- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
کیا اعجاز اصل علیت کے لئے ناقض نھیں ھے؟
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے۔
کیا خارق عادت امور سنت الٰھی میں تغیر ایجاد کرنے کے مترادف نھیں ھیں؟
کیوں رسول اکرم( ص) معجزات پیش کرنے سے خودداری فرماتے تھے؟
کیا معجزات برھان عقلی ھیں یا دلیل اقناعی؟
چند شبھات کا حل
مسئلہ اعجاز کے سلسلہ میں چند شبھات ھیں کہ جن کے جوابات اِس درس میں دئے جائیں گے۔
پھلا شبہ یہ ھے کہ ھمیشہ مادی موجودات کا وجود میں آنا ،کسی خاص علت کی بنیاد پر ھوتا ھے کہ جنھیں علمی آزمائشات کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ھے، اور کسی موجود کی علتوں کا نا شناختہ رہ جانا، اس موجود کے لئے علت نہ ھونے پر دلیل نھیں ھے، لہٰذا خارق عادت امور کو اِس عنوان سے قبول کیا جاسکتا ھے ،کہ وہ ناشناختہ علل و عوامل کے ذریعہ وجود میں آئے ھیں، اور جب تک ان امور کے علل و اسباب نا شناختہ ھیں اس وقت تک انھیں حیرت انگیز امور میں شمار کیا جاسکتا ھے، لیکن قابل شناخت علتوں کا انکار علمی آزمائشوں کے ذریعہ اصل علیت کے نقض کے معنی میں ھے اور غیر قابل قبول ھے۔
اِس شبہ کا جوا ب یہ ھے کہ اصل علیت کا صرف تقاضا یہ ھے کہ کسی بھی وابستہ موجود ، یا معلول کے لئے علت کا ھونا ضروری ھے، لیکن تمام علتوں کا آزمائشوں کے ذریعہ قابل شناخت ھونا کسی بھی صورت میں اصل علیت کا لازمہ نھیں ھے اور اس لازمہ کے لئے کوئی دلیل بھی نھیں ھے اس لئے کہ علمی آزمائش امور طبیعی میں محدود ھیں، اور کسی بھی صورت میں ماوراء طبعیت امورکے وجود ، یا عدم یا اُ س کی اثر گذاری کو آزمائش و سیلئہ کے ذریعہ ثابت نھیں کیا جاسکتا۔
لیکن اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاھی کے معنی میں صحیح نھیں ھے، اس لئے کہ اگر یہ آگاھی عادی علتوں کے ذریعہ حاصل ھوئی ھو تو اِس میں اور بقیہ عادی موجودات میں کوئی فرق نھیں ھونا چاھیے اور کسی بھی صورت میں اُسے خارق عادت امر نھیں کھا جا سکتا، اور اگر آگاھی غیر عادی طریقہ سے حاصل ھوئی ھو تو اُسے خارق عادت امور میں سے شمار کیا جائے ، لیکن جب وہ اذن الٰھی پر منحصر اور نبوت کی دلیل ھو تو معجزہ کی قسموں میں شامل ھے، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لوگوں کے ذ خائر اور خوراک سے آگاھی آپ کے معجزات میں سے تھا[5] لیکن معجزہ کو صرف اِسی ایک قسم میں منحصر نھیں کیا جاسکتا، اس اعتبار سے کہ بقیہ اقسام کی نفی کردی جائے لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ھے کہ ایسے امور اور بقیہ خارق عاد ت امور میں اصل علیت کے اعتبار سے فرق کیا ھے؟
دوسرا شبہ یہ ھے کہ خدا کی ھمیشہ یہ سنت رھی ھے کہ وہ کسی بھی موجود کو کسی خاص علت کے سھارے وجود میں لاتا ھے، اور قرآن کی آیتوں کے مطابق سنت الٰھی قابل تغیر نھیں ھے۔[6]
