- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
یوم دختر اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی شادی نہ کرنے کی وجہ
پیغمبراکرم اور اهل بیت , حضرت امــام کاظم(ع) , حضرت امـام رضـا(ع)- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/05/09
- 2 رائ
پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کے خاندان کی قابل فخر ثقافت اور طرز زندگی سے آگاہ ہونا اور اس مستحکم پناہ گاہ میں روحانی اور عملی پناہ لینا خالص اسلام کو جاننے اور اس سے مستفید ہونے کا ایک مستند طریقہ ہے، کیونکہ وہ علم الہی کے سر چشمه سے سیراب ہوئے ہیں۔ اور اسی خاندان نبوت و امامت کی ایک کڑی حضرت فاطمہ معصومہ (س) ہے، جن کی برکت سے آج قم کے تمام مادی اور معنوی نعمتوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
یوم دختر
بیٹیوں کا دن، ایران سرزمین کی لڑکیوں کی عزت کے لیے ایک اہم دن ہے۔ اس دن کو اسلامی جمہوریہ ایران کے کلینڈر میں حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی ولادت باسعادت کی وجہ سے “روز دختر” کا نام دیا گیا ہے۔ دین اسلام میں بیٹیوں کو خدا کا سب سے قیمتی تحفہ سمجھا جاتا ہے۔
روایات میں بیٹیوں کا مقام و منزلت
اہل بیتؑ کی ثقافت میں خواتین اور بیٹیوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے جس کی جڑیں الٰہی قانون سے مربوط ہیں۔ ائمہ معصومین (ع) کے کلام میں بیٹیوں کو ان الفاظ جیسے، ریحانہ (پھول)، قواریر (روشنی) اور حسنہ (نیکی) سے یاد کیا گیا ہے۔ جن میں سے ہر ایک الفاظ بیٹیوں کے استحقاق اور خصوصی فطری اور روحانی خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے۔ رسول خدا (ص) سے روایت ہے کہ آپ(ص)نے فرمایا:
“نِعمَ الوَلَدُ البَنَاتُ مُلَطِّفَاتٌ مُجَهِّزَاتٌ مُؤمِنَاتٌ مُبَارَکاتٌ مُفَلَّیَاتٌ”[1]
” بیٹیاں، نرمی اور مہربانی، خدمت گذاری، خوشی اور غم، بابرکت اور پاکیزہ ہونے کے اعتبار سے اپنے والدین کے لیے اور خاندان والوں کے لئے کتنی اچھی ہیں۔”
حضرت معصومہ (س)
حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی ولادت پهلی ذی القعدہ سن 173ھ کو شهر مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے والد حضرت امام موسی کاظم (ع) اور والدہ جناب نجمہ خاتون ہیں۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے اپنی زندگی (بچپن سے لے کر جوانی تک) اپنے بابا اور اپنے بھائی حضرت امام علی رضا (ع) کی سرپرستی میں گذاری اور حضرت فاطمہ معصومہ (س)، علم اور تقویٰ میں اس بلند مقام پر تھیں کہ حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو آپ کے بابا حضرت امام موسی کاظم (ع) نے “فداھا ابوھا” کا خطاب دیا۔ اور اس جملہ سے دنیا والے آپ کے علم اور تقوی کی منزلت کو درک کر سکتے ہیں۔ جب حضرت امام علی رضا (ع) “مرو” تشریف لائیں تو اسکے بعد حضرت امام علی رضا (ع) نے اپنے ایک غلام کے ذریعے اپنی بہن حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو خط بھیجا۔ جب حضرت امام علی رضا (ع) کا خط حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے پاس پہنچا تو حضرت فاطمہ معصومہ (س) فوراً سفر کے لیے تیار ہو گئیں۔[2] اور سن 201 ہجری میں حضرت فاطمہ معصومہ (س) اپنے پانچ بھائیوں (فضل، جعفر، ہادی، قاسم، زید) اور متعدد بھانجوں اور کنیزوں کے ساتھ خراسان کی جانب سفر کے لئے تیار ہوئیں۔[3]
