- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/05
- 0 رائ
امام مهدي عليه السلام سے متعلق ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ قرآن کے تبدیل شدہ احکام کو زندہ کریں گے۔
اللهم! جدد به ما امتحى من دينك وأحي به ما بدل من كتابك وأظهر به ما غير من حكمك حتى يعود دينك به وعلى يديه غضا جديدا خالصا مخلصا لا شك فيه وَ لَا شبهة معه ولا باطل عنده ولا بدعة لديه۔
اے اللہ! ان کے وسیلے سے آپ کے فراموش شدہ دین کو اور آپ کی کتاب کے تبدیل شدہ احکام کو پھر سے زندہ کرئے اور آپ کے تبدیل شدہ احکام کو ان کے وسیلے سے آشکار کردئے ، تاکہ آپ کا دین ان کے ہاتھوں پھر سے تازہ، شاداب اور ہر طرح سے خالص ہو اور کوئی شک و شبھہ باقی نہ رہے ،یہاں تک کہ دین کے پاس باطل کا گزر بھی نہ ہو اور کوئی بدعت بھی باقی نہ رهے۔
الطوسي، الشيخ ابوجعفر محمد بن الحسن بن علي بن الحسن ، مصباح المتهجد، – ص 408 ، بيروت، مؤسسة فقه الشيعة – لبنان چاپ الأولى، سال چاپ: 1411- 1991 م
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ج 2؛ ص 514 تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي (التابعة) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ.(مكتبه اهل بيت)
قرآن کے بارے غلط نظریات کا سد باب۔
بعض روایات میں ہے کہ امام مهدي عليه السلام لوگوں کے غلط نظریات اور غلط افکار کو تبدیل کرنے کے ذریعے قرآن کو زندہ کریں گے جیساکہ حضرت علي عليه السلام نے امام مهدي عليه السلام کے بارے خصوصی پر طور پر فرمایا ہے:
وَيَعْطِفُ الرَّأْيَ عَلَى الْقُرْآنِ إِذَا عَطَفُوا الْقُرْآنَ عَلَى الرَّأْيِ. وَ يُحْيِي مَيِّتَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ.
جس وقت لوگ قرآن کو اپنے نظریات کے مطابق اور اپنے نظریات کر قرآن پر ٹھونسنے کی کوشش کریں گے تو آپ لوگوں کی راے اور نظریات کو قرآن کی طرف پلٹا دیں گے (یعنی لوگوں کے نظریات کو قرآن کی تفسیر کے لئے معیار قرار دینے کے بجائے، قرآن کے مطابق نظریات کی تصحیح کریں گے ،لوگوں کو اپنے غلط نظریات پر عمل کرنے سے منع کریں گے اور قرآن پر عمل کرنے کی دعوت دیں گے) آپ کتاب اور سنت سے مٹائے ہوئے احکام کو دوبارہ زندہ کریں گے ۔
نهج البلاغه خطبه 138.
