مالک کے ساتھ آپ کا طرز عمل ھے وہ تقریبا نو سال پیغمبر کی خدمت میں تھے۔ ان کی کوئی خاص خصوصیت یا پیغمبر کی تعریف و توصیف ھم تک نہیں پہونچی، 14 بلکہ شیعہ کتابوں میں ان کی بہت زیادہ مذمت وارد ھوئی ھے مثلا یہ کہ وہ کتمان شھادت کرتے تھے اور اسی وجہ سے امیر المومنین حضرت علی(ع) کی نفریں کے مستحق قرار پائے اور برص کے مرض میں مبتلا ھوئے۔ 15
وہ پیغمبر کے اخلاق کے سلسلے میں کہتا ھے کہ نو سال پیغمبر کی خدمت میں رھا اس مدت میں کبھی مجھ سے یہ نہیں کہا: کہ کیوں ایسا کیا؟ اور کبھی میری عیب جوئی نہیں کی 16 وہ نقل کرتا ھے:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قسم کی غذا رکھتے تھے، ایک سے افطار کرتے تھے اور ایک کو سحر میں تناول فرماتے تھے اور کبھی ایک ھی غذا ھوتی تھی کہ دودھ ھوتا تھا اور پانی میں بھگوئی ھوئی روٹی۔
ایک رات میں نے پیغمبر کے لئے افطار تیار کیا لیکن آنحضرت(ص) کو کسی سبب سے آنے میں دیر ھوئی، میں نے گمان کیا کہ آنحضرت کے کسی صحابی نے آپ کی دعوت کی ھے چنانچہ آپ کے تاخیر سے آنے کے سبب میں نے وہ غذا کھالی۔ آنحضرت(ص) عشاء کے کچھ دیر بعد تشریف لائے میں نے آپ کے ھمراہ آنے والوں میں سے ایک سے پوچھا: کیا پیغمبر کی کسی کے یہاں افطار پر دعوت تھی؟ ان لوگوں نے کہا نہیں یہ سن کر میں غم و اندوہ میں ڈوب گیا کہ اگر پیغمبر نے اپنی غذا مانگی تو میں کیا جواب دوں؟ پیغمبر رات بھر بھوکے رھے اور دوسرے دن بھی آپ نے روزہ رکھا اور اس دن سے لیکر آج تک مجھ سے اس شب کی غذا کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ 17
سامنے کی بات ھے کھانا پانی انسان کی ضروریات میں شامل ھے اور مدینے کی گرم ھوا پر اگر روزہ کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ ضرورت دو چند ھوجاتی ھے لیکن اس کے باوجود آپ نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ غذا کیا ھوئی؟
دوسرے لفظوں میں نہ صرف یہ کہ حضرت نے انس کو توبیخ نہیں کی بلکہ اپنی بھوک اور پیاس کو بھی چھپایا اور یہ اس زمانے میں ھے جب آپ مدینے میں حاکم ھیں کیونکہ انس کی خدمت گزاری مدینہ میں تھی۔
یہاں پر رسول گرامی اسلام کی دوسری خصوصیت نمایاں ھوتی ھے اور وہ حیاء دار ھونے اور عیب جوئی نہ کرنے کے ساتھ ساتھ راز کی پردہ پوشی ھے جو انس کے استعجاب و حیرت کا باعث بنی جو نکتہ ھمارے لئے قابل توجہ ھے وہ پیغمبر کی غذا کا سادہ اور معمولی ھونا ھے کہ وہ غذا، یا دودھ تھا یا پانی میں بھگوئی ھوئی چور روٹی کہ حضرت ان دو میں سے کسی ایک پر اکتفاء کرتے تھے پیغمبر کی اخلاقی خصوصیات اور آپ کے طرز عمل میں گفتگو بہت زیادہ ھے لیکن جیسا کہ پہلے بیان ھوا جو چیز نقل ھو رھی ھے صرف بعنوان نمونہ ھے
4۔ مرد یہودی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت علی علیہ السلام اس طرح نقل فرماتے ھیں کہ ایک یہودی حضرت سے چند دینار کا طلبگار تھا اور اس نے وہ دنیار حضرت سے طلب کئے۔ آنحضرت نے فرمایا: اے مرد یہودی اس وقت تجھے دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ھے۔ یہودی نے کہا: جب ایسا ھے تو میں بھی آپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ آپ میرا قرض واپس نہ کریں۔ پیغمبر نے فرمایا: کوئی حرج نہیں تیرے پاس بیٹھتا ھوں۔ حضرت وھیں بیٹھ گئے اور اسی جگہ نماز ظھر و عصر و مغرب و عشاء اور دوسرے دن کی صبح کی نماز ادا کی۔ اصحاب نے یہودی کو ڈرایا دھمکایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ اصحاب پر پڑی اور آپ نے فرمایا: کیا کر رھے ھو؟ اصحاب نے فرمایا: اے اللہ کے رسول اس یہودی نے آپ کو قید کر رکھا ھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھے اس لئے مبعوث نہیں کیا کہ میں کسی ذمی یا غیر ذمی پر ظلم ڈھاؤں”
ابھی دن کا کچھ ھی حصہ گزرا تھا کہ وہ یہودی اقرار شھادتین کرکے مسلمان ھو گیا اس کے بعد کہا: میرا آدھا مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے۔ 18
اگر اخلاق پیغمبر کو ایک جملے میں خلاصہ کرنا چاھیں تو اس کلام قرآنی سے بہتر اور کچھ نہیں ھوسکتا (فبما رحمة من الله لنت لهم ولو کنت فظا غلیظا القلب لا نفضوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لھم وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی الله ان الله یحب المتوکلین) 19 “اے پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے مہربان اور نرم خو ھو۔ اور اگر تم ان کے لئے تند خو اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس نہ رکتے اور ادھر ادھر منتشر ھوجاتے” لھذا انھیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو اور (جنگی امور میں) ان سے مشورہ کیا کرو اور جب پختہ ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ رکھو یقیناً اللہ توکل (بھروسہ) کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے”۔
“فبما رحمۃ من اللہ” میں جو فاء ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ اس آیت کا تعلق ما قبل کی آیات سے ھے جو جنگ احد میں بعض کی بد نظمی، بعض کے فرار اور تیسرے گروہ کی کار شکنی سے مربوط اور پیغمبر کی خوش اخلاقی اور نرم خوئی اور ان کے ساتھ پیغمبر کی مہربانی کو رحمت الہی کا نتیجہ قرار دیا ھے اس کے بعد (حرف شرط امتناعی) کے ذریعے جو کہ امتناع کے لئے استعمال ھوتا ھے فرماتا ھے: “بفرض محال اگر تم تند خو اور بد مزاج ھوتے تو سب تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے”
پیغمبر اسلام نے اس آیت سے سمجھ لیا کہ انھیں سبھی کے ساتھ حتی کہ ضعیف الایمان، منافقین، جنگ سے فرار کرنے والوں سے نرم خوئی اور مہربانی سے پیش آنا ھے حضرت رسول خدا(ص) کی مرد یہودی کے ساتھ مہربانی اس آیت کریمہ کا مفاد ھے بہر حال یہ آیت گھر کے لوگوں یا کنیز و غلام سے سلوک کے سلسلہ میں نہیں ھے بلکہ ھر چیز سے پہلے اپنے دشمنوں سے بھی محبت آمیز روابط کی سفارش کرتی ھے اور پھر اس کے بعد ارشاد ھوتا ھے کہ اپنے دیگر کاموں میں بھی ان سے مشورہ کریں اور ان کے نظریات معلوم کریں۔
5۔ پیغمبر اور زن یہودی کا قصد سوء(ارادۂ قتل)
سب سے زیادہ اھم اس یہودی عورت کی داستان ھے جس نے پیغمبر کو زھر دینے کا پختہ ارادہ کیا: چنانچہ اس نے گوسفند ذبح کیا اور اس کو زھر سے آلودہ کیا اور چونکہ جانتی تھی کہ پیغمبر اگلا دست زیادہ پسند کرتے ھیں اس لئے اس حصے کو زیادہ زھر سے آلودہ کیا اور گوشت لیکر پیغمبر کی خدمت میں آئی ۔