لہٰذا خارق عادت امور سنت الٰھی میں تغیر و تبدل کا سبب بنیں ، مذکورہ آیتوں کی بنیاد پر یہ بات غیر قابل قبول ھے؟
یہ شبہ بھی گذشتہ شبہ سے مشابہ ھے بس فرق اتنا ھے کہ گذشتہ شبہ میں عقلی دلائل استعمال ھوئے تھے اور اس شبہ میں قرآنی آیت کا سھارا لیا گیا ھے اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ موجودات کے علل و اسباب کو عادی علل و اسباب میں منحصر سمجھنے کو تغیر ناپذیر سنت الٰھی کا جز سمجھنا بے بنیاد بات ھے، اس کی مثال ایسی ھی ھے ، جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ علت حرارت کا آگ میں منحصر ھونا خدا کی تغیر ناپذیر، سنتوں میں سے ھے، اِیسے د عووں کے مقابلہ میں یہ کھا جا سکتا ھے کہ مختلف معلولات کے لئے مختلف علتوں اور اسباب عادی کے لئے غیر عادی اسباب کا جمع ھونا ایک ایسا امر ھے جو ھمیشہ دیکھا گیا ھے
اور اس وجہ سے ُاسے سنت الٰھی کا جزء شمار کرنا چاھیے اور اسباب کے عادی اسباب میں منحصر ھونے کو اُس کے لئے ایک قسم کا تغیر سمجھنا چاھیے کہ کی قرآن نے نفی کی ھے۔
بھر حال ان آیتوں کی تفسیر کرنا جو سنت الٰھی کے تغیر ناپذیر ھونے پر دلالت کرتی ھیں، اس ’صورت میں کہ عادی اسباب کا جانشین قبول نہ کرنا اس عنوان کے تحت ھے کہ وہ خدا کی تغیر ناپذیر سنتوں میں ھے ایک بے بنیاد تفسیر ھے، بلکہ بہت سی وہ آیا ت جو معجزات اور خارق عادت امور کے ھونے پر دلالت کرتی ھیں،‘ اس تفسیر کے باطل ھونے کے لئے ایک محکم دلیل ، بلکہ اُن آیتوں کی صحیح تفسیر کو تفسیر کی کتابوں میں تلاش کرنا ھوگا اور ھم اس مقام پر صرف ایک اجمالی اشارہ کریں گے کہ یہ آیات ،معلول کی اپنی علت سے مخالفت نہ کرے پر دلالت کرتی ھیں نہ یہ کہ علتوں کا متعدد ھونا یا علت عادی کی جگہ علت غیر عاد ی کے آ جانے کی نفی کرتی ھیں بلکہ شاید یہ کھا جا سکتا ھے کہ تاحد یقین اسباب کی تاٴثیر اور غیر عادی علل ان آیتوں کے موارد میں سے ھیں۔
تیسرا شبہ یہ ھے کہ قرآن کے مطابق لوگ بارھا رسول اکرم( ص) سے معجزہ کی درخواست کرتے تھے اور آنحضرت ایسی خواھشوں کے جواب سے خودداری فرماتے تھے[7]لہذا اگر معجزہ نبوت کو ثابت کرنے کا وسیلہ ھے تو پھر کیوں آنحضرت( ص) اس وسیلہ کے استعمال سے خودداری فرماتے تھے؟
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ ایسی آیتیں ان درخواستوں سے مربوط ھیں جو اتمام حجت اور ( ضحیح قرائن صدق، گذشتہ انبیاء ( ع)کی بشارتیں، اورمعجزات کے ذریعہ آپ کی نبوت کے اثبات کے بعد) ضد اور عناد کی وجہ سے کی جاتی تھیں[8] اورحکمت الٰھی کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی خواھشو ں کا جواب نہ دیا جائے۔
