- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/23
- 0 رائ
حضرت امام حسین علیہ السلام کی بنو ہاشم کو قیام کیلیے دعوت
کربلا کا سفر شروع کرنے سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان بنوہاشم کو مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے شہادت بخش انقلاب و تحریک میں شرکت کی دعوت دی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مِن الحسین بن علی بن ابی طالب الی بنی ھاشم، امابعد! فانہ من الحق بی منکم استشھد ومن تخلف لم یبلغ مبلغ الفتح،والسلام
یعنی حسین ابن علی ابن ابیطالب کی طرف سے بنوہاشم کے نام،امابعد! آپ میں سے جو شخص میرے ساتھ ملحق ہوگیا شھادت کی سعادت پالے گا اور جو بھی سرپیچی کرے گا اُسے فتح و ظفر نصیب نہیں ہوگی۔والسلام۔
تاریخ کا تاریخی ستم
تاریخ نویس قلم بھی ہاتھوں کی حرکات سے تاریخ رقم کرتا ہے ہاتھوں کی حرکات مؤرخ کے اشارات سے ہم آہنگ اور مطابق ہوا کرتی ہے اور مورخ کے اشارات اُس کے دلی اعتقادات و رجحانات یا سیاسی و مالی منافع کے پس منظر سے منصۂ ظہور پر آتے ہیں۔
اگر ایک عام اور سادہ سا دیندار شخص ایک سادہ مگر سالم سی تاریخ اُٹھا کرمطالعہ کرے اور اُس میں بانی انقلاب کے اپنے فرامین و بیانات دیکھے تو اسے آسانی سے بہت زیادہ حقائق کی شناخت حاصل ہوجاتی ہے حتی کہ اگر مطالعہ و تحقیق کرنے والا شخص بطور مثال دیندار نہ بھی ہو لیکن اُس کے وجود میں موجود فیصلہ و قضاوت کرنے والی قوت و قدرت آزادی و حریت کی نعمت سے مالا مال ہو،دوسری تعبیر میں اس کی روح کسی حد تک سالم اور ضمیر بیدار ہو تو پھر بھی کسی قیام و تحریک کے بانی کے اپنے بیانات و اقوال اور عین دورانِ قیام و حرکت میں اُس کے اعمال و افعال اور حرکات و سکنات سے روشناس ہوکر نہایت آسانی سے اُس قیام و تحریک کی ماہیت و حقیقت کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
تاریخ کا تاریخی ستم یہ ہے کہ بعض بلکہ اکثر تاریخ نویس مورخ اہل ثروت کے مال و منال اور دولت و ثروت کی طمع ولالچ میں تاریخ لکھتے رہے لہٰذا اُن کا ہم و غم حقائق کو منظر عام پرلانا کب تھا بلکہ ان کے پیش نظر ہدف و مقصد فقط اپنی جیبیں بھرنا اور دولت کے حصول سے دنیوی،عارضی اور فانی لیکن ان کی خام خیالی اور زعم باطل میں جاودانی تسکین تک پہنچنا تھا جیسا کہ انتہائی دنیا پرست و عیاش و مست حکمران یزید پلید نے عمر ابن سعدجیسے احمقوں کو امارتِ رَے کے نشے میں مست کرکے حق و حقیقت کی مخالفت میں روانۂ میدان کردیااور وہ نادان حجت خدا یعنی خود خدا کے سامنے تاریخی حماقتوں اور جسارتوں سے بھی باز نہ آیا کیونکہ اپنا دل و ضمیر اُس مستی کی خاطر فروخت کرچکا تھا۔
خداوندمنان کا شکر کہ تاریخ اپنے اوپر روا رہنے والے ظلم و ستم کے باوجود منصف مورخین کی ایک اندک و قلیل تعداد کی سعی وکاوش اور محنت و حرکت سے بھی محروم نہیں رہی اور کبھی کبھی تو وقت کے حکمرانوں کو خوشنود کرنے اور دنیوی خواہشوں کے حصول سے اپنا پیٹ بھرنے والے خودفروش تاریخ نویسوں کے قلم سے بھی حقائق کے بعض گوشے عیاں ہوئے اور ناخواستہ انھیں کے ذریعے بھی بیان ہوگئے کہ اس امر کی بازگشت حکمت الہٰی کی طرف ہوتی ہے۔