پیغمبر نے ایک لقمہ منھ میں رکھا اور فورا ھی اس کو باھر تھوک دیا اور فرمایا: “یہ گوشت کہتا ھے کہ میں مسموم ھوں” بشر بن براء نے اس گوشت سے ایک لقمہ کھایا اور ان کی موت واقع ھوگئی۔ یہودی عورت کو حاضر کیا گیا۔ پیغمبر نے اس سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا: “میں نے سوچا اگر پیغمبر خدا ھونگے تو ان کو زھر کوئی نقصان نہیں پہونچائے گا اور اگر بادشاہ ھوئے تو لوگوں کو نجات مل جائے گی”۔ پیغمبر نے اس زن یہودیہ کو معاف کردیا 20
یہ خبر(حدیث) گوناں گوں اسناد کی مالک ھے اور اس پر ادعاء تواتر کیا جاسکتا ھے۔ لیکن جو چیز یہاں پر اور اخلاقی پہلو سے اھمیت کی حامل ھے وہ یہ ھے کہ پیغمبر اوج قدرت اور خیبر کے یہودیوں پر غلبہ و پیروزی پانے کے بعد ایسی عورت کو معاف کردیتے ھیں جو آنحضرت کے قتل پر کمر بستہ تھی اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تھا باوجودیکہ حسب ظاھر شرع جواز بلکہ اس عورت کے قتل کے وجوب پر ساری دلیلیں دلالت کرتی ھیں۔
لوگوں کے ساتھ ملاقات اور ملنے جلنے میں یہ پیغمبر کی کرامت و بزرگواری کے نمونے ھیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ مہر و محبت اور عطوفت و مہربانی میں سب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ چنانچہ خداوند عالم نے خود اپنے اوصاف میں سے دو وصف کے ساتھ آپ کو یاد کیا ھے۔ (لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم) 21 “یقینا تمھارے پاس وہ پیغمبر آیا جو تمھیں میں سے ھے۔ اس پر تمھاری ھر مصیبت شاق اور دشوار ھے تمہاری ھدایت کے بارے میں حریص ھے اور مومنین کے لئے دلسوز اور مہربان ھے
مرحوم طبرسی مجمع البیان میں فرماتے ھیں:
بعض قدماء نے کہا ھے: خدا نے اپنے اولیاء اور انبیاء میں سے کسی کے لئے اپنے اسماء میں سے دو اسم کے درمیان جمع نہیں کیا مگر یہ شرف اور فضیلت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی ھے چنانچہ فرمایا “بالمومنین رؤوف رحیم” اور خدا نے اپنے بارے میں فرمایا: “ان الله بالناس لرؤوف رحیم” 22۔23
وہ ھمیشہ لوگوں کے درمیان تھے اور انھیں میں سے تھے۔ ان کی مشکلات، پریشانیوں اور جہالت سے آشنا تھے ۔ آپ پر بہت شاق اور دشوار تھا کہ لوگ سختیوں اور مشکلات میں گرفتار ھوں۔ اسی وجہ سے اپنا تمام وقت تمام امکانات کے ساتھ لوگوں کی ھدایت میں صرف کرتے تھے اور ان کی چھوٹی اور بڑی لغزشوں سے در گزر فرماتے تھے۔ لوگوں نے متعدد بار آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس کو اپنی طرف سے عملی جامہ بھی پہنایا لیکن آپ نے سب کو معاف کردیا نہ صرف یہ کہ یہودی عورت کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ نے اپنے قتل کا منصوبہ بنانے والوں کے ناموں کو جو بھی صیفۂ راز میں رکھا جو پہاڑ کے دامن میں آپ کے اونٹ کو بھڑکا کر آپ کی شمع حیات کو گل کردینا چاھتے تھے
