- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
مقدمہ
تحریف یعني قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ھونا قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ھونا
ضرورتِ نبوت کی دلیل کا تقاضا یہ ھے کہ الٰھی پیغامات صحیح و سالم انسانوں تک پھنچیں، تا کہ اس پر عمل کرتے ھوئے انسان اپنی دنیا و آخرت کی سعادتوں تک رسائی حاصل کر سکے۔
لہٰذا قرآ ن کا لوگوں تک پھنچنے تک محفوظ رھنا دوسری آسمانی کتابوں کی طرح محتاج بحث نھیں ھے لیکن ھمیںیہ کھاں سے معلوم کہ دوسری آسمانی کتابیں بشر کے اختیار میں آنے کے بعد تحریفات کا شکار ھوئیں یا ایک مد ت گذرنے کے بعد طاق نسیاں کا شکار ھوگئیں، جیسا کہ آج ھمارے درمیان حضرت ابراھیم و حضرت نوح علیھما السلام کی کتابوں کا کوئی اثر موجود نھیں ھے۔ اور حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیھما السلام کی کتابیں اپنی اصلی حالت میں باقی نھیں ھیں۔ لہٰذا اِن مطالب کے پیش نظر یہ سوال اُٹھتا ھے کہ آج ھمارے پاس جو آسمانی کتاب کے عنوان سے قرآن موجود ھے کیا یہ وھی کتاب ھے جو آنحضرت( ص) پر نازل ھوئی اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تحریف ، کمی و زیادتی نھیں ھوئی ھے؟
البتہ وہ لوگ کہ جنھیں اسلام اور مسلمین کی تاریخ کا تھوڑا ، بہت بھی علم ھے ، وہ جانتے ھیں کہ رسول اللہ( ص) اور آپ کے جانشین ائمہ علیھم السلام نے قرآن کی کتابت اور اُس کی آیات کے حفظ کرنے میںکیا اہتمام کیا ھے ، یھاں تک کہ تاریخ کے مطابق تنھا ایک جنگ میں قرآن کے حافظین میں سے سترافراد شھید کردئے گئے، چودہ صدیوں سے قرآن کو تواتر سے نقل کرنے اور اُس کی آیات و کلمات اور حروف کی تعداد کو شمار کرنے میں مصروف ھیں وہ اس بات سے با خبر ھیں ایسے لوگ کھبی بھی قرآن میں معمولی تحریف کا امکان بھی نھیں دے سکتے، لیکن اگر تاریخ کے ایسے قطعی قرائن سے صرف نظر کرلیا جائے تو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ قرآن کے سالم رھنے کو ثابت کیا جاسکتا ھے، یعنی پھلے مرحلہ میں دلیل عقلی کی بنیاد پر قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ھونے کو ثابت کرنے کے بعد خود قرآن کی آیات کے سھار ے اُس میں سے کسی بھی چیز کے کم نہ ھونے کو ثابت کیا جاسکتا ھے۔
اسی وجہ سے قرآن کے سالم رھنے کی بحث کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔
قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ھونا۔
قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ نہ ھونے کا مسئلہ تمام مسلمین بلکہ جھان کے تمام باخبر افراد کے نزدیک قبول شدہ ھے، بلکہ کوئی ایسا حادثہ بھی رونما نھیں ھوا کہ جس کی وجہ سے قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ھونے کا احتمال دیا جاسکے، اور اِسی اضافہ کے لئے کسی سند کا کوئی بھی وجود نھیں ھے، بلکہ عقلی دلیل کی بنیاد پر اس مسئلہ کو اس طرح باطل کیا جاسکتا ھے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ قرآن کے معانی میں کسی کامل معنی کا