- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/26
- 0 رائ
مؤلف: محمد باقرمقدسی
٢۔ اصطلاحی معنی:
کلام الہی کے و ہ حصّے جس کے آغاز اور انجام معین ہونے کے علاوہ ہر آیت اپنی مخصوص جگہ میںگامزن ہے، اس کو اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے، اور آیۃ اور جملے کے مابین عام و خاص من وجہ کا فرق قابل تصور ہے یعنی کبھی جملہ ہے آیت نہیں ہے کبھی آیت ہے جملہ نہیں ہے ، کبھی جملہ او رآیت دونوں ہیں یعنی قرآن کریم میں مفردات، جملات او رکلمات ہوا کرتے ہیں جس کے ایک خاص مجموعہ کو آیت کہا جاتا ہے جو ہر حوالے سے فصاحت و بلاغت کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ ہونے کے علاوہ مکمل ایک معقول مطلب کو اداکریں نیزتمام آیات کی حد بندی ،جگہ کا تعین بھی پیغمبر اکرم (ص) نے ہی کیا ہے، لہذا آیات او رسورے کی حد بندی، جگہ کا تعین توقیفی ہے، جسمیں عقل اور اجتہاد و قیاس وغیرہ کرنے کی گنجایش نہیں ہے یعنی جس جملہ اور ترکیب کو آیت کہا گیاہے یا جس سورہ کی جگہ معین ہے ، اس میں اجتہاد اورنظر دینے اور قیاس کرنے کا حق نہیں ہے ، جس پر تمام مسلمین کا اتفاق ہے ۔
لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے المص کو ایک آیت قرار دیاہے،جبکہ المرا کو ایک آیت شمار نہیں کیا ہے، یا سین کو ایک آیت قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے ہموزن طس کو ایک آیت نہیں کہا گیا ، اسطرح حمعس کو دو آیات قرار دیتے ہیں،لیکن کہٰیعٰس کو حروف کے حوالے سے زیادہ ہونے کے باوجود ایک آیت قرار دیتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کا تعین امر توقیفی ہے جس میں اجتہاد اور قیاس یا دیگر راہوںکو بروی کار لانے کی گنجایش نہیں ہے اگرچہ علوم قرآن اور تفاسیر کی کچھ کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ کبھی کبھار کلمہ آیہ ایک حصہ اور بعض آیۃ پراستعمال کیاگیا ہے چنانچہ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ کلمہ ارجی ایک آیت یا سورہ زلزال کے آخری دو جملوں کو ابن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ دو آیات ہیں، لیکن ایسے موارد میں کلمہ آیت کا استعمال کرنا بظاہر مجازی ہے، کیونکہ اس کے معنی اصطلاحی اور لغوی کے موضوع لہ سے ایسے موارد یقینا خارج ہیں۔
نیز قرآن کی آیات کی تعداد اور گنتی میں بھی تھوڑا بہت علوم قرآن کے ماہرین کے درمیان اختلاف ہے،لیکن ایسا اختلاف آیات قرآنی کی حد بندی، اور جگہ کا تعیّن توقیفی ہونے کے ساتھ کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں ہے،کیونکہ ایسے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) اصحاب او رکاتبین کی خدمت میں نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے تھے تو جس سے اصحاب خیال کرتے تھے کہ جہان پیغمبر اکرم (ص) وقف اوررک جا تے تھے وہاں تک ایک آیت ہے لیکن کچھ دوسرے اصحاب اور کاتبین ان کے خلاف خیال کرتے تھے، کہ مزید وضاحت کیلئے علوم قرآن کی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کی ضرورت ہے لہذا آیات کی تعداد کے بارے میں مختلف نظریے موجود ہیں ۔
١۔ بصریین کے عقیدے کی بنا پر کلام پاک کی آیات کی تعداد ٦٢٠٤ یا بعض بصریین کے نزدیک ٦٢٠٥ یا دیگر کچھ بصریین کی نظر میں ٦٢١٩ ہے ۔
٢۔ مدنیین کے عقیدے کی بنا پر آیات کی تعداد ٦٢١٤ یا دیگر کچھ مدنیین کی نظر میں ٦٢١٧ ہے ۔
٣۔ مکیوّن کی نظر میں کلام مجید میں ٦٢٢٠ ہے ۔
٤۔ شامیوں کے نزدیک قرآن مجید میں ٦٢٢٦آیات ہیں۔
٥۔ کوفیوں کی نظر میں ایات قرآنی کی تعداد ٦٢٣٦ ہے ۔