جب حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا کاروان “ساوہ” پہنچا تو مامون عباسی کے اشارہ پر اہل بیتؑ کے کچھ دشمنوں نے حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے کاروان کا راستہ روک دیا اور ایک شدید حملہ میں حضرت معصومہ فاطمہ (س) کے تمام بھائی اور اکثر ساتھی شہید ہوگئے۔ اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) ان مصائب کی شدت سے چند روز کے بعد جاں بحق ہوگئیں اور ایک قول کے مطابق زہر پینے سے بیمار ہوئیں اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ [4]
۲۳/ ربیع الاول سن 201 ہجری کو حضرت فاطمہ معصومہ (س) قم میں داخل ہوئیں۔ اور لوگ آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوئے اور خصوصی طور پر یہ اعزاز اشعریوں کے سردار جناب موسیٰ بن خزرج کو حاصل ہوا کہ سترہ دن کے لیے حضرت فاطمہ معصومہ (س) جو حضرت امام موسی کاظم (ع) کی دختر نیک اختر، اور حضرت امام علی رضا (ع) کی ہمشیرہ تھی آپ کے گھر مہمان تھیں۔ اور چند روز کے بعد حضرت فاطمہ معصومہ (س)۱۰ / ربیع الثانی،سن 201 ہجری کو انتقال کرگئیں اور آپ اہل قم اور دو نامعلوم افراد کے ذریعہ نہایت عزت و احتشام کے ساتھ سپرد خاک ہوئیں۔[5]
آیات و روایات میں شادی کی اہمیت
اس مقالہ کے اصل موضوع کو بیان کرنے سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دین اسلام میں شادی کے مسلہ پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اور قرآن کریم میں بھی اس مسلہ کی اہمیت کے سلسلہ میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ جیسے کہ خود خداوند عالم سورہ نور کی آیت نمبر بتتیس میں ارشاد فرماتا ہے:
“وَأَنْکِحُوا اْلأَیامى مِنْکُمْ وَ الصّالِحینَ مِنْ عِبادِکُمْ وَ إِمائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَراءَ یُغْنِهِمُ اللّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللّهُ واسِعٌ عَلیم”[6]
“اور تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔”
اور اسی طرح حضرت محمد مصطفی (ص) اور ائمہ معصومین (ع) سے بھی شادی کے سلسلہ میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں جس کے سلسلہ میں خود پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے بیحد تاکید کی ہیں۔ جیسا کہ خود رسول اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے:
” اَلنِّکاحُ سُنَّتی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتی فَلیس مِنّی”[7]
“نکاح میری سنت ہے پس جس نے بھی میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔”
دوسری جانب سنگل (اکیلے) زندگی گزارنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
حضور نبی اکرم (ص) نے فرمایا:
“شَرارُکُمْ عُزَّابُکُمْ، رَکْعَتانِ مِنْ مُتَأهِّلٍ خَیْرٌ مِنْ سَبعینَ رکْعَةً مِنْ غیْرِ مُتَأهِّلٍ” [8]
“شادی شدہ کی ایک رکعت نماز، غیر شادی شدہ کی ستر رکعت نماز سے بہتر ہے۔”
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ (س) جو خاندان نبوت اور امامت کا چشم و چراغ ہیں اور جو تمام دستورات اسلام اور سنت نبوی کا علم رکھتی ہیں اس کے بعد بھی کیوں انہوں نے شادی نہیں کی؟
مختلف نظریات کی بررسی اور تحقیق
حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے نکاح نہ کرنے کے سلسلہ میں چند وجہیں بیان کئی گئ ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱: موسیٰ بن جعفر (ع) کی وصیت
ہوسکتا ہے کہ ایک احتمال یہ ہو کہ خود حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) کا اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت!