اضافہ ھوا ھے تو اُس کا مطلب یہ ھوگا قرآن کا مثل یا نظیر لانا ممکن ھے، حالانکہ اعجاز قرآن اوربشر کی ناتوانی کے پیش نظر یہ امر باطل ھے، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تنھا ایک کلمہ یا ایک چھو ٹی آیت کا صرف اضافہ ھوا ھے تو اسکا لازمہ یہ ھے کہ نظم سخن میں خلل وارد ھوا ھے اور قرآن اپنی اعجاز آمیز شکل و صورت سے خارج ھوگیا ھے، اور اس صورت میں قابلِ تقلید اور اُس کے مثل لانے کا امکان پیدا ھوجائے گا، اس لئے کہ قرآن، آیتوں کے اعجاز آمیز نظم، کلمات و حروف کے انتخاب پر منحصر ھے ،لہٰذا اُن میں خلل اور تغیر کے وارد ھوتے ھی وہ اپنی اصلی حالت سے خارج ھوجائے گا۔
لہذا جس دلیل کے ذریعہ قرآن کا اعجاز ثابت ھے اُسی دلیل کے ذریعہ قرآن کا اضافات سے محفوظ رھنا ثابت ھے، نیز اُسی دلیل کے ذریعہ کسی کلمہ یا جملہ کا کم ھونا اس کے کم ھوتے ھی حالت اعجاز کے ختم ھوجانے کی نفی کرتا ھے ، لیکن قرآن سے کسی کامل سورہ کے کم نہ ھونے یا قرآن سے ایک کامل مطلب کا اس طرح سے خارج ھوجانا کہ ُاس کے اعجاز میں خلل وارد نہ ھو، اس کے نہ ھونے کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضرورت ھے۔
قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ھونا۔
آج تک علماء اسلام خواہ سنی ھوں یا شیعہ برابر اس امر کی تاکید کرتے رھے ھیں کہ جس طرح قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نھیں ھوا اسی طرح اُس سے کچھ کم بھی نھیں ھوا ھے انھوں نے اپنے اِس مطلب کے لئے بے شمار دلیلیں پیش کی ھیں، لیکن احادیث کی کتابوںمیں بعض من گھڑت حدیثوں کو نقل کرنے کی وجہ سے بعض معتبر روایتوں [۱] سے غلط مفھوم کو حاصل کرتے ھوئے بعض نے اِس مطلب کا احتمال اور بعض نے قرآن سے بعض آیات کے کم ھونے کی تائید بھی کی ھے۔
قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف خواہ اضافہ کے معنی میں ھو یا کم ھونے کے معنی میں۔
اس سلسلہ میں تاریخ کے قطعی قرائن ھونے کے علاوہ قرآن سے ایسے مطالب کا حذف ھوجانا جو اُس کے اعجاز کو ختم کردے، دلیلِ اعجاز کے ذریعہ باطل ھے بلکہ قرآن کی ایک سورہ یا ایک آیت کے حذف ھونے سے محفوظ رھنے کو خود قرآن کریم کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ھے۔
یعنی جب یہ امر واضح ھوگیا کہ تمام قرآن خدا کا کلام ھے اور اُس میں ایک حرف کا بھی نھیں ھوا ھے لہذا اُس کی آیات کے مفاھیم نقلی و تعبدی دلائل کے عنوان سے حجت ھیں، لہٰذا قرآن کی آیت سے حاصل ھونے والے مفاھیم میں سے ایک مفھوم قرآن کا خدا کی جانب سے ھر قسم کی تحریف سے محفوظ رھنے کی ضمانت لینا ھے، جبکہ دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت خود اُسی اُمت کے حوالہ تھی[۲] یھی مفھوم سورہٴ حجر کی آیت نمبر(۹) میں موجود ھے <’اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِکرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ> یہ آیت دو جملوں پر مشتمل ھے، پھلا جملہ<اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذَّکرَ> اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ قرآن کو خدا نے نازل کیا ھے اور نزول کے دوران اِس میںکسی بھی قسم کا کوئی تصرف بھی نھیں ھوا ھے اور دوسرا جملہ<وَاِناَّ لَہُ لحَافِظُونَ >اس جملہ میں نھایت تاکید ھوئی ھے جو اِس بات پر دلالت کرتی ھے کہ خدا نے اِس میں کسی بھی قسم کی تحریف نہ ھونے کی ضمانت لے رکھی ھے