لہذا نئی کتاب لانے کا مطلب لوگوں کے نظریات کو قرآن کے مطابق ڈالنا ہے۔
رسول اللہ(ص) کے دور میں رائج قرآن کی تلاوت کو رائج کرنا
ممکن ہے یہ بھی کہا جائے کہ قرآن کی تجدید سے مراد اسی قرائت قرآن کو زندہ کرنا ہو جو رسول اللہ(ص) کے دور میں رائج تھی۔
اسلام کے شروع میں پيامبر صلي الله عليه و آله، اهل بيت اور اصحاب کی خاص قرائت تھی لہذا ممکن ہے تجدید سے مراد اسی پہلی والی قرائت کا احیاء ہو اور اسی کو لوگوں میں رواج دینا ہو ،جیساکہ اھل سنت کے علماء نے اسی قرآئت کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ۔
ثعلبي نے اس سلسلے میں لکھا ہے:
(مالك يوم الدين) اختلف القراء فيه من عشرة أوجه: الوجه الأول: مالك – بالألف وكسر الكاف – على النعت وهو قراءة النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير وسعد وعبد الرحمن بن عوف وابن مسعود وأبي بن كعب ومعاذ بن جبل وابن عباس وأبي ذر وأبي هريرة وأنس ومعاوية ومن التابعين وأتباعهم عمر بن عبد العزيز ومحمد بن شهاب الزهري ومسلمة بن زيد والأسود بن يزيد وأبو عبد الرحمن السلمي وسعيد بن جبير وأبو رزين وإبراهيم وطلحة بن عوف وعاصم بن أبي النجود و . . . . . بن عمر…
«مالک يوم الدين» کی قرائت کے سلسلے میں دس اقوال ہیں، ان میں سے پہلی قرآئت مالک کو الف اور مالک کے کاف کو کسرہ کے ساتھ پڑھنا اور اس کو رب کے لئے صفت قرار دینا ہے ،یہ قرآئت ،پيامبر (ص) صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،أبي بكر، عمر عثمان، علي ، طلحة، الزبير، سعد، عبد الرحمن بن عوف، ابن مسعود، أبي بن كعب، معاذ بن جبل، ابن عباس، أبي ذر، أبي هريرة، أنس، معاوية، اور تابعين اور تابعين تابعين میں سے عمر بن عبد العزيز، محمد بن شهاب، مسلمه،اسود، ابوعبد الرحمان، سعيد بن جبير، أبو رزين، إبراهيم، طلحة بن عوف ، عاصم و ابن عمر، کی قرائت ہے ۔
الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفاى427هـ)، الكشف والبيان، ج 1 ص 112 تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ-2002م.
تفسير قشيري میں( فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ ) کے بارے میں پيامبر (صلي الله عليه وآله) کی قرائت کے مطابق «الروح»کی راء کو ضمہ اور پیش کے ساتھ پڑھنا ہے ۔
قشری لکھتا ہے :
وقيل : كانت قراءة النبي ( الرُّوح ) بضم
یہ کہا گیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم «الروح» کے را کو ضمہ کے ساتھ قرائت کرتے تھے ۔
القشيري النيسابوري الشافعي، ابوالقاسم عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك ، (متوفاى465هـ)، تفسير القشيري المسمي لطائف الإشارات، ج 3 ص 281 تحقيق: عبد اللطيف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1420هـ ـ 2000م.
اسی طرح حضرت علي عليه السلام کی اپنی خاص قرئت تھی ۔
نحاس لکھت ہے۔:
(فرهان مقبوضة) هذه قراءة علي بن أبي طالب رضي
” فرهان مقبوضه” پڑھنا حضرت علي عليه السلام کی قرائت کے مطابق ہے ۔
النحاس المرادي المصري، أبو جعفر أحمد بن محمد بن إسماعيل (متوفاى338هـ)، إعراب القرآن ،، ج 1 ص 348 تحقيق : د. زهير غازي زاهد ، ناشر : عالم الكتب – بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1409هـ ـ 1988م.
ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :
وهي المعروفة من قراءة علي بن أبي طالب ۔۔۔۔
النحاس المرادي المصري، أبو جعفر أحمد بن محمد بن إسماعيل (متوفاى338هـ)، إعراب القرآن، ج 4 ص 170، تحقيق : د. زهير غازي زاهد ، ناشر : عالم الكتب – بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1409هـ ـ 1988م.
ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :
(خاتمه مسك) وزعم أن هذه القراءة قراءة علي بن أبي طالب
النحاس المرادي المصري، أبو جعفر أحمد بن محمد بن إسماعيل (متوفاى338هـ)، إعراب القرآن، ج 5 ص 181تحقيق : د. زهير غازي زاهد ، ناشر : عالم الكتب – بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1409هـ ـ 1988م.
ثعلبي نے بھی حضرت علي عليه السلام کی قرائت کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے :
إنَّ الذين فرَّقوا دينهم ( قرأ حمزة والكسائي : فارقوا بالألف أي خرجوا من دينهم وتركوه وهي قراءة عليّ بن أبي طالب كرّم
الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفاى427هـ)، الكشف والبيان، ج 4 ص 181 تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ-2002م.
