- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/07/23
- 0 رائ
اس مسئلہ میں شیعہ علمااور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ھے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ھے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ھونا خود اس بات پر محکم دلیل ھے، کیونکہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نھیں ھوئی ھے، اور پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ سے آج تک ھر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ھوتا رھا ھے۔
لیکن اھل سنت علمامیں سے مشھور و معروف موٴلف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ھیں:
علما کے درمیان یہ بحث ھے کہ کیا ھر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ھے یا نھیں؟ مکہ کے قدیم علما (فقھا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اھل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اھل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ھیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ھے، اسی طرح شیعہ علما اور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت) علی، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوھریرہ اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زھری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ھے۔
اس کے بعد مزید بیان کرتے ھیں کہ ان کی سب سے اھم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ھے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ھے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نھیں ھے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نھیں کیا ھے۔
اس کے بعد(امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ھے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ھر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ھوئی ھے۔
اور احمد (بن حنبل) (اھل سنت کے مشھور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ھیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،[۱]
(قارئین کرام!) مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اھل سنت کے علما کی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ھے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ھے، ھم یھاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ھیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ ان تمام کا یھاں ذکر کرنا ھماری بحث سے خارج ھے، اور مکمل طور پر ایک فقھی بحث ھے)
۱۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاھنے والوں میں سے ھیں، کہتے ھیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں، میںنے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ھوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاھوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ھاں۔[۲]
۲۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ھے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ھے۔[۳]
۳۔ اھل سنت کے مشھور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ھیں:
”استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اٴعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“[۴]
شیطان صفت لوگوں نے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ھے“ (اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نھیں پڑھتے)
اس کے علاوہ ھمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رھی ھے کہ ھر سورے کو شروع کرنے سے پھلے بسم اللہ پڑھتے ھیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) بھی ھر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ھے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ھو خود پیغمبر اکرم(ص) اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ھمیشہ پڑھا کریں؟!۔
لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ھے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ھے اور قرآن کا جز ھے مگر سوروں کا جز نھیں ھے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ھے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ھیں جس سے معلوم ھوتا ھے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ھے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رھیں اور کھیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ھے، جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نھیں ھے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ھیں کہ بعد میں شروع ھونے والی بحث کا سر آغاز ھے۔
صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ھے اور وہ یہ ھے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نھیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پھلی آیت شمار کیا جاتا ھے۔
اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نھیں ھے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پھلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں <بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ إِنَّا اٴعطینکَ الکَوْثَر> ایک آیت شمار ھو۔
بھر حال یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ھے کہ تاریخ نے لکھا ھے کہ معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ایک روز نماز جماعت میں بسم اللہ نھیں پڑھی، تو نماز کے فوراً بعد مھاجرین اور انصار نے مل کر فریاد بلند کی : ”اسرقت اٴم نسیت“ (اے معاویہ! تو نے بسم اللہ کی چوری کی ھے یا بھول گیا ھے؟)[۵]([۶])
حواله جات
[۱] تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰۔
[۲] اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ ۳۱۲۔
[۳] الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶۔
[۴] بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰۔
[۵] بیہقی نے جزء دوم کے صفحہ ۴۹ پر اور حاکم نے بھی مستدرک میں جزء اول کے صفحہ ۲۳۳ پر اس حدیث کو نقل کیا ھے اور اس حدیث کوصحیح جانا ھے۔
[۶] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۱۷۔