٦۔ لیکن جب ہم اپنے شفیق استاد محترم رجبی صاحب کے لیکچر سن رہے تھے اور ان کے اسی موضوع پر دیے ہوئے لیکچر کو کتابچہ کی شکل میں طلاب کو عطا بھی کئے تھے اس میں آیات کی تعداد کو ٦٦٦٦ بتائی ہے اور ہم نے علوم قرآن کے اصول و ضوابط کے مطابق کئی دفعہ قرآن کے آغاز سے آخر تک آیات کو گنا تھا لیکن ٦٦٦٦ آیات کی تعداد بہت بعید نظر آتی ہے ۔
آیات کی ترتیب اور نظم و ضبط :
آیات کی موجودہ ترتیب اور نظم و ضبط تمام امت مسلمہ کے نزدیگ اجماعی اور اتفاقی ہے . یعنی جسمیں کوئی تبدیلی اور جابجائی یا قیاس و اجتہاد کرنے اور نظر دینے کی گنجایش نہیں ہے کیونکہ جب حضرت جبرئیل آیات لیکر حضرت پیغمبر (ص) کی خدمت میں تشریف لائے تھے تو جبرئیل ان
آیات کی جگہ او رترتیب بھی معین کرتے تھے اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہو بہو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ اصحاب اور کاتبین وحی کی خدمت میں پیش کرتے تھے. اور ہر ایک آیت کی جگہ بھی معین کرتے تھے، اور عین اسی ترتیب اورنظم و ضبط کے ساتھ نماز اور خطبوں اور موعظوں کے اوقات تلاوت فرماتے تھے ، حتی علو م قرآن کے ماہرین اور محققین اپنی گرانبہا کتابوں میں تحریر کر چکے ہیںکہ حضرت جبرئیل ہرسال ایک دفعہ پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میںتشریف لاتے تھے او رعین اسی نظم و ضبط کے ساتھ آیات کو تکرار کرتے تھے او رپیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے سال میں جبرئیل دو دفعہ ائے اور پوری آیات کو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ تکرار کیا تھا جسکو علوم قرآن کی اصطلاح میں عرضہ اخیر کہا جاتا ہے، اور اصحاب و کاتبین وحی اور حافظین قرآن بھی اسی ترتیب اور نظم و ضبط کی ہمیشہ رعایت کرتے تھے،لہذا کہا جا سکتاہے کہ آیات کی ترتیب اور نظم نسق اور آیات کی جگہ جس طرح موجود ہیں اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے رکھی گئی ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کی گنجایش نہیں ہے ، جس کی تائید احادیث بھی کرتی ہیں، چنانچہ ابی العاص نے کہا کہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں آنحضرت(ص) نے آسمان اور زمین کی طرف نظر کی اور فرمایا ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے تھے اور مجھ سے کہا اس آیت کو اپنے سورہ کے مخصوص معین جگہ رکھیے ۔”ان اللہ یامر بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی ”
نیز بخاری نے زبیر سے روایت کی ہے کہ زبیر نے کہا کہ میں نے عثمان سے پوچھا اللہ کا یہ قول کہ والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا
نسخ شدہ آیہ تھی. کیوں لکھی گئی ہے؟ تو عثمان نے کہا میرے بھائی میں کسی آیہ کو اس کی معین جگہ سے تبدیل یا اس کو حذف نہیں کر سکتا
ان روایتوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ نسخ شدہ آیہ کی جگہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے جس میں کسی قسم کی تبدیل اور جابجائی کی گنجایش نہیں ہے ۔
نیز جناب سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب میں فرمایا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کئی سورتوں کو نماز جمعہ کے خطبے اور اصحاب کے حضور میں آیات کی موجودہ ترتیب او رنظم و نسق کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے یہ چیزیں آیات قرآن کی ترتیب اورنظم وضبط توقیفی ہونے کی بہترین دلیل ہیں او راصحاب بھی اسی ترتیب کے پایبندرہتے تھے کبھی کسی کو اس ترتیب کے خلاف تلاوت کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ،یہ بات تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے۔
اسی طرح جناب زرکشی نے کتاب برہان میں جعفر بن زبیر اور دیگر کچھ محققین آیات قرآن کی ترتیب جو اس وقت بین الدفتین موجود ہے توقیفی ہونے پر اجماع کے دعویدار ہوئے ہیں۔