شنقيطي نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے :
( أمرنا ) بالتشديد . وهي قراءة على رضي الله عنه .
الجكني الشنقيطي، محمد الأمين بن محمد بن المختار (متوفاى 1393هـ.)، أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن، ج 3 ص 77 تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر. – بيروت. – 1415هـ – 1995م.
اب جب یہ معلوم ہوا ہے کہ اسلام کے شروع کے دور میں مختلف قرائتیں رائج تھیں اور اس اختلاف سے معنی میں بھی خلل نہیں پڑتا تھا اور یہ تحریف بھی شمار نہیں ہوتا ۔لہذا یہاں یہ بھی کہنا اور احتمال دینا صحیح ہے کہ حضرت مهدي عليه السلام کی طرف سے جدید کتاب اور قرآن سے مراد اسی قرآئت کو زندہ کرنا ہو، جو رسول اللہ (صلي الله عليه وآله) کے دور میں مرسوم تھی اور بعد والے اس قرآئت سے آشنا اور مانوس نہیں ہیں لہذا لوگ یہ خیال کریں گے کہ ایک جدید قرآن لایا ہے ۔
قرآن کی شان نزول کے ساتھ تلاوت کے طریقے کا احیاء
روایات کے مطابق رسول اللہ صلي الله عليه و آله کے زمانے میں جب قرآن کی تلاوت ہوتی تھی تو صحابہ شان نزول کے ساتھ تلاوت کرتے تھے ،جیساکہ آیۃ تبلیغ کہ جو حضرت حضرت علی علیہ السلام کے بارے یں نازل ہوئی تھی، لوگ اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ کا نام لیتے تھے، لہذا ممکن ہے جدید قرآن سے مراد شان نزول کے ساتھ قرآن کی تلاوت ہو ۔
سيوطي نے اس بارے میں لکھا ہے ۔:
وأخرج ابن مردويه عن ابن مسعود قال : كنا نقرأ على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ) يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك ( ان عليا مولى المؤمنين ) وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس
السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاى911هـ)، الدر المنثور، ج 3 ص 117، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1993.
الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفاى1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 6 ص 193، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
ابن مردويه، أبي بكر أحمد بن موسى الأصفهاني، متوفاي 410، مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ص 240، تحقيق : جمعه ورتبه وقدم له : عبد الرزاق محمد حسين حرز الدين،چاپ : الثانية، سال چاپ : 1424 – 1382ش
اسی طرح ابن مردويه نے ایک اور جگہ پر پیغمبر (ص) کے دور میں اس آیت کی تلاوت کے بارے میں لکھا ہے:
ابن مردويه ، عن ابن عباس : كنا نقرأ على عهد رسول الله : كفى الله المؤمنين القتال بعلي .
ابن مردويه نقل کرتے ہیں کہ اين عباس نے کہا : ہم عصر پیغمبر صلي الله عليه و آلہ میں اس طرح تلاوت کرتے تھے کہ اللہ نے علی علیہ السلام کے واسطے سے مومنوں کو بے نیاز کیا ہے ۔
ابن مردويه، أبي بكر أحمد بن موسى الأصفهاني، متوفاي 410، مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) – أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني – ص 300 ، حقيق : جمعه و رتبه وقدم له : عبد الرزاق محمد حسين حرز الدين،چاپ : الثانية، سال چاپ : 1424 – 1382ش
سيوطي نے نقل کیا ہے کہ ابن مسعود اس آیت کی اسطرح تلاوت کرتا تھا۔
وأخرج ابن أبي حاتم وابن مردويه وابن عساكر عن ابن مسعود رضي الله عنه أنه كان يقرأ هذا الحرف ) وكفى الله المؤمنين القتال ( بعلي بن أبي طالب
السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاى911هـ)، الدر المنثور، ج 6 ص 590، ناشر: دار الفكر – بيروت1993.
الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفاى1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 21 ،ص 175، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
لہذا یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ قرآن اور جدید کتاب سے قرآن کو شان نزول کے ساتھ تلاوت کرنا بھی مراد ہو ۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے جمع شدہ قرآن کا آشکار ہونا
ممکن ہے اس سےحضرت علي عليه السلام کی طرف سے ترتيب نزول کے ساتھ جمع شدہ قرآن کا آشکار کرنا مراد ہو ۔
روایات کے مطابق حضرت امام مھدی علیہ السلام جب ظہور فرمائیں گے تو آپ اسی قرآن کے مطابق حکم کریں گے کہ جو ان کے جد بزرگوار امام علی السلام نے جمع فرمایا تھا اور وہ قرآن حقیقت میں یہی قرآن ہے لیکن ترتیب نزول کے ساتھ جمع ہوا ہے ۔لہذا لوگ جب اس قرآن کو دیکھے تو خیال کرئیں گے کہ یہ کوئی جدید قرآن ہے ۔جبکہ یہ وہی قرآن ہے جو رائج ہے لیکن وہ ترتیب نزول کے مطابق ہے ۔
جیسا کہ ابن حجر اس سلسلے میں لکھتا ہے :
علي أنه جمع القرآن على ترتيب النزول عقب موت النبي صلى الله عليه وسلم
علي عليه السلام نے پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق جمع فرمایا :
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9 ص 52، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة – بيروت
اسی طرح وہ لکھتا ہے:
إن مصحف على كان على ترتيب النزول أوله اقرأ ثم المدثر ثم ن والقلم ثم المزمل
علي عليه السلام کا مصحف ترتيب نزول کے مطابق تھا ،یعنی اس طرح تھا کہ پہلے سورہ اقراء ،پھر سورہ مدثر،پھر ن والقلم ، پھر سورہ مزمل ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 9 ص 42. تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة – بيروت
ابن سيرين نے بھی اسی کا اعتراف کیا ہے:
قال ابن سيرين فبلغنى أنه كتب على تنزيله ولو أصيب ذلك الكتاب لوجد فيه علم كثير
مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علي عليه السلام نے قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق جمع کیا تھا،اگر ایسا ہو تو پھر یقینا اس میں بہت سے علوم ہوں گے ۔
ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفاى 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3 ص 974، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الطبري، ابوجعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفاى694هـ)، الرياض النضرة في مناقب العشرة، ج 2 ، ص 217، تحقيق عيسي عبد الله محمد مانع الحميري، ناشر: دار الغرب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاى764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 17 ص 167، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث – بيروت – 1420هـ- 2000م.
جیسا کہ شیعہ کتابوں میں صحیح سند روایات موجود ہیں کہ جنکے مطابق امام مھدی علیہ السلام ،حضرت علی علیہ السلام کے جمع کردہ قرآن کے مطابق حکم کریں گے ۔
پہلی روايت
کليني نے اس سلسلے میں صحیح سند روایت نقل کی ہے :
محمد بن يحيى ، عن محمد بن الحسين، عن عبد الرحمن بن أبي هاشم ، عن سالم بن سلمة قال : قرأ رجل على أبي عبد الله ( عليه السلام ) وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس ، فقال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : كف عن هذه القراءة اقرأ كما يقرأ لناس حتى يقوم القائم فإذا قام القائم ( عليه السلام ) قرأ كتاب الله عز وجل على حده وأخرج المصحف الذي كتبه علي ( عليه السلام )
کسی نے امام صادق (ع) کے سامنے قرآن کے کچھ جملوں کی تلاوت کی اور اور میں سن رہا تھا وہ اسی طرح سے قرآئت نہیں کر رہا تھا جو طریقہ لوگوں میں رائج تھا ۔ امام صادق (ع) نے اس سے کہا : اس قرآئت سے اجتناب کرو اور اسی طرح قرائت کرو جس طرح لوگ تلاوت کرتے ہیں،یہاں تک کہ ہمارا قائم ظہور فرمائیں گے ۔تو آپ قرآن مجید کی اپنے طور پر تلاوت کریں گے ۔ آپ امام علی علیہ سلام کے مصحف کو باہر نکالیں گے ۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 2 ص 633، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
سند کی تحقیق
محمد بن يحيي أبو جعفر العطار القمي
نجاشي نے ان کے بارے میں کہا ہے :
946 – محمد بن يحيى أبو جعفر العطار القمي
شيخ أصحابنا في زمانه ثقة عين كثير الحديث. له كتب منها: كتاب مقتل الحسين [عليه السلام] و كتاب النوادر أخبرني عدة من أصحابنا عن ابنه أحمد عن أبيه بكتبه.