مزید وضاحت: معجزہ اِس جھان میںموجوہ نظام کے درمیان ایک علیحدہ مسئلہ ھے جسے لوگوں کی خواھشوں کو پورا کرے (جیسے ناقہٴ حضرت صالح (علیہ السلام) ) اور کبھی بطور ابتدائی (جیسے حضرت عیسی (ع) کے معجزات) انجام دیا جاتا تھا، لیکن اس کا ھدف خدا کے انبیاء( ع)کو پہچنوانا اور لوگوں پر حجت کو تمام کرنا تھا، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنارسولوں کی دعوتوں کو جبراً قبول کرنے اور اُن کے احکامات کے سامنے مجبوراً تسلیم ھوجانے کے لئے نھیں تھا اور نہ ھی وقت گذارنے کے لئے ایک کھیل اور عادی اسباب و مسببات میں ھنگامہ ایجاد کرنے کے لئے تھا، اور ایسے ھدف کے ھوتے ھوئے ایسی خواھشوں کا جواب کبھی نھیں دیا جا سکتا، بلکہ ایسی خواھشوںکاجواب دینا حکمت کے خلاف ھوگا، یہ خواھشیں ان درخواستوں سے مشابہ ھیں کہ جو ایسے امور سے مربوط تھیں کہ جس کی وجہ سے راہ اختیار ختم ھوجاتا، اور لوگوںکو انبیا ء علیھم السلام کی دعوت قبول کرنے کے لئے مجبور ھونا پڑتا، یا ان درخواستوں کی طرح ھیں کہ جنھیں عناد اور دشمنی یا حقیقت طلبی کے علاوہ کسی دوسرے اغراض کے تحت پیش کئے کرتے تھے، اس لئے کہ ایسی درخواستوں کا جواب دینے کی وجہ سے معجزات کھلونا بن جاتے اور عوام اُسے اپنے لئے وقت گزارنے کا بہترین وسیلہ تصور کرلیتی، یا اپنے شخصی منافع حاصل کرنے کے لئے رسول( ص) کے پاس جمع ھوجاتی، اور دوسری طرف آزادانہ اختیار،و انتخاب کا راستہ بند ھوجاتا، اس کے علاوہ لوگ مجبور ھو کر انبیاء علیھم السلام کی اطاعت قبول کرتے، اور یہ دونوں صورتیں معجزات کے پیش کرنے کی حکمت کے خلاف ھیں، لیکن ان مقامات کے علاوہ جھان حکمت الٰھی کا تقاضا ھو،وھاں ان کی خواھشوں کا جواب دے دیا جاتا تھا جیسا کہ رسول اکرم( ص)کے بے شمار معجزات قطعی سند کے ساتھ ثابت ھیں، جن میں ھر ایک سے واضح اور جاودانی قرآن کریم ھے کہ جس کی وضاحت انشاء اللہ آئندہ آئے گی۔
چوتھا شبہ یہ ھے کہ معجزہ چونکہ اذن الٰھی پر منحصر ھے جو اس بات کی علامت ھوسکتا ھے کہ خدا اور معجزہ دکھانے والے کے درمیان خاص ارتباط پایا جاتا ھے اس لئے کہ اُسے خدا نے یہ خاص اجازت عنایت کی ھے، یا ایک دوسر ی تعبیر کے مطابق اس نبی نے اپنی خواھش اور عمل کو اُس کے ارادہ کے ذریعہ تحقق بخشا ھے، لیکن ایسے ارتباطات کا عقلی لازمہ یہ نھیں ھے کہ اُس میں اور خدا کے درمیان اُس ارتباط کے علاوہ دوسرے ارتباطات بھی پائے جاتے ھوںلہذا معجزہ کو د عوی نبوت کے صحیح ھونے پر دلیل عقلی نھیں مانا جاسکتا، بلکہ اُسے صرف ایک ظنی اور قانع کردینے والی دلیل کا نام دیا جاسکتا ھے۔