بہرحال ہمارے زیر بحث موضوع میں ہمیں ناگزیر اُن تاریخی حقائق کی بھی مختصر طور پر ورق گردانی کرنا ہوگی جن سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ نپی تلی سازشوں کے جال اُس ناکام و نامراد حاکم شام نے اپنی زندگی میں اور جیتے جی ہی بچھادیے تھے۔افسوس صد افسوس دولت کا نشہ اس قدر مستی آور ہوتا ہے کہ ایک بدمست حکمران جب بھی اپنے آپ کو عیش و نوش کے قابل سمجھتا ہے تو اپنے سامنے محسوس ہونے والی ہررکاوٹ اور ہرسنگِ راہ کو دور اٹھا پھینکتا ہے لیکن جب اپنے ضعفِ قویٰ نمایاں ہوناشروع ہوتے ہیں،پانی اپنے سر سے گذرتا لگتا ہے تو اب اپنی جیسی جانشینی برقرار کرنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے کچھ ایسا ہی ہوا کہ تاریخی شواہد کی بناء پر معاویہ ابن ابی سفیان نے جب ایسی صورتحال دیکھی تو پہلے خط و کتابت کے ذریعے زمانے کے برحق امام نواسۂ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجت خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنی دانست میں سمجھانا بجھانا اور مرعوب کرنا چاہا،جب کامیاب نہ ہوسکا تو خود مدینہ کو سفر کیا کتاب‘‘سیرۂ امام حسین علیہ السلام’’تألیف جناب محسن غفاری میں معروف کتاب الامامۃ والسیاسۃ(تألیف ابن قتیبہ)کے حوالے سے مفصل بیان ہوا ہے جس کا فقط ایک خلاصہ ہم یہاں لائیں گے تاکہ حق و باطل کی اساس کسی حد تک معلوم ہوسکے اور انصاف پسند مسلمان یا ہر آزاد شخص یہ جان سکے کہ تاریخ پر روا رکھے جانے والے اس تاریخی ستم میں کوئی حقیقت نامی چیز موجود نہیں ہے کہ یہ جنگ دو شہزادوں کی جنگ تھی جن میں سے ہر ایک بادشاہی کا طلبگار تھا،یہ رُخ دنیا پرست مورخ نے دیا جسے حق و حقیقت سے کچھ سروکار نہ تھا بلکہ اُس کے دل و جان میں فقط اور فقط مال و منال اور دولت و ثروت کا اعتبار تھا۔
مذکورہ بالا مأخذ اور کتاب الرجال للکشی کے حوالے سے سیرۂ امام حسین علیہ السلام نامی کتاب صفحہ ۱۰۴ میں قابل ملاحظہ ہے کہ جس دوران مروان بن حکم،حاکم شام کی طرف سے مدینہ پر حکمران (گورنر) تھا تو اُس نے شکایات بھرا خط شام بھیجا جس میں لکھا کہ :اہل عراق و اہل حجاز کا رجحان امام حسین علیہ السلام کی طرف ہے اور رفت و آمد ہورہی ہے؛میری تحقیق کے مطابق وہ حکومت وقت کی مخالفت کی فکر رکھتے ہیں،آخر میں لکھا کہ حاکم شام اس سلسلے میں اپنی نظر سے اُسے آگاہ کرے۔
حاکم شام نے مروان کے جواب میں لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک امام حسین حکومت وقت کے خلاف کوئی اعتراض نہ کریں تو ان سے کام نہیں رکھو لیکن ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھو اور کوشش کرو کہ آپس میں نزاع پیش نہ آئے۔
اس مکاتبہ کے بعد حاکم شام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں موصول ہونے والی معلومات آپ کے شایانِ شان نہیں ہیں اور میں آپ کو ان کاموں سے روکتا ہوں عہدوپیمان کی رعایت کریں،جان لیں کہ جب بھی میرے خلاف کوئی کام کیا تو میں آپ کا منکر ہوجاؤں گا،حملے کا جواب حملے سے دوں گا،امت محمد میں اختلاف نہیں ڈالیں۔۔’’
