- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
ڈاکٹر محمود احمد غازی
دوسرا نام اس کتاب کا ”الکتاب“ هے ۔ وہ بھی بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا هے اللہ رب العزت کی جو مجموعی اسکیم هے انبیاء کی اور نبوت کے سلسلہ کی کتابیں بھیجے جانے اور شریعتیں اتارے جانے کی، اس ساری اسکیم سے اس نام کا بڑا گہرا تعلق هے ۔
قرآن مجید کو باربا ر الکتاب کہا گیا هے ۔ آغاز میں ہی ارشاد باری هے :
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔
یہ وہ کتاب هے جس میں کوئی شک نہیں ۔
ایک اور جگہ ارشاد هے :
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابُ۔
سب تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے بند ہ پر الکتاب اتاری۔
الکتاب کے معنی ہیں (The Book) دی بک۔ جب انگریزی میں دی (The) اور عربی میں ال، تخصیص کے حرف کے طور پر لگایا جاتا هے تو اس کے معنی هوتے ہیں صرف وہ متعین چیز جس کا تذکرہ هے ۔ یعنی وہ متعین کتاب جس کا اس سیاق وسباق میں تذکرہ هو رہا هے ۔ لیکن اس کے باوجود کہ قرآن پاک نے باربار خود کو الکتاب کہا هے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں جیسا کہ ہر مسلمان جانتا هے پچھلی کتابوں کا تذکرہ بھی هے، تورات کا بھی ذکر هے اور انجیل اور زبور کا بھی ذکر هے ۔ ان تین کتابوں کے نام تو لئے گئے ہیں ۔ بقیہ کتابوں کے نام نہیں لئے گئے ۔ بقیہ کتابوں کا ذکر عمومی انداز میں هے ۔ مثال کے طورپر سورة اعلیٰ میں صحف ابراہیم وموسیٰ کا ذکر هے ۔ ارشاد هے :
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبَرَاہیْمَ وَمُوْسٰی۔
یعنی یہی پیغام پرانے صحیفو ں میں بھی هے ۔ ابراہیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔
اب جہاں تک حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا تعلق هے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے خامس خمس یعنی عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں مراد ہیں جن کو تورات کہا جاتا هے ۔ اگرچہ تورات کو کہیں بھی قرآن میں صحیفے نہیں کہا گیا ۔ اس لیے قطعی طورپر ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحیفے جو یہاں کہاگیا هے ان سے مراد تورات ہی هے یا کوئی اور صحیفے مراد ہیں ۔ غالب خیال البتہ یہی هے کہ اس سے تورات مراد هو۔ لیکن حضرت ابراہیم کے صحیفے، جن کا یہاں ذکر کیا گیا هے اس سے پتہ چلتا هے کہ حضرت ابراہیم پر بھی صحیفے یا کتابچے الگ الگ اجزاء، سورتوں یا پمفلٹوں کی شکل میں اتارے گئے تھے ۔ جن کا قرآن پاک کی ان آیات میں ذکر هے ۔ یقیناً یہ صحیفے ان تین مشهور کتابوں کے علاوہ ہیں ۔
قرآن مجید میں ایک جگہ پرانی کتابوں کا عمومی انداز سے ذکر کیاگیا هے :
وَاِنَّہ‘ لَفِی زُبُرِالْاَوَّلِیْن۔
اور یہی پیغام پہلے لوگوں کی (پرانی) کتابوں میں بھی بیان کیا گیا تھا ۔ گویا کچھ اور قدیم اور پرانی کتابیں بھی ایسی تھیں جو اللہ نے پہلے اتاری تھیں جن کے ناموں اور مندرجات کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں هے ۔ اس اجمال کی مزید وضاحت ایک روایت سے هوتی هے جو مسند امام احمد بن حنبل میں بیان هوئی هے ۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا هے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان میں سے 315صاحب کتاب تھے ۔ اس طرح گویا کتابوں کی تعداد 315کے لگ بھگ تھی۔ لگ بھگ اس لیے کہا گیا کہ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک سے زائد پیغمبروں کو دی گئیں ۔ اس اعتبار سے کتابوں کی تعداد بہرحال سینکڑوں میں ضرور هو گی۔ کتنی هو گی یہ ہم قطعیت سے نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ان کتابوں کا اجمالی ذکر آیا هے، اور ایک صاحب ایمان کے لئے ا ن سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا هے ۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں چاهے ان کے نام ہمارے علم میں هوں یا نہ هوں، چاهے ان کی تفصیلات ہمارے علم میں هوں یا نہ هوں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں ۔ یہ بات اسلامی عقیدہ کا جزو هے جس کو ماننا مسلمان هونے کے لئے ضروری هے ۔