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ خارق عادت امور اگرچہ الٰھی کیوں نہ ھوں، خود بخود رابطہ وحی کے ھونے پر دلالت نھیں کرتے اِسی وجہ سے اولیاء علیھم السلام کی کرامت کو اُن کے نبی ھونے کی دلیل نھیں مانی جاسکتی لیکن یھاں بحث اس شخص کے سلسلہ میں ھے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ھے اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ دکھایا ھے اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ھے[9]، جو عظیم اور بدترین گناھوں میں سے ھونے کے علا وہ دنیا و آخرت میں تباھی کا موجب بھی ھے، اُس میں ھرگز خداُ سے ایسے ارتباط کے برقرار ھونے کی صلاحیت نھیں ھوسکتی، اور خدا کبھی بھی ایسے فرد کو معجزہ کی قدرت عطا نھیں کرسکتا کہ جس کی وجہ سے لوگ گمراہ اور بدبخت ھوجائیں[10]
نتیجہ: عقل بخوبی درک کرتی ھے کہ صرف وھی شخص خدا سے خاص ارتباط برقرار کرنے اور معجزہ کی قدرت سے سرفراز ھونے کی صلاحیت رکھتا ھے کہ جو اپنے مولا سے خیانت نہ کرے اور ا سکے بندوں کی گمراھی اور بدبختی کا موجب نہ بنے، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنا د عوای نبوت کے صحیح ھونے پر ایک قاطعِ دلیل عقلی ھے۔
سوالات
۱۔ اصل علیت کا مطلب کیا ھے؟ اور اسکا لازمہ کیا ھے؟
۲۔ کیوں اصل علیت کو مان لینا اعجاز کوقبول کرنے کے خلاف نھیں ھے؟
۳۔ کیوں اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاھی کے معنی میں صحیح نھیں ھے؟
۴۔ کیا اعجاز کو قبول کرلینا تغیر ناپذیر سنت الٰھی کے خلاف نھیں ھے؟ کیوں؟
۵۔ کیاانبیاء علیھم السلام ابتداء امر میں معجزات پیش کرتے تھے یا جب لوگوںکی طرف سے درخواست ھوئی تو اس وقت اپنا معجزہ پیش کرتے تھے؟
۶۔ کیوں انبیا ء علیھم السلام معجزہ کے حوالے سے بعض خواھشوں کا جوا ب نھیںدیتے تھے؟
۷۔ اس امر کی وضاحت کریں کہ معجزہ ایک دلیل ظنی اور اقناعی نھیں ھے بلکہ ادعاء نبوت کے سچے ھونے پر ایک عقلی دلیل ھے؟
حواله جات
[1] کلمہ آیات مختلف معانی میں استعمال ھوتا ھے جیسے علم و قدرت، حکمت ، موجودات خواہ وہ عادی ھوں یا غیر عادی۔
[2] سورہٴ رعد۔ آیت /۳۷۔ سورہٴ غافر۔ آیت /۷۸
[3] سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۴۹۔ سورہٴ مائدہ۔ آیت/ ۱۱۰
[4] اسی کتاب کے چوتھے اور چوبیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے۔
[5] سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۴۹۔
[6] سورہٴ بنی اسرائیل۔، آیت/ ۷۷،۔سورہٴ احزاب۔ آیت/ ۶۲۔ سورہٴ فاطر۔ آیت/ ۴۳ سورہٴ فتح۔ آیت/ ۲۳۔
[7] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۳۷ سورہٴ یونس۔ آیت /۲۰ سورہٴ رعد۔ آیت /۷ سورہٴ انبیا ۔ آیت/ ۵
[8] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۳۵/ ۱۲۴ سورہٴ طہ۔ آیت /۱۳۳ سورہٴ صافات ۔آیت /۱۴ سورہٴ قمر۔ آیت /۲ سورہٴ شعراء ۔آیت /۳/ ۴/ ۱۹۷ سورہٴ اسراء۔ آیت /۵۹ سورہٴ روم۔ آیت /۵۸
[9] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۲۱/ ۹۳/ ۱۴۴ سورہٴ یونس ۔آیت/ ۱۷ سورہٴ ھود۔ آیت /۱۸ سورہٴ کھف ۔آیت/ ۱۵ سورہٴ عنکبوت۔ آیت/ ۶۸ سورہٴ شوریٰ۔ آیت /۲۴
[10] سورہٴ الحاقہ۔ آیت /۴۴/ ۴۶