حضرت امام حسین علیہ السلام کو جونہی خط ملا تو جواب میں ایک تفصیلی خط لکھ کر بھیج دیا جس کا مختصر خلاصہ اس طرح سے ہے:تماخرا خط ملا،ہمارے بارے میں جو خبریں تمہیں مل رہی ہیں وہ گھٹیا، جھوٹے اور چاپلوس افراد بھیجتے ہیں، یہی چغل خور افراد لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں،ان کی بات جھوٹی ہے کہ میں تمہارے خلاف جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں لیکن اس سکوت والی صورتحال پر بھی خوش نہیں ہوں چونکہ باطل حکومت کے مقابلے میں سکوت کیسے ممکن ہے،پھر امام عالیمقام علیہ السلام نے حجر بن عدی اور عمر بن حمق صحابی کی حاکم شام کے ہاتھوں دردناک شہادتوں کا ذکر کیا،زیاد فرزند سمیہ کو بھائی بنانے کا تذکرہ کیا کہ کس طرح حاکم شام نے خلاف سنت کام کرکے سیاست بازی سے کام لیا ہے،زیاد کے ذریعے ہونے والے مظالم و جرائم کی طرف اشارہ کیا،کہ کس طرح وحشیانہ طور پر شیعیان علی علیہ السلام کو قتل کیا جاتارہا اور پھرکتنی پستی اور گھٹیاپن سے ان کو مثلہ کیا گیا،جبکہ علی علیہ السلام کا دین وہی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین ہی تھا اور ابھی اسی دین کے نام پر اپنے آپ کو خلیفۂ رسول کہلا کر حاکم بن بیٹھے ہو،۔۔۔۔۔جان لو کہ امت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرنا بہت بڑا گناہ اور احکام الہٰی سے سرپیچی کرنا ہے۔۔۔۔اور جہاں تک وفائے عہد کا تعلق ہے تو وعدہ خلافی اور نقضِ عہد تمہارے خاص شیووں میں سے ہے،جوتمہارےعہد و پیمان ہمارے ساتھ تھے ان میں سے کون سے ایک وعدے پر بھی پابند رہے ہو،امان دے کر امان نامے پایمال کرنا تمہارا ہی کام اور خاصہ ہے،ان سب امور کا ضرر خود تمہاری طرف ہی متوجہ ہے خود اپنا ہی نقصان کررہے ہو۔۔۔۔والسلام۔
شام کے حاکم نے جب یہ خط پڑھا تو فکر میں پڑگیا اور پھر اظہاکیا:یہ ہاشمی گویا زبان ہے اور اس قدر تیز اور کاٹنے والی زبان ہے کہ گویا پتھر کو بھی چیر کررکھ دیتی ہے اور سمندر کا پانی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
(یہ مطالب مندرجہ ذیل مآخذ و منابع میں بھی موجود ہیں:بحار ج۴۴،ص۲۱۲،ناسخ التواریخ ج۱ص۲۵۴،احجاج طبرسی ج۲ ص۲۹۷،سیرۂ امامان ص۸۷ تا ۹۱)۔
یزید کی بیعت لینے کے لیے حاکم شام نے خود مدینہ کا سفر کیا،امام حسین علیہ السلام اور ابن عباس سے ملاقات کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام زندہ تھے کیونکہ حاکم شام نے امام حسین علیہ السلام سے امام مجتبیٰ علیہ السلام کی احوالپرسی کی تھی،تقریر کے آخر میں اُس نے یزید کا ذکر کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یزید کی بہت تعریف کی اور کہا کہ اس کو ولی عہد بنانا چاہتا ہے،اسے آزمایا ہے اور اس منصب کے لائق پایا ہے آپ لوگ بھی اس کی تائید کریں۔۔۔۔