محمد بن يحيي اپنے زمانے کے ہمارے اصحاب کے بزرگوں میں سے ہیں آپ ثقہ اور قابل فخر شخصیت ہیں ۔
رجال النجاشي/بابالميم/353
شيخ طوسي نے کہا ہے :
محمد بن يحيى العطار روى عنه الكليني قمي كثير الرواية.
محمد بن يحيي کثير الروايه میں سے ہیں ۔
رجال الطوسي/بابذكرأسماء…/بابالميم/439
ابن داود نے بھی کہا ہے :
محمد بن يحيى أبو جعفر العطار لم [جخ] روى عنه الكليني و هو [قمي] كثير الرواية ثقة.
آپ کثر الروايه اور ثقہ ہیں۔
رجال ابن داود/الجزءالأولمن…/بابالميم/340
علامہ حلي نے بھی کہا ہے :
محمد بن يحيى أبو جعفر العطار القمي شيخ من أصحابنا في زمانه ثقة عين كثيرا۔
محمد بن يحيي اپنے زمانے میں ہمارے اصحاب کے شیخ تھے آپ ثقہ اور جانی پہچانی شخصیت تھے ۔
الخلاصة للحلي/ الفصلالثالثو…/البابالأولمحمد/157
محمد بن الحسين أبي الخطاب:
نجاشي کہتے ہیں :
جليل من أصحابنا، عظيم القدر، كثير الرواية، ثقة، عين، حسن التصانيف، مسكون إلى روايته…
آپ شیعہ علماء میں بہت زیادہ عظیم المرتبت کے مالک ہیں ،آپ بہت زیادہ روایت نقل کرنے والوں میں سے اور ثقہ اور نمایاں شخصیت ہیں ۔ آپ نے بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں اور اطمنان بخش روایتیں نقل کی ہیں ۔
رجال النجاشي، ص334.
شيخ طوسي نے ان کو «کوفي ثقه» کے عنوان سے یاد کیا ہے :
كوفي، ثقة.
رجال الطوسي، ص379؛ معجم رجال الحديث، ج16، ص308 ـ 309، رقم: 10581
عبد الرحمن بن محمد بن أبي هاشم البجلي أبو محمد :
نجاشي نے اس کے بارے میں لکھا ہے :
جليل من أصحابنا ثقة ثقة
آپ جلیل القدر اور ثقہ آدمی ہیں ۔
رجال النجاشي/بابالعين/236
علامه حلي نے لکھا ہے :
جليل من أصحابنا ثقة ثقة
الخلاصةللحلي /ص114
سالم بن سلمة:
ان کا نام سالم بن مكرم ہیں . نجاشي نے ان کے بارے میں کہا ہے:
أبو خديجة و يقال: أبو سلمه الكناسي. يقال صاحب الغنم مولى بني أسد الجمال. يقال: كنيته كانت أبا خديجة و أن أبا عبد الله عليه السلام كناه أبا سلمه ثقة ثقة
وہ ثقہ ہیں، ثقہ ہیں۔
رجال النجاشي/بابالسين/188
لہذا یہ روایت بلکل صحیح روایت ہے ۔