آج دنیا کی رسم ھے اطلاعاتی اور جاسوسی ادارے وزیر اعظم یا صدر مملکت کے خلاف احتمالی سازش کے پیش نظر بھی حرکت میں آجاتے ھیں اور بہت سارے افراد کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیتے ھیں اور ان پر مختلف قسم کی سختیاں کرتے ھیں اگر ھم آج کی صورتحال کو پیغمبر کے حالات و اخلاق سے موازنہ کریں تو پیغمبر کے کام کی عظمت ھمارے سامنے اجاگر ھوجائے گی جب ھم فقہ میں پڑھتے ھیں کہ جو پیغمبر کو دشنام دے واجب القتل ھے بطریق اولیٰ پیغمبر کو مسموم کرنے والا اور آپ کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کرنے والا واجب القتل ھے اس کے باوجود پیغمبر ان لوگوں کو معاف کردیتے ھیں تاکہ اجراء قانون پر عفو و بخشش کی برتری منظر عام پر آئے، خاص طور پر جب حق شخصی ھو اور صاحب حق منصب دار اور اجتماعی پوسٹ کا مالک ھو جس کا عمل دوسروں کے لئے نمونہ عمل ھو
پیغمبر کی جانب سے اس طرح کے عملی نمونے حقیقی اسلامی رھبروں کی تشخیص کے لئے بہترین معیار ھے
المختصر پیغمبر کے عملی نمونوں کا (جس کے اخلاق کے کچھ گوشے سابق میں بیان ھوئے) اندرون خانہ اپنی بیویوں کے ساتھ جائزہ لیں تاکہ اس سے درس زندگی حاصل کریں اور بہ لطف خدا اپنی اور خانوادے کی بہت ساری مشکلات کو حل و فصل کریں۔
پیغمبر نے اپنے اخلاق حسنہ کے بل پر اپنی بیویوں کے ساتھ کہ بعض سن و سال کے لحاظ سے پیغمبر سے مختلف تھیں یا بہ اعتبار استعداد و صلاحیت یا بہ اعتبار فہم و ادراک امور شخصی و اجتماعی پیغمبر کے ساتھ میل نہیں کھاتی تھیں بلکہ مختلف جہات سے بہت زیادہ فرق رکھتی تھیں مسالمت آمیز زندگی گزاری اور پیغمبر کے ساتھ رھنے کو ھر چیز پر ترجیح دیتی تھیں جبکہ خانۂ پیغمبر میں مادی مسائل و امکانات، دنیوی مال و متاع پر نعمتوں سے سرشار مستقبل کی کوئی امید نہیں تھی۔ کیونکہ وہ پابند تھیں کہ گھر کی چہار دیواری میں زندگی گزاریں اور پیغمبر کی وفات کے بعد دوسری شادی نہ کریں
اور ایسا بھی نہیں تھا کہ اپنا زیادہ وقت ازواج میں گزارتے تھے کیونکہ تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ مسلمانوں کی رھبری کی ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر تھی اور مدینہ جیسے شھر کی حاکمیت میں جہاں طبقاتی نظام رائج تھا زیادہ وقت صرف ھوتا تھا۔ علاوہ بر ایں پیغمبر کا بہت زیادہ وقت عبادت میں بھی گزرتا تھا۔
المختصر جان کلام یہ ھے کہ پیغمبر نے محدود امکانات اور کم وقت میں بھی اخلاق حسنہ کے سایے میں بہت ساری مشکلات پر غلبہ پایا۔ لیکن آج آپ کے بہتیرے پیرو گھریلو مشکلات کا شکار ھیں باوجودیکہ اس زمانے میں امکانات وسیع ھیں اور گھر میں بیٹھ کر گفت و شنید کرنے کے لئے وقت کافی ھے تنہا مشکل جو ھے وہ یہ ھے کہ ھماری رفتار و گفتار اور کردار میں اخلاق پیغمبر کا عکس نمایاں نہیں ھے۔
………………………………..
حواله جات
11. احزاب(۳۳) آیت ۳۶۔
12. اسد الغابۃ، ج۱، ص۱۹۴ و ج۷، ص۲۹۱۔
13. اسد الغابۃ، ج۷، ص۲۹۱۔
14. اسد الغابۃ، ج۷، ص۲۹۱۔
15. معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۲۴۰ و ۲۴۱۔
16. بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۰۔
17. بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۴۷۔
18. بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۱۶۔
19. آل عمران(۳) ، آیہ ۱۵۹۔
20. بحار الأنوار، ج۱۶، ص۲۶۵، مجمع البیان، ج۹، ص۱۲۲۔
21. توبہ(۹) ، آیۂ ۱۲۸۔
22. حج(۲۲) ، آیۂ ۶۵۔ بقرہ(۲)، آیۂ ۱۴۳۔
23. مجمع البیان، ج۵ ص۸۶، ذیل آیہ ۱۲۸ سورہ توبہ، بحار الانوار، ج۱۶، ص.