اس کی باتیں جب مکمل ہوئیں تو ابن عباس نے چاہا کہ جواب دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے میں جواب دوں گا پس حمد و ثناء بجالائے درودوسلام بھیجے اور فرمایا اما بعد،حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس قدر فضائل بیان کیے جائیں ،کم ہیں لیکن افسوس کہ حضور کی صفات و فضائل کی پاسداری نہیں کی گئی،اُن کے برحق جانشین کی بیعت نہیں کی گئی،برتری اور خود خواہی میں افراط و زیادہ روی کہاں تک لے جائے گی۔۔۔مزید کہا یزید کی شائستگی،تدبیر اور سیاست کے بارے میں جو تم نے کہا اس سے تمہارا خیال ہے کہ یزید کا لوگوں کے سامنے تعارف کرواؤ،کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ لوگ یزید کو نہیں پہچانتے،یزید کی صورتحال اور حقیقت لوگوں کے سامنے ہےبہتر یہی ہے کہ یزید کے بارے میں اُسی راہ پر چلو جس پر وہ خود جارہا ہے،اُس کا راستہ سگ بازی،کتوں کی لڑائی،کبوتر بازی،عیش و نوش کی محافل،شراب خواری اور گانا گانے والیوں کے ساتھ ساز و نواز میں خوش گذرانی کا راستہ ہے،ہاں یزید ان تمام فنون میں مکمل بصیرت رکھتا ہے لہٰذا دوسرے خیال کو دل سے نکال دو۔۔۔۔۔
جب امام حسین علیہ السلام کا خطاب اختتام کو پہنچا تو ابن عباس نے بھی امام عالیمقام علیہ السلام کے حق اور حمایت میں گفتگو کی۔
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص۱۱۴)
بصیرت اور بصارت
فہم و بصر رکھنے والا شخص میدان قضاوت میں گمراہ نہیں ہوتا۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ حیات سب کو نظر آرہی ہے دوست و دشمن اس حقیقت پر شاہد اور معترف ہیں جبکہ دوسری طرف کے حالات اور اوضاع سے بھی لوگ باخبر تو ہیں لیکن انواع واقسام کی مصلحت کوشیاں آڑے آرہی ہیں،یزید پلید کا جب غلط تعارف کروایا جاتا ہے تو فرزند رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساکت نہیں رہتے اور اُس کی حقیقت کو کھول کر سامنے لاتے ہیں اور اس طرح سب سازش سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ شام کا غاصب حاکم اپنے ذہن میں اپنے بعد کیلیے کیسے فرد کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔اگر بعض لوگوں کی نظر میں حاکم شام اچھا ہے تو اس کا فیصلہ اور انتخاب بھی تو اچھا ہونا چاہیے تھا،کاش وہ خود بھی اچھا ہوتا اور اس کا فیصلہ بھی اچھا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچ پاتی۔اب بھی کس شخص کو حقیقی صورتحال کا علم نہیں ہے،آخر حقائق سے غفلت اور حقائق کی پردہ پوشی جیسے گناہان کبیرہ پر کیوں توجہ نہیں ہوتی اور بصیرت و بصارت سے کیوں کام نہیں لیا جاتا؛ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
سورج ہے آسمان پر،آنکھیں نہ بند کرو
گذشتہ عنوان‘‘حضرت امام حسین علیہ السلام کی بنو ہاشم کو قیام کیلیے دعوت’’کے ضمن میں اُس خط کا مضمون پیش کیا گیا ہے جو امام عالیمقام علیہ السلام نے اپنے قبیلے کو لکھا تھا۔
