- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/30
- 0 رائ
جب قرآن کے نزول(وحی) کا آغاز ہوا تو پیغمبر اکرم (ص) نے سب سے پہلے اس کی حفاظت کی خاطر اپنے دور کے کاتبین کو جمع کیا اور آیات قرآنی کو لکھنے اور ضبط کرنے کا حکم دیا، لہذا نزول وحی کے وقت بیشتر کاتبین حضرت پیغمبر اکرم(ص) کے حضور میں ہوتے تھے اگرچہ پورے کاتبین کا ہونا لازمی نہ تھا بلکہ بسا اوقات فقط ایک نفر یا دو نفر ہوتا تھا جو پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق آیت کی تلاوت اور ضبط کرتے تھے. اور علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں معروف اور مشہور کاتبین وحی افراد ذیل قرار دیئے ہیں:
حضرت علی علیہ السلام، عثمان بن عفان، ابان بن سعید، خالد بن سعید، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ثابت بن قیس، ارقم بن ابیّ،حنظلہ بن ربیع،عبداللہ بن ابی سرح، زبیر بن عوام، عبداللہ بن رواحہ، محمد بن مسلمۃ،عبد اللہ بن عبد اللہ ،عبداللہ بن ارقم، حنظلۃالاسدی، علاء الحضرمی، جہم بن صلت، معیقیب بن ابی فاطمہ، شرجیل بن حنسہ ان کے علاوہ اور بھی افراد کا نام مفصل کتابوں میں موجود ہے، لکن انہیں افراد میں حضرت علی – کا تب وحی کے علاوہ عہد ناموں اور رسالہ کے کاتب بھی تھے ۔ (١ )
ایسی روایات اور احادیث سے بخوبی واضح ہو جاتاہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کی حفاظت کیلئے پوری کوشش کی ہے،لہذا معقول نہیں ہے کہ ایسا شخص، قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو امت مسلمہ کے ذمہ چھوڑ کر چلا جائے،حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں کاتبین وحی نے قرآن کو بحکم پیامبر اکرم (ص) کس چیز پرتحریر کی ان کا نام بھی بخوبی واضح کیا گیا ہے ۔(۲)لہذا قرآن کی تدوین اور جمع آوری کے مسئلہ کے بارئے میں درج ذیل نظریے موجود ہیں :
الف: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جمع آوری ہوئی ہے ۔
ب: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) کے ہاتھوں ایک خاص کیفیت کے ساتھ قرآن کی تدوین ہوئی ہے ۔
ج: حضرت ابوبکر کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین اور جمع آوری ہوئی ہے ۔
د: حضرت عثمان کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین ہوئی ہے ۔
ھ: جناب سالم یا ابی حذیفہ وغیرہ نے قرآن کی جمع آوری کی ہے ۔
لیکن محققین اور پڑھے لکھے حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کی تدوین او رجمع آوری کب اور کس نے کی؟ اس میں غوروخوص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی معاشرے میں حقیقت کی عکاسی ہو ۔
نزول قرآن کی وضاحت:
نزول قرآن کے متعلق کئی آیات موجود ہیں،کبھی نزول کے متعلق انزلناہ، یا نزلناہ ،یا تنزیل، یا انزل، کے علاوہ بہت سارے الفاظ جو نزل سے مشتق ہوئے ہیں موجود ہیں ان الفاظ کی بازگشت اورمرجع دو مطلب بتایا جاتا ہے ۔
١۔ قرآن مجید کو اللہ نے ایک ہی دفعہ میں نازل کیا ۔
٢۔ اللہ نے قرآن کو آہستہ آہستہ ٢٣ سال کے عرصے میں نازل کیا۔
اورکچھ آیات سے نزول قرآن دفعی ہونے کا پتہ چلتا ہے جبکہ دوسرا دستہ آیات سے تدریجی ہونے کا پتہ چلتاہے ان دودستہ آیات کے درمیان بظاہر تعارض اور ٹکراو نظرآتاہے اسی لئے علوم قرآن کے ماہرین نے اس تعارض اورٹکڑاؤ کوبرطرف کرنے کی خاطر نزول قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے :
الف: دفعی
ب:تدریجی
یعنی ماہ رمضان المبارک میں قرآن، قلب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر اتر آیا پھر ٢٣ سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ ایک ایک آیت یاسورۃ کی شکل میںحضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا ،لہذا قارئین محترم سے نزول قرآن کے متعلق مفصل کتابیں جو مختلف زبانوں میں لکھاجا چکا ہے ان کی طرف رجوع فرمائیں۔
نزول قرآن کا ہدف:
قرآن کی ترویج اور تبلیغ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یعنی ہمیںچایئے کہ ہم قرآن کے قیمتی اور نورانی فرامین کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔تاکہ قرآن اور پرچم اسلام کی سربلندی کفرونفاق کی نابودی ہرقسم کے انحرافات اورغلط تہذیب وتمدن سے معاشرتی زندگی کو نجات دے سکیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اورقرآن کو اللہ نے جس مقصد اورہدف کے لئے نازل کیا ہے اس کو سمجھیں تو یقینا ہم اس دور کے جابروں کے ناپاک سازشوں اور پالیسیوں سے نجات پاسکتے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے قرآن کی حکمت تمام مراحل زندگی میںضروری ہے چنانچہ خود اللہ نے فرمایا : واعتصموبحبل اللہ جمیعا ولاتفرقو ”اور سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میں جدائی نہ ڈالیں(۳ )
یادوسری آیت میں فرمایا : ولا تنازعو فتفشلوا وتذہبوا” آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہاری قدرت اور اقدار نابود ہوجایی گی،(۴)
اگر مسلمان حضرات ایسی آیات کو اپنا سرنامہ عمل قرار دے تو یقینا اللہ کے ایسی فرامین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان حضرات اتحاد اور یکجہتی کو توڑ نے اور نقصان پہنچانے والی حرکات اوررفتار سے پرہیز کرینگے لہذا نزول قرآن کے اہداف کو فہر ست وار بیان کر کے اس موضوع سے اجازت چاہیں گے ۔
١۔ قرآن دیگر کتابوں کی مانند ایک کتاب معمولی نہیں ہے کہ من گھڑت داستانوں او ر کہانیوں پر مشتمل ہو بلکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جسمیں انسان کو تکامل وترقی علم ومعرفت نیک اور عاقلانہ اور حکمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کی گئی ہے لہذا نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک ہدایت بشر ہے جس کی طرف اللہ نے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا ہدہ للناس یا دیگر آیات میں ”ہدی للمتقین” یا ”اناہدینا ہ السبیل ”کی نص موجود ہے ۔ان آیات میں لفظ ہدایت کو کسی قید وشرط کے بغیر بیان کر کے یہ بتانا چاہتے ہیںکہ قرآن ہدایت تکوینی اورہدایت تشریعی کے لئے نازل کیا ہے جسمیںشک وتردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورہدایت اس وقت قابل تصور ہے اگر ہم قرآن فہمی کی کلاسوں میںشرکت کر کے قرآن کو سمجھے ورنہ قرآن دیگر موجودات کی مانند ہے جو ہماری فلاح وبہبود ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں لیکن ہماری نافہمی اورجہالت کی وجہ سے ان سے مستفیض ہونے سے محروم ہیں ۔