یہ آیت اگر چہ قرآن میں کسی بھی قسم کے اضافہ کی نفی کررھی ھے لیکن ایسی تحریف کے نہ ھونے پر اِس آیت سے بھی استدلال نھیں کیا جاسکتا ھے اِس لئے کہ قرآن میں کسی بھی آیت کے اضافہ کے فرض میں وہ آیت خود بھی شامل ھے ،لہٰذا اِس آیت کے ذریعہ اِس فرض کو باطل کرنا صحیح نھیں ھے، اِسی وجہ سے ھم نے قرآن کے معجزہ ھونے کے ذریعہ اس فرضیہ کو باطل کیا ھے اور پھر اِسی آیت کے ذریعہ کسی آیت یا سورہ کا اس طرح سے حذف ھونا جو قرآن کے اعجاز آمیز نظم میں خلل وارد نہ کرے اس قسم کے حذف سے قرآن کے محفوظ رھنے کو بھی ثابت کردیا ھے، پس اسطرح قرآن کا تحریف (خواہ اضافہ کے ساتھ ھو یا حذف ھونے کے ساتھ) سے محفوظ رھنا عقلی اور نقلی دلائل کی ترکیب سے ثابت ھوجاتا ھے۔
اِس بحث کے آخر میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتے ھیں کہ قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ قرآن جھاں بھی ھو کتابت یا قرائت کے اعتبار سے محفوظ یا غلط تفسیراور تحریفِ معنوی سے پوری طرح پاک ھو، یا نزول کے مطابق اس کے سورہ اور آیتیں منظم ھوں”…بما استحفظو امن کتاب اللہ وکانوا علیہ شھداء‘
،بلکہ اس کا مطلب یہ ھے کہ قرآن جس مقدار میں نازل ھوا ھے اسی طرح انسانوں کے درمیان کم و زیادتی کے بغیر موجود ھے تا کہ طالبان حقیقت اپنا مقصود حاصل کرسکیں، لہٰذا قرآن کے بعض نسخوں کا ناقص یا کتابت کے اعتبار سے غلط ھوناقرائتوںکے اختلاف یا نزول قرآن کے مطابق آیات اور سورں کا منظم نہ ھونا مختلف تفسیرں اورمعنوی تحریفوں کا ھونا قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنے کے خلاف نھیں ھے۔
سوالات
۱۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنے کے مسئلہ کو بیان کریں؟
۲۔ تاریخی اعتبار سے قرآن کے تحریف سے محفوظ رھنے پر دلائل کیا ھیں؟
۳۔ قرآن کا محفوظ رھنا کس طرح ثابت کیا جاسکتا ھے؟
۴۔ قرآن میں زیادتی کے نہ ھونے کو ثابت کریں؟
۵۔کس دلیل کی بنیاد پر قرآن سے کچھ بھی کم نھیں ھوا ھے؟
۶۔ کیا انھیں دلیلوں کے ذریعہ قرآن میں اضافہ نہ ھونے کو ثابت کیا جا سکتا ھے ؟ کیوں اور کیسے؟
۷۔اس امر کی وضاحت کریں کہ قرآن کا قرائت یا کتابت کے اعتبا ر سے ناقص ھونا معنوی تحریفوں اور مختلف تفسیروں کا ھونا کیونکر قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رھنے کے مسئلہ کے خلاف نھیں ھے ۔؟
حواله جات
[۱] جیسے کہ وہ روایات جو آیتوں کی تفسیر یا اس کے بیان کرنے یا غلط تفسیروں اور معنوی تحریفوں کو باطل کرنے والی ھیں، جن سے یہ سمجھا گیا ھے کہ وہ قرآن کے کلمات کے حذف ھونے پر دلالت کرتی ھیں۔
[۲] جیسا کہ سورہٴ مائدہ کی آیت نمبر (۴۴) میں علماء یھود و نصاریٰ کے سلسلہ میں فرماتا ھے ۔