ابن واضح یعقوبی اس نظریہ کے حامی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ: “امام موسی کاظم (ع) کے اٹھارہ بیٹے اور تئیس بیٹیاں تھیں۔ امام موسی کاظم (ع) نے ان کے لئے وصیت کی تھی کہ ان کی بیٹیوں کی شادی نہ کی جائے اور ان کی کسی بھی بیٹی نے سوائے ام سلمہ کے شادی نہیں کی۔[9]
ابن واضح یعقوبی کے اس قول کے جواب میں سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے کہ: شادی اور نکاح کرنا رسول اللہ (ص) کی سنت اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت رہی ہے اور ایک امام معصومؑ سے اس طرح کی وصیت کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) کی وصیت کا متن ابن واضح یعقوبی کے دعویٰ سے مختلف ہے۔ لہذا اس سلسلہ میں فیصلہ کرنے سے پہلے ہم حضرت امام موسی کاظم (ع) کی وصیت کے متن کا جائزہ لیں گے۔
ابراہیم بن عبداللہ نے حضرت امام موسی کاظم (ع) سے روایت کی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم (ع) نے کچھ لوگوں کو جیسے اسحاق بن جعفر، ابراہیم بن محمد و جعفر بن صالح کو اپنی وصیت کا گواہ بنایا اور فرمایا:
“اُشْهِدُ هُمْ اَنّ هَذِهِ وَصِیَّتی … اَوصَیْتُ بها اِلی عَلَیٍّ اِبْنی … و اِنْ اَرادَ رَجَلٌ مِنْهَم اَنْ یُزَوِّجَ أختَهُ فَلَیْسَ لَهُ اَنْ یُزَوِّجَها الاّ بِاِذْنِهِ وَ اَمْرِهِ … وَ لا یُزَوِّجَ بَناتی اَحَدٌ مِنْ اِخْوتِهِنَّ وَ مِنْ اُمّهاتِهِنَّ وَ لا سُلْطانٌ وَ لا عَمِلَ لَهُنّ اِلاّ بِرأیِهِ وَ مَشْوَرتهِ ، فَاِنْ فَعْلُوا ذلِکَ فَقَدْ خالَفُوا الله تَعالی وَ رَسُولَهُ (ص) وَ حادُّوهُ فی مُلْکِهِ وَ هُوَ اَعْرَفُ بِمنالحِ قَوْمِهِ اِنْ اَرادَ اَنْ یَزَوِّجَ زَوَّجَ، وَ اِنْ اَرادَ اَنْ یَتْرَکَ تَرَکَ… “[10]
“وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ میری وصیت ہے… میں نے اپنے بیٹے علی (امام علی رضا (ع) کو وصیت کی۔۔ اگر تم سے کوئی مرد اس بات کا تقاضا کرے کہ تم اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کرو تو وہ شخص اس بات کا حق نہیں رکھتا ہے مگر یہ امام علی رضا (ع) اس کو شادی کی اجازت دیں اور نہ میری بیٹویں میں سے کسی کو یہ حق ہے کہ اپنی کسی بہن کی شادی کسی مرد سے کریں، اور نہ ان کی ماوں کو اور نہ کسی حاکم و بادشاہ کو یہ حق ہے کہ وہ ایسا کام کریں اور خدا کی قسم اگر کسی نے ایسا کام کیا تو گویا وہ خدا اور رسول اور ان کی سلطنت کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور میرا بیٹا علی (علی رضاؑ) قوم اور شادیوں کے سلسلہ میں سب سے زیادہ آگاہ تر ہے، اگر وہ چاہیں تو کسی کی شادی کریں اور اگر چاہیں تو کسی کی شادی کی درخواست کو رد کردیں۔
اس وصیت میں حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) واضح طور پر اپنی اولاد کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے بعد خدا کی حجت ان کے بیٹے علی بن موسیٰ یعنی امام علی رضا (ع) ہیں اور ان تمام لوگوں کو، خصوصاً امام علی رضا (ع) کی بہنوں پر لازم ہے کہ وہ ہر معاملے میں ان کی اطاعت کریں، حتی نکاح کے مسئلہ میں بھی ان کی اطاعت کریں، اور جوشخص امام علی رضا (ع) کی نگاہ میں مناسب ہوگا وہ اپنی بہنوں کی شادی اس سے کردیں گے کیونکہ وہ شادی کے مسائل میں اپنے رشتہ داروں اور اپنی بہنوں سے زیادہ واقف ہے۔
یہاں پر حضرت امام موسی کاظم (ع) کی وصیت میں اپنی بیٹیوں اور حضرت امام علی رضا (ع) کی بہنوں کے شادی نہ کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ حضرت امام موسی کاظم (ع) یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کی شادی، حضرت امام علی رضا (ع) کی نگرانی اور ان کی اجازت سے ہو۔ اس جگہ پر امام موسی کاظم (ع)، لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے فرزند حضرت امام علی رضا (ع) ہی حجت خدا ہیں۔
لہٰذا امام کی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ابن واضح یعقوبی کا نظریہ بے بنیاد ہے یا ان کے پاس جو نسخہ وصیت نامہ کا موجود تھا اس میں یہ الفاظ “بِاِذْنِهِ وَ اَمْرِهِ” نہ رہے ہو یا انہوں نے غلطی سے یہ الفاظ نہ لائے ہوں[11] پس ان کی اس بات پر کہ امام موسی کاظم (ع) نے شادی نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اسی وجہ سے بعض محققین نے واضح طور پر ابن واضح یعقوبی کے قول کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔[12]