٢۔ نیز قرآن کے نزول کے اہداف میں سے دوسرا ہدف بشر کی تربیت ہے چاہے اجتماعی تربیت ہو یا انفرادی تربیت جس کی طرف ”و یتلو علیہم آیتنا و یزکیہم ”کے ذریعے اشارہ فرمایا ہے تربیت کو معاشرتی اور انفرادی زندگی میں مرکزیت حاصل ہے جس کے حصول کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں اور مشقتیں اٹھانا پڑتا ہے قرآن واحد سرنامہ عمل ہے جو مشیت ،تربیت کے اصول و ضوابط کے بیان کرنے کے ساتھ اس کے نتائج اورعاقبت سے بھی بخوبی آگاہ کیا جارہا ہے ۔
٣۔ نزول قرآن کے اہداف میں سے تیسرا ہدف تدبر اور تفکر ہے یعنی فلاسفر اورقضایا عقل سے بحث کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ فکر اورتدبر سے انسان دیگر حیوانات سے جدا ہوسکتا ہے ۔جسکی طر ف قرآن میںشدت سے تاکید کی ہے چنانچہ فرمایا ”لعلکم تتفکرون ”یا تم لوگ کیوں قرآن کے بارئے میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں ایسی آیات تفکر وتدبر کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ تدبر و تفکر کے آثار سے بھی آگاہ کیا ہے ۔
٤۔نزول قرآن کے اہداف میں سے چوتھا ہدف عبرت بتائی جاتی ہے چنانچہ قرآن میں آدم سے لیکر خاتم تک کے امتوں کی عبرت ناک منفی اورمثبت حالات کو بیان کرکے ہمیں ان سے عبرت لینے کا درس دیتا ہے کبھی قوم لوط کا تذکرہ ،کبھی قوم ہود کاتذکرہ کبھی آدم کے فرزندان کی حالات کبھی حضرت خاتم کی امت کا تذکرہ کر کے ہمیں عبرت لینے کا حکم دیا ہے ۔
٥۔ نزول قرآن کے اہداف میںسے پانچواں ہدف اخلاق حسنہ سے بشر کو مزین اور رزیلہ واخلاق سیئہ سے نجات دینا ہے چنانچہ امام خمینی ؓ کا فرمان ہے کہ قرآن کی تمام آیات سے چاہے اقتصادی مسائل سے مربوط ہو یا فقہی ہر ایک سے اخلاقی کوئی نہ کوئی نکتہ سمجھ میں آتا ہے ۔
٦۔ نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک لوگوں کو بصیرت اور حکیمانہ و عالمانہ زندگی گذارنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ معاشرے میں وہ حرکتیں انجام نہ دے، جو منفی اور لو گوں کو منفی اور تنزل کی طرف لے جاتا ہے ۔
٧۔ نزول قرآن کے اہداف میں سے ایک معاشرے میں عدالت اور انصاف کو رواج دینا ہے ،اور ظلم وبر بریت کو نابود کرنا ہے ، چنانچہ کئی آیات میں نظام اسلام کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : یقوم الناس با القسط ”
٨۔ قرآن کے آنے کے اہداف میں سے ایک اس دور کے ناپاک سیاسی اور منفی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد ہونے کی دعوت ہے تاکہ فرق مسلمین ”انما اللمؤمنون اخوۃ” کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔
٩۔ قرآن جامع ترین کتب آسمانی کی حیثیت سے دعوت دیتا ہے کہ ہر انسان کے مقررہ حقوق کی رعایت کریں حتی حیوانات اور درخت وشجر کے مقرر ہ حقوق کی رعایت کرنے کی شدت سے تاکید کرتا ہے چنانچہ کئی آیات میں صاف الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
١٠۔ قرآن نازل ہونے کے اہداف میں سے ایک مادی اور مثالی اور ابدی زندگی کو سعادت اور آباد کرنے کی گذارش کرتا ہے، ان کے علاوہ اور بھی اہداف واضح الفاظ میںبیان کیا ہے ،ان کے پیش نظر قرآن کو فقط اموات کے ایصال ثواب کے فاتحہ خوانی یا شادی کے وقت ختم قرآن کے لئے یا دیگر معمول امور میں منحصر کرنا ہماری جہالت کے علاوہ کچھ نہیں رب العزت سے اس ناچیز کاوش پر امام زمانہ(ع) کی تائید کے خواہاں ہوں۔
………………………………
حواله جات
( ١ ) شناخت قرآن،ص٩٥
۲۔ شناخت قرآن، ص٩٦ )
۳۔ عمران ۔١٠٣
(۴) انفال ٤٧۔