اگر امام علیہ السلام کا ہدف بادشاہت اور حکومت ہوتا تو نہ تو اہل و عیال و اطفال کو ساتھ لے جاتے اور نہ ہی اس قدر اطمینان سے بتلاتے کہ جو میرے ساتھ ملحق ہوجائے وہ شہادت کے درجے پر فائز ہوگا۔جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ جس رات دارالامارہ میں طلب کیے گئے ،اگلی صبح جب مروان سے اتفاقی ملاقات ہوئی اور اُس نے بیعت کرلینے کی تجویز پیش کی تو فوراً فرمایا اِنّا للہ و۔۔۔۔یہ کلمہ استرجاع معاشرے کی ساری صورتحال کے پیش نظر جاری ہوا تھا یعنی یزید جیسا فاسق و فاجر اگر حکمران ہوتو معاشرہ کس طرف کو جائے گا کیونکہ کوئی ایسی خامی و خرابی اور بدی و برائی قابل تصور نہیں ہوگی جو اس پلید میں موجود نہ ہو؛اسی لیے فرمایا تھا کہ یزید پلید کی بیعت کرنا اور اس کی حکومت قبول کرنا؛اسلام کے ساتھ خدا حافظی کرنا ہے۔
خود حجت خدا نے اپنے قیام کا ہدف مدینہ میں بھی اور بعد میں بھی بیان فرمایا اور وہ امت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شیعیان امیرالمؤمنین علیہ السلام کی اصلاح تھا،محمد حنفیہ کو جو خط لکھا اس میں یہی ہدف ذکر فرمایا۔
فرمایا: ‘‘مِثلی لا یُبایعُ مثلَہ’’ یعنی مجھ جیسا شخص اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔
یعنی کبھی بھی حق،باطل کی بیعت نہیں کرسکتا۔
اگر حکومت کیلیے قیام کررہے ہوتے تو اس انداز میں جدبزرگوار،مادر گرامی اور برادر گرامی سے الوداع نہ فرماتے۔
حق و باطل کے اوضاع کو سامنے رکھتے ہوئے اور اظہار فرمایا:
اَلا تَرَونَ الی الحق لا یُعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ
کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے روکا نہیں جارہا۔
(سیرہ ٔ امام حسین علیہ السلام ص۱۳۰)
یعنی حق کی مظلومیت و محرومیت دیکھنا حجت حق کے لیے قابل برداشت نہیں تھا۔
ایک مقام پر قیام کا ہدف اس انداز میں بیان فرمایا:
اے لوگو میں نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:
جو شخص بھی ظالم و ستمگر سلطان و حاکم کو دیکھے جو خداوند کے حرام قراردیے ہوئے کو حلال کررہا ہو(اور حلالِ خدا کو حرام کررہا ہو)،خدا کے وعدے کو توڑ رہا ہو،پیغمبرِ خدا کی سنت،سیرت اور قانون کی مخالفت کررہا ہو،خدا کے بندوں کے درمیان گناہ،معصیت اور دشمنی و عداوت کے راستے پر چل رہا ہو اور یہ سب کچھ دیکھنے والا شخص ایسے ستمگر سلطان و حاکم کے سامنے اپنے قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے اور خاموش رہے،خداوند پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو آتش جہنم میں وہیں پر رکھے جہاں اُس ستمگر حاکم کو رکھے گا۔۔۔۔پس ایسی صورتحال میں مسلمانوں کے معاشرے کی ہدایت و رہبری کے لیے اور اپنے جد رسولِ خدا کے دین میں تغیر و تبدل پیدا کرنے والے فساد و مفسدین کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے اور قیام کرنے میں،میں دوسرے لوگوں سے زیادہ سزاوار اور شائستہ ہوں۔
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص ۱۳۰، ۱۳۱)
یہ تھا اجمال اُن اہداف کے بیان کا جو حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے قیام کیلیے سامنے آئے۔