۲: حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا کفو نہ ہونا
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) کی صاحبزادیاں بالخصوص حضرت فاطمہ معصومہ (س)، جو علمی اور روحانی کمالات کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر فائز تھیں اس بنا پر کوئی حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا کفو نہیں تھا۔ اور اسی طریقہ سے لڑکی کی شادی کرتے وقت جس چیز کو مد نظر رکھا جاتا ہے وہ کفو ہونا ہے۔
اس نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض اس کو قبول کرتے ہیں اور بعض رد کرتے ہیں۔
جو لوگ قبول کرتے ہیں وہ امام صادق (ع) کی اس روایت کو پیش کرتے ہیں کہ امامؑ نے فرمایا:
اگر خداوند عالم نے حضرت امام علی (ع)کو پیدا نہ کیا ہوتا تو روی زمین پر آدمؑ سے لیکر رہتی دنیا تک فاطمہ (س) کا کوئی کفو نہ ہوتا۔ [13]
لیکن اس کے مقابلہ میں وہ افراد جو رد کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) کی یہ سیرت نہیں رہی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شادی سے روکیں، بلکہ وہ اپنے قول میں اور اپنے عمل میں مومن مرد اور مومن عورت کو ایک دوسرے کے لیے برابر سمجھتے تھے۔ اور وہ اپنے دعوی پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں۔
رسول خدا (ص) سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:”ِاذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلاّٰ تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي اَلْأَرْضِ وَ فَسٰادٌ كَبِيرٌ”[14]
“جب کوئی تمہاری بیٹی کا رشتہ لیکر آئے اور تمہیں اس کی دینداری اور امانت داری کا یقین ہو تو تم اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردو اور اگر تم نے اس کی شادی نہیں کی تو یہ بات فساد کا سبب بنے اور روی زمین بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔”
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت امام موسی کاظم (ع) کے دور میں امام حسن مجتبی (ع) اور حضرت سید الشہداء (ع) کی اولاد میں اور اہل تشیع میں سے ایسے قابل نوجوان تھے جن کے ساتھ ان کی شادیاں ہوسکتی تھی۔
۳: حکومت کا خوف
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہارون الرشید کی وحشت اور اس کی موجودگی اس قدر شدید تھی کہ کوئی بھی حضرت امام موسی کاظم (ع) کے گھر جا کر شرعی مسائل کے بارے میں پوچھنے کی جرائت نہیں رکھتا تھا۔ شادی کا مسئلہ تو درکنار، کیونکہ امام موسی کاظم (ع) کا داماد یعنی خطرناک کام کا اقدام کرنا اور اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالنا۔[15]
اس دور کے حالات؛ جیسے امام موسی کاظم (ع) کو قید میں رکھنا، اور ان کے گھروں پر نظر رکھنا اور ان کے بیٹے حضرت امام علی رضا (ع) کے پر بھی نظر رکھنا یہ وہ سارے حالات تھے جنہوں نے امام موسی کاظم (ع) کی بیٹیوں کو شادی کرنے کے حوصلہ کو کم کر دیا تھا۔ اور امام موسی کاظم (ع) کی شہادت کے بعد لوگوں پر مزید خوف طاری ہو گیا تھا اور حضرت اما علی رضا (ع) پر بھی نگرانی بڑھا دی گئی تھی۔ مامون کے زمانے میں امام علی رضا (ع) کو خراسان میں بلایا گیا اور ایک سال کے بعد حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور ان کے بھائیوں کا ایک گروہ خراسان کی طرف روانہ ہوا، لیکن امامؑ تک پہچنے سے پہلے ہی حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے اس فانی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
نتیجہ
دین اسلام میں صنف نسواں کو بہت عزت اور احترام کا درجہ دیا گیا ہے۔ اب چاہے وہ بیٹی کی صورت میں ہو یا ماں کی صورت میں یا بیوی کی صورت میں ہو یا بہن کی صورت میں، اور اسی طرح دین اسلام نے شادی کی بھی بہت تاکید کی ہے اور جسکی طرف قرآن کریم کی آیات اور ائمہ معصومین (ع) کی روایات نے اشارہ کیا ہے اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا یا حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی بہنوں کی شادی نہ ہونے کی وجہ اس دور کے حالات ہے۔
حوالہ جات
[1] محمدی ری شھری، میزان الحکمۃ، ج۱۳، ص۴۴۲.