ان کتابوں کے لئے قرآن پاک میں دو الفاظ استعمال هوئے اور ان دونوں کی بڑی اہمیت هے ۔ قرآن پاک کے اس نام ” الکتاب“ سے اس کا بڑا گہرا تعلق هے ۔ ان سب کتابوں کے لئے جن کی تعداد تین سو پندرہ کے لگ بھگ هے قرآن میں کئی جگہ کتب (کتابیں) کا لفظ بصیغہ جمع استعمال کیا گیا هے ۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات میں ارشاد هوا هے :
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَأئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ۔
یعنی رسول اللہ اور سب اہل ایمان اللہ، اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اور اس کے رسالوں پر ایمان لائے ہیں ۔
یہاں کتب (کتابوں، بصیغہ جمع) سے مراد وہ ساری کتابیں ہیں جو اللہ نے اتاریں، بشمول قرآن مجید۔ یہاں اللہ رب العزت نے کتب کا لفظ استعال کیا هے جو جمع کے لئے هے یعنی بہت ساری کتابیں، لیکن ایک دوسری جگہ پہلی تمام کتابوں کے لئے ” الکتاب“ کا لفظ (بصیغہ واحد) استعمال کیا گیا هے ۔ سورة مائدہ کی آیت 48میں جہاں قرآن مجید کا تعارف کرایا گیا هے وہاں فرمایا :
مُصَدِّقًالِّمٰا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ۔
کہ قرآن اپنے سے پہلے آنے والی ” الکتاب“ کی تصدیق کرتا هے اور اس کا محافظ اور اس پر حاوی هے ۔
یہاں بھی دونوں صیغے مفرد کے ہیں ۔ اگرچہ کتابیں جن کی طرف اشارہ مقصود هے بہت سی ہیں، لیکن الکتاب کا لفظ اور علیہ کی ضمیر دونوں صیغہ واحد میں استعمال هوئے ہیں ۔ حالانکہ خود قرآن نے بہت سی کتابوں کا ذکر کیا هے جن کی تعداد جیسا کہ ہم نے دیکھا سینکٹروں میں هے ۔ پھر الکتاب اور علیہ دونوں کے لئے صیغہ مفرد کیوں استعمال کیا گیا ۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ هے ۔ یہ ایک سوال هے کہ قرآن کو بھی الکتاب کہا گیا اور پچھلی ساری کتابوں کو بھی مجموعی طور پر الکتاب کہا گیا؟ آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ هے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں هے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ صیغہ جمع میں الکتب کا لفظ هو یا صیغہ واحد میں الکتاب کا لفظ هو درست ہیں ۔
ان میں نہ کوئی تعارض هے نہ کوئی تضاد، بلکہ اس اسلوب بیان سے ایک چیز کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود هے ۔ اللہ رب العزت جو خالق کائنات هے اس کا ارشاد هے کہ مَایُبَدِّلَالْقَوْلَ لُدَی (میرے ہاں بات بدلتی نہیں هے)جو بات اس نے پہلے دن کہہ دی تھی وہی بات اس نے بعد میں بھی کہی۔ جو تعلیم اس نے حضرت موسیٰ کو دی تھی وہی تعلیم حضرت عیسیٰ کو بھی دی، اور جو تعلیم حضرت عیسٰی کو دی وہی ہمارے نبی کو بھی دی۔ لہذااللہ کی تعلیم میں کبھی کوئی فرق نہیں هوسکتا ۔ اس نے پہلے دن بھی توحید کی تعلیم دی تھی، رسالت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا تھااور آخرت پر ایمان کا سبق دیا تھا،مکارم اخلاق کی اور برے کردار سے بچنے کی تعلیم پہلے بھی دی تھی اور انہی چیزوں کی تعلیم آج بھی دی۔ تفصیلات میں جو فرق نظر آتا هے وہ لوگوں کے اپنے حالات بدلنے کی وجہ سے هے ۔ جو ں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی اسی لحاظ سے تعلیم کی تفصیلات میں اضافہ هوتا رہا ۔ لیکن دین کی جو بنیادی تعلیم روز اول تھی وہ ہر زمانے میں ایک ہی رہی هے ۔ اس اعتبار سے اللہ نے جتنی کتابیں اتاریں ان سب کو آپ ایک کتاب کہہ سکتے ہیں ۔ اس اعتبار سے کہ ان کا مصنف ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، کہ لوگ اچھے انسان بن جائیں، آخرت میں ان کو فلاح حاصل هو اور وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل هو جائیں ۔ یہی مقصد وحید تھا ان سب کتابوں کے اتارے جانے کا ۔ ان میں سے ہر کتاب کا سبق یہ تھا کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑے، ایمان اختیار کرے، تقویٰ کا رویہ اپنائے، اور اعمال صالحہ پر کاربند هو۔ اس اعتبار سے ان سب کتابوں کو ” ایک کتاب“ کہا جا سکتا هے ۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک مصنف آج اردو میں ایک کتاب لکھتا هے جس میں وہ یہ بتاتا هے کہ پاکستان کے باشندے اچھے انسان کس طرح بنیں، اچھا اخلاق ان میں کیسے آجائے، کردار کی تعمیر کیسے هو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں دلائل دیئے جاتے ہیں، مثالیں دی جاتی ہیں اور تعمیر کردار کا پیغام دیا جاتا هے ۔ فرض کیجئے وہ کتاب بہت مقبول هوتی هے ۔ یہاں تک کہ بیرون ملک مثلاً بنگلہ دیش کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کے لئے بھی تیار کر دیا جائے ۔ اب یہ مصنف جو اتفاق سے بنگالی زبان بھی جانتا هے اس کتاب کے مضامین کو بنگالی زبان میں بھی شائع کراتا هے ۔ لیکن بنگالی ایڈیشن میں وہ مصنف ان مقامی حوالوں اور مثالوں کو بدل دیتا هے جن کا تعلق صرف پاکستانی معاشرہ سے تھا، اور پاکستانی لوگ ہی ان مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں مثلاً پاکستانی ایڈیشن میں کسی سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کا ذکر هو سکتا هے، لیکن بنگالی ایڈیشن میں اس سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کے بجائے فرخاڈیم کا حوالہ لکھا جاتا هے، جس سے وہ لوگ نسبتاً زیادہ مانوس ہیں ۔ یہاں بلوچستان کے حوالے سے اگر اونٹوں کا ذکر هے تو بنگالی ایڈیشن میں کشتیوں کی مثال دی جائے گی۔ اسی طرح یہاں کی مشهور شخصیتوں کے حوالوں کی جگہ بنگلہ دیش کی شخصیتوں کا حوالہ دیا جائے گا جسے وہ لوگ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔
اسی طرح اب یہ کتاب ترکی کے لوگوں کے علم میں آئی اور انهوں نے مطالبہ کیا کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کیلئے بھی شائع کر دیا جائے، اب اس مصنف نے ترکی کے حوالے، شخصیتیں اور مقامات کا ذکر کرکے وہ کتاب ترکی کے لئے تیار کر دی۔ اب دیکھاجائے تو کتاب کا بنیادی پیغام کہ انسانوں کو کس طرح بہتر انسان بنایا جائے وہ تو ایک ہی هے، خواہ وہ پاکستانی هوں، بنگالی هوں، یا ترکی هوں ۔ بنیادی اخلاقی تعلیمات سب کے لئے ایک ہی ہیں ۔ صرف مثالیں، حوالے وغیرہ مختلف ہیں ۔ اب چونکہ مصنف بھی ایک ہی هے، کتاب بھی ایک ہی هے، پیغام بھی ایک هے، اس لئے کہا جاسکتا هے کہ اس مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا هے کہ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں اس لئے کہ وہ تین مختلف علاقوں اور تین مختلف زبانوں میں لکھی گئیں۔
قریب قریب یہی معاملہ بلا تشبیہ کتب سماویہ کا بھی سمجھنا چاہیے ۔ اس اعتبار سے قرآن مجید نے ان ساری کتابوں کو کتابیں بھی قرار دیا، اور ایک الکتاب بھی قرار دیا هے ۔ الکتاب وہ سب اس اعتبار سے ہیں کہ ان کا بھیجنے والا ایک، ان کا پہنچانے والا ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، اور ان سے بالآخر جو نتیجہ نکلنے والا هے وہ ایک، اسی طرح ان کو الگ الگ کتابیں بھی قرار دیا گیا، اس اعتبار سے کہ وہ مختلف انبیاء پر اتاری گئیں، مختلف زبانوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف علاقوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف اوقات میں ان کو اتارا گیا، ان اسباب کی بنیاد پر ان کو جداگانہ کتابیں بھی کہا جا سکتا هے۔