- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 2 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/07/23
- 0 رائ
قرآن کریم، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوت اور رسالت پر گواہ کے طور پر، دیگر سب کلاموں پر فوقیت کا حامل ہے، یہاں تک کہ کوئی شخص اس جیسا کلام نہیں لاسکتا اور نہ ہرگز کوئی لاسکے گا۔ قرآن مجید کے معجزہ ہونے کے متعدد دلائل ہیں جن میں سے بعض کا یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے:
۱۔ اگرچہ فصاحت و بلاغت، عرب میں عروج پر تھی، لیکن وہ لوگ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے سامنے ہمیشہ اپنے آپ کو عاجز اور ناتوان پاتے تھے۔ لہذا سورہ اسراء، آیت 88 میں اللہ تعالی نے تحدی کی ہے: “قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً”، ” آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں”۔ بنابریں فصاحت و بلاغت کے ماہرین بھی مثل قرآن لانے سے عاجز ہیں۔
۲۔ قرآن کریم، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا جبکہ لوگ گواہ ہیں کہ آنحضرتؐ نے ہرگز کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ سورہ عنکبوت، آیت 48 میں ارشاد باری تعالی ہے: “وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ”، “اور (اے رسول(ص)) آپ اس (نزولِ قرآن) سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے دائیں ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو یہ اہلِ باطل ضرور (آپ کی نبوت میں) شک کرتے”۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن اللہ تعالی کی کتاب ہے۔
۳۔ قرآن مجید میں متعدد عناوین پر گفتگو کے باوجود کسی قسم کی تنافی اور اختلاف نہیں پایا جاتا، لہذا پروردگار عالم نے سورہ نساء، آیت 82 میں فرمایا ہے: “أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيراً”، “آخر یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے”۔ لہذا اختلاف کا نہ پایا جانا دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے۔
۴۔ قرآن کریم، انسانی زندگی کے تمام ضروری پہلوؤں کو شامل ہے، جیسے عقائد، سياست، اقتصاد، اخلاق، جنگی فن، علمي مطالب، غيبي خبریں اور کئی دیگر عناوین۔
۵۔ قرآن کریم اس دور میں نازل ہوا جب لوگوں میں سائنسی اور علمی بحثیں نہیں ہوا کرتی تھیں، تو قرآن نے ایسی سائنسی بحثیں بیان کیں جن میں سے بعض کا انکشاف آجکل کی سائنس کررہی ہے اور بعض بحثوں سے فی الحال سائنس عاجز ہے۔
۶۔ قرآن مجید نے ایسی پشینگوئیاں کی ہیں جو بعض وقوع پذیر ہوچکی ہیں اور ان کے ذریعہ قرآن کی حقانیت اور صداقت ثابت ہوچکی ہے، بعض پشینگوئیاں مستمر اور جاری کیفیت کی حامل ہیں اور بعض ایسی پشینگوئیاں ہیں جن کے وقوع پذیر ہونے کا ابھی وقت نہیں آیا اور ان کا تعلق مستقبل سے ہے، جیسے صالحین کی حکومت اور دنیابھر میں عادلانہ حکومت کا انعقاد۔
مذکورہ دلائل کے علاوہ دیگر دلائل بھی قرآن کریم کے معجزہ ہونے پر پائے جاتے ہیں اور مذکورہ دلائل بھی مختصراً بیان ہوئے ورنہ ہر دلیل کی کچھ تفصیلات بھی پائی جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ آیات از:
ترجمہ قرآن علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)
ترجمہ قرآن مولانا شیخ محسن نجفی صاحب