[2] داخل حسین، من لا یحضره الخطیب، ج4، ص461؛ عظیمی، بارگاہ فاطمہ معصومہ، ص30.
[3] عظیمی، بارگاه فاطمہ معصومہ، ص31؛ مهدوی پور، کریمه اهل بیت، ص174.
[4] عاملی، الحیاة السیاسیه للامام رضا، ص428.
[5] مجلسی، بحارالانوار، ج48، ص290؛ قمی، تاریخ قم، ص213.
[6] سوره نور آیت نمبر 32.
[7] مجلسی،بحارالانوار، ج103، ص220.
[8] محمدی ری شهری، میزان الحکمۃ، ص233؛ متقی هندی، کنزالعمال، روایت44448.
[9] یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص421.
[10] مجلسی، بحار الانوار، ج48، ص276 ـ 280؛ دینوری، عیون الاخبار، ج۱، ص 26؛ کلینی، اصول کافی، ج1، ص317.
[11] کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۶۱.
[12] قرشی،حیاة الامام موسی بن جعفر، ج2، ص497.
[13] کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۲۶۱.
[14] محمدی ری شهری، میزان الحکمۃ، ص234؛ مجلسی،بحار الانوار، ج103، ص237.
[15] محمدی اشتھاردی، حضرت معصومہ چشمہ جوشان کوثر ،ص۲۸.
منابع و مآخذ:
1. ابن قتيبة الدينوري، ابو محمد عبد الله بن مسلم، عیون الاخبار، دار الكتب العلميۃ، بيروت، سال اشاعت چھارم، ۱۴۱۸.
2. داخل حسین، من لایحضره الخطیب بحوث و محاضرات فی التفسیر و التربیۃ و الادب و التاریخ، قم، مکتبۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۱.
3. عاملی، سید جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام رضا (ع)، بیروت، دار الاضواء، ۱۳۶۲.
4. قرشی، محمد باقر شریف، حیاة الامام موسی بن جعفر دراسہ وتحلیل، قم، اعتصام، ۱۳۸۶.
5. قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، كتابخانه بزرگ حضرت آيت الله العظمي مرعشي نجفي، گنجينه مخطوطات اسلامي، ۱۳۸۵.
6. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، مترجم، حسین استاد ولی، تهران، دار الثقلین، سال اشاعت چھارم، ۱۳۹۳.
7. متقی هندی، علاء الدين علي بن حسام الدين، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، بیروت، مؤسسة الرسالة، سال اشاعت چھارم، ۱۴۰۱.
8. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدُرر أخبار الأئمة الأطهار، دارالکتب الاسلامیة، قم، سال اشاعت سوم، ۱۳۸۲.
9. محمدی اشتھاردی، محمد، حضرت معصومہ چشمہ جوشان کوثر، تهران، مطھر، ۱۳۷۸.
10. محمدی ری شھری، محمد،میزان الحکمۃ، قم، مؤسسه دارالحديث، 1389.
11. مھدوی پور، علی اکبر، زندگانی کریمه اهل بیت، قم، حاذق، 1384.
12. میرعظیمی، سید جعفر، بارگاه فاطمه معصومه (س) تجلی گاه فاطمه زهرا (س)، قم، میراث ماندگار، سال اشاعت دوم، ۱۳۸۶.
13. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، مترجم محمد ابراھیم آیتی، تهران، شرکت انتشارات علمی و فرهنگی (آموزش انقلاب اسلامی) سال اشاعت یازدھم، ۱۳۸۹.
مضمون کا مآخذ:
۱- محمدی اشتھاردی، محمد، حضرت معصومہ، چشمہ جوشان کوثر، مطھر، سنہ ۱۳۷۸.
۲-حسینی، سیدجواد، راز عدم ازدواج حضرت معصومہ (س)، مجلہ فرهنگ کوثر، سنہ 1386، نمبر69، ص99-105.
Very good
Bhut acha matalib